کرسمس ڈے کی شرعی حیثیت

کرسمس ڈے کی شرعی حیثیت

پیشکش: صدائے قلب

پاکستان میں جس طرح سیکولر ازم اور لبرل ازم میڈیا اورسیاستدانوں میں بڑھتی جا رہی ہے،اسی طرح کفار کے مذہبی تہوار منانا بھی عام ہورہا ہے۔ان تہوار کو منانے والے وہی میڈیا کی اینکرز،سیاستدان اور مذہبی حلیے والے ہیں جو پاکستان سمیت پوری دنیا میں مسلمانوں پر ہونے والے مظالم پر بولتے نظر نہیں آئیں گے ۔یہ لوگ جب بھی بولیں گے اسلام،مسلمان ،اسلامی احکام اورعلمائے اسلام کے خلاف ہی بولیں گے اوران کی زبانوں پر دن رات اقلیتوں کے حقوق سوار ہوں گے۔وجہ یہ ہے کہ یہ لوگ چند دنیاوی مفادات کی خاطرانگریزوں کے ذہنی غلام ہونے کے ساتھ عملی غلام بھی بن چکے ہیں اور ہر دم اپنے انگریز آقاؤں کوخوش کرنے کے چکر میں رہتے ہیں۔

کرسمس ڈے بھی کفار کے تہواروں میں سے عیسائیوں کا مذہبی تہوار ہے جس کومنانے والے مسلمان ہرسال بڑھتے جارہے ہیں اوراس کے منانے کو عجیب و غریب انداز سے صحیح ثابت کیا جارہا ہے۔شرعی نقطہ نظر سے کرسمس ڈے منانا ناجائز و حرام اور ایک صورت میں کفر ہے۔قارئین کے سامنے مستند حوالہ جات پیش کرکے ثابت کیا جاتا ہے کہ کفار کے دینی تہوار کو منانا اسلامی شرعیہ میں حرام و کفر ہے۔

کرسمس دو الگ لفظوں کا مجموعہ ہے۔لفظChristسے مراد حضرت عیسی علیہ السلام لی جاتی ہے اور لفظMasسے مرادپیدائش لی جاتی ہے۔گویا کرسمیس کا مطلب ہے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی پیدائش ۔انٹرنیٹ پر ایک عیسائی شخص”David J. Meyer” نے باقاعدہ انگلش ڈکشنری و تاریخ سے ثابت کیا ہے کہ کرسمس کا مطلب حضر ت عیسی علیہ السلام کی پیدائش نہیں بلکہ اس کا مطلب ہے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا وصال چنانچہ وہ کہتا ہے :

Here let it be noted that most people think that the word, “Christmas” means “the birth of Christ.” By definition, it means “death of Christ”, and I will prove it by using the World Book Encyclopedia….the word “Mass” in religious usage means a “death sacrifice.” The impact of this fact is horrifying and shocking; for when the millions of people are saying “Merry Christmas”, they are literally saying “Merry death of Christ!”

یعنی یہ بات غور طلب ہے کہ لوگ سمجھتے ہیں کہ کرسمس کا مطلب ہے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی پیدائش۔جبکہ اس کا مطلب ہے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی وفات۔اس بات کو میں ورلڈ بک انسائیکلوپیڈیا سے ثابت کروں گا۔لفظ Mass مذہب میں موت کی قربانی میں استعمال ہوتا ہے۔یہ بات کافی حیران کن ہے کہ جب لاکھوں لوگ کہتے ہیں کہ کرسمس مبارک ہوتو درحقیقت وہ یہ کہتے ہیں کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی وفات مبارک ہو۔

(www.lasttrumpetministries.org/tracts/tract4.html)

کرسمس ڈے عیسائیوں کا مذہبی شعار ہے اس میں عیسائیوں کے ساتھ شرکت کرناحدیث پاک کی رو سے جائز نہیں چنانچہ سنن ابو داؤد کی حدیث پاک ہے ”من جامع المشرک وسکن معہ فانہ مثلہ“ترجمہ: جو مشرک سے یکجا ہو اور اس کے ساتھ رہے وہ اسی مشرک کی مانند ہے ۔

(سنن ابی داؤد ،کتاب الجہاد،باب فی الإقامۃ بأرض الشرک ،جلد 3،صفحہ 93، المکتبۃ العصریۃ،بیروت)

جب فقط شرکت کرنا حرام ہے توایک مسلمان کامہمان خصوصی کے طور پر شرکت کرنا،ان کی تقریب کو ٹی وی چینل اور اخبارات کے ذریعے مشہور کروانا،مردو عورت کے اختلاط میں کیک کاٹنا،مصافحہ کرنا وغیرہ حرام درحرام ہے۔اگر کوئی اس دن عیسائیوں کی تقریبات میں اس دن کی تعظیم کرتے ہوئے شریک ہو تو وہ کفر کا مرتکب ہے۔فتاوی ہندیہ میں ہے”یکفر بخروجہ الی نیروز المجوس لموافقتہ معھم فیما یفعلون فی ذلک الیوم “ ترجمہ:جو مجوسیوں کے نیروز میں ان کی موافقت کرنے کے لئے جائے جس دن میں وہ خرافات کرتے ہیں تو اس کی تکفیر کی جائے گی ۔

(فتاوی ہندیہ،کتاب السیر،الباب التاسع فی احکام المرتدین، مطلب موجبات الکفر، جلد 2،صفحہ 276،دار الفکر ،بیروت)

اگرشرکت نہ کی جائے ویسے ہی اس دن کی تعظیم کر ے اور عیسائیوں کی ان خرا فات کو اچھا سمجھے تو کفر ہے۔فتاوی تار تار خانیہ میں ہے”واتفق مشایخنا ان من رای امر لکفار حسنا فھو کافر“ترجمہ: مشائخ عظام کا اس بات پر اتفاق ہے کہ جو کافر کے کسی امر کو اچھا جانے وہ کافر ہے۔

(تار تار خانیہ ،کتاب احکام المرتدین،فصل فی الخروج الی النشیدۃ۔۔،جلد 5،صفحہ 354،قدیمی کتب خانہ ،کراچی)

اس دن عیسائیوں کو مبارکباد دینا،تحائف دینا ناجائز و حرام ہے اور اگر تعظیم کی نیت سے یہ سب کرے توکفر ہے۔فتاوی تار تار خانیہ میں ہے ”حکی عن ابی حفص الکبیر لو ان رجلا عبد اللہ خمسین سنۃ ثم جا ء یوم النیروزفاھدی الی بعض المشرکین بیضۃ یرید بہ تعظیم ذلک الیوم فقد کفر باللہ و احبط عملہ “ترجمہ:حضرت ابو حفص الکبیر سے حکایت کیا گیا کہ اگر آدمی پچاس سال اللہ عزوجل کی عبادت کرے پھر نیروز کا دن(کافروں کا مخصوص دن) آ جائے اور وہ اس دن کی تعظیم میں بعض مشرکین کو کوئی تحفہ دے اگرچہ انڈہ ہی ہو تو بے شک اس نے کفر کیا اور اس کے اعمال برباد ہوگئے۔

(تار تار خانیہ ،کتاب احکام المرتدین،فصل فی الخروج الی النشیدۃ۔۔،جلد 5،صفحہ 354،قدیمی کتب خانہ ،کراچی)

کرسمس کے بعض حمایتی کہتے ہیں کہ یہ بھی ایک نبی کی پیدائش کا دن ہے جس طرح نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی پیدائش کا دن بارہ ربیع الاول ہے۔پہلی بات تو یہ ہے کہ مستند دلائل سے ثابت ہے کہ یہ دن حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی پیدائش کا نہیں۔دوسری بات یہ ہے کہ خود کو مسلمان کہلوانے والا جو طبقہ اس دن کو مناتا ہے اس میں شاید ہی کوئی ہو جو ایک نبی کی ولادت کی خوشی میں مناتا ہے۔عام طور پر یہ منانے والے سیاستدان،اینکرز،این جی اوز والے وہ لوگ ہوتے ہیں جو مشہو ر شخصیات ہوتی ہیں اور انٹرنیشنل لیول میں خود کو عیسائیت کا خیر خواہ ثابت کرنے کی کوشش میں ہوتے ہیں۔یہی وجہ ہے کہ جب تک تصویر یا مووی نہ بنے تب تک یہ لوگ کرسمس کیک نہیں کاٹتے اور سرعام بینرز اور پوسٹروں پر یہ نبی کی ولادت کی خوشی نہیں لکھتے بلکہ عیسائیوں سے اظہارِ یکجہتی والے کلمات ہوتے ہیں اور واضح الفاظ میں عیسائیوں کو مبارکباد دے رہے ہوتے ہیں۔

مستندعلمائے کرام نے فرمایا ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی پیدائش 25دسمبر نہیں ہے یہ تو بعد میں بنا لی گئی ہے۔بلکہ ایک عیسائی ”David J. Meyer” نے بھی یہ کہا ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی پیدائش 25دسمبر نہیں چنانچہ کہتا ہے:

Jesus was not born on December 25th.

(http://www.lasttrumpetministries.org/tracts/tract4.html)

مفتی عبد الواجد قادری مفتی اعظم ہالینڈفتاوٰی یورپ میں فرماتے ہیں:”عیسائیوں کے یہاں کرسمس ڈے کی کوئی تاریخی حیثیت نہیں ہے یہ چودہویں صدی عیسوی کا ایک حادث تیوہار ہے ۔لیکن دنیا بھر کے عیسائیوں نے اس اختراعی تیوہار کو اتنی مضبوطی سے تھاماکہ یہ صدیوں سے عیسائیت کی پہچان و شعار بن گیا ہے۔ ہر چرچ اور عیسائی تنظیم گاہیں اس تاریخ میں مزین کی جاتی ہیں اور دنیا کو یہ باور کرایا جاتا ہے کہ گویا یہ مسیحیوں کا عظیم الشان تیوہار ہے، جس میں اربوں ڈالر کی شراب نہ صرف پی جاتی ہے بلکہ لنڈھائی جاتی ہے۔ پھر اربوں ڈالر کی آتشبازی اور آتشی مادّوں سے یورپ و امریکہ کے درودیوار اور آسمانی فضا تھرا اٹھتی ہے۔ ہفتہ عشرہ تک گندھک کی بدبو سے ملک کا ملک مہکتا رہتا ہے۔

بہر حال کرسمس ڈے ان کا مذہبی تیوہار ہو یا نہ ہو مگر آج قومی تہوار کی حیثیت اختیار کرگیا ہے جس سے مسلمانوں کا دور رہنا لازم و ضروری ہے۔۔۔مسلمانوں کے لئے حرام ہے کہ ان کے تیوہار میں اپنے گھروں کو انہیں چیزوں سے مزین کریں جن سے وہ لوگ کرتے ہیں۔ پھراس تاریخ میں انہیں ہدیہ دینا اور ان سے تحفہ لینا بھی حرام و ممنوع ہے۔ اوراگرکرسمس ڈے کی تعظیم مقصود ہو تو معاذ اللہ یہ کفر ہے۔“

(فتاوٰ ی یورپ، صفحہ540،شبیر برادرز،لاہور)

دسویں صدی ہجری کے عظیم عالم دین امام جلال الدین سیوطی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں” ومما يفعله كثير من الناس في فصل الشتاء، ويزعمون أنه ميلاد عيسى عليه السلام، فجميع ما يصنع أيضاً في هذه الليالي من المنكرات، مثل: إيقاد النيران، وإحداث طعام، وشراء شمع، وغير ذلك؛ فإن اتخاذ هذه المواليد موسماً هو دين النصارى، وليس لذلك أصل في دين الإسلام “ترجمہ:موسم سرما میں بہت سے لوگ ولادتِ عیسی کے نام سے محفلیں منعقد کرتے ہیں۔ ان راتوں میں یہ بہت سے منکر کا م کرتے ہیں، مثلاً آگ جلانا، رنگا رنگ قسم کے کھانے تیار کرنا اور شمعیں خریدنا وغیرہ وغیرہ، لہٰذا سالانہ طور پراس طرح کے دن منانا عیسائیوں کا دین ہے، اس کی اسلام میں کوئی اصل نہیں ہے۔

(الأمر بالاتباع والنھي عن الابتاع، النهي عن الاحتفال بما يسمى بليلة رأس السنة الميلادية،صفحہ122، مطابع الرشيد)

نیز فرماتے ہیں”ومن ذلك أعياد اليهود أو غيرهم من الكافرين أو الأعاجم والأعراب الضالين، لا ينبغي للمسلم أن يتشبه بهم في شيء من ذلك، ولا يوافقهم عليه، قال الله تعالى لنبيه محمد ( ثم جعلناك على شريعة من الأمر فاتبعها ولا تتبع أهواء الذين لا يعلمون إنهم لن يغنوا عنك من الله شيئاً وإن الظالمين بعضهم أولياء بعض والله ولي المتقين) . وأهواء الذين لا يعلمون هو ما يهوونه من الباطل، فإنه لا ينبغي للعالم أن يتبع الجاهل فيما يفعله من أهواء نفسه، قال تعالى لنبيه : (ولئن اتبعت أهواءهم من بعد ما جاءك من العلم إنك إذا لمن الظالمين) . فإذا كان هذا خطابه لنبيه (، فكيف حال غيره إذا وافق الجاهلين أو الكافرين وفعل كما يفعلون مما لم يأذن به الله ورسوله ويتابعهم فيما يختصون به من دينهم وتوابع دينهم؟ وترى كثيراً من علماء المسلمين الذين يعلمون العلم الظاهر، وهم منسلخون منه بالباطن، يصنعون ذلك مع الجاهلين في مواسم الكافرين بالتشبه بالكافرين“ترجمہ:یہود، کفار، عجمیوں اور گمراہ عربیوں کی عیدوں کی مشابہت کسی مسلمان کے لائق نہیں جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی محمد کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے فرمایا:”پھر ہم نے اس کام کے عمدہ راستہ پر تمہیں کیا تو اسی راہ چلو اور نادانوں کی خواہشوں کا ساتھ نہ دو ۔بیشک وہ اللہ کے مقابل تمہیں کچھ کام نہ دیں گے اور بیشک ظالم ایک دوسرے کے دوست ہیں اور ڈر والوں کا دوست اللہ۔بے علم لوگوں کی خواہشات سے مراد ان کے باطل رسم و رواج ہیں، لہٰذا کسی عالم کو جاہل لوگوں کی خواہشات پر اعتماد نہیں کرنا چاہیے۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے فرمایا ہے :”اور (اے سننے والے کسے باشد) اگر تو ان کی خواہشوں پر چلا بعد اس کے کہ تجھے علم مل چکا تو اس وقت تو ضرور ستم گار ہوگا“جب اللہ کا خطاب اپنی نبی سےایسا ہے، تو کسی امتی کا کیا حال ہو گا، جو جاہلوں اور کافروں کی اتباع کرتا ہے۔ کفار کی ڈگر پر چلتے ہوئے ایسے ایسے کام کرتے ہیں، جن کی اللہ تعالیٰ نے اجازت نہیں دی اور ان کے شعار کو اپناتے ہیں۔سطحی علم رکھنے والے بہت سے علما مل جائیں گے، جو حقیقی علم سے عاری ہو کر کفار سے مشابہت کرتے ہیں۔

(الأمر بالاتباع والنھي عن الابتاع،النهي عن التشبه بالكافرين،صفحہ123، مطابع الرشيد)

بعض مفاد پرست لوگوں کو یہ کہہ کر دھوکہ دیتے ہیں کہ ہم کرسمس ڈے میں شرکت اس لئے کرتے ہیں کہ عیسائیوں کو اسلام کے قریب لاسکیں۔ان کایہ بہانہ بالکل باطل ہے۔ تبلیغ انبیاء علیہم السلام اور اولیاء کرام رحمہم اللہ نے کی ہے لیکن ایسی تبلیغ نہیں کی کہ ان کی عبادت گاہوں میں جاکر ان کے مذہبی شعار میں شرکت کریں۔تبلیغ کی بھی کچھ شرائط ہیں۔یہ نہیں کہ کوئی ہندؤں کے مندروں میں جائے ،ماتھے پر تلک لگائے اور کہے میں تبلیغ کررہا ہوں،عیسائیوں کے گرجے میں جاکرپادری کے پیچھے دعا مانگے ،اس کی شرکیہ دعا پر آمین کہے اور کہے میں تبلیغ کررہا ہوں ۔ یہ تبلیغ نہیں بلکہ کفر ہے۔فقہائے کرام نے تو صراحت کے ساتھ کفار کے دینی شعار میں شرکت کوکفر کہا ہے۔بلکہ یہاں تک فرمایا کہ اس دن اپنے گھر میں بھی ذکرو نعت کی محفل نہ رکھیں کہ کہیں یہ اس دن کی تعظیم نہ سمجھی جائے۔ البدع والنہی عنہا میں ابو عبد اللہ محمد بن وضاح المروانی القرطبی (المتوفی286ھ)رحمۃ اللہ علیہ روایت کرتے ہیں”عن أبان بن أبی عیاش قال لقیت طلحۃ بن عبید اللہ بن کریز الخزاعی فقلت لہ قوم من إخوانک من أہل السنۃ والجماعۃ لا یطعنون علی أحد من المسلمین یجتمعون فی بیت ہذا یوما وفی بیت ہذا یوما ویجتمعون یوم النیروز والمہرجان ویصومونہما فقال طلحۃ بدعۃ من أشد البدع واللہ لہم أشد تعظیما للنیروز والمہرجان من غیرہم“ترجمہ: حضرت ابان بن ابی عیاش رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ میں طلحہ بن عبید اللہ رحمۃ اللہ علیہ سے ملا اور ان سے کہا کہ آپ کے اہل سنت وجماعت بھائی نیروز،مہرجان (کفار کے دن) ایک گھر میں (ذکر اذکار کے لئے)جمع ہوتے ہیں،کسی مسلمان پر طعن و تشنیع نہیں کرتے اور ان دونوں دنوں میں روزہ رکھتے ہیں۔ حضرت طلحہ رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا یہ سخت بدعت ہے ۔ اللہ کی قسم یہ روزہ رکھنا کفار سے زیادہ نیروز اور مہرجان کے دن کی تعظیم ہے۔

(البدع والنہی عنہا،جلد1،صفحہ42، مکتبۃ ابن تیمیۃ، القاہرۃ)

کرسمس ڈے منانا اہل سنت کے علاوہ دیگر فرقوں میں بھی منع ہے۔سعودیہ کے وہابی مفتی شیخ ابن عثیمین نے لکھا ہے:”اسی طرح مسلمانوں پر کرسمس کی مناسبت سے تقاریب کرنا، تحائف کا تبادلہ ، مٹھائیوں کی تقسیم ، کھانوں کی تیاری، اور تعطیل عام کرتے ہوئے کفار کیساتھ مشابہت اپنانا حرام ہے، کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے کہ : (جو جس قوم کی مشابہت اختیار کرے وہ انہی میں سے ہے)

شیخ الاسلام ابن تیمیہ نے اپنی کتاب (اقتضاء الصراط المستقیم مخالفۃ أصحاب الجحیم)میں کہا ہے کہ: کفار کے کچھ تہواروں میں شرکت سے انہیں اپنے باطل نظریات پر قائم رہنے کی خوشی محسوس ہوتی ہے، اور بلکہ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ کچھ لوگ ایسے مواقع کا غلط فائدہ اٹھا کر کمزور ایمان لوگوں کو بہکا دیں۔“ ابن تیمیہ رحمہ اللہ کی گفتگو مکمل ہوئی۔

ایسا کام کرنے والا شخص گناہگار ہے، اور اس میں کسی کا دل رکھنے کیلئے ، یادلی چاہت کی بنا پر یا کسی سے حیا کرتے ہوئے شرکت کرنے والے سب لوگ گناہگار ہونگے، کیونکہ یہ عمل دینِ الہی کے باری میں ناقابل برداشت سستی ہے، اور کفار کے لئے اپنے گمراہ عقائد پر مضبوط ہونے کی دلیل ہے، وہ مسلمانوں کی شرکت سے اپنے دین پر فخر محسوس کرینگے۔انتہی“

(فتاوى ابن عثیمین،جلد3،صفحہ44)

وہابیوں اور دیوبندیوں کے بڑے مولویوں نے عید میلاد النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم منانے کو ناجائز و حرام کہا اور اسے عیسائیوں کا کرسمس منانے سے مشابہت دی۔لیکن فی زمانہ کرسمس کا کیک کاٹنے والوں میں کئی دیوبندی وہابی مولوی نظر آتے ہیں لیکن آج تک میلاد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مناتے ہوئے کوئی وہابی دیوبندی مولوی نہیں دیکھا گیا۔وہابی مولوی احسان الہٰی ظہیر اپنی کتاب ”البریلویہ“میں لکھتا ہے:”عید میلاد صرف عیسائیوں کی مشابہت میں جاری کی گئی ، اسلامی شریعت میں اس کا کوئی تعلق نہیں۔“ (بریلویت،صفحہ177،ادارہ ترجمانِ سنت)

بلکہ ایک دیوبندی مولوی خلیل انبیٹھوی نے اسے معاذ اللہ ہندؤں کے دیوتا کنہیا سے ملا دیا چنانچہ اپنی کتاب براہین قاطعہ میں لکھا:” میلاد النبی منانا ایسا ہے جیسے ہندو اپنے کنہیا کا جنم دن مناتے ہیں۔“

(براہین قاطعہ،صفحہ148،کتب خانہ رحیمیہ،سہارنپور)

دارالعلوم دیوبند کے فتاویٰ میں ہے:”حضور صلی اللہ علیہ وسلم یا کسی اور نبی یا ولی وغیرہ کا یوم ولادت منانا کوئی اسلامی چیز نہیں ہے ، یہ عیسائیوں کا طریقہ ہے ، وہ حضرت عیسی علیہ السلام کا یوم ولادت کرسمس ڈے کے نام سے مناتے ہیں، اور ہمیں غیروں کی مشابہت سے منع کیا گیا ہے۔“

(Fatwa ID: 366-365/N=4/1437-E)

اپنا تبصرہ بھیجیں