عاصمہ جہانگیر کی زندگی اور موت شریعت کے آئینے میں

عاصمہ جہانگیر کی زندگی اور موت شریعت کے آئینے میں

پیشکش: صدائے قلب

کافی دنوں سے عاصمہ جہانگیر کے متعلق مختلف تحریرات آرہی ہیں،جس میں اس کی زندگی اور اس کے مرنے کے بعدجو کچھ جنازے میں ہوا اس پر اہل علم حضرات،عوام ،تجزیہ کار اورسیکولرلوگ اپنا اپنا نظریہ پیش کررہے ہیں۔ایک بڑی تعداد نے عاصمہ کو دین وملک کا دشمن قرارد یا اور اس کے جنازہ میں مردوں کے ساتھ عورتوں کی شرکت کو خلاف شرع کہا۔ بعض مولویوں کا یہ موقف بھی نظر سے گزرا کہ عورتوں کا مردوں کے ساتھ جنازے میں شریک ہوناجائز ہے۔تجزیہ کار اور سیکولر قسم کے لوگوں نے عاصمہ کی ملک اور دین کے متعلق بغض سے بڑی حرکات و تقاریر کو نظر انداز کرکے اس کے چندویلفیئر زکے افعال کو ( جو اس نے کفار سے ایڈ لینے کے لیےگھڑے ہوئے تھے۔)دلیل بناکر اس کو انسانیت کی محسن قرار دیا۔ اس موقع پر یہ ضروری سمجھا گیا کہ مختصر انداز میں ایک تحریرلکھی جائے جس میں اس کی ذات اور اس کے جنازہ کو شرعی اصولو ں پر پرکھاجائے تاکہ اہل علم حضرات سے جب عاصمہ جہانگیر اور جنازہ میں عورتوں کے شریک ہونے کے حوالے سے پوچھا جائے تو ان کو اس حوالے سے معلومات ہوں۔سب سے پہلے عاصمہ جہانگیر کے والد کے کردار کو پیش کیا جاتا ہے تاکہ قارئین یہ جان سکیں کہ یہ ایک غدار باپ کی غدار بیٹی ہے۔

عاصمہ جہانگیر کا والد:عاصمہ جہانگیر کا والد ملک غلام جیلانی ایوب خان کے دور میں وفاقی وزیر تھا، اس سے پہلے وہ اسٹیبلیشمنٹ کمشنر بھی رہا ، اسکے علاوہ ساہیوال میں انگریزوں کی گھوڑے پال سکیم میں سینکڑوں ایکڑ سرکاری زمین بھی الاٹ کرائی تھی۔

٭ملک غلام جیلانی بنگلہ دیش کے شیخ مجیب و رحمن کا قریبی ساتھی بھی تھااور شیخ مجیب سے ملکر متحدہ پاکستان کو توڑنے کی سازشوں میں بھی شریک رہا۔

٭شیخ مجیب نے پاکستان سے الگ ہونے کا اپنا 6 نقاطی ایجنڈا عاصمہ جہانگیر کے والد غلام جیلانی کے گھر تیار کیا تھا۔

٭بنگلہ دیش میں جب مکتی باہنی نے بغاوت کر دی اور ان کے خلاف آپریشن کا فیصلہ ہوا تو مغربی پاکستان میں اس آپریشن کے خلاف سب سے زیادہ مزاحمت غلام جیلانی نے کی تھی۔

٭جب بغاوت قابو میں آنے لگی تو غلام جیلانی نے انڈین وزیراعظم اندرا گاندھی کو خط لکھا کہ آپ مغربی پاکستان پر حملہ کریں۔ ایکشن نہ لینے پر دوسرا خط لکھا۔ اندرا گاندھی نے تب بھی پاکستان پر حملہ نہ کیا تو غلام جیلانی نے اسکو تیسری بار چوڑیاں بھیج دیں۔ یہ خطوط ہفت روزہ زندگی میں شائع ہوئے تھے۔

٭جب یحی خان نے ان حرکتوں پر اس کو گرفتار کر لیا تو عاصمہ جہانگیر نے اپنے باپ کو چھڑانے کے لیے سپریم کورٹ میں اپیل کر دی۔ جہاں اس وقت کے فوج مخالف چیف جسٹس حمود الرحمن نے فوری طور پر غلام جیلانی کی رہائی کا حکم دیا ( یہ وہی حمود الرحمن ہے جس نے بعد میں اپنی رپورٹ ”حمود الرحمن کمیشن“ میں سقوط ڈھاکہ کا سارا ملبہ پاک فوج پر ڈال دیا تھا۔)

عاصمہ جہانگیر کا کردار:عاصمہ جہانگیر نے 1982 میں جنرل ضیاء کے اسلامی قوانین نافذ کرنے کے فیصلے کے خلاف احتجاجی مارچ کیا۔ اس معاملے میں انکو سپریم کورٹ کی حمایت حاصل رہی ۔ موصوفہ نے اسلامی قوانین کو دقیانوسی قرار دیتے ہوئے عصر حاضر کے تقاضوں کے خلاف کہا اور ان میں تبدیلیاں کرنے کا مطالبہ کیا۔

٭12 فروری 1983 میں عاصمہ جہانگیر نے اپنے ساتھی وکلاء کے ساتھ ملکر ” دو عورتوں کی گواہی ایک مرد کے برابر“ والے اسلامی قانون کے خلاف احتجاج کیا۔کچھ عرصے بعد عاصمہ جہانگیر نے نیویارک ٹائمز کو ایک خط لکھا جس میں اس نے بتایا کہ پاکستان میں عورتوں پر بہت ظلم ہو رہا ہے اور وہ بالکل بے یارومدد گار ہیں۔ ان کی حالت زار سے دنیا کو آگاہ کیا جائے ۔

٭اسکے علاوہ عاصمہ جہانگیر نے کئی بین الاقوامی فورمز پر پاکستان میں مذہبی اقلیتوں پر ہونے والے ” ظلم “ کے خلاف آواز بلند کی۔ اس نے دعوی کیا ہے کہ پاکستان میں غیر مسلموں کو زبردستی مسلمان کیا جاتا ہے۔

٭اسی دور میں اس نے حضورﷺ کی شان میں مبینہ گستاخی اور حضورﷺ کے لیے نعوذبااللہ” جاہل“ کا لفظ استعمال کیا۔ جس پر احسن اقبال کی والدہ نے اس کے خلاف باقاعدہ تحریک چلائی تھی۔

٭1996 میں لاہور ہائی کورٹ نے فیصلہ کیا کہ کوئی خاتون ” ولی“ کی اجازت کے بغیر یعنی بھاگ کر نکاح نہیں کر سکتی ۔ عاصمہ جہانگیر نے ہائی کورٹ کے اس فیصلے کے خلاف فوری تحریک کا آغاز کیا ،جس میں وکلاء برادری نے اسکا بھرپور ساتھ دیا۔ اس نے یہ کیس عدالت کے اندر اور باہر دونوں جگہ لڑا اور بالآخر مذکورہ عدالتی حکم کلعدم کروا دیا۔

٭عاصمہ جہانگیر حدود آرڈینینس کے ساتھ ساتھ توہین رسالت کے قانون کے بھی سخت خلاف تھی۔ وہ اس قانون کے خلاف آواز اٹھانے والی سب سے متحرک شخصیت تھی اور توہین رسالت کے الزام میں پکڑے گئے بہت سے لوگوں کا کیس اس نے مفت لڑا او انکو رہائی دلوائی ۔

٭بمبئی حملوں اور سمجھوتہ ایکسپریس والے معاملے پر عاصمہ جہانگیر نے پاکستانی موقف کے برعکس انڈین موقف کی تائید کی اور بغیر کسی ثبوت کے خود پاکستان پر الزام لگاتے ہوئے آئی ایس آئی کو ان حملوں کا ذمہ دار قرار دیا۔ کچھ عرصے بعد جب ثابت ہو گیا کہ ان حملوں کا ماسٹر مائنڈ انڈین اینٹلی جنس کا کرنل پروہت تھا اور انڈین انتہا پسند تنظیم آر ایس ایس اس میں شامل تھی ،عاصمہ جہانگیر بدستور اپنی ضد پر قائم رہیں اور پاکستان کو ہی ان حملوں میں ملوث قرار دیتی رہیں ۔

٭2005 میں عاصمہ جہانگیر نے ایک مخلوط میراتھن ریس کروانے کا اعلان کیا۔ اس نے دعوی کیا کہ اس کے ذریعے لوگوں میں شعور آئیگا۔

٭عاصمہ جہانگیر اقوام متحدہ کے اس پینل کا حصہ ہیں جو سری لنکن فوج کی جانب سے لبریشن ٹائیگرز آف تامل کے خلاف کے گئے آپریشن کے دوران ہونے والی انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کا جائزہ لے رہی ہے ۔ یاد رہے کہ مذکورہ تنظیم ایک دہشت گرد تنظیم تھی جسکی فنڈنگ انڈیا سے ہوتی تھی اور اسکا صفایا کرنے میں پاک فوج نے بھی اہم کردار ادا کیا تھا۔

غالباً انہی خدمات کے اعتراف میں آصف علی زرداری نے ان کو 2010ء میں ہلال امتیاز کے اعزاز سے نوازا اور نواز شریف نے انکا نام پنجاب کی نگران وزیراعلی کے لیے پیش کیا تھا اور عبوری وزیراعظم کے لیے پیش کیا تھا۔

٭پاکستان میں دہشت گردوں کو سزائیں دینے کے معاملے میں پاکستانی عدلیہ کی مکمل ناکامی کے بعد پاکستان کی تمام سیاسی جماعتوں نے متفقہ طور پر 21 ویں آئینی ترمیم منظور کی جس کے تحت آرمی کورٹس کا قیام عمل میں لایا گیا تاکہ دہشت گردوں کو کیفر کردار تک پہنچایا جا سکے ۔عاصمہ جہانگیر نے اس فیصلے کی مخالفت کرتے ہوئے آئینی ترمیم کے خلاف سپریم کورٹ میں درخواست جمع کروا دی۔ موصوفہ کی بدولت آرمی عدالتوں سے سزائیں پانے والے اکثر دہشت گردوں کی سزاوؤں پر عمل درآمد روکا جا چکا ہے۔

٭عاصمہ جہانگیرنے کبھی کشمیر میں انڈین مظالم، فلسطین میں اسرائیلی مظالم اور شام و عراق میں امریکی مظالم کے خلاف آواز نہیں اٹھائی۔

٭جماعت احمدیہ کےذرائع کے مطابق عاصمہ جہانگیر کےشوہر کا تعلق لاہوری گروپ سے ہے اور وہ کٹر احمدی ہے۔

٭ عاصمہ جہانگیر کا داماد ایک عیسائی ہے۔

٭عاصمہ جہانگیر اور اسکے ساتھی سیموئیل رابرٹ نے امریکہ، جاپان اور دیگر ممالک سے فنڈ حاصل کیے اور ان میں 15 کروڑ کا گھپلا کیا۔

٭ساہیوال میں پادری جوزف کا کیس اچھالنے کے لیے امریکہ سے 1 کروڑ روپے لیے۔

٭جب شانتی نگر کا واقعہ ہوا تو عاصمہ کی این جی او نے علاقے کا دورہ کیا اور وہاں کے لوگوں کو اپنے گھر گرانے پر اکسایا تاکہ وہ انکی تصاویر بنا کر باہر سے فنڈ لے سکے۔

٭عاصمہ جہانگیر نے ایک ”دستک“نامی ویلفیئر کھولی ہوئی تھی ۔دستک کو سالانہ بیرونی ممالک سے کروڑوں ڈالر کے فنڈ ملتے ہیں۔”دستک“ کا کردار سیکولر لوگوں کی پشت پناہی ،خواتین کے تقدس اور گھریلو پاکیزہ زندگی کے خلاف ایک چیلنج اختیار کر گیا ہے۔”دستک“کے بارے میں کہا جاتا ہے جو ایک مرتبہ وہاں چلا جائے تو مرد سے اسکی غیرت اور عورت سے اسکی حیا کا زیور چھن جاتا ہے۔دستک ہر راہ بھٹک جانے والی لڑکی کو والدین اور دین سے بغاوت پر آمادہ کرتا اور گمراہی کے گھٹا ٹوپ اندھیروں میں لے جا تا ہے۔دستک میں اس وقت جو کچھ ہو رہا ہے وہ ظلم بھی ہے، جرم بھی ہے اور گناہ بھی لیکن کوئی بھی اس ظلم جرم اور گناہ کو ختم کرانے پر تیار نہیں۔ دستک کے قیام کا بنیادی مقصد تو گھر سے بھاگی ہوئی لڑکیوں کو پناہ فراہم کرنا تھا لیکن یہ این جی او اس آڑ میں اپنا گھناونا کھیل جاری رکھے ہوئے ہے۔

دستک میں آنے والی لڑکیوں کی تعداد اگرچہ کم ہے، لیکن ان لڑکیوں کو راہ راست پر لا کر کئی قسم کے فوائد سمیٹے جاتے ہیں۔ہاں موجود لڑکیوں کو ایک خاص قسم کا لبرل ماحول مہیا کیا جاتا ہے انکے ذہنوں میں مزہب کے خلاف گند بھرا جاتا ہے۔مخصوص لڑکوں کے ساتھ میل جول کے مواقع فراہم کیے جاتے ہیں،ہر ان لڑکیوں کو بڑے افسروں،بااثر سیاستدانوں اور شخصیات کے سامنے پیش کیا جاتا ہے جو انکی عزت سے کھیلتے ہیں۔یوں ”دستک“ باظاہر تولڑکیوں کی عزت کا رکھوالا ادارہ ہے، لیکن درحقیقت ان لڑکیوں کی عزت کا لٹیرا ہے۔اسکے علاوہ ”دستک“ کا ایک سوشل میڈیا سیل بھی ہے جو لا دین لوگوں پر مشتمل ہے ،جن کا کام سوشل میڈیا پر اسلام اور پاکستان مخالف پروپیگنڈا کو ہوا دینا اور اور لبرل ریاست کے قیام کے لیے راہ ہموار کرنا ہے۔

اس بات کی سب سے پہلی شہادت شیخوپورہ کی گھر سے فرار ہو کر دستک میں پناہ لینے والی ایک لڑکی” کنیز“ نے دی جو کسی طرح دست تو پہنچ گئی لیکن وہاں اسکو اپنی عزت بچانا مشکل ہو گیا۔جب کنیز عزت بچانے کےلیے دستک سے بھاگی تو یہ معاملہ پہلی دفعہ پریس میں آیا۔کنیز نے بتایا کہ لڑکیوں کو مجبور کرکے بااثر شخصیات کے پاس بھیجا جاتا ہے اور گمراہ کن لٹریچر پڑھایا جاتا ہے۔جو لڑکی انکار کرے اسے سخت ذہنی اذیت دی جاتی ہے۔

٭عاصمہ جہانگیر نے پاک فوج کے خلاف کہا:فوجی ڈفلز ہیں،ہمارے ملک کے لوگ فوج سے بچیں،فوجیوں نے دہشت گردی پھیلادی ہے۔لڑنے کے قابل نہیں۔قبضہ گروپ ہیں۔

٭عاصمہ جہانگیر نے ایک ویڈیوکلپ میں کہا:آئین میں نہیں لکھا کہ اپنے بچوں کو قرآن پڑھائیں۔

٭ہندوستان میں ماتھے پر تلک لگائے،اسلام دشمن بال ٹھاکرے کے پاس بڑے ادب سے بیٹھے ہوئے بھی اس کی تصاویر موجودہیں۔

٭عاصمہ جہانگیر کا ایک ویڈیو کلپ یوٹیوب میں اب بھی موجود ہے جس میں وہ واضح طور پر کہہ رہی ہے کہ میں مذہبی شدت کے خلاف ہوں ، بلکہ مذہبی شدت کو چھوڑ کر میں ایک سیکولرانسان ہوں،ہر مذہب ایک جیسا سمجھتی ہوں ،میرا پنا کوئی مذہب ہے ہی نہیں۔

عاصمہ جہانگیر کے یہ آخری جملے صریح کفر ہیں۔اب اگر ویڈیوں کو شرعی دلیل بنایا جاسکتا ہو تو یہ کفر التزامی ہے۔

عاصمہ جہانگیر اور اس کے والد کے متعلق کی گئی باتیں مولویوں کی طرف سے نہیں ہیں بلکہ کئی تجزیہ کار نے ہی ان کو اپنے آرٹیکلز میں لکھا ہے۔چنانچہ ڈیلی اوصاف میں ہے:

پاکستان توڑنے کا منصوبہ عاصمہ جہانگیر کے والد کے گھر بنا،ملک غلام جیلانی نے بھارتی وزیراعظم اندرا گاندھی کو خط لکھ کر پاکستان پر حملہ کا مطالبہ کیا، عاصمہ جہانگیر فوج اور آئی ایس آئی کو بدنام کرتی رہیں، تہلکہ خیز انکشاف

اسلام آباد(مانیٹرنگ ڈیسک)پاکستان کے قومی اخبار کی رپورٹ میں انکشاف کیا گیا ہے کہ شیخ مجیب الرحمن نے پاکستان کو توڑنے کا اپنا مکروہ اور بھیانک ایجنڈا عاصمہ جہانگیر کے والد ملک غلام جیلانی کے گھر پر تیار کیا تھا۔ مکتی باہنی کے خلاف آپریشن کے فیصلے کی مغربی پاکستان میں سب سے زیادہ مزاحمت غلام جیلانی نے کی۔ بغاوت قابو میں آنے پر عاصمہ کے والد غلام جیلانی نےبھارتی وزیراعظم اندرا گاندھی کو خط لکھ کر مغربی پاکستان پر حملہ کرنے کا مطالبہ کیا۔ ایکشن نہ لینے پر دوسرا خط لکھا اور تیسری بار اسے چوڑیاں بھیج دیں۔ ملک غلام جیلانی کے یہ خطوط ہفت روزہ زندگی میں شائع ہوئے۔ یحییٰ خان نے ان حرکتوں پر اسے گرفتار کیا تو عاصمہ جہانگیر نے باپ کو چھوڑنے کیلئے سپریم کورٹ میں اپیل کر دی ۔ جہاں اس وقت کے فوج مخالف چیف جسٹس حمود الرحمن نے فوری طور پر غلام جیلانی کی رہائی کا حکم دیا۔ حمود الرحمن نے سقوط ڈھاکہ کے حوالے سےا پنی رپورٹ حمود الرحمن کمیشن میں سانحہ مشرقی پاکستان کا ملبہ پاک فوج پر ڈال دیا تھا۔ عاصمہ جہانگیر حدود آرڈیننس کے ساتھ ساتھ توہین رسالت کے قانون کے خلاف رہیں، کئی لوگوں کا کیس انہوں نے مفت لڑا اور ان کو رہائی دلائی۔ ممبئی حملوں اور سانحہ سمجھوتہ ایکسپریس پر ملکی موقف کے برعکس بھارتی موقف کی تائید کی اور بغیر کسی ثبوت کے آئی ایس آئی کو ذمہ دار قرار دیا۔ سانحہ سمجھوتہ ایکسپریس میں حملوں کا ماسٹر مائنڈ انڈین انٹیلی جنس کے کرنل پروہت کے ملوث ہونے اور آر ایس ایس کے حملے میں شامل ہونے کے باوجود عاصمہ جہانگیر پاکستان کو ہی حملوں میں ملوث قرار دیتی رہیں۔ عاصمہ جہانگیر نے کبھی مقبوضہ کشمیر میں بھارت فلسطین میں اسرائیل جبکہ شام و عراق میں امریکی مظالم کے خلاف آواز نہیں اٹھائی۔

(پاکستان توڑنے کا منصوبہ عاصمہ جہانگیر/https://dailyausaf.com.pk))

تجزیہ کار جاوید چوہدری کی ویب سائیٹ پر یہ لکھا ہواموجوجود ہے:

عاصمہ جہانگیر کا خاوند قادیانی، داماد غیر ملکی عیسائی، والدسی آئی اے کا ایجنٹ تھا، ہر کیس قادیانیوں کے حق میں لڑا،بھارتی سفیر سپریم کورٹ الیکشن میں مہم چلاتا رہا، قومی اخبار اورریٹائر جج کے تہلکہ خیز انکشافات

منگل 13 فروری 2018 | 14:21

اسلام آباد(مانیٹرنگ ڈیسک)پاکستان کے موقر قومی اخبار روزنامہ امت کی رپورٹ میں انکشاف کیا گیا ہے کہ عاصمہ جہانگیر کی تدفین میں اس لئے دیر ہوئی اور آج دوسرے دن ان کی تدفین کی جائے گی کیونکہ ان کی بیٹی منیزے جہانگیر اور ان کے غیر ملکی عیسائی داماد ہیری لندن سے وطن نہیں پہنچے تھے۔ اخبار کی رپورٹ میں عاصمہ جہانگیر کے بارے میں الزام عائد کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ انسانی حقوق کی آڑ میں عاصمہ جہانگیر ساری عمر پاکستان میں اسلام و نظریہ پاکستان کے خلاف سرگرم رہیں عاصمہ جہانگیر اکھنڈ بھارت کے تصور کو بڑھانے کیلئے۔

(http://javedch.com/pakistan/2018/02/13/415018)

ہر درد مند مسلمان کو اپنے ضمیر سے پوچھنا چاہیے کہ اللہ اور اسکے رسول کی علانیہ مخالفت اور پھر ملک و ملت سے غداری کرنے والے ہماری محبت کے حقدار ہیں یا ہمیں ان سے برأت کا اظہار کرنا چاہیے؟؟؟

عاصمہ جہانگیر کی موت:حیرانگی اس بات کی ہے وہ عاصمہ جہانگیر جو واضح طور پر نہ صرف لبرل ہے بلکہ لبرل لوگوں کی ماں ہے۔ساری زندگی یہ لبرل لوگ اسلامی اور اسلامی احکام کے خلاف زہر اگلتے ہیں ،لیکن اپنا جینا مرنا اسلامی اصولوں کے مطابق چاہتے ہیں۔ہونا تو یہ چاہیے کہ تمام ملحد ہنگامی طور پر اپنی وصیت مرتب کرلیں جس میں کچھ پوائنٹس کی وضاحت ہوجائے کہ

1۔ مرنے کے بعد ان کا نماز جنازہ پڑھایا جائے یا نہیں۔

2۔ ان کے مردے کو دفنانا ہے، جلانا ہے، چیل کووں کی خوراک بنانے کیلئے جنگل میں چھوڑ آنا ہے یا پھر کسی رفاعی ادارے کو دے کر ان کے اعضا وغیرہ ڈونیٹ کرنے ہیں۔

عاصمہ جہانگیر جس طرح اپنی زندگی میں اسلام کے لیے ایک فتنہ تھی ،اس کا جنازہ بھی ایک فتنہ ثابت ہوا ۔یہ عاصمہ کی اخروی معاملات میں پہلی سزا ہے کہ اس کاجنازہ بھی مذاق بن کر رہ گیا ۔عاصمہ کا جنازہ بھی اس شخص نے پڑھایا جو سیکولر قسم کا ہے۔جنازہ پڑھانے والا سید حیدر فاروق مودودی کا بیٹا ہے۔اسکے بارے میں ملک کے معروف کالم نگار اثر چوہان نے اپنے کالم میں لکھا ہے ۔جولائی 1970میں، مولانا کوثر نیازی کی ملکیت اور نذیر ناجی کی ادارت میں شائع ہونے والے ہفت روزہ’’شہاب‘‘لاہور میں حیدر فاروق مودودی کے بارے رپورٹ شائع ہوی تھی کہ اس نے قادیانیوں کے ہیڈکوارٹر ’’ربوہ‘‘میں حاضر ہو کر قادیانیوں کے خلیفہ مرزا ناصر احمد سے ملاقات کی ہے۔ اوریا مقبول نے چینل میں بیٹھ کر کہا کہ یہ شخص اپنا ذاتی مطالبہ پور اکروانے کے لیے ربوہ گیا اور کہاکہ میرا مطالبہ پورا کرو ورنہ میں قادیانی ہوجاؤں گا۔

حیدر فاروق کے عاصمہ جہانگیر کے ساتھ عرصہ دراز سے مراسم تھے اور یہ بھی عاصمہ کی طرح پاکستان کا دشمن تھا۔25مارچ 2014کی شب ’’جیو نیوز‘‘کے ایک ٹاک شو میں حیدر فاروق مودودی نے قائداعظم کے بارے میں کہا تھا کہ ’’جناح صاحب‘‘کی منفی پالیسی کی وجہ سے ہندوستان دو حصوں میں تقسیم ہو گیااور ہم سبھی پاکستان بنانے کے گناہ میں شامل نہیں تھے‘‘۔ٹاک شو میں شریک انصاری عباسی نے ان سے پوچھا کہ ’’ہم سے آپ کی کیا مراد ہے؟آپ کے ساتھ دوسرا شخص کون ہے؟تو حیدر فاروق کھسیانی بلی کی طرح کھمبا نوچنے کی پوزیشن میں بھی نہیں تھا۔

عاصمہ جہانگیر کے جنازہ میں عورتوں کا شریک ہونا:شرعی طور پر عورتوں کا جنازہ میں شریک ہونا جائز نہیں ہے ۔جنازہ میں شریک ہونا تو دور کی بعد صحابہ کرام و تابعین نے عورتوں کا جنازہ کے ساتھ چلنے سے سختی کے ساتھ منع کیا ہے۔حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ایک جنازہ میں کچھ عورتیں دیکھیں تو ارشادفرمایا” أرجعوهن، فإنها ما علمت فتنة للحي وأذى للميت “ ترجمہ:لوٹ جاؤ، کہ عورتیں نہیں جانتیں کہ وہ زندہ کے لیے فتنہ اور میت کے لیے باعث ایذا ہیں۔

(اخبار مكة في قديم الدهر وحديثه،جلد3،صفحہ86،حدیث1868،دار خضر،بيروت)

امام سعید بن منصور اپنے سنن میں حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اﷲ تعالیٰ عنہ سے راوی”انہ رأی نسوۃ فی جنازۃ فقال ارجعن مازورات غیر مأجورات ان کن لتفتن الاحیاء وتؤذین الاموات“یعنی انھوں نے ایک جنازے میں کچھ عورتیں دیکھیں اورا رشاد فرمایا پلٹ جاؤ گناہ سے بوجھل ثواب سے اوجھل۔ تم زندوں کو فتنے میں ڈالتی اور مردوں کو اذیت دیتی ہو۔

(سنن سعید بن منصور)

مصنف ابن ابی شیبہ میں ہے”عن ابن مغفل، قال: قال عمر: لا تتبع الجنازة امرأة“ترجمہ:عورت جنازہ کے ساتھ نہ چلے۔

(مصنف ابن ابی شیبہ،کتاب الجنائز، في خروج النساء مع الجنازة من كرهه،جلد2،صفحہ481، حدیث11285، مكتبة الرشد الرياض)

مصنف ابن ابی شیبہ میں ہے”عن ابن عمر، قال: «نهينا أن نتبع جنازة معها امرأة“ترجمہ: حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہما نے فرمایا: ہمیں اس جنازہ کے ساتھ چلنے سے منع کیا گیا جس کے ساتھ عورت ہو۔

(مصنف ابن ابی شیبہ،کتاب الجنائز، في خروج النساء مع الجنازة من كرهه ،جلد2،صفحہ482، حدیث11289، مكتبة الرشد الرياض)

مصنف ابن ابی شیبہ میں ہے” عن مسروق، قال رأيته يحثو التراب في وجوه النساء في الجنازة يقول: لهن ارجعن، فإن رجعن مضى مع الجنازة، وإلا رجع وتركها “ترجمہ:حضرت مسروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے دیکھا کہ جنازہ میں عورتوں کے چہروں پر خاک پھینکی جاتی تھی اور ان کو کہتے تھے: لوٹ جاؤ، اگر وہ عورتیں جنازہ سے واپس چلی جاتیں تو جنازہ لے کر مرد آگے جاتے ورنہ مرد جنازہ سے واپس ہوجاتے ۔

(مصنف ابن ابی شیبہ،کتاب الجنائز، في خروج النساء مع الجنازة من كرهه ،جلد2،صفحہ482، حدیث11293، مكتبة الرشد، الرياض)

جن لوگوں نے جنازہ میں عورتوں کی شرکت کو جائز کہا انہوں نے اپنی دلیل مسلم شریف کی یہ حدیث پاک بنائی”عَنْ عَبَّادِ بْنِ عَبْدِ اللهِ بْنِ الزُّبَيْرِ، أَنَّ عَائِشَةَ، أَمَرَتْ أَنْ يَمُرَّ بِجَنَازَةِ سَعْدِ بْنِ أَبِي وَقَّاصٍ فِي الْمَسْجِدِ، فَتُصَلِّيَ عَلَيْهِ، فَأَنْكَرَ النَّاسُ ذَلِكَ عَلَيْهَا“ ترجمہ:حضرت عباد بن عبد اللہ بن زبیر سے مروی ہے حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے حکم دیا کہ حضرت سعد بن ابی وقاص کا جنازہ مسجد میں لایا جائےتاکہ اس پر نماز پڑھ لیں۔ جس پر صحابہ کرام علیہم الرضوان نے انکار کیا۔(یعنی صحابہ کرام علیہم الرضوان نے مسجد میں نماز جنازہ ادا کرنے کا انکار کیا)۔

(صحیح مسلم، كتاب الجنائز، باب الصلاة على الجنازة في المسجد،جلد2،صفحہ668،حدیث973، دار إحياء التراث العربي،بيروت)

اس حدیث میں لفظ” فَتُصَلِّيَ عَلَيْهِ“سے عورتوں کی شرکت کاجواز ثابت کیا گیا ہے،جو کہ درست نہیں ۔اس فرمان کا مطلب یہ ہے کہ لوگ جنازہ مسجد میں لاکر نماز ادا کریں اور ازواج مطہرات اپنے حجروں میں اس جنازہ میں شریک ہوجائیں۔یہ مطلب نہ تھا کہ حجروں سے نکل کر مردوں کے ساتھ کھڑے ہوکر نماز جنازہ پڑھا جائے ورنہ اس جنازہ کو مسجد میں بلوانے کی کیا حاجت تھی ،حضرت عائشہ خودمسجد سے باہر جنازہ میں شریک ہوجاتیں۔لہٰذایہ ایک اتفاقی صورت تھی جس سے یہ ثابت نہیں ہوتا کہ عورتوں کا اپنے گھروں سے نکل کر مردوں کے ساتھ نماز جنازہ پڑھنا درست ہے۔خلاصة الأحكام في مهمات السنن وقواعد الإسلاممیں امام نووی (المتوفى676)اور الجمع بين الصحيحين البخاري ومسلممیں محمد بن فتوح الحَمِيدي(المتوفى488)لکھتے ہیں”وَفِي رِوَايَة مُوسَى بن عقبَة عَن عبد الْوَاحِد بن حَمْزَة قَالَ:لما توفّي سعد بن أبي وَقاص أرسل أَزوَاج النَّبِي صلى الله عَلَيْهِ وَسلم أَن يمروا بجنازته فِي الْمَسْجِد فيصلين عَلَيْهِ، فَفَعَلُوا، فَوقف بِهِ على حجرهن يصلين عَلَيْهِ، وَأخرج بِهِ من بَاب الْجَنَائِز الَّذِي كَانَ إِلَى المقاعد، فبلغهن أَن النَّاس عابوا ذَلِك، وَقَالُوا: مَا كَانَت الْجَنَائِز يدْخل بهَا الْمَسْجِد “

(الجمع بين الصحيحين البخاري ومسلم،جلد4،صفحہ212،دار ابن حزم،بيروت)

اگر صحابیات مردوں کے ساتھ جنازوں میں شریک ہوتیں تو اس کا واضح طور پر کثیر احادیث سے ثبوت ہوتا جبکہ احادیث و آثار سے عورتوں کا جنازہ میں شریک ہونا واضح طور پر منع ہے۔الجوہرۃ النیرۃ میں ہے”ولا ينبغي للنساء أن يخرجن مع الجنازة لما روي أن «النبي عليه الصلاة والسلام لما رأى النساء في الجنازة قال لهن أتحملن مع من يحمل أتدلين فيمن يدلي أتصلين فيمن يصلي قلن لا قال فانصرفن مأزورات غير مأجورات» ولأنهن لا يحملن ولا يدفن ولا يضعن في القبر فلا معنى لحضورهن “ترجمہ:عورتوں کے لیے مناسب نہیں کہ وہ جنازوں کے ساتھ نکلیں کیونکہ مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جب عورتوں کو جنازہ میں دیکھا تو ان سے فرمایا: کیا تم نے جنازہ اٹھانے والوں کے ساتھ جنازہ اٹھانا ہے؟ راستہ بتانا ہے؟ یا نماز جنازہ پڑھناہے ؟ عورتوں نے کہا نہیں تو آپ علیہ السلام نے فرمایا : لوٹ جاؤ وبال سے بھری ثواب سے بَری،کیونکہ عورتوں نے نہ جنازہ اٹھانا ہوتا ہے،نہ دفن کرنا ہوتا ہے اور نہ ہی قبر میں رکھنا ہوتا ہے تو ان کا جنازے مین شریک ہونا کوئی معنی نہیں رکھتا۔

(الجوهرة النيرة،باب الجنائز،جلد1،صفحہ108،المطبعة الخيرية)

مصنف ابن ابی شیبہ میں ہے”عن محمد بن المنتشر، قال: كان مسروق «لا يصلي على جنازة معها امرأة“ترجمہ:محمد بن منتشر کہتے ہیں کہ حضرت مسروق اس جنازہ پر نماز نہ پڑھتے تھے جس میں ساتھ عورتیں ہوتی تھیں۔

(مصنف ابن ابی شیبہ،کتاب الجنائز،في خروج النساء مع الجنازة من كرهه،جلد2،صفحہ481، حدیث11287، مكتبة الرشد ، الرياض)

لہٰذا ایک ایک خاص اتفاقی صورت کو دلیل بنا کر عورتوں کو مردوں کے ساتھ جنازہ میں شریک ہونے کو جائز کہنا اور عورتوں کا بے پردہ مردوں کے ساتھ ایک صف میں مل کر شریک ہوناحرام درحرام درحرام ہے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں