کہیں آپ اس لعنت کے مستحق تو نہیں

کہیں آپ اس لعنت کے مستحق تو نہیں

پیشکش: صدائے قلب

مُنو کی بیوی میں ہر عیب تھا بس ایک خوبی تھی کہ وہ بریانی اچھا بناتی تھی۔سسرال والے اس عورت کی گھر گرستی صحیح نہ ہونے پر اس پر سخت نالاں تھے کہ نہ سلائی کڑہائی کا سلیقہ،نہ بچوں کی صحیح پرورش،نہ ان کو کھانا دینا، نہ کوئی اور سکون،سسرال کے نام پر لوگوں سے قرض لے کر پورے سسرال کو مقروض سے مقروض تر کردیا تھا اور ان قرض کے پیسوں کو بھی وہ اپنے سسرال پر خرچ نہیں بلکہ خفیہ جمع کرتی رہی،محلے کا مولوی بھی اس کی زبان درازی اور دینی معاملات میں طعن و تشنیع سے تنگ تھا،جن لوگوں کی مُنو سے دشمنی تھی اس کی بیوی کے ان لوگوں کے ساتھ اچھے مراسم تھے۔ہر کوئی منو کو اس کی بیوی کی کرتوتیں سناتا تھا ،پر منو کے کان پر جوں نہیں رینگتی تھی، وہ ساری باتیں سننے کے بعد آخر میں یہی کہتا تھا کہ جو تم کہہ رہےوہ سب ٹھیک ہے پر جو بھی ہے ”بریانی اچھابناتی ہے“ کیونکہ منو کے دماغ میں یہ بات گھس چکی تھی کہ گھر گرستی کا سارا دارومدار اچھی بریانی بنانے پر ہے۔

ایک دن منو کی بیوی بے وفائی کا عملی مظاہرہ کرتے ہوئے سب سسرال والوں کو سخت مقروض کرکے ،بچوں کا مستقبل تباہ کرکے اور سارا گھر برباد کرکے گھر سے بھاگ گئی اور جو دولت اس نے لوگوں سے سسرال کے نام پر قرض لے کر اکٹھی کی تھی اس دولت پر عیش کرنے لگ گئی۔

اس سب کے باوجود جب منو کے سامنے کی اس کی بیوی کے عیب بیان ہوتے اور ہرکوئی اس کے ہاتھوں روتا تو منو کا یہی قو ل ہوتا کہ موجودہ عورتوں میں سے میری بیوی بریانی اچھا بناتی تھی۔لوگ منو کو طعن کرتے اور اس کی عقل پر حیران ہوتے کہ کیا ایک عورت کے اچھے ہونے کا دارومدار فقط اچھی بریانی بنانے پر ہے۔منو جاہل نہ تھا، ایک پڑھا لکھا ذی شعور انسان تھا، پر اس مسئلہ میں نکما ثابت ہوا۔

قارئین محترم !یہ منو اور ا سکی بیوی والا حال ہمارے ملکِ پاکستان کے سیاسی لیڈراور ان کے ووٹروں کا ہے۔ یہ نالائق لیڈر،بے دین، غدار،عیاش، کفار نواز،ملک کو لوٹ کر کفار سے قرض لے کر اپنے غیر ملکی بینک اکاؤنٹوں میں رکھ کرعوام کا کونڈا کرکے آرام سے باہر کے ملک بھاگ کر لوٹی دولت پر عیاشی کرتے ہیں اور ہماری بھولی عوام سب کچھ ثابت ہونے کےباوجود منو کی طرح یہ کہہ رہی ہوتی ہے ”جیسا بھی تھا سڑکیں اور پل بناتاتھا“کوئی کہتا ہے”یار کھاتا تھا تو کچھ ملک پر لگاتا بھی توتھا۔“ان لیڈروں کےاکاونٹ میں اربوں روپے ملنا ثابت ہونا،ملک سے غداری کرنا،ناموس رسالت اور ختم نبوت پر ڈاکہ ڈالنا، سب کے سامنے عیاں ہوتا ہے لیکن ہماری عوام پھر بھی اس کے کالے کرتوتوں پر فضول تاویلات کررہی ہوتی ہےاور ان کی اندھی محبت اُسی طرح ان غدار لیڈروں کے ساتھ وابستہ ہوتی ہے۔یہی وجہ ہے کہ یہ لیڈر بارباربرسراقتدار آکر عوام کا مزید استیصال کرتے ہیں ، ملک میں بے حیائی و بے دینی کو فروغ دیتے ہیں اور چند دین فروش اینکروں کو خرید کر اپنے حق اور دوسرے کے خلاف پروپیگنڈہ کرنے پر لگا دیتے ہیں۔پھر ان لیڈروں کو سپورٹ کرنے والے سارے جاہل نہیں بلکہ وہ پڑھے لکھے اور خود کو بہت سمجھدار سمجھنے والےہیں ،جو دینی معاملات میں ائمہ کرام کی تقلید،طریقت سے وابستگی اور حق جماعت اہل سنت کے ساتھ وابستگی کو جہالت و تنگ نظری سمجھتے ہیں اور خود اپنا حال یہ ہے کہ اپنے لیڈ ر کے متعلق ساری کرپشن ثابت ہونے کے باوجود تجاہل عارفانہ کا ارتکاب کرتے ہوئے اور اس کو کامل مرشد کی طرح اپنا راہنما سمجھتے ہیں۔

ان اندھے جیالوں کی اپنےلیڈروں سے اندھی وابستگی کا اندازہ اس سے لگائیں کہ پچھلے دور کے حکمران نواز شریف نے قادیانیوں کو بھائی کہا،ہندؤں کے پاس جاکر ا ن کے مذہبی تہوار میں شرکت کی اور ہندؤں کا جنت میں جانا بھی جائز کہہ دیا،غازی ملک ممتاز قادری کو پھانسی دی اس کے علاوہ اربوں روپے ہڑپ کرکے ، ملک کے ساتھ غداری کی لیکن آج بھی ان کے جیالے اس حقیقت سے نظریں چراتے ہیں ۔ملک ممتاز قادری کو جب نواز شریف نے صدرممنون حسین پر زور دے کر ممتاز قادری کا کیس اوپن کروا کر اسے پھانسی دلوائی تو ان کے سپورٹروں کا کہنا تھا کہ اس میں نواز شریف کا کیا قصور یہ تو کورٹ نے کیا ہے۔اب جب عمران خان کی حکومت میں کورٹ نواز شریف کو جیل میں ڈالا تو کبھی چیف جسٹس کو بُرابھلا کہا تو کبھی اب عمران خان کو گالیاں دیتے ہیں ،اب یہ نہیں کہتے کہ عمران خان کا کیا قصور یہ تو کورٹ کا فیصلہ تھا۔

یہی حال عمران خان کا ہے کہ آسیہ کو رہا کرواکر باہر کے ملک فرار کروادیا اور خود بھولا بن کرکہتا ہے کہ اس میں حکومت کا کوئی ہاتھ نہیں اس کو رہا تو کورٹ نے کیا ہے، لیکن جب نیب نے مسلم لیگ کے لیڈروں کو پکڑا تو فورا میڈیا پر آکر اپنے نمبر بنانا شروع ہوگیا کہ یہ میرا کمال ہے۔اب ان سے کوئی پوچھے کہ یہ سب تو نیب نے کیا ہے عمران خان کا اس میں کیا ہاتھ ہے؟

آج عمران خان کی حکومت نیب کے ہر فیصلے کو درست مان رہی ہے جیسے نواز شریف اور اس کے سپورٹر اپنے دور میں کورٹ کے فیصلوں کو درست مانتے تھے۔عمران خان کی حکومت کے بعد جب اسی نیب نے تحریک انصاف کی کرپشن پر گرفت کرنی ہے تو انہوں ہی نے نیب کی مذمت کرنا ہے ۔کیونکہ عمران کے ساتھ جو لیڈر وابستہ ہیں وہ کونسے ایماندار حاجی نمازی ہیں،ایک بڑی تعداد وہی وزراء بنی ہوئی ہے جس نے پچھلی حکومتوں میں برسراقتدار آکر ملک کا ستیاناس کیا تھا۔فواد چوہدی جو پرویز مشرف اور آصف زرداری کا حمایتی رہا ہے اور تاریخ کا بڑا لوٹا ہے،آج تحریک انصاف میں شامل ہو کر آئے دن بکواسات کرکے ذلیل وخوار ہوتا ہے، کل اس نے کسی اور تحریک کے ساتھ مل کر عمران خان کی مذمت کرنی ہے۔

اس مضمون کو لکھنے کا مقصدیہ ہے کہ جب تک ہماری عوام اپنے ووٹ کا صحیح استعمال نہ جانے گی اور حق و باطل ،دین و بے دینی،وفاو وغداری میں فرق نہیں کرے گی ،منو کی طرح اپنے لیڈروں کی ایک آدھ اچھی بات کو ہی دلیل بنا کر ان کو ووٹ دیتی رہے گی، یہ ملک اسی طرح برباد ہوتارہے گا اور بے دین و غدار بھولی عوام کی اندھی تقلید سے فائدہ اٹھاتے رہیں گے۔ ہمیں یہ سوچنا ہوگا کہ کونسا لیڈر دین دار ہے،قرآن وحدیث پر عمل پیرا ہونے والا،ناموس رسالت کامحافظ اور ختم نبوت کا پاسبان ہے،ایماندار،محب وطن کون ہے اور بے دین سیکولرلبرل ذہن رکھنے والا،قادیانی نواز،انگریزوں کا غلام کون ہے۔جب تک ہم یہ معیار نہیں بنائیں گے زرداری،نواز شریف اور عمران خان جیسے لوگ اسی طرح برسراقتدار آکر لوٹ ماراور دین فروشی کرتے رہیں گے اور فواد چوہدری جیسے بے دین،لوٹے لوگ دین و علماء کے خلاف زہر اگلتے رہیں گے اور قادیانی،سیکولر و لبرل لوگ ان لیڈروں اور حرام خور اینکروں کے ذریعے ہماری اور ہماری آنے والی نسلوں کا دین و ایمان خراب کرتے رہیں گے۔

ملک کی ترقی کنٹینروں میں تقریریں کرنے اور عوام کو تبدیلی کا سبز باغ دکھا کر ،برسراقتدار آتے ہی گستاخ رسول آسیہ کی پشت پناہی کرکے،قادینوں کی سپورٹ کرکے کبھی نہیں آنی بلکہ اللہ عزوجل کا عذاب ہی آنا ہے۔

ترقی تب ہی آئے گی جب دین دار،قرآن وسنت کے پابند سیاسی لیڈر،ایماندار افسران ،محب وطن لوگ کرسیوں پر بیٹھ کر اپنی خدمات سرانجام دیں گے اور یہ سب اسی وقت ممکن ہے جب ہم لوگ ووٹ ڈالتے وقت لیڈروں کے دین اور ان کی وطن سے وفا کر مدنظر رکھیں ۔ہماری اولین ترجیح دین ہونی چاہیے اور سیاسی لیڈروں میں دینداری دیکھنا چاہیے کہ جو اللہ عزوجل اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا نہ ہوا وہ کبھی بھی ملک و عوام کا وفادار نہیں ہوسکتا۔ہمیں ان لیڈروں کی ایک آدھ اچھی بات کو چھوڑ کر ان کے مکمل کردار کو دیکھنا چاہیے ۔اندھی محبت و عقیدت میں ان کے ناجائز و حرام افعال کی تاویلات کرکے خود گناہ گار نہیں ہوناچاہیے۔رسول اللہ صلی اﷲتعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کافرمان ہے”حبک الشیئ یعمی ویصم “ ترجمہ:شے کی محبت تجھے اندھااور بہرا کر دے گی۔

( مسند احمد ، باقی حدیث ابی الدرداء رضی اﷲ تعالیٰ عنہ ،جلد45،صفحہ533،حدیث27548، مؤسسة الرسالة،بیروت)

سیاسی لیڈروں سے اندھی محبت کی ایک نحوست یہ دیکھی گئی ہے کہ ان کی پارٹی کے ممبران جو مرضی گستاخی کریں ،کفر بکیں،گستاخوں کو سپورٹ کریں،بے حیائی ،سیکولرازم کو فروغ دیں یہ لوگ حضور علیہ السلام کی محبت میں اپنی پارٹی کے ممبران کی مخالفت نہیں کریں گے،ان کی عقیدت اپنے لیڈروں سے اس طرح برقرار رہتی ہے ، لیکن جب ان لیڈروں کی کرپشن ثابت ہونے پر ان کو سزا ملے تو یہ سراپا احتجاج بنتے ہوئے روڈوں پر نکل آتے ہیں۔آپ غور فرمالیں کہ فواد چوہدری جیسے بے باک شخص نے کئی مرتبہ علماء کرام کے خلاف بکواس کی،عمران خان نے صحابہ کرام کے متعلق نازیبا الفاظ کہے،عامر لیاقت نے اپنی پارٹی کے خلاف بولنے پر بلاول بھٹو کے متعلق کفریہ جملہ بولا ،لیکن مجال ہے کہ کسی تحریک انصاف کے ممبریا سپورٹر نے اپنے ان لوگوں کی مذمت کی ہو ۔ایسے لوگوں کو غور کرنا چاہیے کہ بے دینوں اور غدار لیڈروں سے محبت کا کہیں یہ انجام نہ ہوکہ ملک بھی برباد ہو،دنیا بھی نہ سنورے اور آخرت میں ان لیڈروں کے ساتھ حشر ہو ۔رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم فرماتے ہیں”المرء مع من احب“ترجمہ:آدمی کا حشراس کے ساتھ ہوگا جس سے محبت رکھتاہے۔

(صحیح مسلم، كتاب البر والصلة والآداب،باب المرء مع من احب،جلد4،صفحہ2032،حدیث2640، دار إحياء التراث العربي ، بيروت)

اپنا تبصرہ بھیجیں