علما کے دشمن

علما کے دشمن

پیشکش: صدائے قلب

کافی عرصہ سے اس بات کو محسوس کیا جارہا ہے کہ پاکستان میں دن بدن سیکولر اور لبرل لوگ طاقتور ہورہے ہیں اور دیکھتے ہی دیکھتے سیاستدان،میڈیا اینکرز،پروفیسرز،ججز اور دیگر صاحب ثروت و منصب لوگوں کی ایک تعداد سیکولر اور لبرل ازم کی طرف نہ صرف بڑھ رہی ہے بلکہ ان کے نمائندہ بن کر علماء کو ہدف بنارہے ہیں۔ہر کوئی میڈیا پر کفار کے حقوق بیان کرکےعلماء کو شدت و قدامت پسند ثابت کرکے کفار کا منظورِ نظر بننے کی کوشش میں ہے۔حکومت پاکستان اور ملک کے اہم ادارے جن کا فرض بنتا ہے کہ وہ قوم کے عقائدو نظریات کی حفاظت کریں لیکن وہ اپنے اس فریضہ سے یکسر غافل ہیں بلکہ بعض سیاسی لیڈر تو ملک کو سیکولر بنانے کے خواہشمند ہیں۔تمام باطل قوتیں مل کر اسلام کے خلاف پروپیگنڈہ کررہی ہیں لیکن اسلام کا نام واضح طور پر نہیں لی سکتیں اس لیے علماء کو بدنام کررہی ہیں کیونکہ علماء ختم ہوں گے تو مذہبِ اسلام خود بخود ختم ہوجائے گا۔

پاکستان کے مستقبل کے حوالے سے غور کیا جائے تو یہ فکر لاحق ہوجاتی ہے کہ آج کے سیاسی لیڈر،صاحب منصب اور امیر لوگ جن سکول، کالجوں میں اپنے بچوں کو تعلیم دلوارہے ہیں وہ سیکولر قسم کے ہیں، کل جب یہ بچے پریکٹیکل فیلڈ میں اہم پوسٹوں پر آئیں گے تو دین و علماء کے ساتھ بدترین سلوک کرتے ہوئے سیکولرازم کو ہی فروغ دیں گے ۔

ان حالات میں اگر حضور علیہ السلام کی پیشین گوئیوں کا مطالعہ کیا جائے تو کئی ایسے فرامین موجود ہیں جس سے ثابت ہوتاہے کہ دین و علماء کی حالت بہت پتلی ہوجائے گی۔اس حوالے سےتین احادیث پیشں کرکے ان کوموجودہ اور مستقبل کے حالات پر منطبق کرنے کی کوشش کی جاتی ہے:

(1)حضرت عقبہ بن عامر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا”اتخوف علی أمتی اثنتین : یتبعون الاریاف والشہوات ، ویترکون الصلاۃ والقرآن ، یتعلمہ المنافقون یجادلون بہ أہل العلم“ ترجمہ: میں اپنی امت پر دو باتوں پر خوف کرتاہوں ، وہ وسعت اور شہوت کی اتباع کریں گے اور نماز و قرآن کو چھوڑ دیں گے۔ منافق قرآن کو سیکھ کر اہل علم کے ساتھ جھگڑا کریں گے ۔

(کنزالعمال،کتاب الفتن والاھواء والاختلاف،الفصل الثاني في الفتن والهرج، جلد11،صفحہ116،حدیث30842، مؤسسة الرسالة،بیروت)

اس مذکورہ حدیث کی ہم تصدیق دیکھ رہے ہیں عوام نمازو قرآن کو چھوڑکر شہوت و سعت کی طرف جارہی ہے۔جاہل اینکرز اور اردو ترجمے پڑھ کر جاوید غامدی اور انجینئر مرزا جیسے لوگ ائمہ مجہتدین،صوفیاعظام اور علمائے کرام پر طعن و تشنیع کرتے او ر خود کو بہت علم والا اور صحیح علماء کو جاہل ثابت کررہے ہیں۔آزاد خیالی دن بدن بڑھ رہی ہے۔ فقہ میں کسی ایک امام کے مقلد ہونے کو کم علمی تصور کیا جارہا ہے۔

(2)المستدرک کی حدیث پاک ہے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں”یأتی علی العلماء زمان الموت أحب إلی أحدہم من الذہب الاحمر“ترجمہ:علماء پر ایک وقت ایسا آئے گا کہ انکے نزدیک موت سرخ سونے سے زیادہ پسندیدہ ہوگی ۔

(المستدرك على الصحيحين،كتاب الفتن والملاحم،أما حديث أبي عوانة،جلد4،صفحہ563،حدیث8581، دار الكتب العلمية ،بیروت)

جب معاشرے میں بے حیائی اور بے دینی عام ہو جائے تو علمائے حق اس پر پریشان حال ہوتے ہیں۔فی زمانہ بھی اہل علم حضرات ان حالات و واقعات پر فکر مند ہیں اور مستقبل میں لگ رہا ہے کہ حکومت سطح،میڈیا اور سرکاری ادارے مل کرعلماء کرام کو اس قدر تنگ کریں گے اور بے دینی کو اس قدر فروغ دیں گے کہ اہل حق علماء اپنی اس بے بسی پر مرجانے کو پسند کریں گے۔

(3)حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما سے مروی ہے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا”یأتی علی الناس زمان یقتل فیہ العلماء کما تقتل الکلاب “ترجمہ: لوگوں پر ایک وقت ایسا آئے گا کہ علماء کوایسے قتل کیا جائے گا جیسے کتوں کو قتل کیا جاتاہے۔

(جامع الأحاديث ، حرف الياء ، ياء النداء مع الياء ، جلد23،صفحہ464،حدیث26438)

اگر سیکولر لوگوں کی تاریخ پڑھیں تو انہوں نے حکومتی سطح پر علماء پر ایسے ہی ظلم و ستم کیے ہیں۔موجودہ دور میں بھی مسلمانوں کے ہی ملک پاکستان میں گستاخِ رسول آسیہ کی رہائی کے خلاف احتجاج کرنے والے علماءپر دہشت گردی کا الزام لگا کر انتہائی ذلت کے ساتھ ان کو انکی مساجد میں گرفتار کرکے کر جیلوں میں ڈالا گیا۔ سیکولر میڈیا کا یہ حال ہے کہ کافروں کا کتا بھی مر جائے تو اس کے ساتھ ہمدردی کرتے ہیں اور علماء اور دین دار طبقہ کے ساتھ جتنا مرضی ظلم ہو اس پر ان کو خوشی ہوتی ہے اور بجائے ہمدری کے اس کےخلاف ایسا پروپیگنڈہ کرتے ہیں جیسےوہ اسی ظلم کے مستحق ہیں۔ایسا لگتا ہے کہ مستقبل میں اگر مسلمانوں کا سرعام ناحق قتل عام بھی کیا جائے گاتو میڈیا یہی کہے گا کہ دہشت گردوں کے خلاف آپریشن ہورہا ہے۔

سیکولرازم کی اس متحد اور طاقتور فوج کے مقابل دینداروں کی فوج ہے جس کے سپاہ سالار علمائے عظام ہیں،لیکن انتہائی افسوس سے کہنا پڑ رہا ہے کہ اہل علم حضرات کی ایک تعداد بجائے سیکولر قوتوں کے خلاف لڑنے کے اپنے ہی دینددار طبقہ کے خلاف لڑنے میں مگن ہے اور انجانے میں سیکولر لوگوں کا جو مشن علماء کو بدنام کرنے کاہے اسی کوتقویت دے رہی ہے۔ اس کی ایک جھلک پیش خدمت ہے:

٭بدمذہب اور گمراہ فرقوں کے علاوہ اہل سنت کے بعض حضرات نئے سے نئے نظریات کو لے کرفتنہ و فساد بھرپا کررہے ہیں جن میں سرفہرست حضرت امیر معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ پر طعن و تشیع،ایمان ابی طالب کا مسئلہ ہے۔اہل سنت کے متفقہ عقائدو نظریات کو چھوڑ کرنیا عقیدہ پیش کرکےایک نئی بحث چھیڑ دیتے ہیں،جس سے عام عوام بدظن ہوتی ہے۔

٭ایک تعدا د وہ ہےجو متشدد قسم کی ہے جو فروعی مسائل میں اپنے ہی اہل سنت کے لوگوں کو گمراہ و کافر قرار دیتی ہے۔

٭ایک تعداد وہ ہے جن کا نہ مطالعہ ہے نہ تحقیق ،بس خود کو علامہ کہلوانے کا شوق ہے اور جن مولویوں نے چند کتابیں لکھی ہیں اگرچہ ان کے مصنفین گمراہ ہیں ان سے متاثر ہوکر ان سے اندھی عقیدت رکھتے ہیں اور ان کو دین کا خدمتگار سمجھتے ہیں۔اپنے ان مولویوں کے خلاف کوئی تحقیق قبول نہیں کرتے ،بلکہ عام عوام کو یہ باور کرواتے ہیں کہ یہ اعتراض کرنے والے مولوی جاہل و حاسدہیں۔

٭ایک گروہ ایسا ہے جو قابل ہونے کے باوجود اپنی قابلیت فقط اپنے ہی اہل سنت کے علماء پر تنقیدیں کرکے اپنی مریدین و محبین و مقتدیوں کو علماء اہل سنت سے بدظن کررہا ہے۔

٭ایک سب سے خطرناک گروہ صلح کلیوں کا ہے جو میڈیا اور بڑے لیول پر آکر خود کو ماڈرن اور دیگر علماء کو جاہل و شدت پسند ثابت کرتے ہیں اور بات بات پر علماء پر طعن کرکے سیکولرازم کو مضبوط کررہے ہیں۔جب بھی ناموس رسالت اور ختم نبوت کا مسئلہ ہوگا یہ اس وقت بجائے مسلمانوں کے ساتھ ملنے کے بے دینوں کی صف میں کھڑے ہوں گے ۔مسلمانوں کے ساتھ پوری دنیا میں ہونے والے ظلم و ستم کے خلاف بولنے کی بجائے کفار کی دینی رسموں میں شامل ہورہے ہوتے ہیں اور اپنی ان ناپاک حرکات کو اسلامی تعلیمات ٹھہراتے ہیں۔صلح کلی لوگ اپنی اس طرح کی دوغلا پالیسی سے سمجھتے ہیں کہ کفار ہم سے راضی ہوکر ہم کو دنیاوی منصب سے نوازیں گے جبکہ کفار ایسے لوگوں کو اپنی سازشوں میں استعمال کرتے ہیں اور بعد میں ان کا نام و نشان بھی باقی نہیں رہتا۔ اللہ عزوجل نے مسلمانوں کو پہلے ہی فرمادیا ہے﴿وَلَنۡ تَرْضٰی عَنۡکَ الْیَہُوۡدُ وَلَا النَّصٰرٰی حَتّٰی تَتَّبِعَ مِلَّتَہ﴾ترجمہ : اور ہرگز تم سے یہود اور نصاریٰ راضی نہ ہوں گے جب تک تم ان کے دین کی پیروی نہ کرو۔

(سور ة البقر ة ،سور ة 2،آیت120)

اہل علم حضرات کی بارگاہ میں عرض ہے کہ سیکولر اور لبرل طبقہ کی قوت اور دینی لوگوں کی حالت پر غور کریں اور اس دین اسلام کے لیے ہر کوئی اپنی استطاعت کے مطابق کوشش کرکےاپنا فرض ادا کرے۔ امام اہل سنت اعلیٰ حضرت احمد رضاخان علیہ رحمۃ الرحمن فرماتے ہیں:” ایسے نازک وقت میں کہ ہر چہار طرف سے دین حق پر حملے ہورہے ہیں اور بیخ کنان سخت یکبارگی ٹوٹ پڑے ہیں کیا علمائے اہلسنت پر واجب نہیں کہ اپنے علم کو ظاہر کریں اورمیدان میں آکر تحریرا وتقریرا احیاء سنت اماتت بدعت ونصرت ملت فرمائیں، اگر ایسانہ کریں سکوت وخاموشی سے کام لیں تو کیا اس حدیث شریف کے مورد نہ ہوں گے جو فتاوٰی الحرمین میں مذکور ہے”قال الامام ابن حجر المکی فی الصواعق المحرقۃ ان الحامل الداعی لی علی التالیف فی ذٰلک وان کنت قاصرا عن حقائق ماھنالک مااخرجہ الخطیب البغدادی فی الجامع وغیرہ انہ صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم قال اذا ظھرت الفتن او قال البدع وسب اصحابی فلیظھر العالم علمہ فمن لم یفعل ذٰلک فعلیہ لعنۃ اﷲ والملٰئکۃ والناس اجمعین لایقبل اﷲ منہ صرفا ولاعدلا اھ“امام ابن حجر مکی صواعق محرقہ میں فرماتے ہیں واضح ہو کہ اس تالیف پر میرے لئے باعث وسبب اگرچہ میرا ہاتھ یہاں کے حقائق سے کوتاہ ہے وہ حدیث ہوئی جو خطیب بغدادی نے جامع میں اور ان کے سوا اور محدثین نے روایت کی کہ رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے فرمایا جب فتنے یا فرمایا بدمذہبیاں ظاہر ہو ں اور میرے صحابہ کو براکہا جائے تو واجب ہے کہ عالم اپنا علم ظاہر کرے جو ایسا نہ کرے گا ا س پر اللہ اور فرشتوں اور آدمیوں سب کی لعنت ہے اللہ تعالیٰ نہ اس کا فرض قبول فرمائے نہ نفل۔“ (فتاویٰ رضویہ،جلد14،صفحہ590،رضافاؤنڈیشن،لاہور)

ضرورت اس بات کی ہے کہ علماء و ائمہ کرام منبر و محراب کو مضبوط کریں،آپس میں ایک دوسرے پر فضول تنقیدیں کرنے کی بجائے اتحاد و اتفاق کی فضا قائم کریں تاکہ عوام بدظن نہ ہو،جو لوگ بدمذہبوں اور سیکولر لوگوں کا رد کرہے ہیں ان کی نہ صرف حوصلہ افزائی کریں بلکہ ممکنہ ساتھ دیں،عوام کو دین کے قریب لایا جائے،ان سے رابطہ میں رہا جائے،درس و بیانات کے سلسلے ہوں ،بڑے پیمانے پرشخصیات میں اہم موضوعات پر سیمینار منعقد کیے جائیں،دینی چینلز کھولے جائیں اورسوشل میڈیاکے ذریعے عوام الناس کو دین اسلام کا صحیح پیغام پہنچایاجائے۔

آخر میں عوام الناس سے درخواست ہے کہ میڈیا اور سیکولر لوگوں کے پروپیگنڈہ میں آکر علماء کے بارے میں سوئے ظن سے بچیں۔بعض داڑھی والوں اور جعلی پیروں کی حرکات علماء کے کھاتے میں ڈالنا مناسب نہیں۔علماءکے ساتھ رابطہ میں رہ کر اپنے اور اپنی آنے والی نسلوں کے ایمان کی حفاظت کریں۔یہ علماء ہی ہیں کہ ہرد ور میں امت کے عقائدو نظریات کی حفاظت میں کمربستہ رہے ہیں۔ناموس رسالت اور ختم نبوت کے مسئلہ میں انہی ہستیوں نے کفار اور سیکولر قوتوں کا مقابلہ کیا۔ علماء نہ ہوتے تو آج جگہ جگہ جھوٹے نبوت کے دعویداروں نے مسلمانوں کے ایمان پر ڈاکے ڈالنے تھےاورسیکولر لوگوں کے لائے ہوئےبے حیائی کے سمندر نےہماری غیرت کو بہا لے جانا تھا۔

اپنا تبصرہ بھیجیں