سول سوسائٹی

سول سوسائٹی

پیشکش: صدائے قلب

شعب الایمان کی حدیث پاک ہے ”عَنْ مُعَاذِ بْنِ جَبَلٍ عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، قَالَ:یَکُوْنُ فِی آخِرِ الزَّمَانِ قَوْمٌ إِخْوَانُ الْعَلَانِیَۃِ، أَعْدَاء ُ السَّرِیرَۃِ ٍ“ترجمہ: حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کہ آخری زمانہ میں ایسی قومیں ہوں گی جو ظاہراً دوست ہوں گی اورپوشیدہ دشمن ۔

(شعب الإیمان،مقاربۃ اہل الدین و موادتھم ۔۔،فصل فی المصافحۃ والمعانقۃ و غیرھما۔۔،جلد11،صفحہ342،حدیث8628، مکتبۃ الرشد،الریاض)    

عصر حاضر میں کئی قومیں اور گروہ بظاہر مسلمانوں سے اتحادو محبت کا دعویٰ کرتے ہیں لیکن درحقیقت اسلام اور مسلمانوں کے جانی دشمن ہیں۔کفا ر قومیں پہلے دہشت گردوں کی پرورش کرکے اسلامی ممالک میں قتل و غارت عام کرواتیں ہیں،پھرملک کی ہمدرد بنتے ہوئے اس کی مدد کے بہانے انگریز فوج بھیج کرقبضہ کرلیتی ہیں، جس کی کئی مثالیں ہمارے سامنے ہیں۔ اسلامی ممالک میں جس طرح نام نہاد جہاد کے نام پر مسلمانوں کو قتل کرنے کے لئے گمراہ مولویوں کی ضرورت ہوتی ہے اسی طرح اسلامی ممالک کی سیکرٹ خبریں حاصل کرنے،اس میں بے دینی و انتشارپھیلانے میں کفار کو سیکولر قسم کے لوگ بھی درکار ہوتے ہیں جو ان کو این جی اوز کے بہانے مل جاتے ہیں ۔

پاکستان میں چھوٹی چھوٹی ہزاروں کے حساب سے این جی اوز بنی ہوئی ہیں اور کئی سالوں سے انگریزوں کی سرپرستی میں کام کررہی ہیں۔یہ بظاہر ملک وعوام کے ہمدرد، خیرخواہ بنتے ہیں لیکن درحقیقت اس کے دشمن اوراسے نقصان پہچانے میں کوئی قصر نہ چھوڑنے والے ہیں۔غریبوں ،مظلموں کی مدد کے بہانے چھوٹی چھوٹی این جی اوز بنا کر فنڈ کھانا اور ملک و اسلام کے خلاف زہر اگلنا ان کا وتیرہ ہے۔

انہی این جی اوز نے مل کر ایک نیا گروہ تشکیل دیا ہے جس کا نام” سول سوسائٹی “ہے۔اس سول سوسائٹی کا مختصرتعارف کچھ یوں ہے: نام سول سوسائٹی تعداد بیس پچیس سے لے کر چالیس یا پچاس تک، پہچان مذہبی جماعتوں دینی مدارس اسلامی شعائر کی زبردست مخالفت، کام چھوٹی چھوٹی جلوسیاں اور دھرنیاں نظریہ مادر پدر آزاد خیالی اور ڈالر خوری۔اس سول سوسائٹی میں وہی بڑے سیکولر بے دین قسم کے لوگ ہیں جن میں عاصمہ جہانگیر سرفہرست ہے جس کو کئی میڈیا کے لوگ کفار کا ایجنٹ قرار دیتے ہیں۔یہ بھارت کے مندروں میں را مائن تھامے پوجا پاٹ ، بال ٹھاکرے کی قدم بوسی اور پاکستان دشمن بنگلہ دیشی قیادت سے ایوارڈ وصول کررہی ہوتی ہے۔ یہی وہ ہے جو اپنی مشکوک سرگرمیوں کے باعث کسی کاروائی سے بچنے کیلئے آئی ایس آئی جیسے قومی اداروں پر اپنے قتل کی سازش کے من گھڑت الزامات کا شور مچا کر خود ساختہ مظلوم بننے کے فن سے واقف ہے۔ غور کریں تو عاصمہ جہانگیر، ماروی سرمد اور انصار برنی جیسے این جی او کرداروں کی مشکوک سرگرمیوں ہی سے یہ حقیقت عریاں ہوجاتی ہے کہ ایسی کئی این جی اوز یقینی طور پر بھارتی یا مغربی ایجنسیوں کیلئے کام کرتی ہیں۔ ایسی تنظیمیں نان ایشوز کو بڑا ایشوز بنا کر پوری دنیا میں ایسا واویلا مچاتی ہیں کہ جس سے پاکستانی معاشرے اور اور اسلام کا تشخص بدنام ہوتا ہے۔

پاکستان میں اس وقت بہت سی این جی اوز اسلامی سزاؤں کا نفاذ روکنے، سزائے موت ختم کروانے،ماحولیات کا رونا روکر کالا باغ ڈیم کی تعمیر رکوانے، دستاویزی فلمیں بنا کر عالمی سطح پر پاکستان کی ساکھ بگاڑنے ، عریانی اور فحاشی کو فروغ دینے ، کشمیر میں لاکھوں مسلمانوں کا قتل عام بھول کر بھارت سے محبت کی پینگیں بڑھانے اور سب سے بڑھ کر یہ کہ اسلام کو بدنام کرنے میں مصروف ہیں۔ جس کے لئے انہیں ملک و اسلام دشمن غیر ملکی قوتوں کی جانب سے بھاری فنڈنگ ہو رہی ہے، لیکن آج تک کسی نے بھی ان کے گھناؤنے کردار کو سامنے لانے اور ان کا کڑا احتساب کرنے کی زحمت گوارا نہیں کی۔

تاریخ گواہ ہے کہ جب کبھی بھی پاکستان میں توہین رسالت صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کا سانحہ ہوا اور جرم ثابت ہو گیا تو ملزمان کے دفاع کے لئے کوئی نہ کوئی این جی او اٹھ کھڑی ہوئی، لیکن جب حضور اکرم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کے خاکے شائع کرنے کی گھناؤنی حرکت کی گئی اور شیطان کے چیلے ملعون ٹیری جان نے قرآن پاک جلانے کی گھناؤنی حرکت کی تو ان تمام این جی اوز کی زبانوں پر تالے پر گئے ۔پاکستان میں توہین رسالت صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کے قانون کو کالا قانون کہنا والا سلمان تاثیرقتل ہوا تو بہت سی این جی اوز کے دلوں سے ہمدردی کے چشمے پھوٹ پڑے، لیکن جب پاکستان میں امریکہ، اسرائیل اور بھارت نے دہشت گردی کروائی، ہزاروں پاکستانیوں کو شہید کیا تو یہ این جی اوزخاموش تماشائی بنی رہیں اور کسی کی زبان سے ایک لفظ بھی نہ نکلا۔ برما میں بدھ مت کے دہشت گردوں کے ہاتھوں ہزاروں مسلمانوں کی ہلاکت بھی ان این جی اوز کے لئے معمولی بات ہے۔ ان این جی اوز کو یہ نظر نہیں آتا کہ امریکہ اور برطانیہ میں جرائم ،ریپ اور بے راہ روی کی شرح کیا ہے؟ان ممالک میں ہر سال چودہ سال تک عمر کی کتنے لاکھ بن بیاہی لڑکیاں ناجائز بچوں کی مائیں بن جاتی ہیں، لیکن یہ این جی اوز پاکستان میں ہونے والے کسی ایک بھی واقعہ کے مجرموں کو سزادلانے کے لئے کچھ کرنے کی بجائے عالمی سطح پر یوں آہ و بکاہ کرتی ہیں جیسے پاکستان نے کسی دوسرے ملک پر ایٹمی حملہ کر دیا ہو۔ ان این جی اوز نے مختاراں مائی کو اپنا آلہ کار بنایا، اس کے ذریعے خود اربوں کمائے اور اسے کروڑوں کا مالک بنادیا، بدلے میں اس نے درجنوں ممالک میں جا کر پاکستان کو بدنام کیا۔ان این جی اوز کو یہ بھی نظر نہیں آتا کہ پاکستان میں کئی منظم گینگ ننھے ننھے معصوم بچوں کو اغوا کر کے یا پھر لاوارث بچوں کو حاصل کر کے انہیں معذور کرتے اور پھر سڑکوں پر پھینک کر بھیک منگواتے ہیں، لیکن ہر وہ پہلوضرور نظر آجاتا ہے جس سے پاکستان اور اسلام کو بدنام کیا جاسکے ، پاکستان میں بے راہ روی ، فحاشی اور عریانیت کو فروغ دیا جاسکے ۔اگر کبھی دکھلاوے کے طور پر ملک کے لئے نکلے بھی تو فارمیلٹی کے طور پر لیکن جب انگریزوں کا اشارہ آئے کہ اسلام اور علماء کے بارے میں زبان درازی کرنی ہے تو پھر یہ پورے زور وشور سے نکلتے ہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ ناموس رسالت کی بات ہو،کہیں مسجد و مدرسہ میں دہشت گردی ہو یہ آپ کو نظر نہیں آئے گے، چیچن خواتین کے قتل اور خواتین کو زندہ درگور کرنے کے واقعات پر کسی این جی او نے شمعیں روشن نہیں کیں۔ یہ نظر آئیں گے تو سلمان تاثیر جیسے گستاخ کی برسی پر، کسی کافر کے قتل ہونے کے احتجاج میں،ممتاز قادری کے خلاف،کوئی عورت اگر گھر سے کسی کے ساتھ بھاگ جائے تو فقط اپنی این جی او چلانے کے لئے اس کی حمایت کرتے اس کے والدین کو ظالم ثابت کرتے ہوئے۔

 کفار اس سول سوسائٹی اور این جی اوز سے فقط انتشار پھیلانے کا ہی کام نہیں لیتے بلکہ حسا س اداروں کی معلومات لےنے کے لئے بھی استعمال کرتے ہیں۔ گذشتہ دنوں حساس اداروں کی طرف سے چھاپے کے دوران پاکستان مخالف سرگرمیوں کے شواہد سامنے آنے پر امریکی این جی او” آئی میپ“پر پابندی عائد کر دی گئی ہے ۔ اداروں کی طرف سے اس امریکی این جی او کا دفتر سیل کر کے ریکارڈ قبضے میں لے لیا گیا ہے۔اسلام ٹائمز کی ایک رپورٹ کے مطابق سیو دی چلڈرن این جی او کے کنٹری ڈائریکٹر نے اس ضمن میں مڈل مین کا کردار ادا کیا ہے اور ڈاکٹر شکیل آفریدی کو سی آئی اے کے لئے اسامہ بن لادن کے خلاف آپریشن میں اہم کردار سونپا ہے اور جعلی ویکسی نیشن کے لئے ویکسین اور رقم فراہم کی۔

  جنرل راحیل شریف کی طرف سے حساس نوعیت کے خطرات کی نشاندہی سے واضح ہے کہ عسکری اداروں نے وسیع تر ملکی مفادات میں ہر طرح کے سیکورٹی تحفظات دور کرنے کا اٹل فیصلہ کر لیا ہے۔ ان کے مطابق غیر ملکی این جی اوز اور ملٹی نیشنل کمپنیاں ملکی سلامتی اور ریاست کیلئے براہ راست خطرہ ہیں، ان پر قابو نہ پایا گیا تو صورت حال سنگین ہوسکتی ہے۔آئی ایس آئی کے سابق سربراہ جنرل پاشا کا یہ بیان بھی بڑا چشم کشا تھا کہ کئی این جی او ادارے غیر ملکی ایجنسیوں کی اطلاعات اور رسائی فراہم کرتے ہیں۔ خطرناک امر ہے کہ دشمن ممالک کی کئی این جی اوز سرحدی علاقوں، فوجی چھاؤنیوں کے قریب و جوار اور آفت زدہ علاقوں میں بحالی یا ترقیاتی کاموں کی آڑ میں حساس معلومات اپنے ڈونر ممالک کو بھیج کر مخبری کاکردار ادا کر رہی ہیں۔ بلوچستان میں جاری دہشت گردی اور تخریب کاری کا بڑا سبب ایسی ہی لاتعداد مشکوک این جی اوز کی موجودگی ہے ۔

پاکستان میں بہت سی این جی او ایسی ہیں جو استعماری ممالک کے ایجنڈے کے تکمیل کے لئے فلاحی کاموں کی آڑ میں مصروف عمل ہیں ۔اس ضمن میں افسوسناک پہلو یہ ہے کہ جن محکموں نے ان کے خلاف کارروائی کرنا ہوتی ہے اس کے اہلکار ان این جی اوز سے بھاری رقوم لے کر آنکھیں موندے ہوئے ہیں۔پریس اینڈ سوشل میڈیا پر ایسی رپورٹس بھی منظر عام پر آ چکی ہیں کہ کئی بڑی این جی اوز سفارت خانوں اور پارلیمنٹ ہوسٹل میں بدکاری کے لئے عورتیں فراہم کرنے کے دھندے میں ملوث رہی ہیں۔ کئی میڈیا حضرات اپنے مشترکہ آقاؤں کی منظور نظر این جی او ہستیوں کے سہولت کار ہیں۔ دراصل یہ ایک ٹیم ورک ہے کہ جہاں اینٹی پاکستان قوتیں میڈیا کے موثر ہتھیار کو امن کی آشا برانڈ مقاصد کیلئے استعمال کرتی ہیں، وہاں چند ضمیر فروشوں کا زر خریداین جی او مافیہ انہیں اینٹی پاکستان طاقتوں کیلئے خفیہ جاسوس کا کردار ادا کرتا ہے۔

میڈیاکی بڑی تعداد اس سول سوسائٹی اور این جی اوز کی حمایتی ہے اور ان کو سول سوسائٹی کی تشہیر کے لئے اچھی خاصی رقم دی جاتی ہے۔یہی وجہ ہے کہ دو چار سول سوسائٹی والے کسی مسئلہ پر احتجاج کررہے ہوں گے تو اخباروں کی سرخیوں اور خبروں کی ہیڈلائن میں اس کا چرچا ہورہا ہوگا۔

لیکن پھر بھی میڈیا کے چند ایسے لوگ ہیں جنہوں نے سول سوسائٹی اور این جی اوز کا پردہ چا ک کیا ہے۔چند آرٹیکل اختصار کے ساتھ پیش خدمت ہیں: 

سول سوسائٹی

مسعود انور

آج کے دور کا ایک اہم کمال چند اصطلاحات کا عام استعمال ہے جن کے معانی، مفہوم اور مقاصد سے محض چند ہی لوگ واقف ہیں۔ ان اصطلاحات میں پرائیویٹ سیکوریٹی کمپنیاں جن کو پرائیویٹ کنٹریکٹرز بھی کہا جاتا ہے، ہیومین ریسورس، آؤٹ سورس، این جی اوز اور سول سوسائٹی بھی شامل ہیں۔اب ہر چیز آؤٹ سورس کردی گئی ہے۔ جی ہاں جنگ بھی اور حکومتیں بھی۔ پرائیویٹ آرمی کی سب سے بڑی مثال ہمارے سامنے نیٹو ہے۔ جبکہ یہی اصل شکل میں بلیک واٹر یا موجودہ نام اکیڈمی کی شکل میں موجود ہیں۔ ان کے اثر کا اندازہ ریمنڈ ڈیوس سے کیا جاسکتا ہے کہ وہ بھی ان کا ہی ہرکارہ تھا۔ یہ پرائیویٹ کنٹریکٹرز پوری آرمرڈ فوج، ایرپورٹ اور بندرگاہوں کے مالک ہیں اور کسی بھی ملک کی اینٹ سے اینٹ بجانے کی اہلیت رکھتے ہیں۔مگر پرائیویٹ آرمی کا استعمال تو اس وقت کیا جاتا ہے جب پھل پک چکا ہو اور صرف فصل کاٹنے کا موقع ہو۔ مگر فصل کی تیاری، اس کی بوائی اور اس کی آبیاری کے لئے تو دیگر طریقے استعمال کرنے پڑتے ہیں۔ اس کے لئے ان کنٹریکٹرز کے آقاؤں نے دوسری فوج تیار کررکھی ہے جس کو زمانہ امن میں فوج کشی کا نام دیا جاسکتا ہے۔ یہ ہے سول سوسائٹی۔ آج کا اخبار، ٹیلی رپورٹس، ریڈیو، سیمینار، سب اس لفظ سے بھرے ہوئے ہیں مگر کم ہی لوگ اس کی اصلیت سے واقف ہیں۔

یہ سول سوسائٹی آخر ہے کیا بلا اور اس کے مقاصد کیا ہیں؟ جیسے ہی ہم یہ جان لیتے ہیں، بہت ساری چیزیں از خود واضح ہوجاتی ہیں اور پھر ہمیں کسی دانشور کی مزید مدد کی ضرورت نہیں رہتی۔ سول سوسائٹی کا آغاز غیر سرکاری تنظیم (Non-governmental Organization)یا عرف عام میں NGOs سے ہوا۔ ان این جی اوز کا آغاز کیسے ہوا اور ان کی ہیئت کیا ہے ؟ اس کو دیکھنے کے لیے ہمیں گذشتہ ایک سو سالہ تاریخ کے اوراق پلٹنے پڑیں گے۔

 یوں تو پہلی بین الاقوامی این جی اوکا تذکرہ ہمیں 1839میں ملتا ہے اور ایک اندازے کے مطابق1914تک1083این جی اوز وجود میں آچکی تھیں ۔ پہلی اور دوسری جنگ عظیم میں بھی ان کا کردار ہمیں دیکھنے کو ملتا ہے مگر اسے باقاعدہ تسلیم شدہ حیثیت اقوام متحدہ کے قیام کے ساتھ ہی ملی ۔ اقوام متحدہ کا اداراہ قائم ہی ایک عالمگیر حکومت کے قیام کے لئے کیا گیا تھا۔ اس لیے اس کے اجزاء میں وہ تمام مصالحے شامل ہیں جو ایک عالمگیر حکومت کے قیام کے لئے ناگزیر ہیں یا پھر اس کے قیام میں معاون ثابت ہوسکتے ہیں ۔ اقوام متحدہ کے دسویں چیپٹر کے آرٹیکل 47کے تحت ان این جی اوز کی حیثیت کو تسلیم کیا گیا ہے اور ان کو باقاعدہ کنسلٹنٹ کی حیثیت دی گئی ہے۔ ان این جی اوز کے اثرات کا اس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ اقوام متحدہ کے ارکان ممالک کی تعداد 185ہے جبکہ اس کی ارکان این جی اوز کی تعداد پانچ سو کے قریب ہے ۔ ان این جی اوز کو باقاعدہ اسمبلی میں نشستیں الاٹ کی گئی ہیں اور یہ185رکن ممالک پر اپنا اثر و رسوخ استعمال کرنے کے لیے تمام تر ہتھکنڈے استعمال کرتی ہیں ۔ جس میں رپورٹوں کی تیاری سے لے کر مندوبین کو رشوتیں تک دینا شامل ہیں ۔ ان پانچ سو این جی اوز اور رکن ممالک کے مابین صرف اور صرف ایک فرق ہے اور وہ یہ کہ یہ ووٹنگ میں حصہ نہیں لے سکتیں ۔ ان پانچ سو این جی اوز کے علاوہ جنہیں اقوام متحدہ میں باقاعدہ نشستیں الاٹ کی گئی ہیں، مزید تین ہزار این جی اوز اور بھی ہیں جنہیں اقوام متحدہ نے باقاعدہ نشستیں تو الاٹ نہیں کی ہیں مگر انہیں بطور کنسلٹنٹ تسلیم کررکھا ہے اور یہ ابھی اقوام متحدہ کے ارکان پر اپنا اثر و رسوخ استعمال کرتی ہیں ۔ ان کے کام کی نوعیت ایک لابسٹ کے طور پر زیادہ ہے۔

آخر یہ این جی اوز آئی کہاں سے ہیں؟ ان کے خالق اور سرپرست کون ہیں؟ اور سب سے اہم بات یہ کہ ان کے بھاری بجٹ کہاں سے پورے ہوتے ہیں؟ آپ ایدھی سے لے کر کسی بھی بین الاقوامی این جی او کو دیکھ لیجیے۔ ان کے سربراہ سے لے کر نچلی سطح کے کارکن تک سب تنخواہ دار ہوتے ہیں اور ان کو تنخواہیں نسبتا دگنی دی جاتی ہیں تاکہ معاشرہ کے ذہین ترین افراد کو اس طرف کھینچ کر اس کا کل پرزہ بنایا جاسکے اور اس کے سربراہ کا مقابلہ تو کسی بھی ملٹی نیشنل کمپنی کے سربراہ سے کیا جاسکتا ہے۔ مقابلہ کیا کرنا، اصل میں تو یہ بھی ملٹی نیشنل کمپنیاں ہی ہوتی ہیں ۔

زمانہ امن میں ملکوں کے اندر مطلوبہ سیاسی تبدیلی لانے والی این جی اوز کو سول سوسائٹی کا نام دے دیا گیا ہے ۔ سول سوسائٹی نام تو انتہائی پرکشش ہے مگر اس کے کام دیکھیں تو انتہائی گھناوئنی صورتحال نظر آتی ہے بلکہ ان میر جعفروں اور میر صادقوں کو دیکھ کر پہلا تاثر ہی کراہت کا ہوتا ہے ۔ جیسے جیسے وقت گذرتا جارہا ہے ان ان جی اوز کی تعداد میں اضافہ ہوتا جارہا ہے ۔ یہ صرف پاکستان یا مسلم ممالک کا مسئلہ نہیں ہے بلکہ اسے پوری دنیا میں پھیلائے گئے سرطان کا نام دیا جاسکتا ہے۔

یہ این جی اوز یا سول سوسائٹی کے ارکان جن کا طمطراق دیکھنے کا ہوتا ہے۔ جن کی آنکھیں صبح کسی عالی شان گیسٹ ہاوئس میں کھلتی ہیں تو رات کسی فائیو اسٹار ہوٹل میں ہوتی ہے۔ ان کے پاس فور وہیل ڈرائیو سے کم کی گاڑی نہیں ہوتی اور سب سے زیادہ اہم بات یہ کہ ان کے پاس اپنے ہدف کو کرپٹ کرنے کے لئے فنڈز کی کوئی کمی کبھی بھی نہیں ہوتی ۔ ان کے پاس یہ لامحدود فنڈز آتے کہاں سے ہیں اور دینے والوں کے مقاصد کیا ہیں۔ آئیے اسے تازہ مثالوں کی روشنی میں دیکھتے ہیں ۔

جنوری 2012کے آغاز میں مصری افواج نے قاہرہ میں تین این جی اوز فریڈم ہاوئس، انٹرنیشنل ریپبلیکن ہاوئس اور نیشنل ڈیموکریٹک انسٹیٹیوٹ کے دفاتر پر ہلّہ بول کے ان کو سیل کردیا ۔ ان تینوں این جی اوز کو امریکہ کی مختلف تنظیموں کی طرف سے ساڑھے چھ کروڑ ڈالر کی فنڈنگ کی گئی تھی تاکہ وہ مصر میں عالمی سازش کاروں کے منصوبے کے مطابق جمہوریت کے لیے مصری عوام کے ذہن کی آبیاری کرسکیں ۔ ان تینوں این جی اوز کے دفاتر کے بند ہوتے ہی واشنگٹن میں غصہ کی لہر دوڑ گئی ۔ وال اسٹریٹ جرنل اور واشنگٹن پوسٹ میں اس پر خصوصی مضامین شائع ہوئے جس میں اس اقدام کو جمہوریت دشمن قرار دیا گیا اور کہا گیا کہ موجودہ مصری حکومت ملک میں اصل جمہوریت کا نفاذ ہی نہیں چاہتی ۔ امریکی افواج کے سربراہ لیون پینیٹا نے مصری حکام کو فون کر کے اس قدم کے نتائج و عواقب سے آگاہ کرتے ہوئے مصر کو جاری 1.3ارب ڈالر کی فوجی امداد روکنے کی معصومانہ سی دھمکی بھی دی ۔ اس کے بعد مصر کے فوجی سربراہ فیلڈ مارشل محمد حسین طنطاوی سدھر چکے تھے اور ان این جی اوز کے خلاف فوجی چھاپے فوری طور پر بند کرکے ان کو دوبارہ کام کرنے کی باعزت اجازت دے دی گئی ۔

اسی دسمبر میں ہی روسی سربراہ ولادیمیر پیوٹن نے الزام لگایا تھا کہ ان کے خلاف مظاہروں کو منظم کرنے کے لئے کروڑوں ڈالر روس میں اسمگل کیے گئے ہیں ۔ دسمبر میں ہی چینی حکام نے ہانگ کانگ میں امریکی قونصل جنرل اسٹیفن ینگ پر چین میں بے چینی پھیلانے کی کوششوں کا الزام لگایا تھا ۔ ہانگ کانگ کے کمیونسٹ نواز اخبار وین وی پو نے لکھا کہ اسٹیفن ینگ جہاں بھی گیا وہاں پر نام نہاد انقلاب لانے کا ذکر آیا ۔(Color Revolution) ہوں یا عرب کی انقلاب بہار یا پھر چین میں(Jasmine Revolution)کی کوششیں، سب کی پشت پر ہمیں ان این جی اوز یا سول سوسائٹی کا ہی کردار نظر آتا ہے ۔

ان این جی اوز یا سول سوسائٹی کو ایک سادہ انداز میں ہم کرائے کے فوجی کہہ سکتے ہیں جو اپنی تنخواہ کے عوض اپنے اپنے ملکوں میں اس طرح کی صورتحال پیدا کرنے یا تبدیل کرنے کی کوشش کرتے ہیں جو اقوام متحدہ، امریکہ یا یوروپین یونین کی خواہشات یا قراردادوں کے مطابق ہوں ۔ اقوام متحدہ، امریکی حکومت اور یورپین یونین آخر خود کیا ہیں، یہ عالمی سازش کاروں کے وہ آلات ہیں جن کی مدد سے وہ دنیا میں ایک عالمگیر حکومت کے قیام کے لئے کوشاں ہیں۔

سول سوسائٹی کے یہ ارکان ہر طرح کے ہتھیاروں سے لیس ہوتے ہیں اور ان کو ہر طرح کی گراؤنڈ سپورٹ بھی حاصل ہوتی ہے۔ اس سپورٹ میں میڈیا کا کردار سب سے اہم ہے ۔ عالمی سازش کاروں کو میڈیا کی اہمیت کا احساس ہے۔ یہی وجہ ہے کہ انہوں نے سب سے پہلے میڈیا کا کنٹرول حاصل کیا اور اب پوری دنیا کا میڈیا ان کے براہ راست کنٹرول میں ہے ۔ جی صرف دنیا کا بین الاقوامی میڈیا ہی نہیں بلکہ علاقائی زبانوں میں چھپنے والے اخبارات اور علاقائی زبانوں میں چلنے والے ٹیلی وژن چینل اور ایف ایم ریڈیو بھی ان کے براہ راست تسلط میں ہیں ۔ صرف نیوز چینل ہی نہیں بلکہ ڈرامہ چینل بھی ان کے خاص اہداف میں شامل ہیں ۔ ہمارے اپنے خطہ میں بنگالی، اردو، پنجابی، سندھی، پشتو، فارسی، بلوچی، سندھی سے لے کر مراٹھی زبان تک ان کے اہداف میں شامل ہیں ۔ اس میں قومی چینلوں کا تو ذکر ہی کیا کہ وہ تو پہلے سے ہی عریاں ہیں۔ ان کے لیے عوام کو کسی بھی قسم کے بخار میں مبتلا کرنا بائیں ہاتھ کا کھیل ہے ۔ پوری قوم کو کرکٹ کے بخار سے لے کر خوف و دہشت میں مبتلا کرنا چند دنوں کا کھیل ہوتا ہے۔

اس سول سوسائٹی کا مسئلہ کہیں سے بھی ملک کے بنیادی مسائل ہوتے ہی نہیں ہیں بلکہ ان کا کام آقاؤں کی طرف سے دی گئی گائیڈ لائین میں دیے گئے نکات کو مسائل کی صورت تراشنا ہوتا ہے۔ چاہے کچھ بھی ہوجائے، سول سوسائٹی کے ان ارکان کو نہ تو بگرام ائر بیس میں قید ان قیدیوں کا خیال آتا ہے جن کو بلا کسی الزام کے اور بلا کسی عدالت میں مقدمہ چلائے گئے قید روزانہ شدید تشدد کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔ ان قیدیوں میں بچے بھی شامل ہیں اور عورتیں بھی ۔ ان سول سوسائٹی کے ارکان کو نہ تو گوانتا نامو بے میں جانوروں کی طرح قید افراد نظر آتے ہیں جو جانوروں سے بھی بد تر حالت میں ہیں ۔ ان پر آج تک فرد جرم بھی عائد نہیں کی جاسکی ہے۔ ان سول سوسائٹی کے ارکان کو عافیہ بھی نظر نہیں آتی ۔ ان سول سوسائٹی کے ارکان کو شان رسالت میں گستاخی کرنے والے کی آزادی اظہار رائے تو خطرے میں پڑتی نظر آتی ہے مگر افغانستان میں قران مجید جلانے کا واقعہ کوئی اہمیت نہیں رکھتا کیونکہ یہ ان کے آقاؤں کی مرضی کے عین مطابق ہے ۔ جان لیجیے، یہ کرائے کے فوجی (سول سوسائٹی کے ارکان)اتنے ہی خطرناک ہیں جتنے بلیک واٹر کے ریمنڈ ڈیوس جیسے کارندے ۔ بلکہ یہ ان سے بھی زیادہ خطرناک ہیں کیونکہ یہ بھیڑ کے بھیس میں بھیڑیئے ہیں ۔

جس ملک سے یہ فنڈز آتے ہیں وہاں پر عورتوں پر مظالم کی شرح کو تو دیکھیں ۔ مگر یہ اپنے ہدف شدہ ممالک میں عورتوں کی حالت زار کو بہتر بنانے کے نام پر اس کو گھر سے نکالنے اور برہنہ کرنے پر مصر ہیں ۔ تعلیم کے خوشنما نام پر وہ نصاب لے کر آتے ہیں جو آپ کو آپ کے معاشرے سے کاٹ دے، ایک اللہ کی ربوبیت سے نکال دے اور براہ راست نہ صحیح بالواسطہ ہی صحیح، آپ کو شیطان کی غلامی میں دے دے ۔ ہم جنسیت کے فروغ اور لہو و لعب کے لیے ان کے تمام وسائل دستیاب ہیں ۔ایک بات تو ثابت ہے کہ سول سوسائٹی کے یہ ارکان یا این جی اوز کے کرتا دھرتا بیرون ملک سے آئی ہوئی بھاری امداد کے بغیر کچھ بھی نہیں ہیں ۔ اگر یہ امداد روک دی جائے تو ملک و قوم کے بارے میں ان کے پیٹ کا درد اچانک غائب ہوجائے گا ۔

اب ان این جی اوز اور سول سوسائٹی کے ارکان کے مالی سرپرستوں کا جائزہ لیتے ہیں ۔ حیرت انگیز طور پر ہمیں ان مالی سرپرستوں میں عالمی بنک اور آئی ایم ایف سب سے آگے نظر آتے ہیں ۔ بین الاقوامی سازش کاروں کے گروہ کے تمام ارکان پر لازم ہے کہ وہ اپنی آمدنی کا ایک مقررہ حصہ ان این جی اوز کی پروموشن پر خرچ کرے اور عملا ایسا ہوتا بھی ہے ۔ ان مالی سرپرستوں میں آپ کو چرچ آف انگلینڈ بھی ملے گا۔ تمام کارپوریشنوں کا جائزہ لیں ۔ ہر ڈاکو اور رہزن مخیر کا خوبصورت لبادہ زیب تن کیا ہوا ملے گا ۔ دونوں کولا گروپ، بل گیٹس، فورڈ، راک فیلر، مون سانتو، غرض کون سی شخصیت ہے یا گروپ ہے جو کم از کم ایک این جی او کو نہیں چلاتا ۔ یہ این جی اوز ایک طے شدہ مقصد کے تحت کام کرتی ہیں ۔ ایسا نہیں ہوتا کہ خدمت خلق کے لئے جو بھی سامنے آیا اس کی خدمت کردی بلکہ ان کو ایک طے شدہ فریم ورک دیا جاتا ہے جس سے باہر یہ کام ہی نہیں کرسکتیں ۔

سول سوسائٹی یا این جی اوز کا کردار اب تک خفیہ تھا اور یہ تمام کارروائی کسی نہ کسی خوشنما نعرے کی آڑ میں سرانجام دیتی تھیں ۔ دنیا کو دکھانے کے لیے تو یہ فلاحی کام سرانجام دے رہی ہوتی تھیں مگر پس پردہ یہ سازشوں میں مصروف ہوتی تھیں ۔ عموما یہ این جی اوز انسانی حقوق کا لبادہ اوڑھے ہوئے ہوتی ہیں جبکہ تعلیمی اور صحت عامہ کے پروجیکٹ ان کے پسندیدہ میدان عمل ہیں ۔ تاہم اب صورتحال تیزی کے ساتھ تبدیل ہوتی جارہی ہے اور اب یہ سول سوسائٹی کھلے بندوں اپنے آقاؤں کے مشن کی تکمیل کے لیے نہ صرف کوشاں ہوتی ہے بلکہ اس کا اعتراف بھی ڈھٹائی کے ساتھ کرتی ہے اور اس کا محنتانہ بھی کھلے عام وصول کرتی ہے۔ابھی حال میں ہی کیوبا میں ٹوئٹر کا اسکینڈل سامنے آیا ہے ۔ اس میں امریکی ایجنسیوں نے بدنام زمانہ این جی او یو ایس ایڈ کے ذریعے کیوبا میں صحافیوں ، طلبہ اور سماجی رہنماوئں کو بھرتی کیا اور کیوبا کی حکومت کے خلاف ٹوئٹر پر الزامات کی ایک مہم شروع کردی ۔ واشنگٹن ہی کے مطابق اس کمیونیکیشن نیٹ ورک کو تمام تر وسائل غیر ملکی بینکوں کے ذریعہ فراہم کیے اور یہ پروجیکٹ دو سال تک کامیابی سے چلتا رہا ۔ اس نیٹ ورک میں بتدریج عام لوگ نادانستگی میں شامل ہوتے چلے گئے۔ دو سال میں اس پروجیکٹ پریوایس ایڈ نے ایک ارب ساٹھ کروڑ ڈالر کی خطیر رقم خرچ کی جو کہ بجٹ میں پاکستان کے لیے غیر مخصوص منصوبوں کے لیے دکھائی گئی تھی ۔ اس پروجیکٹ کے نتیجے میں واشنگٹن کیوبا میں بدامنی کی مطلوبہ لہر پیدا کرنے میں کامیاب ہوگیا تھا جو کہ رنگین انقلاب کے لیے درکار پہلی ضرورت ہے۔

اب پاکستان میں یوایس ایڈ کی پھرتیاں اور بھاری بجٹ دیکھیے۔ اس کا عوام کے ساتھ ربط ضبط دیکھئے، صحافیوں کو مختلف پروجیکٹس کے نام پر بھاری نذرانے دینا دیکھئے اور اندازہ لگالیجیے کہ یہاں پر ان کی کتنی گہری دلچسپی موجود ہے ۔ یوایس ایڈ کے پروجیکٹس پر کام کرنے والوں سے گفتگو کریں تو پتہ چلتا ہے کہ اس این جی او کو محض ایک کام سے دلچسپی ہے اور وہ یہ ہے کہ پاکستان کے ہر کوچہ و قریہ کے بارے میں مختلف اعداد و شمار جمع کرنا ۔ مثال کے طور پر اس این جی او یو ایس ایڈ نے ایک پروجیکٹ میں صرف یہ اعداد و شمار جمع کیے کہ کراچی کی ساحلی پٹی میں رہنے والے لوگوں کی تعداد کتنی ہے، کتنے فیصد پڑھے لکھے ہیں، کس مذہب اور پھر مزید کس فرقے سے تعلق رکھتے ہیں، مرد و عورت اور بچوں کا تناسب کتنا ہے، کتنے فیصد جرائم پیشہ ہیں وغیرہ وغیرہ ۔ اتنے زبردست اعداد و شمار کی آخر انہیں کیا ضرورت ہے؟ اس کی وجہ صاف ظاہر ہے کہ جب ان کے ماہرین نفسیات پاکستانی قوم کو کسی نفسیاتی بخار میں مبتلا کرنے کی حکمت عملی تیار کریں گے تو انہیں ان اعداد و شمار کی ضرورت پڑے گی ۔ اس کے بعد ان کے آلہ کار مختلف مذہبی ، علاقائی و لسانی رنگوں میں لپٹی جنگجو تنظیمیں اپنا کردار ادا کررہے ہوں گے، ذرائع ابلاغ اپنا کردار ادا کررہے ہوں گے اور حکومت ، بیوروکریسی اور ایجنسیوں میں ان کی کٹھ پتلیاں اپنا کردار بخوبی ادا کررہی ہوں گی اور رہ گئی عوام تو وہ اس پورے کھیل میں اسی طرح ہپناٹائز ہوچکی ہوگی جس طرح تھیٹر یا سنیما میں بیٹھا تماش بین ۔ ڈائریکٹر جب چاہتا ہے یہ تماش بین رونے لگتا ہے اور ڈائریکٹر جب چاہتا ہے ، یہ تماش بین قہقہہ مار کر ہنسنے لگتا ہے ۔

اگر پاکستان کو بدامنی سے پاک کرنا ہے تو اس کے لیے سب سے پہلے ان ایجنٹوں کی مالی رسد بند کرنا ہوگی ۔ یہ مالی وسائل اور انفرادی نگرانی کون فراہم کرتا ہے ۔ یہ این جی اوز ہی تو ہیں ۔ اگر ان این جی اوز کو بند کردیا جائے تو پاکستان میں کوئی قیامت نہیں ٹوٹ پڑے گی مگر پاکستان ایک قیامت کا سامنا کرنے سے ضرور بچ جائے گا۔آپ کو جو بھی این جی او یا سول سوسائٹی کا رکن ملے، اس سے ایک سوال ضرور کیجیے گا کہ ان کی فنڈنگ کہاں سے ہورہی ہے ؟ اس سے آپ کو ان کے اصل مقاصد کے بارے میں تمام سوالا ت کا جواب ازخود مل جائے گا ۔ اس دنیا پر ایک عالمگیر شیطانی حکو مت کے قیام کی سازشوں سے خود بھی ہشیار رہیے اور اپنے آس پاس والوں کو بھی خبردار رکھیے ۔ ہشیار باش۔

(www.masoodanwar.com/2015/01/civil-society)

سول سوسائٹی کی جنت و جہنم

اوریا مقبول جان اتوار 8 فروری 2015

ایک زمانہ تھا جب لوگ اپنے کسی پیارے کے اس دنیا سے چلے جانے کے بعد فوراً دستِ دعا بلند کرتے تھے، اللہ سے اس کی مغفرت کے لیے دعا کرتے، اس کے درجات کی بلندی کی استدعا کرتے اور اسے جنت الفردوس میں مقام عطا کرنے کے لیے اللہ کے سامنے درخواست گزار ہوتے۔

ہم میں سے ہر کسی کا یہ ایمان تھا کہ مرحوم جس دنیا میں چلا گیا ہے وہاں اسے ہماری نعرہ بازی، جلسوں اور پوسٹر بازی سے زیادہ ہماری دعاؤں کی ضرورت ہے۔ کوئی مظلوم کسی ظالم کے ہاتھوں قتل ہوتا، کوئی وطن کی حفاظت میں جان دیتا، یا چوروں ڈاکوؤں سے لڑتا زندگی کی بازی ہارتا، ہم ایسے شہیدوں کے لیے دعائیہ تقریبات منعقد کرتے کہ ہمارا ایمان تھا کہ یہ لوگ تو اللہ کے ہاں بخشے جا چکے ہیں لیکن ان کے لیے دعائے مغفرت کرنے سے ہمارے اپنے گناہ کم ہوں گے اور ہماری بھی بخشش کا سامان مہیا ہوگا۔ یہ وہ زاد راہ تھی جو ہم اپنے پیاروں کو دیا کرتے تھے۔ کسی کی یاد میں قرآن پڑھ کر اور کسی کی برسی پر دعاؤں کے نذرانے دے کر۔ لیکن جس طرح سول سوسائٹی کے نام پر اس ملک سے اور بہت سی اقدار چھینی جا رہی ہیں، اب یہ قدر بھی موم بتیاں روشن کرنے میں بدل گئی۔موم بتیاں کب سے روشن ہونا شروع ہوئیں، انھیں کیوں روشن کیا جاتا تھا اور اب اسے ایک معاشرتی رواج کیوں دیا جا رہا ہے۔ دنیا میں یہودیوں نے سب سے پہلے مٹ زاوہ( MITZAWAH)کے نام پر موم بتیاں روشن کرنا شروع کیں ، اسے خواتین روشن کرتیں اور اس کا مقصد عورت کے اس ازلی ابدی گناہ کی تلافی کرنا تھا جس کا ماخذ یہودی اپنی کتاب تا عود کے پیرا 31۔ب سے لیتے ہیں:”اے عورت تم سے ایک جرم سرزد ہوا تھا جس کی پاداش میں ہمیں جنت سے نکلنا پڑا۔ تم سانپ کی دلکشی پر فریفتہ ہو گئیں اور اس کے بہکاوے میں آ گئیں اور پھر تونے ہمارے باپ آدم کو بھی اس میں شریک کرلیا۔یوں تمہاری وجہ سے اس زمین بلکہ ہماری زندگیوں میں بھی اندھیرا چھا گیا۔ اس لیے اب تمہیں موم بتیاں روشن کر کے دنیا میں روشنی کو واپس لانا ہو گا۔ “

موم بتی کو روشن کرنے اور عورت کی غلطی کی تلافی وہ یوم سبت یعنی ہفتے کے دن کے تہوار کے طور پر کرتے ہیں۔ یہ موم بتیاں جمعہ کی شام یعنی ہفتے کی رات کو روشن کی جاتی ہیں۔ عورتیں دو موم بتیاں جلاتی ہیں، ایک تورات کے باب Exodus8:20کے مطابق جب یہودیوں کو اپنے وطن سے دربدر کیا گیا تھا اور دوسری تورات کی پانچویں کتاب Deuteronomyکے فقروں 5:12کے مطابق جن میں یوم سبت منانے کے لیے کہا گیا ہے۔

عورتیں موم بتیاں جلا کر اپنی آنکھوں کو ہاتھ سے ڈھانک لیتی ہیں۔ پھر شکر ادا کرتی ہیں کہ خدا نے ہمیں مقدس بنایا اور ہمیں سبت کی شمعیں جلانے کا حکم دیا۔ یہودیوں کا ایک اور تہوار ہنوکا HANUKAHہے جو یہودی مہینے کزلیو KISLEVکی 25تاریخ کو آٹھ دن کے لیے منایا جاتا ہے۔ یہ تہوار 165 قبل مسیح میں یہودیوں کی یونانی اور شامی فوجوں پر فتح کے جشن کے طور پر منایا جاتا ہے۔ اسے چنوہا CHANUHیعنی روشنیوں کا تہوار بھی کہا جاتا ہے۔ ان آٹھ دنوں میں یہودی مسلسل موم بتیاں روشن کرتے ہیں۔ موم بتیاں جلانا ان کے لیے ان تہواروں تک ہی محدود نہیں، بلکہ مرنے والے کی موت کی سالگرہ کے دن بھی موم بتیاں جلائی جاتی ہیں۔

اس خاص موم بتی کا نام YAHRTZEITرکھا گیا ہے۔ کسی سانحے، تشدد یا بربریت میں مرنے والوں کی یاد میں موم بتیاں جلانے کا رواج بھی یہودیوں نے شروع کیا۔ جنگ عظیم دوم کے بارے میں یہودی دعویٰ کرتے ہیں کہ ان کے ساٹھ لاکھ افراد قتل کیے گئے تھے۔ ان ساٹھ لاکھ یہودیوں کے قتل کی یاد میں ہر سال ،،یوم نشوہا YOM-E-NASHOAHمنایا جاتا ہے اور ہر گھر، عبادت گاہ اور یہودی عمارت پر موم بتیاں روشن کی جاتی ہیں۔ موم بتی جلا کر مرنے والوں کی یاد منانے کی یہ رسم یہودیوں نے خود ایجاد کی اور اس کا ان کے دین سے کوئی تعلق نہ تھا اور نہ اس کے بارے میں کوئی احکامات موجود تھے۔

ان کی دیکھا دیکھی اس رسم کو عیسائیت نے بھی اپنا لیا حالانکہ اس کا کوئی حکم نہ انجیل میں موجود تھا اور نہ ہی قدیم روایات میں اس کا تذکرہ ہے۔ اس کا آغاز مشرقی آرتھو ڈوکس چرچ نے اپنی عبادت سے کیا جس میں پورے کا پورا مجمع ہاتھ میں موم بتی پکڑے کھڑا ہوتا ہے۔ قربان گاہوں پر موم بتیاں روشن کی جانے لگیں، مشرقی کیتھولک، اورینٹل کیتھولک بلکہ رومن کیتھولک سب کے سب موم بتی کو مسیح کی روشنی سے تعبیر کرنے لگے۔ اس رواج کو مقدس بنانے کے لیے کہا گیا کہ چرچ میں جلائے جانے والی موم بتیوں میں کم از کم 51فیصد موم شہد کی مکھیوں کے چھتے سے حاصل کیا جائے۔

ایسٹر کے موقع پر ایک خاص موم بتی روشن کی جاتی ہے جسے پاشل PASCHALکہا جاتا ہے۔ اسے مسیح کے ایسٹر کے دن دوبارہ زندہ ہونے کی علامت کے طور پر جلایا جاتا ہے۔ لیکن ورلڈ ٹریڈ سینٹر کے حادثے کے بعد موم بتیاں جلانے کو ایک عالمی رسم بنانے کی کوشش کی گئی۔ یہ رسم عام آدمی نے قبول نہیں کی بلکہ ہمارے معاشرے کی ایک نئی ایجاد سول سوسائٹی نے کی۔

یہ سول سوسائٹی کیا ہے۔ اس کا تاثر پوری دنیا کے غریب معاشروں میں ایسا ہے جیسے ساری قوم جاہل، ان پڑھ گنوار، ظالم، متشدد اور بیہودہ ہے اور یہ چند فیشن زدہ، مغرب سے مرعوب اور اپنی زبان و تہذیب سے نا آشنا لوگ ہی ہیں مہذب اور انسان دوست ہیں۔یہ سول سوسائٹی روسی کیمونسٹ حکومت کے خاتمے کے بعد کارپوریٹ سرمائے سے بننے والی جمہوری حکومتوں نے دنیا کے غریب ملکوں میں ایک عالمی کلچر کے فروغ کے لیے بنائی تا کہ ان کا مال بک سکے۔ پہلے کسی ملک میں حکومت ہوتی تھی اور دوسرے عوام۔ دنیا کی تمام حکومتیں اور عالمی انجمنیں حکومتوں کو قرض دیتی تھیں تا کہ وہ عوام پر خرچ کریں۔ لیکن اسّی کی دہائی میں ان حکومتوں کو کک بیک اور عالمی رشوت خوری کے ذریعے کرپٹ کیا گیا اور پھر ایک وسیع پراپیگنڈے سے بدنام کیا گیا تا کہ مغربی حکومتیں اور عالمی انجمنیں غریب ملکوں میں براہ راست لوگوں کو امداد دیں۔ اس کے لیے این جی اوز بنائی گئیں۔

ہر ملک کے سفارت خانے نے مدد دینے کی کھڑکی کھول لی، عالمی ادارے بھی انہی این جی اوز کو گرانٹ دینے لگے۔ یہ لاکھوں روپے تنخواہ، پر تعیش دفاتر اور بڑی بڑی ائرکنڈیشنڈ گاڑیوں میں گھومنے والے انہی این جی اوز کے ملازم تھے یا پھر ان کے کرتا دھرتا۔ ان تمام مفت خوروں نے ملکر ایک گروہ تشکیل دیا جس کا نام”سول سوسائٹی “ہے۔ یہ دنیا کے ہر غریب ملک میں پایا جاتا ہے۔ افریقہ میں اس کی بہتات ہے۔ یورپ میں عوام سڑکوں پر نکلتی ہے لیکن افریقہ اور ایشیا میں سول سوسائٹی عالمی امداد پر پلنے والے اس گروہ کا ایجنڈا بھی وہی ہے جس کی بنیاد پر انھیں سرمایہ فراہم کیا جاتا ہے۔

اس کی سب سے آسان پہچان یہ ہے کہ یہ لوگ آپ کو کبھی بھی مغرب میں توہین رسالت کے واقعہ یا کارٹون چھپنے پر سڑکوں پر نظر نہیں آئیں گے لیکن کسی بھی شاتم رسول کی یاد میں شمعیں جلانے ضرور آ جائیں گے۔ یہ کسی بھتہ خور اور قاتل کے قتل کے خلاف بینر نہیں اٹھائیں گے خواہ وہ بلدیہ ٹاؤن میں 272 افراد کو زندہ جلا دے، لیکن کسی مولوی کے ایک بیان پر رات دن احتجاج کریں گے۔ افغانستان اور عراق میں امریکی افواج لاکھوں لوگوں کا قتل عام کر دے، انھیں کبھی دکھ نہیں ہوتا لیکن ایک امریکی کو اغوا کر کے قتل کر دیا جائے تو ان کو انسانیت یاد آ جاتی ہے۔

یہ ان کا حق ہے جس کو چاہیں روئیں یا جس پر چاہیں نہ روئیں،لیکن دکھ یہ ہے کہ ان کی وجہ سے قوم پہلے اپنے شہیدوں کو، بے گناہ مر جانے والوں کو، یا پھر اپنی کسی محبوب شخصیت کی یاد منانے کے لیے اکٹھا ہوتی تو اپنے پروردگار سے دست بددعا ہوا کرتی تھی لیکن شاید ہم اب ان لوگوں کے لیے دعا کرنا بھی بھول جائیں گے۔ بس موم بتی جلائی، تصویر بنوائی اور آرام سے سو گئے۔

 صوفیاء اور اہل نظر کا عقیدہ ہے کہ ہر جمعہ کی رات ارواح اکٹھا ہوتی ہیں تو اگر کسی کی اولاد یا چاہنے والے نے اس کے لیے مغفرت کی دعا کی ہوگی، کوئی تلاوت اس کے نام سے کی ہوگی، کوئی نیکی کا کام یا رفاہِ عامہ کا کام اس کے نام منسوب کیا ہو گا تو یہ اسے تحفے یا اجر کے طور پر ملتا ہے۔ ان ارواح کے ہجوم میں سب سے شرمندہ اور پژمردہ وہ روح ہوتی ہے جس کی اولاد یا پیار کرنے والے اسے ایسا تحفہ نہیں بھیجتے۔ ہم نے زندوں کو تو مایوس کیا تھا اب ہم نے مردوں کو بھی مایوس کرنا شروع کر دیا ہے۔ اب ہمارے مُردوں کے نصیب میں سول سوسائٹی کی جنت یا جہنم ہے۔

(ایکسپریس،اتوار8فروری 2015)

غیر ملکی این جی او ، سوشل ورکر اور بے بس لوگ ….

مصنف:گمنام10 مئی 2014

فارغ التحصیل ہونے کے بعد میں نوکری کی تلاش میں تھا ، بوقت ضرورت کسی بھی اچھے دفتر میں نوکری کے لئے ادھر ادھر انٹرویو دے رہا تھا کہ ایسے میں ایک اشتہار پر نظر پڑھی کہ ایک این جی او میں ایک پاکستانی کی ضرورت تھی اور میں نے بنا کسی دیر کے وہاں اپنی درخواست بمعہ اسنادبھیج دی۔انٹرویو ہوا اور مجھے منتخب کر لیا گیا۔میں بہت خوش تھا کچھ نہ ہونے سے کچھ ہونا اچھا ہے۔تنخواہ کوئی اتنی خاص نہیں تھی لیکن میں دل کو تسلی دی کہ ابھی تو شروعات ہے۔ایک دفعہ تجربہ حاصل کر لو ں پھر آگے کی سوچے گے ، کیوں کہ آج کے دور میں تعلیم سے زیادہ تجربے کو ترجیح دی جاتی ہے۔

میں دل ہی دل یہ بھی سوچ رہا تھا کہ چلو نوکری بھی ایسی ملی جہاں دوسرے بے سہارا اور مجبور لوگوں کی مدد کی جاتی ہے۔اسی بہانے مجھے بھی اپنے پاکستانیوں کی مدد کرنے کا موقع مل جائے گا اور کچھ نیکیاں اور ثواب مفت میں حاصل کر لوں گا۔جس این جی او میں مجھے نوکری ملی تھی اصل میں وہ عیسائیوں کی این جی او تھی ، آپ کو آگاہ کر دوں کہ دنیا میں زیادہ تر این جی اوز عیسائیوں کی ہی ہیں۔خیر پہلے کچھ دنوں میں تو مجھے کچھ سمجھ نہیں آیا کہ ہم کس ایجنڈے پر کام کرتے ہیں وغیرہ ، لیکن وہاں میرے کچھ اورساتھی جو کہ پاکستانی تھے ان میں ایک کا نام علی تھا، میری اس سے اچھی سلام دعا ہو گئی، اب بھی ہم دوست ہیں، وہ تھوڑا جذباتی قسم کا،غیرت مند،انسان ہے ،وہ اکثر سپروائزر سے لڑتا رہتا تھا۔مجھے سمجھ نہیں آتی وہ ایسا کیوں کرتا تھا ۔ ایک دن غصہ میں اس نے استعفی دے دیا اور چھوڑ کر چلا گیا ابھی مجھے وہاں4مہینے بھی نہیں ہوئے تھے۔لیکن جاتے جاتے وہ مجھے ایک بات کہہ گیا اگر تو غیرت والا ہوا تو تم بھی ایک دن اسی طرح استعفی دو گے جس طرح میں نے دیا ورنہ بے غیرتوں کی طرح چپ چاپ ایک نوکر کی طرح نوکری کرتے رہو گے ۔ یہ بات میرے دل پر لگی کہ ایسا کیا ہوا جو وہ یہ کہہ گیا۔پہلے میں سمجھا وہ جذبات میں تھا شاید اسلئے لیکن وقت گزرتا گیا میں اس کی بات بھول چکا تھا۔بظاہر مقامی کمیونٹی میں نسلی اقلیتوں کے انضمام کاایجنڈا تھا ،اسی پر کام کرتے رہے، لیکن کہتے ہیں برائی چھپتی نہیں چھپانے سے، بس ایسا ہی کچھ ہوا ہمیں ایک دوسرا شعبہ ”سوسائٹی“جو کہ اسی این جی او کا تھا وہاں پر دعوت دی گئی اس شعبے ”سوسائٹی“کا نام تھا محبت اور امن(Love and Peace)جس کا ایکٹنگ چیئرمین پاکستانی تھا، لیکن یہ وہ ایسا پاکستانی تھا جو صرف اپنے مفاد کے لئے کچھ بھی کر گزرتے ہیں لیکن اس کے اثرات کا کوئی خیال نہیں کرتے۔اس ونگ (سوسائٹی )کا اصل ٹارگٹ تھے مسلمان اور خاص کر کے پاکستانی اور پاکستانی بھی وہ جو غیر قانونی طور پر باہر جاتے ہیں یہ ان لوگوں کی مجبوری سے فائدہ اٹھا کر ان کو عیسائی بناتے ہیں۔ یہ اس وقت ظاہر ہوا جب میں وہاں موجود کچھ ایسے پاکستانیوں سے ملا جو کہ پہلے مسلمان تھے لیکن یہاں آنے کے بعد عیسائی ہو گئے تھے ، کچھ تو یہ کہہ رہے تھے بس ہم صرف پیپر میں عیسائی ہیں پرمٹ کے حصول کے لئے، دل سے ابھی مسلمان ہے۔کچھ تو یہ کہہ رہے تھے اب باہر آئے ہیں تو کمانا تو ہے اب ایسے تھوڑا واپس چلے جائیں ۔

یہ سننے کے بعد مجھے ایسا لگا جیسے میرے پاؤں تلے زمین نکل گئی ہو۔دل میں سوچا یہ کیا ہو رہا ہے اور میں کیا کر رہا ہوں۔اسی کشمکش میں تھا دعوت کا پروگرام ختم ہو گیا۔لیکن میں ایک عجیب کیفیت میں تھا کہ ہمارے لوگ جو پاکستان سے باہر جاتے ہیں کیا سوچ لے کرآتے ہیں، ان میں سے زیادہ تر لوگ یا تو اَن پڑھ ہوتے ہیں یا پھر گاؤں کے دور دراز علاقوں جو اِن کے شکنجوں میں با آسانی آجاتے ہیں۔میں یہ نہیں کہتا کہ سب سوشل ورکرز بُرے ہوتے ہیں، لیکن وہ بھی بے بس ہوتے ہیں یا وہ لوگ صرف ظاہری ایجنڈے پر کام کر رہے ہوتے ہیں ۔ ان کو کبھی پیچھے کے مقاصد ظاہر ہی نہیں ہوتے اور میری طرح کوئی این جی او کے خلاف آواز بھی نہیں اٹھا سکتا کیونکہ ان کی ظاہری اچھائیاں آواز اٹھانے والے کے خلاف ایک پھانسی کے پھندے سے کم نہیں ہوتی۔جو آواز اٹھاتا ہے اس کی آواز کی گونج کسی تک پہنچنے سے پہلے ظاہری اچھائیوں میں دفن ہو جاتی ہے۔ہو سکتا جو میں ابھی لکھ رہا ہوں وہ بھی سب کو بکواس سے زیادہ اور کچھ نہ لگے کیونکہ میٹھا زہر تو ہم ہمیشہ پیتے آئے ہیں چلو یہ بھی سہی۔آپ سوچ رہے ہو گے میں نے ملک کا نام اور این جی او کا نام کیوں نہیں لکھا ، لیکن اس کی کچھ وجوہات اور تحفظ ہے جس وجہ سے میں یہ بتانے سے قاصر ہوں۔لیکن اللہ کا شکر ہے ہماری پاکستانی کمیونٹی اب ان حقیقت سے آشنا ہو چکی ہے اور وہ ان کے دجل فریب میں نہیں آتے۔لیکن آج کل یہ پاکستان میں متحرک ہے اسلئے میں نے سوچا کیوں نہ اپنا تجربہ آپ لوگوں سے بتایاجائے ،ہو سکتا اب بھی دوسرے ممالک میں یہ گندا کھیل اب بھی کھیلا جا رہا ہو ۔

لیکن اب ان کا ٹارگٹ افغانستان ،عراق ، پاکستان ،صومالیہ ، شام اور وہ ممالک ہے جو حالت جنگ میں ہےں۔بالکل ویسے ہی چال چلی جا رہی ہے جیسے جنوبی افریقہ کے لوگوں کے ساتھ ہوا ، ان کے ہاتھ میں بائبل پکڑا کر ان کے سب اثاثے دونوں ہاتھوں سے لوٹ لئے گئے ہیں۔ایک بات اور ذہن نشین کر لیں، یہ این جی او ز مسلمانوں کو عیسائیت کی تعلیم دینے کے علاوہ اسلام سے بھی متنفر کر رہی ہے جیسا کہ ملحدین، منکر حدیث، مرزائی،لبرلز، روشن خیال، ہم جنس پرست وغیرہ وغیرہ ،ملحد سے لے کر ہم جنس پرست تک عیسائی مشنریوں کی طرف سے اسلام پر اٹھائے گئے بھونڈے اعترض ہی پیش کرتے ہے، جن کے جوابات ہمارے مسلمانوں نے کب کے دے دیے۔لیکن کسی میں ہمت نہیں ہمارے اسکالر اور علماء کرام کے دیے گے جوابات کو چیلنج کر سکے۔اصل مقصد تو صرف مسلمانوں کے ایمان کو تباہ کرنا ہے، چاہے جیسے بھی ہو،میڈیا کے ذریعے یا پھر این جی او زکے اور ہم ظاہری اچھائیاں دیکھ کر تعریف کرتے نہیں تھکتے۔آخر میں علی کی بات سچ ثابت ہوئی اور میں نے بھی ایک دن استعفیٰ اسی طرح دیا جس طرح علی دے کر گیا تھا۔بہت سے پہلوں ابھی رہ گئے ہیں جن کو میں ٹھیک سے قلم بند نہ کر سکا لیکن ایک یہ پہلو جو کہ بہت ہی خاص اور بہت اہم ہے وہ یہ کہ جتنی بھی غیر ملکی خاص کر کے عیسائیت کی این جی او ہے یہ آپس میں ایک نیٹ ورک کی طرح منسلک ہے یہ مغرب کے لئے جاسوسی کا ایک ایسا آلہ کار ہے جو با آسانی کسی کے گھر ، ملک میں بنا کسی روکاوٹ کے داخل ہو جاتی ہے اور اپنا کام انجام دینے میں کسی کو شک بھی نہیں ہوتا۔ابھی کچھ عرصہ پہلے پاکستان میں کسی ایک این جی او پر پر پابندی عائد کی گئی کیونکہ اس کے ارکان جاسوسی میں ملوث تھے۔پاکستان میں اب این جی او کے متعلق قانون سازی بھی ہو رہی ہے ۔

مختصر مدت کے فوائد اور ظاہری اچھائیوں کو دیکھ کر ہم کسی کے بھی گرویدہ ہو جاتے ہیں، یہ مسلمانوں کی سب سے بڑی کمزوریوں میں سے ایک کمزوری ہے اور اس کمزوری سے یہودو نصاری بخوبی فائدہ اٹھا رہے ہیں اور ہمیں پتہ بھی نہیں۔ہمیں چراغ کی روشنی دیکھا کر ہمارے ایمان میں اندھیرے میں دھکیل رہے ہیں اور ہمیں خبر تک نہیں ۔ہم یہ بھول چکے ہے ہیں کہ اسلام میں حقوق اللہ کے ساتھ حقوق العباد کا بھی خیال رکھنے کو کہا گیا ہے۔اسلام ہمیں پڑوسی کے حقوق سے لے کر ایک یتیم بے سہارا لوگوں کے حقوق کے خیال رکھنے کا درس دیتا ہے۔یہ فلاح بہبود کا نظام اسلام تعلیمات کا حصہ ہے۔آؤ!یہ عہد کریں اپنے مسلمان بھائیوں کے ساتھ دنیا کے کسی بھی کونے میں ساتھ کھڑے ہو جاؤ جو کچھ مدد کر سکتے ہو ان کی مدد کرو ،چاہے مالی طور یا اخلاقی طورپر کیونکہ یہ مسلمان کی ایک ذمہ داری ہے۔ (http://ahtisaab.blogspot.com/2014/05/blog-post_5005.html)

آج پاکستان میں کبھی کسی بچی کو ایوارڈ مل رہا ہے تو کبھی کسی عورت کو معمولی سی بات پریا کسی مظلوم عورت پر ڈاکومنٹری فلم بنانے پر ایوارڈ مل جاتا ہے۔حیرانگی کی بات یہ ہے کہ یہ ایوارڈ وہ دیتے ہیں جو خود ظالم ہیں جن کے اپنے ملک میں ایسے ہزاروںجرائم ہورہے ہوتے ہیں۔امریکہ میں ہر پانچ منٹ میں ایک عورت کے ساتھ ریپ کی واردات ہوتی ہے، یورپ میں ہزاروں لڑکیاں ریپ کے بعد قتل کردی جاتیں ہیں، یہ بھی کسی سے ڈھکا چھپا نہیں کہ فلسطین میں اسرائیلی ، کشمیر میں انڈین ، عراق اور افغانستان نیٹو فوجوں نے عورتوں کے ساتھ کیا سلوک کیا اور کررہے ہیں ؟امریکی حکومت نے پندرہ لاکھ سے زیادہ عراقی اور افغانی معصوم شہریوں کے خون میں ہاتھ رنگے ، افغانستان اور عراق کی ہزاروں جوان لڑکیاں انہی یورپ ، امریکہ کے بازار حسن میں بک گئیں،بھائیوں کی آنکھوں کے سامنے ان کی بہنوں کے ساتھ ریپ کیے گئے، بمباری سے لاکھوں عورتیں بیوہ اور بچے یتیم اور معذورہوگئے اور ہورہے ہیں، خوداسی پاکستان میں ہزاروں بچے، عورتیں ،بوڑھے ڈرون حملوں میں جل کر راکھ ہوگئے ہیں ،انسانوں کا غم رکھنے والے ان منافقوں نے یہود کے ایک ہولوکاسٹ کے واقعے پر کئی سو ڈاکو منٹریاں تو بنا لیں ان پر کوئی فلم کیوں نہیں بنائی؟ ویت نام پر امریکہ نے تاریخی مظالم کیے تھے اس پر کوئی ڈاکو مینٹری نہیں بنی۔ اس قسم کے آسکر ایوارڈ دینے والی تنظیم کی منافقت اورتعصب سے خود انکے اپنے لوگ آگاہ ہیں ۔یہی وجہ تھی کہ فلم دی گاڈ فادرکے ہیرو مارلن برانڈو نے اپنا آسکر ایوارڈ لینے سے انکار کردیا وہ جانتا تھا کہ یورپ اور امریکہ کے لوگوں نے یہاں کے اصلی باشندوں ریڈ اندین پر ظلم و بربریت کے پہاڑ توڑے ہوئے ہیں اورہالی وڈ کی فلمیں الٹا انہی مظلوموں کو ظالم شو کررہی ہیں۔ ادارکار جارج سکاٹ نے اپنی فلم پر یہ کہہ کر آسکر ایوارڈ لینے سے انکار کردیا کہ یہ انتہائی بدیانت تنظیم ہے۔دنیا کے کئی اہم موضوعات اور مظالم پرکئی حساس دل لوگوں نے دستاویزی فلمیں بنائیں ہیں ان کو آسکر ایوارڈ دینا تو دور کی بات ان کو فلموں کی لسٹ میں ہی نہیں رکھا جاتا۔

آخر کیا وجہ ہے کہ ایوار ڈ کے لیے ہمیشہ مسلمانوں کے خلاف پراپیگنڈہ فلمز اورمسلم معاشرے کے منفی پہلو کو اجاگر کرنے والی ڈاکومینڑی ہی منتخب ہوتیں ہیں۔ ۔ ؟اسکا جواب یہی ہے کہ یہ لوگ اپنے ہی لوگوں کے کیے گئے ان انسانیت کش کارناموں پربننے والی فلموں پر ایوارڈدے کر دنیا کے سامنے اپنے لوگوں کو ذلیل کیوں کروائیں ۔انکا میڈیا اپنے مسلمان ملکوں پر حملہ آور ظالم فوجیوں کومظلوم اور شہید ہونے والے معصوم مسلمانوں کو دہشت گرد اور ظالم بنا کر پوری دنیا کے سامنے پیش کرتا ہے۔ انکے نیشنل چینل پر نشر ہونے والی اسلام اور مسلمانوں کے متعلق فیصد خبریں مسلمانوں کے خلاف اور منفی ہوتی ہیں۔ فلسطین و عراق میں ناجائز قبضہ ، وحشیانہ حملوں اور مسلمانوں کے اپنی سر زمین کے حق دفاع سے چشم پوشی کرتے ہوئے ، حملہ آور دشمنوں کے مقابلہ میں مسلمانوں کی طرف سے ہونے والی مزاحمت کے مناظر کو دہشت گردی کے عنوان سے نشر کیا جاتا ہے۔جنگ کے معروف کالم نگار عرفان صدیقی صاحب مغرب اور انکے پسند یدہ لوگوں کی اسی مخصوص مکروہ ذہنیت اور کام کے طریقہ کارکے متعلق تبصرہ کرتے ہوئے اپنے ایک کالم میں لکھتے ہیں:”ایک تاثر تو یہ ہے کہ آسکر ہو یا کوئی اور عالمی اعزاز صرف اسی صورت میں کسی پاکستانی شخصیت، ادارے، تنظیم یا این جی او کا مقدر بنتا ہے جب زیر نظر فلم، تخلیق، کارنامے یا ادب پارے میں پاکستانی معاشرے کی کوئی گھناؤنی، متعفن اور نفرت انگیز تصویر پیش کی گئی ہو۔ یوں پاکستان کی کسی شخصیت ادارے، تنظیم یا این جی او کے سینے پر ایک تمغہ سجا کر بظاہر پاکستان کو شاباش دی جاتی ہے لیکن درحقیقت پاکستان کا تیزاب زدہ مسخ چہرہ ساری دنیا کو دکھا کر ، یہ تاثر دیا جاتا ہے کہ پاکستان، درندوں کی کمین گاہ ہے جہاں اس نوع کے بھیانک جرائم معمولات حیات کا درجہ رکھتے ہیں۔ عزتیں بانٹنے والے یہ بڑے بڑے ادارے، کسی تخلیق کو جانچنے کی اپنی کسوٹی رکھتے ہیں۔ ان کے کچھ من پسند موضوعات اور پرکشش نعرے بھی ہیں۔ لازم ہے کہ تخلیق کا نفس مضمون ان موضوعات اور ان نعروں سے ہم آہنگ ہو اور اُن وسیع تر مقاصد کی آبیاری کرتا ہو جو اعزازت کے عالمی تقسیم کاروں کے پیش نظر ہوتے ہیں۔“

اپنا تبصرہ بھیجیں