مولوی طارق جمیل کا صحابہ کرام کے متعلق کفریہ عقیدہ اوردیوبندیوں کی پُر اسرار خاموشی

مولوی طارق جمیل کا صحابہ کرام کے متعلق کفریہ عقیدہ اوردیوبندیوں کی پُر اسرار خاموشی

پیشکش: صدائے قلب

چند دن پہلے دیوبندی مولوی امام المنافقین،پیشوائے صلح کلیت،صاحبِ مداہنت ،تبلیغ کے نام پر حرام کو حلال سمجھنے والا طارق جمیل کا ایک ویڈیو کلپ دیکھا جس میں وہ شیعوں کے پاس ملاقات کے لیے گیا اور شیعوں کوخوش کرنے کے لیے کہہ دیا کہ ”صحابہ کو کافر کہنے سے آدمی کافر نہیں ہوتا۔یہ اپنے ہی اکابر کے فتاویٰ میں میں نے پڑھا ہے۔ایک آدمی کہتا ہے کہ سارے صحابہ کرام کافر تھے تو اس پر اس کے کفر کا فتویٰ نہیں آئے گا۔ تکفیر صحابہ کے قائل کو کافر نہیں کہہ سکتے۔“

شرعی طور پر مولوی طارق جمیل کا یہ بیان کفریہ ہے کیونکہ کتبِ فقہ میں صحابہ کرام علیہم الرضوان کے متعلق اس طرح کے عقائد رکھنے والے کی فقہائے کرام نے تکفیر کی ہے۔صراحت ہے کہ جو فقط حضرت ابوبکر صدیق اور عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی خلافت یاصحابیت کا انکار کرے وہ کافر ہے۔ جب دو جید صحابہ کا منکر کافر ہے تو تمام صحابہ کو کافر کہنے والا کیسے مسلمان رہے گا!جب تمام صحابہ کو کافر کہنے والے کی تکفیر کی جائے گی تو جو اس کی تکفیر میں شک کرے وہ بھی کفر کا مرتکب ہوگا چنانچہ الزواجر عن اقتراف الكبائرمیں احمد بن محمد بن علی بن حجر ہيتمی(المتوفى974ھ)لکھتے ہیں”أو في تكفير كل قائل قولا يتوصل به إلى تضليل الأمة أو تكفير الصحابة “ ترجمہ:ہر اس شخص کی تکفیر میں شک کرنا بھی کفر ہے جس کی بات سے ساری اُمت کے گمراہ ہونے کا تأثرملتا ہو۔ نیز صحابہ کرام علیہم الرضوان کو کافر کہنے والے کے کفر میں شک کرنابھی کفر ہے۔

(الزواجر عن اقتراف الكبائر،الكبيرة الأولى الشرك الأكبر،جلد1،صفحہ47،دارالفکر،بیروت)

مگر حیرت ہے دیوبندی مولویوں پر جو خود کو حنفی کہتے ہیں لیکن طارق جمیل کے باطل نظریات کےمتعلق فقط اس لیے فتویٰ صادر نہیں کرتے کہ وہ ان کا ہم مسلک اور دیوبندیت کی تبلیغ کررہا ہے۔پھر دیوبندیوں کا گروہ”سپاہ صحابہ“جو ساری زندگی شیعوں کو گستاخِ صحابہ کہہ کر ان کی تکفیر اور قتل و غارت کرتا رہا ہے ،لیکن جب اپنے مولوی کا صحابہ کرام علیہم الرضوان کے متعلق ایسا باطل نظریہ سامنے آیا تو چپ ساد ھ لی۔کیا دیوبندیوں کو سب معاف ہے کہ وہ کسی کی شان میں جو مرضی کہہ دیں؟؟؟

اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ شیعوں کےدرمیان طارق جمیل نے یہ جملہ کیوں کہا۔اس کا جواب یہ ہے کہ طارق جمیل کی یہ عادت ہے کہ یہ چاپلوسی میں نمبر وَن ہے، وقت کا ظالم ترین حکمران یا چیف جسٹس یا کوئی فلمی ہیروئین یہ اس کے منہ پر جھوٹی تعریفیں کرتا ہی پایا گیا ہے۔شیعوں کا صحابہ کرام علیہم الرضوان بالخصوص حضرت ابوبکر صدیق ،عمر فاروق اور عثمان غنی رضی اللہ تعالیٰ عنہم کے متعلق یہ عقیدہ ہے کہ یہ معاذ اللہ کافر و مرتد تھے۔شیعوں کا یہ عقیدہ ان کی کثیر کتب سے عیاں ہے جس کوآگے پیش کیا جائے گا ۔طارق جمیل نے شیعوں کے اس باطل عقیدہ کو ان کی نظر میں صحیح ثابت کرنے کے لیے اور خود کو ان کی نظر وں میں اچھا اور امن پسند مولوی بننے کے لیے یہ کہہ دیا کہ ہمارے دیوبندی اکابر مولوی ایسے شخص کو کافر نہیں کہتے جو تمام صحابہ کو کافر کہے۔یعنی ایک نام نہاد مسلمان صحابہ کرام کی تکفیر کرے تو اس کے ایمان پر کوئی فرق نہیں پڑتا۔حالانکہ قرآن و حدیث اور علمائے اسلاف سے یہ عقیدہ بالکل واضح ہے کہ کسی ایک صحابی کی شان میں گستاخی کرنے والا شخص جہنمی ہے اور جو تمام صحابہ کو معاذ اللہ کافرکہے وہ کفر کا مرتکب ہوگا۔

قارئین کے سامنے اب پہلے شیعوں کی کتب سے چند حوالے پیش کیے جاتے ہیں کہ ان لوگوں کے صحابہ کرام علیہم الرضوان کے متعلق کیا عقیدہ تھا ۔پھر احادیث اور مستند فقہی کتب سے صحابہ کرام کی عظمت اور ان کے گستاخوں کے متعلق چند حوالہ جات پیش کیے جاتے ہیں اور آخر میں دیوبندی مولویوں کے بھی شیعوں اور گستاخِ صحابہ کے متعلق ہونے والے جاری فتاویٰ کو پیش کیا جاتا ہے اور فیصلہ قارئین پر چھوڑ ا جاتا ہے کہ اس مکمل تحریر کی روشنی میں فیصلہ کریں کہ طارق جمیل صلح کلیت کی کس حد تک پہنچ چکا ہے۔

شیعوں کے صحابہ کرام علیہم الرضون کے متعقل عقائد:

فروغ کافی جلد3،صفحہ115میں ہے اورشیعہ مولوی مقبول دھولوی تفسیر قرآن میں لکھتا ہے:”امام باقر سے مروی ہے کہ بعدجناب رسول اللہ کے سوائے تین شخصوں کے اور سب مرتد ہوگئے۔سوال کیا گیا کہ وہ تین کون تھے فرمایا: سلمان،ابوذر،مقداد۔“

(قرآن مجید مترجم،صفحہ134،افتخار بکڈپو،لاہور)

کلید مناظرہ میں ہے :”اصحاب رسول گدھوں کی طرح زنا کررہے ہیں اور ہرطرف زنا کی گرم بازاری ہے ۔“

(کلید مناظرہ، صفحہ402)

غلام حسین نجفی شیعہ کی کتاب میں مذکور ہے:” ابوبکر ، عمر، عثمان کی خلافت کے بارے میں جو شخص یہ عقیدہ رکھتا ہے کہ یہ خلافت حق ہے وہ عقیدہ بالکل گدھے کے عضو تناسل کی مثل ہے کیونکہ جیسی خلافت ہو اس کے لیے ویسا ہی عقیدہ چاہیے۔“

(حقیقت فقہ حنفیہ درجواب حقیقت فقہ جعفریہ،صفحہ72،جامع المنظر ایچ بلاک ماڈل ٹاؤن ،لاہور)

مناظرہ مصر میں حسین بخش جاڑا شیعہ لکھتا ہے:”بے شک شیعوں کا عقیدہ یہ ہے کہ یہ لوگ (ابوبکرصدیق،عمر فاروق اور عثمان غنی)دل و جان سے مومن نہیں تھے ۔البتہ ظاہرا زبانی طور پر وہ اسلام کا اظہار کرتے تھے۔“

(مناظرہ مصر،صفحہ57)

فتوحات شیعہ میں محمد اسماعیل لکھتا ہے:”اولا ایمان کامل شرط ہے ،مگر ایمان ثلاثہ(ابوبکرصدیق، عمر فاروق ،عثمان غنی) ثابت نہیں۔ شرائط ایمان سامنے رکھیے اور اپنے خلفاء کا ایمان ثابت کیجئے۔“

(فتوحات شیعہ،صفحہ60،مبلغ اعظم اکیڈمی،خوشاب)

فروع کافی میں ہے :”ابوبکر اور عمر بغیر توبہ دنیا سے چلے گئے اور انہوں نے جو کچھ حضرت علی سے کیا اس کاا نہوں نے کبھی ذکر تک نہ کیا۔ سوان دونوں پر اللہ کی لعنت ، فرشتوں کی لعنت ، اور تمام لوگوں کی ۔“(استغفراللہ )

( فروع کافی، کتاب الروضہ ،ص 115)

عین الحیوۃ میں ہے:”چاہیے کہ ہرنماز کے بعد کہے اے اللہ: ابوبکر،عمر،عثمان،معاویہ اور عائشہ،حفصہ اور ہند اور ام الحکم پر لعنت کر ۔“

(عین الحیوۃ ،ص599)

حقیق الیقین میں ہے :”ابو بکر و عمر دونوں کافر اور جو ان سے محبت رکھے وہ بھی کافر ۔“(معاذ اللہ)

(حق الیقین، ص 690)

شیعوں کی عقیدہ میں سے ہے کہ امام مہدی حضرت ابوبکر صدیق اور عمرفاروق رضی اللہ عنہما کو زندہ کریں گے اور انہیں پھانسی دے کر جلائیں گے، پھر وہ امّ المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا کو زندہ کریں گے اور ان پر حد قائم کریں گے۔

(دیکھیں: کتاب ( الرجعۃ)لاحمد احسائی ،ص116، 161)

اہل سنت وجماعت کے عقائد:

اہل سنت کے نزدیک تمام صحابہ شان و عظمت والے اورعادل ہیں کسی ایک صحابی کی شان میں گستاخی کرنا بھی ناجائز و حرام ہے۔قرآن پاک کی کثیر آیات صحابہ کرام علیہم الرضوان کی شان میں وارد ہیں چنانچہ قرآ ن پاک میں ہے﴿وَالسّٰبِقُوۡنَ الۡاَوَّلُوۡنَ مِنَ الْمُہٰجِرِیۡنَ وَالۡاَنۡصَارِ وَالَّذِیۡنَ اتَّبَعُوۡہُمۡ بِاِحْسَانٍ ۙ رَّضِیَ اللہُ عَنْہُمْ وَرَضُوۡا عَنْہُ وَ اَعَدَّ لَہُمْ جَنّٰتٍ تَجْرِیۡ تَحْتَہَا الۡاَنْہٰرُ خٰلِدِیۡنَ فِیۡہَاۤ اَبَدًا ؕ ذٰلِکَ الْفَوْزُ الْعَظِیۡمُ﴾ترجمہ کنزالایمان:اور سب میں اگلے پہلے مہاجر اور انصار جو بھلائی کے ساتھ ان کے پَیرو ہوئے اللہ ان سے راضی اور وہ اللہ سے راضی اور ان کے لئے تیار کر رکھے ہیں باغ جن کے نیچے نہریں بہیں ہمیشہ ہمیشہ ان میں رہیں یہی بڑی کامیابی ہے۔

(سورۃ التوبۃ،سورۃ9،آیت100)

ایک مقام پر ہے﴿مُحَمَّدٌ رَّسُوۡلُ اللہِ ؕ وَ الَّذِیۡنَ مَعَہٗۤ اَشِدَّآءُ عَلَی الْکُفَّارِ رُحَمَآءُ بَیۡنَہُمْ تَرٰىہُمْ رُکَّعًا سُجَّدًا یَّبْتَغُوۡنَ فَضْلًا مِّنَ اللہِ وَ رِضْوٰنًا ۫ سِیۡمَاہُمْ فِیۡ وُجُوۡہِہِمْ مِّنْ اَثَرِ السُّجُوۡدِ﴾ترجمہ کنزالایمان:محمّد اللہ کے رسول ہیں اور ان کے ساتھ والے کافروں پر سخت ہیں اور آپس میں نرم دل ۔تو انہیں دیکھے گا رکوع کرتے سجدے میں گرتے،اللہ کا فضل و رضا چاہتے،ان کی علامت ان کے چہروں میں ہے سجدوں کے نشان سے۔

(سورۃ الفتح،سورۃ48،آیت29)

نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی کثیر احادیث صحابہ کرام علیہم الرضوان کی عظمت پر موجود ہیں اور آپ علیہ السلام نے سختی کے ساتھ ان کی شان میں زبان درازی سے منع کیا ہے ۔چنداحادیث پیش خدمت ہیں:

٭حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا فرمانِ عالیشان ہے:’’بے شک اللہ عَزَّوَجَلَّ نے مجھے منتخب فرمایا اور میرے لئے صحابہ منتخب فرمائے اور ان میں سے میرے لئے وزیر، انصار اور رشتہ دار بنائے، لہٰذا جس نے ان کو گالی دی اس پر اللہ عَزَّوَجَلَّ، فرشتوں اور تمام لوگوں کی لعنت ہے۔ اللہ عزوجل قیامت کے دن اس کے نہ تو نفل قبول فرمائے گا اور نہ ہی فرض۔“

(المعجم الکبیر،الحدیث:349،ج17،ص140)

٭سرکارِ مدینہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:’’بے شک اللہ عزوجل نے مجھے منتخب فرمایا اور میرے لئے صحابہ منتخب فرمائے اور بھائی، دوست اور رشتہ دار بنائے، عنقریب اِن کے بعد ایسی قوم آئے گی جو انہیں عیب لگائے گی اور اُن سے نفرت کرے گی،لہٰذا تم نہ ان کے ساتھ کھانا، نہ پینا، نہ ان کے ساتھ ازدواجی رشتہ قائم کرنا، نہ اُن کے ساتھ نماز پڑھنا اور نہ ہی ان کے پیچھے نماز پڑھنا۔“

(جمع الجوامع للسیوطی،قسم الاقوال،حرف الھمزۃ، الحدیث:5224ج2،ص228)

٭نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:’’میرے صحابہ کے متعلق اللہ عَزَّوَجَلَّ سے ڈرنا،میرے بعد انہیں طعن وتشنیع کا نشانہ نہ بنا لینا۔ جس نے ان سے محبت کی تو اس نے مجھ سے محبت کی وجہ سے ان سے محبت کی اور جس نے ان سے بغض رکھا تواس نے مجھ سے بغض رکھنے کی وجہ سے ان سے بغض رکھا اور جس نے انہیں اذیت دی اس نے مجھے اذیت دی اور جس نے مجھے اذیت دی اس نے اللہ عَزَّوَجَلَّ کو اذیت دی اور جس نے اللہ عَزَّوَجَلَّ کو اذیت دی قریب ہے کہ وہ اس کی پکڑ فرما ئے۔‘‘

(جامع الترمذی، ابواب المناقب، باب فی من سبّ أصحاب النبی، الحدیث:3862)

٭نبی پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا:’’اے ابو بکر! جس نے تجھے گالی دی اُس نے کفر کیا۔‘‘

(جہنم میں لے جانے والے اعمال،جلد2،صفحہ834،مکتبۃ المدینہ ،کراچی)

فقہائے کرام کے کلام کا خلاصہ یہ ہے کہ صحابہ کرام علیہم الرضوان کی تعظیم و تکریم محبوبِ رب العباد عزوجل و صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کوانتہائی محبوب و مطلوب اور انہیں معاذ اللہ عزوجل برا کہنا،لعن طعن کر نا بدرجہ غایت مذموم(یعنی انتہائی بُراہے)،کہنے والے گمراہ و بدمذہب اور بحکمِ حدیث ملعون ہیں اورخصوصاًحضراتِ شیخین(حضرت ابو بکر صدیق اور حضرت عمر فاروق) رضی اﷲ تعالیٰ عنہما کی شان پاک میں سب و شتم کرنا، تبرا کہنافقہاء کرام کے نزدیک کفر ہے۔فتاوٰی خلاصہ وفتح القدیر وعالمگیریہ وغیرہا میں ہے” الروافض ان فضل علیا علی غیرہ فہو مبتدع وان انکر خلافۃ الصدیق فہو کافر“ترجمہ: اگر رافضی (کٹر شیعہ) جناب علی کو دوسرے خلفاء پر فضیلت دے تو وہ بدعتی ہے، لیکن اگر حضرت ابوبکر صدیق کی خلافت کا انکار کرے تو پھر وہ کافر ہے۔

( فتاوٰی ہندیہ ،کتاب السیر ،باب احکام المرتدین،جلد2،صفحہ264، نورانی کتب خانہ، پشاور)

طحطاوی علی مرقی الفلاح مطبع مصر ۱۹۸ میں ہے”ان انکر خلافۃ الصدیق کفر و الحق فی الفتح عمر بالصدیق فی ھذا الحکم والحق فی البرھان عثمان بھما ایضا ولا تجوز الصلوۃ خلف منکر المسح علی الخفین او صحبۃ الصدیق ومن یسب الشیخین اویقذف الصدیقۃ ولا خلف من انکر بعض ماعلم من الدین ضرورۃ لکفرہ ولا یلتف الٰی تاویلہ و اجتھادہ“ یعنی خلافتِ صدیق رضی اللہ تعالیٰ کا منکر کافرہے اور فتح القدیر میں فرمایا کہ خلافتِ فاروق رضی اللہ تعالیٰ کا منکر بھی کفر ہے، اور برہان شرح مواہب الرحمن میں فرمایا خلافت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا منکر بھی کافر ہے اور نماز اس کے پیچھے جائز نہیں جو مسحِ موزہ یا صحابیتِ صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا منکر ہو یا شیخین رضی اللہ تعالیٰ عنہما کو بُرا کہے یاعائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا پر تہمت رکھے، اور نہ اس کے پیچھے جو ضروریات دین سے کسی شے کا منکر ہو کہ وہ کافر ہے اور اُس کی تاویل کی طرف التفات نہ ہوگا نہ اس جانب کہ اس نے رائے کی غلطی سے ایسا کہا۔

( طحطاوی علی مراقی الفلاح،باب الا مامۃ ،صفحہ165، نور محمد کارخانہ تجارت کتب کراچی)

بلکہ بہت اکابر نے تصریح فرمائی کہ رافضی تبرائی ایسےکافر ہیں جن کی تو بہ بھی قبول نہیں چنانچہ تنویر الابصار متن درمختار میں ہے”کل مسلم ارتد فتو بتہ مقبولۃ الا الکافر بسب النبی اوالشیخین او احدھما“ترجمہ: ہر مرتد کی توبہ قبول ہے مگر وہ جو کسی نبی یا حضرات الشیخین (ابوبکر صدیق و عمر فاروق)یا ان میں ایک کی شان میں گستاخی سے کافر ہو۔

( درمختار، کتاب الجہاد، باب المرتد،جلد1،صفحہ356، مطبع مجتبائی ،دہلی)

درمختار میں ہے” فی البحر عن الجو ھرۃ معزیا للشھید من سب الشیخین اوطعن فیھما کفر ولا تقبل توبتہ وبہ اخذ الدبوسی وا بو اللیث وھوا لمختار للفتوی انتھی وجزم بہ الاشباہ واقر ہ المصنف“ یعنی بحرالرائق میں بحوالہ جوہر ہ نیرہ شرح مختصر قدوری امام صدر شہید سے منقول ہے جو شخص حضرات شیخین (ابوبکر صدیق و عمر فاروق)رضی اللہ تعالیٰ عنہما کو بُرا کہے یا اُن پر طعن کرے وہ کافر ہے، اس کی توبہ قبول نہیں،اور اسی پر امام دبوسی اور امام فقیہ ابواللیث سمر قندی نے فتوٰی دیا، اور یہی قول فتوٰی کے لئے مختار ہے ، اسی پر اشباہ میں جزم کیا، اور علامہ شیخ الاسلام محمد بن عبداللہ غزی تمر تاشی نے اسے برقرار رکھا۔

(درمختار شرح تنویر الابصار، باب المرتد ،جلد1،صفحہ357، مطبع مجتبائی ،دہلی)

اعلیٰ حضرت امام احمد رضاخان علیہ رحمۃ الرحمن فرماتے ہیں:” تحقیق مقام و تفصیل مرام یہ ہے کہ رافضی تبرائی جو حضرات شیخین صدیق اکبر و فاروق اعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہما خواہ اُن میں سے ایک کی شان پاک میں گستاخی کرے اگرچہ صرف اس قدرکہ انھیں امام و خلیفہ بر حق نہ مانے۔ کتب معتمدہ فقہ حنفی کی تصریحات اور عامہ ائمہ ترجیح و فتوٰی کی تصحیحات پر مطلقاً کافر ہے۔درمختار مطبوعہ مطبع ہاشمی صفحہ۶۴ میں ہے” ان انکربعض ما علم من الدین ضرورۃ کفربھا کقولہ ان اﷲ تعالٰی جسم کالاجسام وانکارہ صحبۃالصدیق“اگر ضروریاتِ دین سے کسی چیز کا منکر ہو تو کافر ہے مثلاً یہ کہنا کہ اللہ تعالیٰ اجسام کے مانند جسم ہے یا صدیقِ اکبر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی صحا بیت کا منکر ہونا۔

طحطاوی حاشیہ در مطبوعہ مصر جلد اول ص ۲۴۴ میں ہے” وکذاخلا فتہ “اور ایسے ہی آپ کی خلافت کا انکار کرنابھی کفر ہے۔۔۔۔

فتاوٰ ی بزازیہ سے ہے” ویجب اکفارھم باکفار عثمان و علی وطلحۃ و زبیر و عائشۃ رضی اﷲ تعالٰی عنہم“ رافضیوں، ناصبیوں اور خارجیوں کا کافر کہنا واجب ہے اس سبب سے کہ وہ امیرالمومنین عثمان و مولی علی و حضرت طلحہ و حضرت زبیر و حضرت عائشہ رضی اللہ تعالٰی عنہم کو کافرکہتے ہیں۔“

(فتاویٰ رضویہ،جلد14،صفحہ251۔۔،رضافاؤنڈیشن،لاہور)

امام عبد القاھر البغدادی التمیمی الاسفرايینی (المتوفى429ھ) لکھتے ہیں”وأما أهل الأهواء من الجارودية والهشامية والجهمية والإمامية الذين كفروا خيار الصحابة .. فإنا نكفرهم، ولا تجوز الصلاة عليهم عندنا ولا الصلاة خلفهم“ترجمہ:گمراہوں میں سے جاوردیہ، ہشامیہ، جہمیہ اور امامیہ (شیعہ) جنہوں نے صحابہ کرام کی مایہ ناز ہستیوں کی تکفیر کا ارتکاب کیا۔۔۔ ہم ان کو کافر قرار دیتے ہیں اور ہمارے نزدیک نہ ان کی نماز جنازہ پڑھنا جائز ہیں اور نہ ہی ان کے پیچھے نماز پڑھنا جائز ہے۔

(کتاب الفرق بين الفرق، صفحہ350،دار الآفاق الجديدة ، بيروت (

امام قاضی ابو یعلی لکھتے ہیں”وأما الرافضة فالحكم فيهم .. إن كفر الصحابة أو فسقهم بمعنى يستوجب به النار فهو كافر“ترجمہ:رافضیوں کے بارے میں حکم یہ ہے کہ بلاشبہ صحابہ کو کافر یا فاسق قرار دینے کا مطلب یہ ہے کہ ان کے اپنے اوپر ہی جہنم واجب ہوجاتی ہیں اور وہ خود کافر ہیں۔

(کتاب المعتمد، صفحہ: 267(

امام عبد الكريم بن محمد بن منصور التميمی السمعانی(المتوفى562ھ)فرماتے ہیں”واجتمعت الأمة على تكفير الإمامية، لأنهم يعتقدون تضليل الصحابة وينكرون إجماعهم وينسبونهم إلى ما لا يليق بهم“ترجمہ:ساری امت امامیہ (شیعوں) کے کافر ہونے پر متفق ہے کیونکہ یہ صحابہ کو گمراہ سمجھتے ہیں، ان کے اجماع کے منکر ہیں اور ان کی طرف ایسی چیزوں کو منسوب کرتے ہیں جو ان کے شان شایان نہیں ہیں۔

(کتاب الانساب، جلد 6، صفحہ365،مجلس دائرة المعارف العثمانية، حيدر آباد)

شیخ سرہند حضرت مجدِّد الف ثانی رحمۃ اللہ علیہ اپنے ایک رسالہ ”رد روافض “ فرماتے ہیں: ’’اس میں شک نہیں کہ ابوبکر و عمر رضی اللہ عنہما صحابہ میں سب سے افضل ہیں، پس یہ بات ظاہر ہے کہ ان کو کافر کہنا ان کی کمی بیان کرنا کفر و زندیقیت اور گمراہی کا باعث ہے۔‘‘

(ردّ روافض،صفحہ31)

بہارشریعت میں ہے:” حضراتِ شیخین رضی اﷲتعالیٰ عنہماکی شان پاک میں سب و شتم کرنا، تبرا کہنایا حضرت صدیق اکبر رضی اﷲتعالیٰ عنہ کی صحبت یا امامت و خلافت سے انکار کرنا کفر ہے۔“

(بہارشریعت،حصہ9،صفحہ463،مکتبۃ المدینہ،کراچی)

مفسرشہیر، حکیم الامت مفتی احمد یار خان نعیمی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: ” (نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا)میرا دل چاہتا ہے کہ ابوبکر صدیق کو ان کے بیٹے عبدالرحمن کے ساتھ بلاکر باقاعدہ ابوبکر کو اپنا خلیفہ جانشین کردوں اور ان کے ولی عہد ہونے کا عبدالرحمن کے گواہ ہونے کا اعلان کردوں۔ (پھر سوچا کہ) ابوبکر صدیق کی خلافت کا ارادہ الٰہی ہوچکا ہے وہ میری خلافت کے لئے منتخب ہوچکے ہیں۔ نیز مسلمانوں کے دل کہیں گے کہ میرے بعد خلیفہ وہی ہوں اس لئے میں ان کی خلافت کا اعلان نہیں کرتا۔ خیال رہے کہ حضور انورصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے عملی طور پر حضرت صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو اپنا ولی عہد کردیا تھا کہ اپنے سامنے آپ کو اپنے مصلے پر کھڑا کر دیا، مسلمانوں کا امام بنادیا یہ امامت گویا آپ کی دستار خلافت تھی۔ حضورصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے دستار بندی خود کردی تھی، صراحتہً اعلان نہیں کیا تاکہ ولی عہد بنانے کا یہ بھی ایک طریقہ رہے بلکہ حجۃ الوداع سے ایک سال پہلے حج میں حضور علیہ السلام نے حضرت صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو ہی اپنا نائب بناکر سورۂ توبہ کے احکام کا اعلان کرنے بھیجا کہ آیندہ سے کوئی مشرک حج نہ کرے کوئی ننگا طواف نہ کرے۔ ان امور سے معلوم ہورہا ہے کہ حضرت صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا خلافت کے لئے انتخاب اللّہ عزوجل کی طرف سے تھا۔ مسلمانوں کا اس پر اجماع ہوا حضور انورصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس کی عملی وضاحت فرمادی۔ لہٰذا اس خلافت کا انکار کفر ہے۔“ (مراٰۃ المناجیح، جلد8، صفحہ305)

وہابیوں کاامام شوکانی لکھتا ہے”إن أصل دعوة الروافض كياد الدين ومخالفة الإسلام وبهذا يتبين أن كل رافض خبيث يصير كافرا بتكفيره لصحابي واحد فكيف بمن يكفر كل الصحابة واستثنى أفرادا يسيره“ ترجمہ:رافضیوں کی دعوت (منہج) کی اصلیت ہی دین کیخلاف سازش اور اسلام کی مخالفت کرنے پر مبنی ہے۔ اس سے واضح ہوتا ہے کہ ہر رافضی (شیعی) خبیث ایک صحابی کی تکفیر کرنے کی وجہ سے کافر ہوجاتا ہے تو اس کا کیا حال ہوگا جو تمام صحابہ کو کافر کہتا ہوں اور چند صحابہ کو کفر سے مستثنی قرار دیتا ہو۔

(كتاب نثر الجوهر على حديث أبي ذر)

ابن ِ تیمیہ نے ’’الصارم المسلول‘‘ میں نقل کیا ہے:’’فقہائے کوفہ نے صحابہ کرام کو گالی دینے والے کو قتل کرنے اور رافضہ کو کافر قرار دینے کا قطعی فتویٰ دیا ہے۔محمد بن یوسف فریابی سے حضرت ابو بکرصدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کوگالی دینے والے کے بارے میں پوچھا گیا تو انہوں نے فرمایا ’’وہ کافر ہے ، اسکا جنازہ نہیں پڑھا جا ئے گا ، نہ ہاتھ لگایا جائے گا بلکہ اسے کسی لکڑی کے ذریعے گڑھے میں ڈال کر بند کردیا جائے گا۔“قاضی ابو یعلیٰ نے کہا ہے ’’فقہاء کے نزدیک جو شخص حلال سمجھ کر صحابہ کو گالی دے وہ کافر ہے اور جو حلال تو نہ سمجھے مگر گالی دے ،وہ فاسق ہے۔‘‘اور اپنافیصلہ دیتے ہوئے امام ابن ِ تیمیہ نے لکھا:’’جو شخص حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو الٰہ یا نبی سمجھے اور یہ یقین رکھے کہ حضرت جبرائیل علیہ السلام غلطی سے وحی ورسالت نبی ﷺ کو دے گئے تھے اور صحابہ کو گالی دے ،وہ کافر ہے اور اسے کافر کہنے میں توقف کرنے والا بھی کافر ہے اور جو شخص قرآن ِکریم کو ناقص قرار دے یا باطنی تاویلات کا زعم رکھے جیسا کہ قرامطہ ، باطنیہ اور تناسخیہ کا خیال ہے تو وہ بھی کافر ہے ، جو شخص صحابہ پر بخل ، بزدلی ، کم علمی اور عدم ِ زہد کا الزام لگائے وہ کافر تو قرار نہیں دیا جائے گا مگر وہ سزا وار ِ تعزیر ہے ۔مطلق لعن طعن کرنے والوں میں سے جو شخص یہ عقیدہ رکھے کہ نبی ﷺ کی وفات کے بعد 10،15 صحابہؓ کے سوا باقی سب مرتد یا فاسق ہوگئے تھے ،وہ بھی کافر ہے اور ان کے کفر میں شک کرنے والا بھی کافرہے ۔الغرض گالی دینے والوں میں سے کچھ صاف کافر ہیں اور بعض کے کفر میں تردّد کیا گیا ہے اور بعض پر کفر کا حکم نہیں لگایا جا سکتا ۔‘‘

(الصارم المسلول (

دیوبندی مولویوں کا فتویٰ:

دیوبندی جامعہ بنوری ٹاؤن کا فتوی ملاحظہ ہو:

صحابہ اکرام رضوان اللہ علیہم اجمعین خصوصاً خلافاءِ ثلاثہ کو کافر سمجھنے والا مسلمان یا مؤمن ہو سکتا ہے؟

جواب:واضح رہے کہ اللہ رب العزت نے صحابہ کرام کے ایمان کو معیارِ حق قرار دیتے ہوئے بعد میں آنے والوں کی کامیابی کو ان پاکیزہ نفوس کی طرح ایمان لانے سے مشروط کیا ہے، ارشاد ہے:﴿ فَإِنْ اٰمَنُوْا بِمِثْلِ مَآ اٰمَنْتُمْ بِهٖ فَقَدِ اهْتَدَوْا ﴾اگر وہ ایمان لائے جیسا کہ تم (اصحاب رسول) ایمان لائے ہو تو وہ ہدایت پالیں گے۔ (البقرۃ:137)

پس صحابہ کرام میں سے کسی کی تنقیص کرنا یا ان کو کافر قرار دینا جب کہ اللہ رب العزت نے ان کے بارے میں ﴿رضی الله عنهم ورضواعنه﴾ کا فرمان صادر کیا ہے، اہلِ سنت و الجماعت کے اجماعی عقیدے سے منحرف ہونا ہے، اور شیخین کے علاوہ دیگر صحابہ کو کافر قرار دینے والا شخص اہلِ ضلال میں سے اور گمراہ ہے، جب کہ حضراتِ شیخین(خلیفہ اول حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ اور خلیفہ ثانی حضرت عمر رضی اللہ عنہ) کو گالی دینا اور حضرت ابوبکر صدیقِ رضی اللہ عنہ کی صحابیت کا انکار کفر ہے۔ جیساکہ ”فتاوی شامی“ میں ہے”نقل عن البزازية عن الخلاصة: أن الرافضي إذا كان يسب الشيخين و يعلنها فهو كافر… و سب أحد من الصحابة و بغضه لا يكون كفراً لكن يضلل“

(مطلب مهم في حكم سب الشيخين ٤/ ٢٣٧)

سعيد: فقط واللہ اعلم

(فتوی نمبر : 143908200371)

(صحابہ کو کافر کہناhttp://www.banuri.edu.pk/readquestion/2018/05/06))

دارالعلوم دیوبندانڈیا کا فتویٰ ہے:

سوال:اگر کو آدمی کسی بھی صحابی کو کافر کہہ دے تو کیا وہ دائرے اسلام میں رہے گا یا نہیں رہے گا؟

جواب:صحابی رسول کو کافر کہنے والا رافضی، کافر، نصوص قطعیہ کا منکر ہے، وہ دائرہٴ اسلام سے خارج ہے۔

واللہ تعالیٰ اعلم

دارالافتاء،دارالعلوم دیوبند

(Fatwa ID: 869-865/B=9/1436-U)

دیوبندی کی ایک ویب سائیٹ میں ہے:

س… زید کہتا ہے کہ صحابہ کرام کو کافر کہنے والا شخص ملعون ہے، اہل سنت والجماعت سے خارج نہ ہوگا۔ عمر کا کہنا ہے کہ صحابہ کرام کو کافر کہنے والا شخص کافر ہے، کس کا قول صحیح ہے؟

ج… صحابہ کرام کو کافر کہنے والا کافر اور اہل سنت والجماعت سے خارج ہے۔

(http://alasirchannel.blogspot.com/2012/06/blog-post_945.html)

معلوم ہوا کہ صحابہ کرام علیہم الرضوان بالخصوص حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی شان میں گستاخیاں کرنا،ان کی تکفیر کرنا اور ان کی خلافت کا انکار کرنا کفر ہے اور اس پر اہل سنت سمیت وہابی اور دیوبندی مولویوں کے کثیر فتاویٰ موجود ہیں۔اب شیعہ ہو یااور کوئی جو صحابہ کرام علیہم الرضوان کی تکفیر کرے وہ عند الفقہاء خود کافر ہے اور طارق جمیل جیسا کوئی مولوی صحابہ کی تکفیر کرنے کو کفر نہ جانے بلکہ اپنے کلام سے شیعہ کے عقائد کی تائید کرے وہ خود کفر کا مرتکب ہے۔

میری اس تحریر کو اگر کوئی دیوبندی پڑھے تو اس کو چاہیے کہ طارق جمیل سے پوچھے کہ تمہارے کون سے اکابر مولوی ہیں جنہوں نے صحابہ کرام کو کافر کہنے والوں کی تکفیر نہیں کی۔اگر وہ نہ اپنے مولویوں کا حوالہ پیش کرے اور نہ اپنے باطل مؤقف سے رجوع و توبہ کرے تو جان جاؤ کہ طارق جمیل اس موجودہ دور کا بہت بڑا جاہل ،جھوٹا،مکار اورمنافق شخص ہے۔

نوٹ: یہ آرٹیکل جب لکھ کر راقم نے شیئر کیا تو ایک میرے عالم دوست نے مجھے فرمایا کہ طارق جمیل نے صحابہ کرام کے بارے میں جو یہ بیان دیا تھا وہ شیعوں کے پاس جاکر نہیں دیا تھا بلکہ اس کلپ میں اس بیان کو سیٹ کیا گیا ہے ۔اس کا مزید یہ کہنا تھا کہ طارق جمیل نے بعد میں اپنے اس بیان سے توبہ کرلی تھی۔ لیکن راقم نے ابھی تک اس کی اس توبہ والی ویڈیو کو نہیں دیکھا ہے۔واللہ اعلم۔

اپنا تبصرہ بھیجیں