تعویذ پہننا کیا بے فائدہ ہے

تعویذ پہننا کیا بے فائدہ ہے

پیشکش: صدائے قلب

مسجد نبوی میں ایک کرائے کے نجدی وہابی مولوی کا کلپ سوشل میڈیا پر عام ہوا جس میں وہ ایک عام سے مسلمان کو پکڑ کر اس کے پہنے ہوئے تعویذ پر کلام کرتے ہوئے کہہ رہا تھا کہ تعویذ پہننا جائز نہیں ہے اگرچہ اس تعویذ میں قرآن ہی کیوں نہ لکھا ہو۔کیونکہ لٹکانے کا کوئی فائدہ نہیں ہے۔ قرآن میں شفا پڑھنے کے ساتھ ہے نہ کے لٹکانے کے ساتھ۔ دیکھیں شہد کو شفا کہا گیا اب شہد کو لٹکانے کا فائد ہ نہیں بلکہ شہد کو پینے کا فائدہ ہے۔

یہ نجدی مولوی دعوی تو قرآن وحدیث پر عمل پیرا ہونے کا کرتے ہیں لیکن جب اپنے باطل عقیدہ کی بات آجائے تو قرآن وحدیث کو بھی نہیں مانتے۔ شرعاحصولِ برکت اور شفاکے لیے تعویذ پہننابالکل جائز ہے۔ اس کا جائز ہونا عقلا ًو نقلاًثابت ہے۔سب سے پہلے اس پر نقلی ثبوت دیئے جائیں گے اور ثابت کیا جائے گا کہ احادیث میں اورصحابہ کرام علیہم الرضوان اورائمہ کرام نے واضح طور پر تعویذات کی اجازت دی ہے ہاں فقہائے کرام نے یہ ضرور فرمایا کہ تعویذ میں کوئی شرکیہ کلمات نہ ہوں ،یونہی جس کا معنی معلوم نہ ہو وہ تعویذ نہ پہنا جائےکیونکہ ہوسکتا ہے اس میں کوئی کفریہ یا غلط بات ہو۔

تعویذپہننے کے ثبوت پر نقلی دلائل

معرفۃ الصحابۃ لأبی نعیم الاصفہانی میں ابو نعیم احمد بن عبد اللہ الأصبہانی (المتوفی430ھ)بسند صحیح حدیث پاک روایت کرتے ہیں”أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ یَعْقُوبَ الْحَجَّاجِیُّ الْحَافِظُ، فِی کِتَابِہِ، ثنا عَبْدُ اللہِ بْنُ أَبِی دَاوُدَ، ثنا عَمْرُو بْنُ عُثْمَانَ، ثنا بَقِیَّۃُ بْنُ الْوَلِیدِ، عَنْ سُلَیْمَانَ بْنِ سُلَیْمٍ أَبُو سَلَمَۃَ، عَنْ یَحْیَی بْنِ جَابِرٍ، عَنِ ابْنِ ثَعْلَبَۃَ، أَنَّہُ أَتَی النَّبِیَّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ:یَا رَسُولَ اللہِ، ادْعُ اللہَ لِی بِالشَّہَادَۃِ، فَقَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ:ائْتِنِی بِشَعَرَاتٍ قَالَ: فَأَتَاہُ، فَقَالَ النَّبِیُّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ:اکْشِفْ عَنْ عَضُدِکَ قَالَ:فَرَبَطَہُ فِی عَضُدِہِ، ثُمَّ نَفَثَ فِیہِ، فَقَالَ:اَللہُمَّ حَرِّمْ دَمَ ابْنِ ثَعْلَبَۃَ عَلَی الْمُشْرِکِینَ الْمُنَافِقِینَ“ترجمہ:حضرت ابن ثعلبہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ان کے پاس تشریف لائے تو انہوں نے عرض کی یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم !اللہ عزوجل سے میرے لئے شہادت کی دعا کیجئے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :میرے پاس چند بال لاؤ ۔ بال لائے گئے تو نبی کریم صلی اللہ علےہ وآلہ وسلم نے حضرت ابن ثعلبہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو فرمایا اپنی کلائی کھولو۔ آپ نے ان کی کلائی پر یہ بال باندھ دیئے۔پھر اس میں پھونک ماری،پھرفرمایا اے اللہ عزوجل! ابن ثعلبہ کا خون مشرکین ،منافقین پر حرام فرمادے۔

(معرفۃ الصحابۃ لأبی نعیم الاصفہانی،ذکر من عرف بالآباء دون أسمائہم، وذکر لہم صحبۃ،جلد6،صفحہ3056،دار الوطن للنشر، الریاض)

ابو داؤد،مشکوٰۃ اورترمذی شریف میں ہے”حَدَّثَنَا عَلِیُّ بْنُ حُجْرٍ قَالَ:حَدَّثَنَا إِسْمَاعِیلُ بْنُ عَیَّاشٍ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إِسْحَاقَ، عَنْ عَمْرِو بْنِ شُعَیْبٍ، عَنْ أَبِیہِ، عَنْ جَدِّہِ، أَنَّ رَسُولَ اللَّہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، قَالَ:إِذَا فَزِعَ أَحَدُکُمْ فِی النَّوْمِ فَلْیَقُلْ:أَعُوذُ بِکَلِمَاتِ اللَّہِ التَّامَّاتِ مِنْ غَضَبِہِ وَعِقَابِہِ وَشَرِّ عِبَادِہِ، وَمِنْ ہَمَزَاتِ الشَّیَاطِینِ وَأَنْ یَحْضُرُونِ فَإِنَّہَا لَنْ تَضُرَّہُ .فَکَانَ عَبْدُ اللَّہِ بْنُ عَمْرٍو، یُلَقِّنُہَا مَنْ بَلَغَ مِنْ وَلَدِہِ، وَمَنْ لَمْ یَبْلُغْ مِنْہُمْ کَتَبَہَا فِی صَکٍّ ثُمَّ عَلَّقَہَا فِی عُنُقِہِ.ہَذَا حَدِیثٌ حَسَنٌ غَرِیبٌ“ترجمہ: روایت ہے حضرت عمرو ابن شعیب سے وہ اپنے والد سے وہ اپنے دادا سے راوی کہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ جب تم میں سے کوئی اپنی خواب سے گھبرا جائے تو کہہ لے میں اﷲکے پورے کلمات کی پناہ لیتا ہوں اس کی ناراضی اس کے عذاب سے اور اس کے بندوں کی شر اور شیطانوں کے وسوسوں سے اور ان کی حاضری سے، تو تمہیں کچھ نقصان نہ پہنچے گا۔حضرت عبداﷲ ابن عمرورضی اللہ تعالیٰ عنہ اپنی بالغ اولاد کو یہ سکھادیتے تھے اور ان میں سے نابالغوں کے گلے میں کسی کا غذ پر لکھ کر ڈال دیتے تھے۔یہ حدیث حسن غریب ہے۔               

(جامع ترمذی،کتاب الدعوات،باب القول عند الفزع من النوم، جلد5،صفحہ429،دار الغرب الإسلامی ،بیروت)

امام شافعی،امام احمد بن حنبل ،امام سفیان ثوری اور دیگر جید محدثین و فقہائے کرام سے تعویذ کے جائز ہونے کا ثبوت ملتا ہے۔ممانعت اس دم اور تعویذ کی ہے جس میں شرکیہ کلمات ہوں جیسا کہ مسلم شریف کی حدیث پاک ہے”عن عوف بن مالک الأشجعی قال کُنَّا نَرْقِی فِی الْجَاہِلِیَّۃِ فَقُلْنَا:یَا رَسُولَ اللَّہِ کَیْفَ تَرَی فِی ذَلِکَ؟ فَقَالَ:اعْرِضُوا عَلَیَّ رُقَاکُمْ لَا بَأْسَ بِالرُّقَی مَا لم یکن فِیہِ شرکٌ“ترجمہ:حضرت عوف ابن مالک اشجعی سے روایت ہے فرماتے ہیں کہ ہم دور جاہلیت میں دم کرتے تھے تو ہم نے عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم! اس بارے میں آپ کی کیا رائے عالی ہے؟ تو آپ نےفرمایا اپنے دم کے کلمات ہم پر پیش کرو ،جھاڑ پھونک(دم) میں کوئی حرج نہیں جب تک کہ اس میں شرک نہ ہو۔

(صحیح مسلم، باب لابأس بالرقی مالم یکن فیہ شرک،جلد7،صفحہ19،دار الجیل ،بیروت)

السنن الکبری میں امام بیہقی روایت کرتے ہیں”وَأَخْبَرَنَا أَبُو زَکَرِیَّا بْنُ أَبِی إِسْحَاقَ، وَأَبُو بَکْرٍ أَحْمَدُ بْنُ الْحَسَنِ قَالَا: ثنا أَبُو الْعَبَّاسِ مُحَمَّدُ بْنُ یَعْقُوبَ ،ثنا بَحْرُ بْنُ نَصْرٍ، ثنا ابْنُ وَہْبٍ، أَخْبَرَنِی حَیْوَۃُ بْنُ شُرَیْحٍ أَنَّ خَالِدَ بْنَ عُبَیْدٍ الْمَعَافِرِیَّ حَدَّثَہُ، عَنْ أَبِی الْمُصْعَبِ مِشْرَحِ بْنِ ہَاعَانَ أَنَّہُ سَمِعَہُ یَقُولُ:سَمِعْتُ عُقْبَۃَ بْنَ عَامِرٍ الْجُہَنِیَّ رَضِیَ اللہُ عَنْہُ یَقُولُ:سَمِعْتُ رَسُولَ اللہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَقُولُ:مَنْ عَلَّقَ تَمِیمَۃً فَلَا أَتَمَّ اللہُ لَہُ ،وَمَنْ عَلَّقَ وَدَعَۃً فَلَا وَدَعَ اللہُ لَہُ .قَالَ الشَّیْخُ:وَہَذَا أَیْضًا یَرْجِعُ مَعْنَاہُ إِلَی مَا قَالَ أَبُو عُبَیْدٍ،وَقَدْ یُحْتَمَلُ أَنْ یَکُونَ ذَلِکَ وَمَا أَشْبَہَہُ مِنَ النَّہْیِ وَالْکَرَاہِیَۃِ فِیمَنْ تَعَلَّقَہَا وَہُوَ یَرَی تَمَامَ الْعَافِیَۃِ وَزَوَالَ الْعِلَّۃِ مِنْہَا عَلَی مَا کَانَ أَہْلُ الْجَاہِلِیَّۃِ یَصْنَعُونَ،فَأَمَّا مَنْ تَعَلَّقَہَا مُتَبَرِّکًا بِذِکْرِ اللہِ تَعَالَی فِیہَا وَہُوَ یَعْلَمُ أَنْ لَا کَاشِفَ إِلَّا اللہُ وَلَا دَافِعَ عَنْہُ سِوَاہُ فَلَا بَأْسَ بِہَا إِنْ شَاء َ اللہُ“’ترجمہ:عقبہ بن عامر جہنی سے مروی ہے میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے سنا : جس نے تعویذ پہننااللہ عزوجل اس کی خواہش پوری نہ کرے گا۔ جس نے تعویذ (مسائل سے چھٹکارے ) کے لئے پہنا اللہ عزوجل اسے چھٹکار ا نہ دے گا۔ شیخ نے فرمایا یہ وہی معنیٰ کی طرف لوٹتا ہے جو ابو عبید نے فرمایا اور یہ اس کا احتمال رکھتا ہے کہ یہ اس صورت کے مشابہ ہے جس میں ممانعت و کراہیت ہے کہ اس لئے تعویذ پہنا جائے کہ پہننے والا گمان کرے کہ اس تعویذ کی وجہ سے مجھے عافیت ملی جیسا کہ اہل جاہلیت کرتے تھے ۔اگر اس نے اللہ عزوجل کے ذکر سے برکت لینے کے لئے تعویذپہنا اور وہ جانتا ہے کہ سوائے اللہ عزوجل کے کوئی شفادینے والا نہیں تو تعویذ پہننے میں ان شاء اللہ عزوجل کوئی حرج نہیں۔    

(السنن الکبری،ابواب کسب الحجام،باب التمائم جلد9،صفحہ 588، دار الکتب العلمیۃ، بیروت)

السنن الکبریٰ میں ہے”أَخْبَرَنَا أَبُو زَکَرِیَّا بْنُ أَبِی إِسْحَاقَ، وَأَبُو بَکْرِ بْنُ الْحَسَنِ قَالَا:ثنا أَبُو الْعَبَّاسِ الْأَصَمُّ، ثنا بَحْرُ بْنُ نَصْرٍ، ثنا ابْنُ وَہْبٍ، أَخْبَرَنِی نَافِعُ بْنُ یَزِیدَ، أَنَّہُ سَأَلَ یَحْیَی بْنَ سَعِیدٍ عَنِ الرُّقَی وَتَعْلِیقِ الْکُتُبِ، فَقَالَ: کَانَ سَعِیدُ بْنُ الْمُسَیِّبِ یَأْمُرُ بِتَعْلِیقِ الْقُرْآنِ وَقَالَ:لَا بَأْسَ بِہِ.قَالَ الشَّیْخُ رَحِمَہُ اللہُ:وَہَذَا کُلُّہُ یَرْجِعُ إِلَی مَا قُلْنَا مِنْ أَنَّہُ إِنْ رَقَی بِمَا لَا یُعْرَفُ أَوْ عَلَی مَا کَانَ مِنْ أَہْلِ الْجَاہِلِیَّۃِ مِنْ إِضَافَۃِ الْعَافِیَۃِ إِلَی الرُّقَی لَمْ یَجُزْ ،وَإِنْ رَقَی بِکِتَابِ اللہِ أَوْ بِمَا یَعْرِفُ مِنْ ذِکْرِ اللہِ مُتَبَرِّکًا بِہِ وَہُوَ یَرَی نُزُولَ الشِّفَاء ِ مِنَ اللہِ تَعَالَی فَلَا بَأْسَ بِہِ“ترجمہ:یحییٰ بن سعید سے دم اورتعویذ کے متعلق پوچھاتو انہوں نے فرمایا: سعید بن مسیب حکم دیتے تھے کہ قرآن پاک کا تعویذ بناؤ اس میں کوئی حرج نہیں۔ شیح رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا: یہ سب وہی بات ہے جو ہم نے کہی کہ جو دم معروف نہ ہو یا اہل جاہلیت کا ہو یا عقیدہ ہو کہ اسی دم سے شفاملنی ہے تو وہ جائز نہیں۔ اگر دم قرآن پاک سے ہو یا معروف ذکر اللہ کے ساتھ بطور برکت ہو اور بندہ جانتا ہو کہ شفارب تعالیٰ دینے والا ہے تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے۔

(السنن الکبری،ابواب کسب الحجام،باب التمائم جلد9،صفحہ 590، دار الکتب العلمیۃ، بیروت)

بہارشریعت میں صدرالشریعہ بدالطریقہ مفتی امجد علی اعظمی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:”گلے میں تعویذ لٹکانا جائز ہے، جبکہ وہ تعویذ جائز ہو یعنی آیاتِ قرآنیہ یا اسماء الٰہیہ یا ادعیہ سے تعویذ کیا جائے اور بعض حدیثوں میں جو ممانعت آئی ہے، اس سے مراد وہ تعویذات ہیں جو ناجائز الفاظ پر مشتمل ہوں، جو زمانہ جاہلیت میں کیے جاتے تھے، اسی طرح تعویذات اور آیات و احادیث و ادعیہ کو رکابی میں لکھ کر مریض کو بہ نیت شفا پلانا بھی جائز ہے۔ جنب و حائض و نفسابھی تعویذات کو گلے میں پہن سکتے ہیں، بازو پر باندھ سکتے ہیں جبکہ غلاف میں ہوں۔“

(بہار شریعت،جلد3،حصہ16،صفحہ652،مکتبۃالمدینہ،کراچی)

تعویذات کے ثبوت پر عقلی دلائل

جب قرآن وحدیث سے کوئی چیز ثابت ہو تو پھر اسے عقل پر پرکھنا بندہ مومن کا شیوہ نہیں بلکہ سر تسلیم خم کردینا ایمان ہے۔لیکن ہم شیطان کے وسوسے کو دفع کرنے لیے چند عقلی دلائل بھی پیش کرتے ہیں:

٭قرآن کو شفا کہا گیا ہے ،جس طرح قرآن پڑھنا شفا ہے اسی طرح قرآن لکھ کر رکھنا بھی شفا ہے کیونکہ اصولی قائدہ ہے”اَلْکِتابُ کاَلْخِطَابِ“(تحریر، خطاب کی طرح ہے۔) یہی وجہ ہے کثیر مسائل میں جوحکم بولنے سے ہوتا ہے وہی حکم لکھنے سے ہوتا ہے جیسا کہ طلاق لکھ کی دی جائے یا بول کر دونوں کا ایک حکم ہے۔

٭ علمائے اسلاف نے کئی بزرگوں کے ناموں کے فضائل میں فرمایا کہ ان کے نام سے شفا مل جاتی ہے جیسےعلامہ دمیری رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ فرماتے ہیں،بعض اہل علم نے مجھے خبر دی ہے”أن أسماء الفقہاء السبعۃ، الذین کانوا بالمدینۃ الشریفۃ، إذا کتبت فی رقعۃ وجعلت فی القمح فإنہ لا یسوس، ما دامت الرقعۃ فیہ، وہم مجموعون ۔۔۔عبید اللہ عروۃ قاسم سعید أبو بکر سلیمان خارجہ“ترجمہ:مدینہ منورہ کے سات فقہاء کے نام کاغذ میں لکھ کر گندم میں رکھے جائیں تو جب تک وہ کاغذ گندم میں رہے گا اس گندم کو گھن نہیں لگے گی،اور ان فقہاء کے نام یہ ہیں:(1)عبید اللہ (2) عروہ(3)قاسم(4) سعید(5)ابوبکر (6)سلیمان(7)خارجہ۔        

(حیاۃ الحیون،ج2،ص53،دارالکتب العلمیہ،بیروت)

علامہ دمیری مزید فرماتے ہیں”وأفادنی بعض أہل التحقیق، أن أسماء ہم إذا کتبت وعلقت علی الرأس، أو ذکرت علیہ أزالت الصداع العارض لہ“ترجمہ:بعض اہل تحقیق نے مجھے بتایا ہے کہ ان فقہاء کے نام لکھ کر سر پر لٹکا دیا جائے یا ان سے دم کیا جائے تو سر کا درد دور ہوجاتا ہے۔ (حیاۃ الحیون،ج2،ص53،دارالکتب العلمیہ،بیروت)

شرح مواہبِ لدنیہ للعلامۃ الزرقانی میں ہے”اذاکتب اسماء اھل الکھف فی شیء والقی فی النار اطفئت“ترجمہ:جب اصحابِ کہف کے نام لکھ کر آگ میں ڈالے جائیں توآگ بجھ جاتی ہے۔    

(شرح الزرقانی علی المواہب اللدنیۃ،المقصد الثامن ،ج7،ص108، مطبوعہ معرفۃ، بیروت)

ایک حدیث قدسی جس کی سند میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ،حضرت علی المرتضیٰ اور اہل بیت کے اکابرین بزرگوں رضی اللہ تعالیٰ عنہم کا نام ہے۔اس عالی شان سند کے حوالے سے امام احمد بن حنبل رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں”لو قرأت ھذا لاسناد علی مجنون لبریء من جنتہ“ترجمہ: یہ مبارک سند اگر مجنون پر پڑھو تو ضرور اسے جنون سے شفاہو جائے گی۔

(الصواعق المحرقہ،صفحہ205، مکتبہ مجددیہ ،ملتان)

دراصل ناموں میں شفا کی وجہ یہ ہے کہ نام عین ذات ہے۔جس طرح کسی نیک ہستی کی ذاتی باعث برکت و شفا ہوتی ہے اسی طرح اس کا نام بھی اسی خصوصیت کا حامل ہوتا ہے۔

٭ہم طبی طور پر بھی دیکھیں توہر بیماری کا علاج دوائی کھانے سے نہیں ہے کبھی دوائی سونگھنے سے شفا ملتی ہے ،کبھی دوائی کو ظاہری بدن پر رکھ کر اس کی تاثیر سے شفاحاصل کی جاتی ہے،کبھی شفاء کسی چیز کو دیکھنے سے حاصل کی جاتی ہے وغیرہ۔ یونہی قرآن پاک اگر شفا ہے تو اسے فقط زبان سے پڑھنے کے ساتھ خاص کرنا ایک شرط بدعتیہ ہے جس کا کوئی ثبوت نہیں۔

٭ اگر قرآن کا لکھا ہوا تعویذ پہننا بے فائدہ ہے کہ اصل تو قرآن پڑھنا ہے تو پھر خانہ کعبہ کی تصاویر گھروں میں لگانا جیسا کہ پوری دنیا کے مسلمان بطور برکت لگاتے ہیں یہ بھی بے فائدہ ہونا چاہئے کہ اصل حکم تو خانہ کعبہ کا طواف کرنا ہے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں