شیعوں کے اعتراضات کے جوابات

شیعوں کے اعتراضات کے جوابات

پیشکش: صدائے قلب

جن کے سینوں میں بُغضِ صحابہ ہو

وہ سینے پیٹنے ہی کے قابل ہیں

اعتراض نمبر1:ابوبکر کے سینے میں شیطان تھا۔

(حدیث النبی)ادب المفرد،صفحہ105،مؤلف امام بخاری

اعتراض نمبر 2:عمر کے سینے میں شیطان تھا۔

(حدیث النبی)فتح المعلم،جلد2،صفحہ361،شرح صحیح مسلم

جواب: یہ دونوں روایتیں اہل سنت کی معتبر تو کیا غیر معتبر کتب میں بھی موجود نہیں ہیں۔ ادب المفرد کا حوالہ دیا گیا ہے جبکہ ادب المفرد میں یہ حدیث موجود نہیں ہے۔فتح المعلم تو شرح مسلم کی کوئی کتاب ہی نہیں ہے۔ایک اکمال المعلم ہے اور ایک فتح الملہم ہے دونوں کتابوں میں یہ روایت موجود نہیں ہے۔

پھر یہ دونوں جھوٹی روایتیں بھی عجیب و غریب اور غریب و عجیب ہیں۔انہیں بیان کرکے معترض کیا ثابت کرنا چاہتا ہے؟ کیا وہ یہ ثابت کررہا ہے کہ حضرت ابوبکر صدیق اور حضرت عمرفاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہما کے ساتھ شیطان تھا ۔تو اس جاہل معترض کو اتنا بھی پتہ نہیں کہ وسواس نامی جن شیطان تو ہرایک کے ساتھ ہوتا ہے چنانچہ صحیح مسلم میں حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم فرماتے ہیں’’مامنکم من احد الا وقدوکل اﷲقرینہ من الجن وقرینہ من الملئکۃ قالوا وایاک یارسول اﷲقال وایای الاان اﷲاعاننی علیہ فاسلم فلا یامرنی الابخیر‘‘ ترجمہ:لوگو!تم میں سے کوئی شخص نہیں کہ جس کے ساتھ ہمزاد جن اور ہمزاد فرشتہ نہ ہو۔ لوگوں نے عرض کی اے اللہ کے رسول!کیا آپ کے ساتھ بھی ہے؟ ارشاد فرمایا کہ ہاں میرے ساتھ بھی ہے، لیکن اللہ تعالیٰ نے میری مدد فرمائی کہ وہ مسلمان ہوگیا لہٰذا وہ مجھے سوائے بھلائی کے کچھ نہیں کہتا ۔

(صحیح مسلم ،کتاب صفۃ المنافقین باب تحریش الشیطان الخ ،جلد4،صفحہ 2167،دار إحیاء التراث العربی،بیروت)

اسی طرح امام طبرانی نے مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت کی اور امام بزار نے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے راویت کی رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم فرماتے ہیں’’فضلت علی الأنبیاء بخصلتین کان شیطانی کافرا فأعاننی اللہ علیہ حتی أسلم‘‘ترجمہ:دوسرے انبیاء کرام پر دو باتوں میں مجھے فضیلت بخشی گئی، ایک یہ کہ میرا شیطان کافر تھا کہ اللہ تعالیٰ نے مجھے اس پر قوت دی یہاں تک کہ وہ مسلمان ہوگیا۔

(مسند البزار المنشور باسم البحر الزخار،مسند أبی حمزۃ أنس بن مالک،جلد14،صفحہ249، مکتبۃ العلوم والحکم،المدینۃ المنورۃ)

شیعوں کی اپنی مستند کتاب کلینی میں حضرت جعفر صادق رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے صحیح روایتیں موجود ہیں کہ ہر مومن کے واسطے ایک شیطان ہے کہ اس کو بہکاتا ہے۔

(ماخوذ از،تحفۃ اثنا عشریۃ،صفحہ560،انجمن تحفظ ناموس اسلام ،کراچی)

اگر معترض کا یہ عقیدہ ہے کہ حضرت ابوبکر صدیق اور عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ساتھ ایک اورجن شیطان برائی کے لئے مخصوص تھا تو یہ بالکل باطل و مردود ہے اسلئے کہ حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے متعلق تو کثیر صحیح مشہور احادیث میں خود سرکار صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ عمر فاروق سے شیطان بھاگتا ہے چنانچہ ترمذی شریف کی حدیث پاک ہے حضور علیہ السلام نے فرمایا”إنی لأنظر إلی شیاطین الإنس والجن قد فروا من عمر‘‘ترجمہ: میں دیکھتاہوں کہ شیاطین جن وانس عمر سے بھاگتے ہیں۔

(سنن الترمذی،ابواب المناقب،باب فی مناقب أبی حفص عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ،جلد6،صفحہ63، دار الغرب الإسلامی ، بیروت)

اسی مضمون کی اور بھی کئی مستند احادیث مروی ہیں۔

اعتراض نمبر3:عمر نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بیٹی کو دھمکی دی۔

(علامہ شبلی نعمانی )کتاب الفاروق،جلد1،صفحہ77

جواب:وہ دھمکی کیا تھی اور کس کو تھی پہلے شبلی نعمانی کی کتاب الفاروق سے ملاحظہ ہو۔الفاروق میں ہے:’’ابن ابی شیبہ نے مصنف میں اور علامہ طبری نے تاریخ کبیر میں روایت نقل کی ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے گھر کے دروازے پر کھڑے ہوکر کہا:یا بنت رسول اللہ خدا کی قسم آپ ہم سب سے زیادہ محبوب ہیں۔تاہم اگر آپ کے یہاں لوگ اس طرح مجمع کرتے رہے تو میں ان لوگوں کی وجہ سے گھر میں آگ لگا دوں گا۔‘‘

(الفاروق،صفحہ76،دارالاشاعت،کراچی)

یہ پوری روایت مصنف ابن ابی شیبہ میں یوں ہے ’’محمد بن بشر نا عبید اللہ بن عمر حدثنا زید بن أسلم عن أبیہ أسلم أنہ حین بویع لأبی بکر بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کان علی والزبیر یدخلان علی فاطمۃ بنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فیشاورونہا ویرتجعون فی أمرہم ، فلما بلغ ذلک عمر بن الخطاب خرج حتی دخل علی فاطمۃ فقال: یا بنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم،واللہ ما من أحد أحب إلینا من أبیک وما من أحد أحب إلینا بعد أبیک منک وایم اللہ ما ذاک بمانعی إن اجتمع ہؤلاء النفر عندک ; أن أمرتہم أن یحرق علیہم البیت ، قال: فلما خرج عمر جاء وہا فقالت: تعلمون أن عمر قد جاء نی وقد حلف باللہ لئن عدتم لیحرقن علیکم البیت وایم اللہ لیمضین لما حلف علیہ فانصرفوا راشدین فروا رأیکم ولا ترجعوا إلی فانصرفوا عنہا فلم یرجعوا إلیہا حتی بایعوا لأبی بکر‘‘یعنی زید بن اسلم اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ جب حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے وصال کے بعد صحابہ کرام علیہم الرضوان نے حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی بیعت کی تو حضرت علی اور حضر ت زبیر رضی اللہ تعالیٰ عنہما حضرت فاطمہ بنت رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے گھر میں داخل ہوئے اورلوگ اس مسئلہ میں ان سے مشاورت کرتے تھے۔ جب حضرت عمرفاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو اس کی خبر ہوئی تو آپ اپنے گھر سے نکلے اور حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے گھر آئے اور فرمایا: اے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بیٹی! اللہ عزوجل کی قسم آپ کے والد سے بڑھ کر ہمیں کوئی محبوب نہیں اور ان کے بعد آپ سے بڑھ کرہمیں کوئی محبوب نہیں۔اللہ عزوجل کی قسم مجھے اس بات سے کوئی چیز مانع نہیں ہے کہ اگر یہ مجمع آپ گھر اکٹھا ہوتو میںان پر اس گھر کو آگ لگادوں۔جب حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ چلے گئے تو حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے فرمایا: جانتے ہومیرے پاس عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ آئے تھے اور وہ خدا کی قسم کھا کرگئے ہیں کہ اگر تم یہاں رہے تو تم پر اس گھر کو آگ لگا دوں گا۔ اللہ کی قسم جو وہ قسم کھاتے ہیں اسے ضرور کردیتے ہیں۔ تم لوٹ جائو اورسمجھداری سے کام لو اورخود ہی اپنے معاملہ پر غورکرو، میری طرف واپس نہ آنا۔ وہ سب چلے گئے اور جب تک ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی بیعت نہ کی واپس نہ آئے۔

(الکتاب المصنف فی الأحادیث والآثار،کتاب المغازی ،ما جاء فی خلافۃ أبی بکر وسیرتہ فی الردۃ،جلد7،صفحہ432،مکتبۃ الرشد ،الریاض)

اسی سند کے ساتھ جب امام احمد حنبل رحمۃ اللہ علیہ نے زید بن اسلم کے حوالے سے روایت کی تو اس میں گھر جلانے کا ذکر نہیں چنانچہ فضائل الصحابۃ میں ابو عبد اللہ احمد بن محمد بن حنبل بن ہلال بن اسد الشیبانی (المتوفی241ھ)روایت کرتے ہیں’’حدثنا محمد بن إبراہیم قثنا أبو مسعود قال: نا معاویۃ بن عمرو قثنا محمد بن بشر، عن عبید اللہ بن عمر، عن زید بن أسلم، عن أبیہ قال: لما بویع لأبی بکر بعد النبی صلی اللہ علیہ وسلم، کان علی والزبیر بن العوام یدخلان علی فاطمۃ فیشاورانہا، فبلغ عمر فدخل علی فاطمۃ فقال: یا بنت رسول اللہ، ما أحد من الخلق أحب إلینا من أبیک، وما أحد من الخلق بعد أبیک أحب إلینا منک، وکلمہا، فدخل علی والزبیر علی فاطمۃ فقالت: انصرفا راشدین، فما رجعا إلیہا حتی بایعا‘‘یعنی زید بن اسلم اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ جب حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے وصال کے بعد صحابہ کرام علیہم الرضوان نے حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی بیعت کی تو حضرت علی اور حضر ت زبیر رضی اللہ تعالیٰ عنہما حضرت فاطمہ بنت رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے گھر میں داخل ہوئے اور حضرت فاطمہ سے مشاورت کی۔ جب حضرت عمرفاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو اس کی خبر ہوئی تو آپ اپنے گھر سے نکلے اور حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے گھر آئے اور فرمایا: اے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بیٹی! اللہ عزوجل کی قسم آپ کے والد سے بڑھ کرہمیں کوئی محبوب نہیں اور ان کے بعد آپ سے بڑھ کر ہمیں کوئی محبوب نہیں اور آپ نے حضرت فاطمہ سے کلام کیا ۔ پھر جب حضرت علی اور زبیر رضی اللہ تعالیٰ عنہماحضرت فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے پاس آئے تو انہوں نے انہیں لوٹا دیا ۔پھر یہ دونوں حضرات تب تک نہ لوٹے جب تک انہوںنے حضرت ابوبکرصدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی بیعت نہ کرلی۔

(فضائل الصحابۃ،ومن فضائل عمر بن الخطاب من حدیث أبی بکر بن مالک، عن مشایخہ غیر عبد اللہ بن أحمد۔۔ جلد1، صفحہ364،مؤسسۃ الرسالۃ ،بیروت)

بالفرض مصنف ابن ابی شیبہ کی حدیث کو ہی لیا جائے تو اس سے شیعوں کے عقائد کا بطلان واضح ہے کہ شیعہ الزام لگاتے تھے کہ حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کا گھر جلایا تھا جبکہ اس روایت میں گھر جلانے کا ذکر نہیں فقط دھمکی ہے ۔پھر شیعہ کہتے ہیں کہ حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی بیعت نہیں کی تھی جبکہ اس روایت میں صراحت ہے کہ انہوں نے حضرت ابوبکرصدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی بیعت کرلی تھی۔

تاریخ کی مستند کتب میں موجودہے کہ کئی لوگوں نے حضرت علی المرتضیٰ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے آکر کہا تھا کہ آپ زیادہ خلافت کے حقدار ہیں اور آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ان لوگوں کی تردید کی تھی جیسے حضرت سفیان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے متعلق کئی کتب میں یہ بات موجود ہیں۔ اسی طرح بعض لوگ حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہما کی اجازت کے بغیر ان کے گھر آتے تھے اور اس طرح کی باتیں کرتے تھے،حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ان لوگوں کو دھمکی دی تھی نہ کہ حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کو، یہی وجہ ہے کہ حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے الفاظ میں یہ ہے کہ میں ان پرگھر کو آگ لگا دوں گا۔یہ دھمکی دینے کی وجہ انتشار کو ختم کرنا تھا۔شا ہ عبدالعزیز محدث دہلوی اس طعن کا جواب دیتے ہوئے لکھتے ہیں:’’اس دھمکی سے ان لوگوں کا ڈرانا منظور تھا کہ ہر اہل خیانت نے آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے مکان کو امن و پناہ کی جگہ جان کر حکم حرم مکہ معظمہ کا دیا تھا۔ اور وہاں جمع ہو کر خلیفہ اول کے خلاف لوٹ پوٹ کرنے کے واسطے صلاحیں اور مشورے فساد انگیز کرتے تھے اور فساد و فتنے اٹھانا چاہتے تھے۔ حضرت زہرا رضی اللہ تعالیٰ عنہا بھی ان کی اس نشست و برخاست سے مکدر ناخوش تھیں،لیکن بسبب کمال حسن خلق کے ظاہر ان سے نہیں فرماتی تھیںکہ ہمارے گھر مت آئو۔ عمر بن خطاب جب یہ حال دیکھا تو اس گروہ سے دھمکا کر کہا کہ میں اس گھر کو تم پر جلادوں گا کہ پھرنہ آنے جانے پائو اور خصوصیت جلانے کی اس تہدید میں موافق حدیث آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور اسی سے مستنبط ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان لوگوں کوجو جماعت میں حاضر نہیں ہوتے تھے اور امام کے پیچھے نماز نہیں پڑھتے تھے ایسا ہی ارشاد فرمایا تھا کہ اگر یہ گروہ ترک جماعت سے باز نہ آئے تو میں ان کا گھر ان پر پھونک دوں گا اور چونکہ ابوبکر بھی امام نماز مقررکئے ہوئے حضرت پیغمبر کے تھے اور وہ لوگ ان کی امامت بحق کو ترک کرنا تجویز کرتے تھے اور رفاقت جماعت مسلمانوں کی اس امر میں نہیں کرتے تھے ۔پس یہ قول حضرت عمر کا بھی مشابہ قول پیغمبر کے ہے۔۔۔‘‘

(تحفۃ اثنا عشریۃ(مترجم)،صفحہ605،606،انجمن تحفظ ناموس اسلام ،کراچی)

اعتراض نمبر4:رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بیٹی ابوبکر سے ناراض تھیں

(راوی اماں عائشہ)بخاری،جلد5،صفحہ169

جواب:یہ مشہور مسئلہ باغِ فدک کا ہے جس کا تفصیلی جواب بارہا علمائے اہل سنت نے دیا ہے۔یہاںمختصراً اس اعتراض کا جواب دیا جاتا ہے۔بخاری کی وہ حدیث جس معترص نے حوالہ دیا ہے وہ یہ ہے کہ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے فرمایا’’أن فاطمۃ ابنۃ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم، سألت أبا بکر الصدیق بعد وفاۃ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم، أن یقسم لہا میراثہا، مما ترک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مما أفاء اللہ علیہ فقال لہا أبو بکر: إن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم قال: لا نورث، ما ترکنا صدقۃ، فغضبت فاطمۃ بنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم، فہجرت أبا بکر، فلم تزل مہاجرتہ حتی توفیت، وعاشت بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ستۃ أشہر‘‘ ترجمہ:حضرت فاطمہ بنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضور علیہ السلام کے بعد حضرت ابوبکرصدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے سوال کیا کہ جو حضور علیہ السلام چھوڑ گئے ہیں جو اللہ عزوجل نے انہیں عطاکیا تھا، اس وراثت کو تقسیم فرمادیں۔حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا: بے شک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ہم انبیاء علیہم السلام وراثت نہیں چھوڑتے ،ہم جو کچھ چھوڑ جائیں وہ صدقہ ہے۔تو حضرت فاطمہ ناراض ہو گئیں اور انہوں نے حضرت ابو بکر کو چھوڑے رکھا یہاں تک کہ ان کی وفات ہو گئی اور حضر ت فاطمہ حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے بعدچھ ماہ با حیات رہیں۔

(صحیح البخاری،کتاب فرض الخمس،جلد4،صفحہ79،دار طوق النجاۃ،مصر)

یہاں یہ بات خاص قابل توجہ ہے کہ یہ الفاظ حضرت سیدہ کی زبان سے نہیں نکلے ہیں بلکہ یہ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کا اپنا ذاتی خیال ہے جس کو انہوں نے اپنے لفظوں میں بیان کیا ہے۔ یعنی حضرت ابو بکر کی شکایت کسی روایت میں حضرت سیدہ کی زبان سے ثابت نہیں ہے نہ کوئی حدیث کا راوی یہ کہتا ہے کہ ہم نے ابو بکر کی شکایت جناب سیدہ سے سنی ہے اور چونکہ ناراضگی دل کا فعل ہے اس لیے جب تک اس کو زبان سے ظاہر نہ کیا جائے دوسرے شخص کو اس کی خبر نہیں ہو سکتی ،البتہ آثار وقرائن سے دوسرے لوگ قیاس کر سکتے ہیں مگر ایسے قیاس میں غلطی ہو جانے کا بہت امکان ہے جیسا کہ ایک بار بہت سے صحابہ کرام نے حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی خلوت نشینی سے یہ نتیجہ نکالا کہ حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے ازواج مطہرات کو طلاق دے دی ہے مگر جب حضرت فاروق اعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم سے تحقیق کی تو معلوم ہوا تو طلاق نہیں دی ہے۔

اسی طرح فدک کے معاملہ میں بھی ہو سکتا ہے کہ حضرت سیدہ کی خاموشی اور ترک کلام سے یہ سمجھ لیا گیا کہ حضرت سیدہ ناراض ہیں حالانکہ یہ بات نہیں کہ ناراضگی ہی ترک کلام کا سبب ہو بلکہ یہ بھی ہو سکتاہے کہ اپنے والد گرامی کے حدیث سن کر وہ مطمئن ہو گئیں اس لیے پھر کبھی انہوں نے حضرت ابو بکر سے فدک کے معاملہ میں گفتگو نہیں کی اور حضرت سیدہ کے ناراض نہ ہونے کی ایک واضح دلیل یہ بھی ہے کہ وہ برابر حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ سے گھر کے سارے اخراجات لیتی تھیں اور ان کی بیوی اسماء بنت عمیس حضرت سیدہ کی تیمار داری کرتی تھیں اگر واقعی حضرت سیدہ ناراض ہوتیں تو ان کی اور ان کی بیوی کی خدمات وہ ہرگز قبول نہ فرماتیں۔

حضرت ابو بکرصدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے جو حضور علیہ السلام کا ارشاد فرمایا یہ بالکل صحیح تھاجسے حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سمیت دیگر صحابہ و اہل بیت نے تسلیم کیا ہے۔ بخاری ومسلم میں حضرت مالک بن اوس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ مجمع صحابہ جن میںحضرت عباس ،حضرت عثمان ،حضرت علی ، حضرت عبد الرحمان بن عوف ،حضرت زبیر بن عوام اور سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہم موجود تھے ۔حضرت عمر فاروق اعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے سب کو قسم دے کر فرمایا کہ کیا آپ لوگ جانتے ہیں کہ حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ہم کسی کو وارث نہیں بناتے؟ تو سب نے اقرار کیا کہ ہاں حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے ایسا فرمایا ہے ۔حدیث شریف کے اصل الفاظ یہ ہیں’’انشدکم باللہ الذی باذنہ تقوم السماء والارض ھل تعلمون ان رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم قال لانورث ماترکنا صدقۃ قالو قد قال ذلک فاقبل عمر علی علی وعباس فقال انشدکم کما باللہ ھل تعلمان ان رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم قد قال ذلک قالا نعم‘‘ترجمہ: حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا کہ میں آپ لوگوں کو خدائے تعالیٰ کی قسم دیتا ہوں جس کے حکم سے زمین و آسمان قائم ہیں کیا آپ لوگ جانتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ ہم کسی کو وارث نہیں بناتے ہم جو چھوڑیں وہ صدقہ ہے۔ تو ان لوگوں نے کہا کہ بے شک رسول کریم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے ایسا فرمایا ہے۔ پھر وہ حضرت علی و بن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما کی طرف متوجہ ہوئے اور فرمایا کہ میں آپ کو خدائے تعالیٰ کی قسم دیتا ہوں کیا آپ لوگ جانتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے ایسا فرمایا ہے انہوں نے کہا کہ ہاں حضور نے ایسا فرمایا ہے۔

(صحیح البخاری،کتاب فرض الخمس،جلد4،صفحہ79،دار طوق النجاۃ،مصر)

ان احادیث کریمہ کے صحیح ہونے کا ثبوت یہ ہے کہ جب حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا زمانہ خلافت آیا اورحضور کا ترکہ خیبر اور فدک وغیرہ ان کے قبضہ میں ہوا اور پھر ان کے بعد حسنین کریمین وغیرہ کے اختیار میں رہا مگر ان میں سے کسی نے ازواج مطہرات ،حضرت عباس اور انکی اولاد کو باغ فدک وغیرہ سے حصہ نہ دیا۔ لہٰذاماننا پڑے گا کہ نبی کے ترکہ کی وراثت جاری نہیں ہوتی ورنہ یہ تمام بزرگوار جو رافضیوں کے نزدیک معصوم اور اہلسنت کے نزدیک محفوظ ہیں حضرت عباس اور دیگر ازواج کی حق تلفی نہ جائز رکھتے ۔

جب حضرت ابو بکر صدیق نے حدیث رسول پر عمل کیا تو ان پر الزام کیسا ؟جبکہ یہ روایت کہ حضرات انبیاء کسی کو اپنا وارث نہیں بناتے رافضیوں کی معتبر کتابوں سے ثابت ہے جیسا کہ اصول کافی باب العلم و التعلم میں ہے’’عن ابی عبد اللہ علیہ السلام قال قال رسول اللہ صلی للہ تعالی علیہ وسلم ان العلماء ورثۃ الانبیاء وان الانبیاء لم یورثودینارا ولا درہما ولکن اور ثو العلم فمن اخذہ منہ اخذ بحظ وافر‘‘ترجمہ:ابو عبدا للہ حضرت امام جعفر علیہ السلام سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کہ علمائے دین انبیاء کے وارث ہیں اس لیے کہ انبیاء کرام کسی شخص کو درہم و دینار کا وارث نہیں بناتے۔ تو جس شخص نے علم دین حاصل کرلیا اس نے بہت کچھ حاصل کرلیا ۔

اور اسی کتاب اصول کافی کے باب صفۃ العلم میں ہے’’عن ابی عبد اللہ علیہ السلام قال ان العلماء ورثۃ الانبیاء وذالک ان ا لانبیاء لم یورثو درہما ولا دینارا وانما اورثو احادیث من احادیثہم فمن اخذہ بشیء منہ فقد اخذ حظا وافرا‘‘ترجمہ:حضرت ابو عبداللہ امام جعفر صادق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا کہ علمائے کرام انبیائے عظام کے وارث ہیں اور یہ اس لئے کہ حضرات انبیائے کرام نے کسی کو درہم و دینار کا وارث نہیں بنایا انہوں نے تو صرف اپنی باتوں کا وارث بنایا۔ تو جس شخص نے ان کی باتوں کو حاصل کر لیا اس نے بہت کچھ حاصل کیا۔

حضرت امام جعفر صادق رضی اللہ تعالیٰ عنہ جو رافضیوں کے نزدیک معصوم ہیں اور اہل سنت کے نزدیک محفوظ ہیں ان کی روایتوں سے بھی ثابت ہو گیا کہ حضرات انبیائے کرام علیہم الصلوٰۃ والسلام کی میراث صرف علم شریعت ہی ہے وہ درہم و دینا اور مال اسباب کا کسی کو وارث نہیں بناتے اور جب یہ بات رافضیوں کی روایات سے بھی ثابت ہے تو پھر سید الانبیاء صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی میراث تقسیم نہ کرنے کے سبب حضرت ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ پر فدک کے غصب کرنے کا سوال ہی نہیں پیدا ہوتا۔ حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے نہایت التجا کے ساتھ اپنی پوری جائیداد حضرت سیدہ کو پیش کی جیساکہ رافضیوں کی معتبر کتاب حق الیقین میں ہے کہ حضرت سیدہ فاطمۃ زہرا رضی اللہ تعالیٰ عنہا جب حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے فدک کا مطالبہ کیا تو انہوں نے حدیث رسول’’لا نورث ما ترکناہ صدقۃ‘‘ کے سنانے کے بعد بہت معذرت کی اور کہا کہ’’اموال و احوال خود از تو مضائقہ نمی آں چہ خواہی بگیر تو سیدہ امت پدر خودی و شجرہ طیبہ از برائے فرزنداں خود انکار فضل تو کسے نمی تواند گرد و تو حکم تو نافذ ست در اموال من امادر اموال مسلماناں مخالف گفتیہ پدر تو نمی توانم کرد‘‘ترجمہ:میرے جملہ اموال و احوال میں آپ کو اختیار ہے آپ بلا روک ٹوک لے سکتی ہیں اور آپ حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی امت کے سردار ہیں اور آپ کے فرزندوں کیلئے شجرہ مبارکہ میں آپ کی فضیلت کا کوئی انکار نہیں کرسکتا اور آپ کا حکم میرے تمام مالوں میں نافذ ہے۔ لیکن مسلمانوں کے مالوں میں آپ کے والد ماجد سید عالم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے فرمان کی مخالفت میں نہیں کر سکتا ۔

(حق الیقین ملا مجلسی ،صفحہ231)

ان تمام شواہد سے خوب واضح ہو گیا کہ انبیائے کرام کے ترکہ میں وراثت جاری نہیں ہوتی اسی لئے حضرت سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے حضرت سیدہ کو باغ فدک نہیں دیا نہ کہ بغض وعداوت کے سبب جیسا کہ رافضیوں کا الزام ہے ۔اس لئے کہ اگر حضرت سیدہ سے ان کو دشمنی تھی تو ازواج مطہرات کو حضور کے ترکہ سے حصہ پہنچتا تو ان سے اور ان کے متعلقین سے کیا عداوت تھی کہ ان سب کو محروم المیراث کردیا جبکہ حضرت عائشہ صدیقہ ان کی صاحبزادی بھی ازواج مطہرات میں سے تھیں بلکہ حضرت عباس حضور کے چچا اور حضرت ابوبکر کے ابتدائے خلافت میں ان کے مشیر تھے جن کو تقریبا نصف ترکہ ملتا وہ کس دشمنی کے سبب وراثت سے محروم ہوئے ؟لہٰذا ماننا پڑے گا کہ حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ارشاد رسول ’’لا نورث ماترکنا صدقۃ ‘‘کے سبب حضرت سیدہ کو باغ نہ دیا کہ حدیث پر عمل لازمی تھا ۔اس لئے کوئی مسلمان یہ نہیں کہہ سکتا کہ حضرت سیدہ کو خوش کرنے کے لئے انہیں حدیث کو پس پشت ڈال دینا چاہئے تھا اور ارشاد رسول پر عمل نہیں کرنا چاہیے تھا۔

اعتراض نمبر5:ابوبکر کا ایمان اور ابلیس کا ایمان برابر ہے(امام ابوحنیفہ)

(تاریخ البغداد،جلد3،صفحہ373)

جواب:یہ حوالہ تحریف کے ساتھ دیا گیا ہے۔ لکھا یہ تھا کہ ابلیس اور حضرت ابوبکر صدیق کا ایمان ایک ہے۔لیکن مکارجھوٹے شیعہ نے لکھ دیا کہ ابوبکر اور ابلیس کا ایمان برابر ہے۔اصل پوری عبارت یوں ہے’’أبو إسحاق الفزاری یقول: سمعت أبا حنیفۃ، یقول: إیمان أبی بکر الصدیق، وإیمان إبلیس واحد، قال إبلیس: یا رب، وقال أبو بکر الصدیق: یا رب‘‘ترجمہ: ابو اسحاق فزاری کہتے ہیں کہ میں نے امام ابوحنیفہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے سنا ۔وہ کہتے ہیں: ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور ابلیس کا ایمان ایک ہے۔ ابلیس نے کہا ’’یارب‘‘ اور ابوبکرصدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے بھی کہا’’یارب‘‘

(تاریخ بغداد،جلد15،صفحہ502، دار الغرب الإسلامی،بیروت)

یعنی اس میں یہ کہا جارہا ہے کہ ابلیس بھی ان چیزوں پر ایمان لایا تھا جن پر حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ ایمان لائے تھے اگرچہ ابلیس کا ایمان حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی مثل نہیں تھا۔حضرت ابوبکر صدیق کا ایمان کامل تھا۔دراصل کتب عقائد میں یہ مسئلہ مشہور و معروف ہے کہ نفس ایمان میں سب برابر ہوتے ہیں ،البتہ بعض کا ایمان کامل ہوتا ہے اور بعض کا کمزور۔یہی وجہ ہے کہ امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ نے دوسری جگہ فرمایا کہ میراا یمان جبرائیل کی طرح ہے نہ کہ جبرائیل کی مثل چنانچہ البحرالرائق میں ہے’’نقل عن الإمام الأعظم رضی اللہ عنہ أنہ قال إیمانی کإیمان جبریل علیہ السلام ولا أقول: إیمانی مثل إیمان جبریل‘‘حضرت امام اعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے نقل کیا گیا کہ انہوں نے فرمایا: میرا ایمان جبرائیل علیہ السلام کے ایمان کی طرح ہے۔ میں یہ نہیں کہتا کہ میرا ایمان جبرائیل علیہ السلام کے ایمان کی مثل ہے۔

(البحر الرائق شرح کنز الدقائق،کتاب الطلاق، باب الفاظ الطلاق،جلد3،صفحہ310،دار الکتاب الإسلامی)

اعتراض نمبر6:عمر کا بیان کہ موجودہ قرآن تحریف شدہ ہے۔

(تفسیر درمنثور،صفحہ104،تفسیر التقاق،صفحہ88)

جواب:یہ صریح جھوٹ وبہتان ہے۔حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ایسا کچھ نہیں فرمایا۔تفسیر درمنثور میں یہ عبارت موجود نہیں اور تفسیر التقاق پتہ نہیں کونسی ،کس مسلک کی کتاب ہے؟لیکن جاہل گستاخ معترض کا دعویٰ ہے کہ یہ سب کتب اہل سنت کی معروف کتب ہیں۔

اعتراض نمبر 7:معاویہ نے عائشہ کے بھائی کو قتل کیا جس پر عائشہ نے معاویہ پر ہر نماز میں لعنت کی۔

(تاریخ طبری،جلد2،صفحہ689)

جواب:اس میں الزام لگانے والے نے اپنے بغض کا ثبو ت دیا ہے اور تحریف کے ساتھ عبارت پیش کی ہے۔ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے بھائی حضرت محمد بن ابی بکر کو حضرت امیر معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے شہید نہیں کیا تھابلکہ ان کے متعلق مختلف روایتیں ہیں ایک روایت میں ہے حضرت معاویہ بن خدیج نے شہید کیا نہ کہ معاویہ بن سفیان نے اور ایک روایت میں ہے حضرت عمر و بن عاص نے شہید کیا اور ایک روایت میں ہے وہ خودجنگ کے دوران شہید ہوئے ۔یہ تاریخ سے ثابت ہے کہ حضرت علی المرتضی اور حضرت امیر معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہما کے اختلاف کے مابین کئی صحابہ و تابعین دونوں طرفوں سے شہید ہوئے تھے ،یہ سب اجتہادی خطا تھی جس پر کلام کرنے سے علماء نے منع فرمایا ہے۔

پھر حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا ہر نماز کے بعد حضر ت امیر معاویہ پر لعنت نہیں کرتی تھیں بلکہ تاریخ طبر ی کے الفاظ یہ ہیں’’ تدعو علی معاویۃ وعمرو ‘‘ترجمہ:معاویہ اور عمرو بن عاص کے خلاف دعا کرتی تھیں۔

(تاریخ الطبری ،جلد5،صفحہ105،دار التراث ،بیروت)

حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کا نماز کے بعد دعا مانگنا اسی روایت میں ہے جس میں اس بات کا ذکر ہے کہ حضرت محمد بن ابی بکر کو حضرت معاویہ بن خدیج نے شہید کیا تھا جبکہ دوسری روایات جس میں یہ ذکر ہے کہ ان کو شہید حضرت معاویہ بن خدیج نے نہیں کیا تو اس میں حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے دعامانگنے کا بھی ذکر نہیں ہے۔ چنانچہ اسی تاریخ طبری میں اگلی روایت یوں لکھی ہے ’’وأما الواقدی فإنہ ذکر لی أن سوید بن عبد العزیز حدثہ عن ثابت بن عجلان عن القاسم بن عبد الرحمن أن عمرو بن العاص خرج فی أربعۃ آلاف فیہم معاویۃ ابن خدیج وأبو الاعور السلمی فالتقوا بالمسناۃ فاقتتلوا قتالا شدیدا حتی قتل کنانۃ بن بشر بن عتاب التجیبی ولم یجد محمد بن أبی بکر مقاتلا فانہزم فاختبأ عند جبلۃ بن مسروق فدل علیہ معاویۃ بن خدیج فأحاط بہ فخرج محمد فقاتل حتی قتل‘‘باقی والدی کے حوالے سے ہے کہ عمرو بن عاص چار ہزار کا لشکر لے کر نکلے جس میں معاویہ ابن خدیج،ابوالاعور سلمی بھی تھے۔ تو یہ مسناۃ مقام پر ملے اور شدید جنگ ہوئی یہاں تک کنانہ بن بشر بن عتاب قتل ہوئے اور محمدبن ابی بکر مقتولین میں پائے نہیں گئے۔محمد بن ابی بکر وہاں سے بھاگے اور جبلہ بن مسروق کے پاس جاکر چھپ گئے ،معاویہ بن خدیج نے اس کی نشاندہی کی اور ان کا احاطہ کرلیا۔ پھرمحمد بن ابی بکر باہر نکلے لڑے یہاں تک کے شہید ہوگئے۔

(تاریخ الطبری ،جلد5،صفحہ105،دار التراث ،بیروت)

اس روایت میں یہ صراحت نہیں کہ حضرت محمد بن ابی بکر کو کس نے شہید کیا کیونکہ وہ جنگ کے دوران لڑتے لڑتے شہید ہوگئے۔اب جب دونوں قسم کی روایتیں ہیں تو اس میں زیادہ صحیح روایت کونسی اس کی وضاحت’’ الثقات‘‘ میں محمد بن حبان الدارمی (المتوفی354) نے کردی کہ محمد بن ابی بکر کو معاویہ بن خدیج نے شہید نہیں کیا تھا یہ زیادہ صحیح ہے چنانچہ محمد بن ابی بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے سیرت بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں’’ولی علی محمد بن أبی بکر مصر وصار إلیہ عمرو بن العاص فاقتتلوا فانہزم محمد بن أبی بکر فدخل خربۃ فیہا حمار میت فدخل جوفہ فأحرق فی جوف الحمار وقد قیل إنہ قتل بالمعرکۃ قتلہ معاویۃ بن خدیج والأول أصح وقد قیل إنہ قتلہ عمرو بن العاص ‘‘ یعنی حضرت علی المرتضیٰ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے محمد بن ابی بکر کو مصر کا والی مقرر کیا اور عمرو بن عاص ان کے طرف بڑھے اور دوونوں گروہ کی جنگ ہوئی۔ محمد بن ابی بکر بھاگ کر ایک غار میں داخل ہوئے جہاں مردار گدھے پڑھے تھے ۔وہ ایک گدھے کی کھال میں داخل ہوگئے تواس کھال کو جلا دیا گیا۔ کہا گیا کہ جنگ کے دوران حضرت معاویہ بن خدیج نے انہیں شہید جبکہ پہلا قول زیادہ صحیح ہے۔ یہ بھی کہا گیا کہ حضرت عمرو بن عاص نے انہیں شہید کیا۔

(الثقات،باب المیم،جلد3،صفحہ368،دائرۃ المعارف العثمانیۃ بحیدر آباد الدکن الہند)

جب زیادہ صحیح روایت یہی ہے کہ حضرت معاویہ بن خدیج نے محمد بن ابی بکر کو شہید نہیں کیا تو حضرت عائشہ صدیقہ کا معاویہ اور عمرو بن عاص کے خلاف دعا کرنے والی روایت کو نہیں لیا جائے گا۔

اپنا تبصرہ بھیجیں