لبرل کو خون چاہیے

لبرل کو خون چاہیے

پیشکش: صدائے قلب

عمران خان صاحب نے 29 نومبر 2017کو یہ بیان دیا:”اس سے زیادہ خونی لبرل میں نے نہیں دیکھا،ان کو خون چاہیے،کیونکہ یہ ڈرون حملوں اور بمباری کی حمایت کرتے ہیں۔عمران خان نے کہا کہ ہماری جو ہیومن رائٹس کی ملکہ ہیں ان کے منہ سے ایک لفظ نہیں نکلتا۔ وہاں بمباری میں بچے، عورتیں مر رہے ہیں لبرل ہمارا چپ بیٹھا ہے۔

عمران خان صاحب نے کہا کہ لبرل وہ ہوتا ہے جس میں انسانیت ہوتی ہے، جس میں انسانی قدریں ہوتی ہیں، جو ہیومن رائٹس کی ویلیو کرتا ہے، جو انسانوں کو انسان سمجھتا ہے، جو انصاف کرنے والا ہوتا ہے چاہے اپنے خلاف بھی ہو۔ جو یہاں ہوا ہے فیض آباد میں، یہ کوئی عقل تھی کہ آپ ان پر چارج کر دیں۔ آپ ان کو مطمئن کریں۔ ان کومطمئن کرنے کی بجائے جو احسن اقبال ہے اس کی ساری کوشش لگی ہوتی ہے کہ کسی طرح نواز شریف کی چوری بچ جائے بس۔“

سی این بی سی کو2011 میں انٹرویو دیتے ہوئے عمران خان نے کہاتھا:”میں بھی لبرل ہوں۔پاکستان کے فسادی مُلا یا ان کے پیروکار ناخواندہ اور نیم خواندہ لوگ لبرل ہونے کو لادین ہونے کے معنی میں لیتے ہیں جبکہ لبرل ازم کا لادین ہونے یا دین بیزار ہونے سے کوئی تعلق نہیں۔ میں خود اپنے آپ کو لبرل سمجھتا ہوں اور میرے نزدیک لبرل ہونے کا مطلب یہ ہے کہ آپ انسان ہوں۔ لبرل کا کوئی بہترین معنی اگر آپ اردو میں کرنا چاہیں تو وہ متوازن یا میانہ رو ہے۔ اور میں اس لیے لبرل ہوں کہ میرے آقا صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میانہ روی اختیار کرو اور حد سے نا بڑھو۔ یہ اصول آپ کی زندگی کے ہر شعبے پر لاگو ہوتا ہے حتٰی کے دین پر بھی۔“

عمران خان کے ان بیانات میں تین باتیں قابل غور ہیں:

1۔عمران خان کا خود کو لبرل کہناتمام پاکستانی مسلمانوں کے لیے لمحہ فکریہ ہے کہ ایسا شخص پاکستان میں سیاست کے زور پر مسلمانوں پرمسلط ہوناچاہتا ہے جو خود کو برملالبرل کہتا ہے۔یہ عمران خان ابھی ملک کاوزیراعظم یا صدر نہیں بنا اورآئے دن اس کی کئی باتیں ایسی سامنے آتی ہیں جو غیرشرعی ہوتی ہیں،کبھی جہنم کی آگ کو میانوالی کی گرمی سےہلکاکہہ رہا ہوتا ہے ،کبھی کہتا ہے کہ80فیصد داڑھی والے دو نمبر ہیں اوربقیہ20 فیصد مشکوک ہیں (حالانکہ ان کے والد صاحب کی بھی داڑھی تھی)،ناچ گانے کے بغیراس کا کوئی جلسہ نہیں ہوتا۔اب ہرمسلمان کو یہ جان لینا چاہیےکہ اگریہ حکمران بن گیا تو سیکولرازم اورلبرل ازم عام کرے گا۔

2۔عمران خان کالبرل کی ایک خود ساختہ تعریف یہ کرنا کہ لبرل وہ ہوتا ہے جو میانہ روی والا ہو،بالکل غلط ہے۔لبرل کی یہ تعریف کسی اعتبارسے بھی درست نہیں۔اگرلبرل کا مطلب میانہ رو ہوتوپھرایک مسلمان اورلبرل میں کیا فرق رہ جائےگا؟

دراصل آٹھویں صدی عیسوی تک اس لفظ کا معنی ایک آزاد آدمی تھا۔بعد میں یہ لفظ ایک ایسے شخص کے لیے بولا جانے لگا جو فکری طور پر آزاد، تعلیم یافتہ اور کشادہ ذہن کا مالک ہو۔اٹھارھویں صدی عیسوی اور اس کے بعد اس کے معنوں میں خدا یا کسی اور مافوق الفطرت ہستی یا مافوق الفطرت ذرائع سے حاصل ہونے والی تعلیمات سے آزادی بھی شامل کر لی گئی، یعنی اب لبرل سے مراد ایسا شخص لیا جانے لگا جو خدا اور پیغمبروں کی تعلیمات اور مذہبی اقدار کی پابندی سے خود کو آزاد سمجھتا ہو۔

پاکستان میں موجود دیسی لبرل بھی خود کو مذہب سے آزاد سمجھتے ہیں، ان کا یہ وتیرہ ہے کہ ان کو صرف مذہب اسلام سے تکلیف ہے۔ ان کو یہودیت یا عیسائیت کے انتہائی متنازع عقائد تو قابل قبول ہیں تاہم اسلام کسی صورت قابل برداشت نہیں۔انہیں چرچ پرپورا دن گزارنے والے عیسائی اور پوری دنیا کو اپنے سے حقیر جاننے والے یہودی سے کوئی تکلیف نہیں، البتہ مسلمان کے 15 منٹ مسجد میں گزارنے کو فوراً وقت کا ضیاع قرار دے دیتے ہیں۔ان کودیگرمذاہب والے اپنی مذہبی حلیے میں جدت پسند اورمسلمان داڑھی میں شدت پسند لگتے ہیں۔پاکستانی میڈیا بالخصوص انگلش اخبارات کا مطالعہ کریں،ہر روز اسلام پر حملہ ایسے کیا جاتا ہے، جیسے دین ان کے گھر کی لونڈی ہو۔ ایسے جملے بھی پڑھنے کو مل جاتے ہیں، بقول ایک ’’ سیکولر مفکر‘‘’’اب ہمیں قرآن پاک سے اوپر ہو کر سوچنا چاہیے‘‘(نعوذ باللہ)۔ اپنے خودساختہ نظریات دوسروں پر تھوپنے والے سیکولر و لبرل دہشت گرد اسلام پر حملے کر کے مغرب کو تو خوش کر سکتے ہیں مگر وہ یہ بات بھول جاتے ہیں، مغرب کی طرف جا کر تو سورج بھی ڈوب جاتا ہے،بندہ کیا چیزہے؟ پاکستانی میڈیا کا ایک بڑا حصہ انہی سیکولراورلبرل نظریات کے حامل لوگوں کے ہاتھوں میں ہیں، جو پاکستان، اس کے عوام اور اسلام کو بدنام کرنے کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتے۔اگر کوئی خاتون اپنی مرضی سے خود کو بے نقاب کرے اور ان نام نہاد مفکروں سے روابط استوار کرے تو سب اچھا، لیکن اگر وہی خاتون اپنی مرضی سے پردے کا اہتمام کرے تو وہ چھوٹے اور بوسیدہ مائنڈ بلکہ بسا اوقات دہشت گرد بھی قرار پاتی ہے۔ پھر جب یہ لبرل طبقہ کسی کی عزت و آبرو پر حملہ کرتے ہیں تو بڑے فخریہ انداز میں بتاتے پھرتے ہیں تاہم جب معاشرہ ان کے ساتھ ویسا ہی سلوک کرے تو جل بھُن جاتے ہیں، اُس وقت ’’آزادی، ہر کسی کے لیے‘‘ جیسے نظریات کہاں چلے جاتے ہیں؟ اللہ تعالیٰ ہماری ماؤں بہنوں کی عزت و آبرو محفوظ رکھے اور ان لبرل لوگوں کے فتنے سے محفوظ فرمائے۔شدت پسندانہ نظریات کے ساتھ ساتھ لادینیت کو روکنا بھی اتنا ہی ضروری ہے کیونکہ اگر مذاہب کی دیوار ہٹا دی جائے تو دنیا کا ہر انسان وحشی اور درندہ بن جائے گا۔

3۔عمران خان کی تیسری بات کہ لبرل خون چاہتے ہیں یہ بالکل درست ہے۔لبرل لوگوں کا حال اورماضی دیکھیں تو یہ ثابت ہوتا ہے کہ لبرل لوگ خون چاہتے ہیں بالخصوص مسلمانوں کا اوراگریہ خون دیندارطبقے کا ہوتو یہ ان کے لیے سب سے زیادہ خوشی کا وقت ہوتا ہے۔ اس کی مثال فیض آباد میں جاری ختم نبوت کا دھرنا تھا کہ جب ان کے خلاف آپریشن ہوا تو سوشل میڈیا پر لبرل لوگ بہت خوش تھے ،اپنے کمنٹس میں گندی گفتگوکے ساتھ اس بات کے متمنی تھے کہ ان مولویوں کو خوب مار پڑےلیکن جب صورتحال الٹ ہوگئی اوربجائے قتل و غارت کے یہ مسئلہ افہام و تفہیم اور دینی جماعتوں کے حق میں ہوگیاتو لبرل لوگوں پرآسمان ٹوٹ پڑا۔پھرکیا ہونا تھا ہرسیکولر اورلبرل نے سوشل میڈیا پر دینی لوگوں کو دہشت گرد قرار دینا شروع کردیا اورپاک فوج کے خلاف زہراگلنا شروع کردیا،جو تاحال جاری ہے۔ ایک عام مسلمان بخوبی اندازہ لگا سکتا ہے کہ لبرل لوگوں کو شیطان کس طرح اپنے جال میں پھانس کر شیطانیت کو عام کرواتا ہے اور معاشرے میں بے دینی کے ساتھ ساتھ قتل و غار ت کرواتا ہے۔

چند تاریخی حوالہ جات پیش خدمت ہیں جن میں ثابت کیا جاتا ہے کہ سیکولر ولبرل لوگوں نے کس طرح خون کی ندیا ں بہائی ہیں:

٭ تاریخ کے بدترین و سفاک دہشت گرد چنگیز اور ہلاکومذہب سے بیزار مصدقہ لبرل تھے ۔

٭ یروشلم اور ہیکل سلیمانی تباہ و برباد کر کے لاکھوں افراد کا قتال کرنے والے بخت نصر، سائرس اعظم روش کبیر اور رومی جرنیل ٹائٹس بھی لا دین اور لبرل تھے ۔ ان ظالمین کا کسی بھی مذہب سے کوئی تعلق نہ تھا ۔

٭ زمانہ قبل مسیح میں انسانیت پر جبر کرنے والا شاہ بیلشضر، مذہب دشمن جرنیل ہولو فرنس اور عیسائیوں کو شیر چیتوں اور جنگلی کتوں کے سامنے ڈال کر لاشوں کی قندیلیں جلانے والا رومی شاہ نیرو بھی مذہب سے مکمل آزاد لبرل درندے تھے۔

٭ مذہب سے بغاوت کر کے عیاسئیوں کا قتل عالم کرنے والا وہ ہوگولینو بھی ایک کھلا سیکولر جرنیل تھا،جسے اس کے دو بیٹوں اور دو پوتوں کے ہمراہ گولانڈی مینار میں بند کر کے قید خانے کی چابیاں عیسائی کلیسا کے آرچ بشپ کے حکم پر دریا میں پھینک دی گئیں تھی۔ یہ اس بات کا اعلان تھا کہ کلیسا نے مذہب کے دشمن سیکولروں کو بھوک اور پیاس میں اکیلے مرنے کی اذیت ناک سزا دی ہے۔

٭ سیکولرازم کے بھائی کیمونزم کے انقلاب روس اور انقلاب فرانس میں قتل عام کرنے والے بھی مکمل لا دین اور پکے لبرل تھے۔ 21 جنوری کو شاہ فرانس اور 16 اکتوبر کو ملکہ کی سزائے موت کے بعد 10 نومبر 1793ء کو خدائی عبادت کیخلاف باقاعدہ قانون کا پاس کیا جانا اس امر کا اعلان تھا کہ انقلابِ فرانس مذہب کے عنصر سے آزاد سیکولر ہے۔

٭ ترکی کو یہودی سازشوں نے سیکولرازم کی اندھی غار میں دھکیل دیااور مورخین لکھتے ہیں کہ ترکی کا کمال اتاترک ایک یہودن کا ہی بیٹا تھاجس نے اسلامی شعائر کو ترکی سے ختم کرنے کی بھرپور کوشش کی اور اذان و نماز تک کو ترکی زبان میں اداکرنے کا حکم صادر کیااور عربی رسم الخط کی بجائے رومن رسم الخط میں ترکی زبان کا لکھنالازم کردیااور کوشش کی کہ خلافت سمیت ہر وہ رسم و نشان مٹا دیاجائے جس سے اسلامی دور اور اسلامی شعائر کی تازگی اجاگر ہوتی ہو۔ان لبرل ترک حکمرانوں نے یہودیوں کو اس وقت بھی بہت سہولیات فراہم کیں جب وہ دنیاکے مختلف خطوں سے فلسطین میں منتقل ہوناچاہ رہے تھے ، ’’موساد‘‘اسی زمانے کی ایک تنظیم ہے جسے بعد میں اسرائیل کی خفیہ اور بدنام زمانہ ایجنسی کانام دے دیاگیا۔اسرائیل کے قیام کے بعد 1949میں ترکی پہلامسلمان ملک تھاجس کے حکمرانوں نے اسرائیل کی ریاست کو تسلیم کرلیاتھا۔یوں یہ کہا جاسکتا ہے کہ لاکھوں فلسطینیوں کے خون میں ترک لبرل حکمرانوں کا بہت بڑاہاتھ ہے۔

٭احمد آباد سے لیکر کشمیر تک ریاستی دہشت گردی اور مسلمانوں پر ظلم و ستم کے پہاڑ ڈھانے والا عیار و مکار سیکولر بھیڑیا بھارت ہے۔

٭ملک شام میں 15مارچ2011کوایک بہت بڑامظاہرہ ہواجوریاست میں جاری خانہ جنگی کی بنیادہے۔عوام کاجائزمطابہ تھاکہ نصف صدی سے زائد قابض پارٹی کااستبدادی و ظالمانہ اقتدارختم کیاجائے اورغیرقانونی اور غیراخلاقی صدر بشار الاسدریاست کے سب سے بڑے منصب سے مستعفی ہو جائیں۔ عوامی مظاہروں میں آنے والی بے پناہ شدت کے باعث” سیکولرازم“کے پروردہ حکمرانوں نے شام کے تمام بڑے شہروں میں اسرائیل سے شکست خوردہ افواج کو تعینات کیااور حکم دیا کہ اپنی عوام پر کھلے عام گولیاں چلاؤ۔یہ سیکولرازم کا پڑھایاہوا سبق ہے جومسلمانوں کے سیکولرحکمران اپنی قوم پرآزماتے ہیں۔ مغربی استعمارکی تربیت یافتہ افواج جوآج بھی مسلمان ممالک میں دورغلامی کی باقیات کی صورت میں موجود ہیں،ان تمام افواج کی یہ قدر مشترک ہے کہ دشمن کے سامنے ہتھیارڈال کر ہاتھ اٹھادیتے ہیں اور اپنی ہی اقوام پر بندوقیں تان کر کھڑے ہوجاتے ہیں اور ہم وطنوں کے کشتوں پر پشتے لگاکر جشن فتح مناتے ہیں۔شام میں بھی وہاں کی سرکاری افواج اپنا یہی شرمناک کردار اداکرتی رہی ہیں۔

اقوام متحدہ اور دیگرآزاد ذرائع کے مطابق شام کا ”سیکولر“حکمران اپنے اقتدار کے تحفظ کے لیے پچیس ہزار سے زائد ہم وطن افراد کے خون سے اپنے ہاتھ رنگ چکاہے۔اقوام متحدہ کی ایک رپورٹ کے مطابق اب تک ڈیڑھ ملین شہریوں کو ملک بدر بھی کیاجا چکاہے۔ملک سے نکالے جانے والے شہریوں کی اتنی بڑی تعدادنے اپنے قریب ترین ممالک عراقی کردستان،اردن،لبنان اور ترکی کی سرحدوں پر مہاجرین کی حیثیت سے پناہ لے رکھی ہے اور کسمپرسی کی حالت میں زندگی کے دن گزاررہے ہیں۔

٭ لبرل امریکہ کی گزشتہ ستر سالوں کی وحشت و بربریت کی انتہائی مختصر داستان بھی ملاحظہ ہو: دوسری جنگِ عظیم کے اختتام پر امریکہ نے ایٹمی بربریت سے ہیروشیما اور ناگا ساکی میں چار لاکھ سے زائد لوگ ہلاک کر کے اپنے عالمی بدمعاش ہونے کا اعلان کیا ۔ پھر روس نے ایٹمی طاقت بن کر امریکی غلبے کو چیلنج کیا تو دنیا دو حصوں میں بٹ گئی، جسے کیمونزم اور کیپیٹل ازم کے ناموں سے معاشی نظام کی تقسیم کا نام دیا گیا۔ معاشی نظام کی یہی جنگ کروڑوں انسانوں کی موت اور کئی ملکوں کی بربادی کا باعث بنی۔ جاپان کے ہتھیار ڈالنے پر ویت نام نے آزادی کا اعلان کیا تو امریکہ نے اس پر حملہ کر کے جو مظالم ڈھائے وہ انسانیت سوزی کی تاریخ میں بدترین ہیں۔ بیس برس سے زائد عرصہ جاری رہنے والی اس جنگ میں ایک کروڑ ٹن بم برسا کر چونتیس لاکھ انسانوں کا قتل کیا گیا۔ تین کروڑ گیلن کینسر پھیلانے والا کیمیائی سپرے اور چار لاکھ ٹن نیپام بم برسائے گئے۔ 1963ء میں لاؤس اور کمبوڈیا کو بھی امریکہ کیلئے خطرہ قرار دیکر دس لاکھ لاؤسی شہری موت کے گھاٹ اتار دیے گئے۔ کمبوڈیا پر تیس لاکھ ٹن بارود گرا کر دس لا کھ بے گناہ شہری ہلاک کر دئے۔

جنوبی کوریا نے آزادی کا اعلان کیا تو امریکہ نے وہاں داخل ہو کر اپنی کٹھ پتلی حکومت قائم کروائی اور پانچ لاکھ لوگوں کے قتل کے بعد شمالی کوریا پر حملہ کر دیا ۔ کوریا کی اس جنگ میں امریکی بمباری سے تیس لاکھ کورین اور دس لاکھ چینی شہری لقمہ اجل بنے۔ لیکن امریکی خون آشامی یہیں ختم نہیں ہوئی 1979میں افغانستان پر روسی قبضے کیخلاف پاکستان کو استعمال کرنے کے بعد 1980ء میں عراق سے ایران پر حملہ کروایا گیا تو اس آٹھ سالہ جنگ میں دس لاکھ ایرانی اور پانچ لاکھ عراقی ہلاک ہو گئے۔ 1990ء میں کویت پر قبضے کیخلاف عراق پر مسلط جنگ میں بھی لاکھوں افراد زندگیاں ہار گئے۔ عالمی اداروں کے مطابق صرف عراق میں اب تک سولہ لاکھ عراقی مارے جا چکے ہیں۔ جبکہ افغانستان میں ”وار اگینسٹ ٹیرر“ میں بھی لاکھوں ہلاکتیں ہوئی ہیں ۔ یہ اس نام لبرل امریکہ کی داستان ہے جو افغانستان میں شیطانی کھیل اور پاکستانی معیشت کی تباہی اور پاکستانی عوام اور فوجی جوانوں کی پچاس ہزار شہادتوں کی قربانی کے بعد اب ساری قوت عراق و شام میں میں قتل و غارت کا بازار مزید گرم کرنے اور خطے میں پاکستان کے گرد گھیرا تنگ کرنے کے اگلے دجالی مشن پر نکلا ہے۔

یہ ہے ان لبرل لوگوں کے ظلم اوردہشت گردی سے بھری تاریخ،لیکن یہ الٹا مولویوں پردہشت گردی کا الزام لگاتے ہیں ۔

اپنا تبصرہ بھیجیں