حضور علیہ السلام کی شہزادیوں کے حوالے سے شیعوں کے اعتراض کا جواب

حضور علیہ السلام کی شہزادیوں کے حوالے سے شیعوں کے اعتراض کا جواب

پیشکش: صدائے قلب

شیعوں کا مؤقف ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی صرف ایک ہی بیٹی حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا تھیں۔

اہل سنت کے نزدیک نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی کل چار بیٹیاں تھیں:حضرت زینب، حضرت رقیہ،حضرت ام کلثوم اور حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہن۔شیعہ لوگ بقیہ تین بیٹیوں کا انکار کرکےحضرت فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی جوشان ارفع و اعلیٰ کرنا چاہتے ہیں ،یہ بات سمجھ سے بالا تر ہے کہ بلاوجہ ہٹ دھرمی کا مظاہرہ کرتے ہوئے بقیہ شہزادیوں کا انکار کرنے میں حضرت فاطمۃ الزہرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کو کیا فضیلت ملے گی؟سیدہ کی تو ویسے ہی احادیث میں شان و عظمت موجود ہے۔بلکہ یہ تو حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی دل آزاری کا سبب ہے کہ ان کی حقیقی بہنوں کا انکار کردیا جائے۔

دراصل شیعہ فرقے کا سارا دارومدار اہل بیت پر ہے اور وہ اہل بیت میں سے بارہ اماموں کومعاذ اللہ بنی اسرائیل کے انبیاء علیہم السلام کے برابر درجہ دیتے ہیں اور اہل بیت کے علاوہ کسی صحابی یا صحابیہ کی شان ان لوگوں کو ہضم نہیں ہوتی۔یہی وجہ ہے کہ آئے دن شیعہ ذاکر صحابہ کرام علیہم الرضوان کے خلاف زبان درازی کرتے رہتے ہیں۔

پچھلے دنوں ایک شیعہ ذاکر کا ویڈیوکلپ دیکھا گیا جس میں اس نے تاریخ سے یہ ثابت کرنے کی انتہائی مذموم کوشش کی کہ حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے علاوہ حضور علیہ السلام کی کوئی بیٹی نہیں تھی۔ اس کے کلپ کا خلاصہ یہ تھا کہ حضور علیہ السلام کی شادی اور اعلان نبوت کے درمیان اتنا وقت ہی نہیں بنتا کہ چار بیٹیاں پیدا ہوں اور ان کا نکاح بھی ہوجائے اور طلاق بھی۔

اس تحریر میں اس شعیہ ذاکر کے دلائل کا تفصیلی طور پرجواب دیا جاتا ہےتاکہ ایک سنی عاشق صحابہ و اہل بیت کا حق ادا کرنے کے ساتھ ساتھ حضور علیہ السلام کی ان شہزادیوں کا دفاع کرکے دنیا و آخرت سنوارنے کا موقع مل جائے۔

سب سے پہلے شیعوں کی ان کتب کاحوالہ پیش کیا جاتا ہے جس میں انہوں نے بقیہ تین شہزادیوں کا انکار کیا ہے اور اس پر عجیب و غریب دلائل دیے ہیں:

شیعوں کا مؤقف

ابوالقاسم علی بن احمد بن موسیٰ کوفی شیعہ(352 ھ)نے لکھا ہے”وصح لنا فيهما ما رواه مشايخنا من أهل العلم عن الأئمة من أهل البيت عليهم السلام، وذلك أن الرواية صحت عندنا عنهم أنه كانت لخديجة بنت خويلد من أمها أخت، يقال لها هالة، قد تزوجها رجل من بني مخزوم، فولدت بنتا اسمها هالة، ثم خلف عليها بعد أبى هالة رجل من تميم، يقال له أبو هند، فأولدها ابنا، كان يسمى هند ابن أبى هند، وابنتين، فكانتا هاتان الابنتان منسوبتين إلى رسول الله (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)، زينب ورقية“ترجمہ:ان دونوں (رقیہ اور زینب ) کے بارے میں ہم اپنے اہل علم اور ائمہ اہل بیت کی اس روایت کو درست مانتے ہیں کہ حضرت خدیجہ بنت خویلد ماں کی طرف سے ایک بہن تھی جسے ہالہ کہا جاتا تھا۔ اس کی شادی بنو مخزوم کے ایک شخص سے ہوئی۔ اس سے ایک لڑکی پیدا ہوئی، اس کا نام بھی ہالہ ہی رکھا گیا۔ ابوہالہ کے بعد خدیجہ کی بہن سے بنوتمیم کے ایک شخص ابوہند نے شادی کر لی۔ اس سے ایک لڑکا پیدا ہواجس کا نام ہند بن ابوہند اور دو لڑکیاں پیدا ہوئیں۔ یہی دو لڑکیاں زینب اور رقیہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف منسوب ہوئیں۔

(الاستغاثة فى بدع الثلاثة : 68/1)

ابن شہر آشوب (588 ھ )نے لکھا ہے”يؤكد ذلك ما ذكر فى كتابي الأنوار والبدع أن رقية وزينب كانتا ابنتي هالة أخت خديجة“ترجمہ:اس کی تائید اس بات سے بھی ہوتی ہے جو الانوار اور البدرع نامی کتابوں میں مذکور ہے کہ رقیہ اور زینب، خدیجہ کی بہن ہالہ کی بیٹیاں ہیں۔ (مناقب آل أبى طالب : 159/1)

ملا احمد بن حمد المعروف بہ مقدس اردبیلی (993ھ) نے لکھا ہے”قيل : هما رقية وزينب كانتا ابنتي هالة أخت خديجة، ولما مات أبوهما ربيتا فى حجر رسول الله صلى الله عليه وسلم، كما كانت عادة العرب فى نسبة المربى إلى المربي، وهما اللتان تزوجهما عثمان بعد موت زوجيهما“ترجمہ:کہا جاتا ہے کہ رقیہ اور زینب دونوں خدیجہ کی بہن ہالہ کی بیٹیاں تھیں۔ جب ان کا والد فوت ہو گیا تو ان دونوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی گود میں پرورش پائی۔( یوں ان کی نسبت آپ صلى اللہ علیہ وسلم کی طرف ہو گئی)جیسا کہ عربوں کی عادت تھی کہ پرورش کرنے والے کی طرف نسبت کر دیتے تھے۔ ان دونوں کے خاوند فوت ہونے کے بعد ان سے عثمان نے شادی کر لی تھی۔ (حاشيه زبدة البيان فى أحكام القرآن، ص : 575)

اہل سنت کا مؤقف

اہل سنت کےمؤرخین اور محدثین کا اتفاق ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی چار صاحبزادیاں حضرت سیدہ خدیجہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے ہیں۔ ان کے نام یہ ہیں:سیدہ زینب، سیدہ رقیہ، سیدہ ام کلثوم اور سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہن ہیں۔ان شہزادیوں میں کو ن بڑی ہے اور کون چھوٹی ہے اس حوالے سے کچھ اختلاف ہے۔یہ ساری اعلان نبوت سے قبل پیدا ہوچکی تھیں۔”مختصر تاريخ دمشق لابن عساكر“میں محمد بن مكرم بن على الإفريقى (المتوفى711ھ)رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں”عن ابن عباس قال: كان أكبر ولد رسول الله صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ القاسم ثم زينب ثم عبد الله ثم أم كلثوم ثم فاطمة ثم رقية. فمات القاسم وهو أول ميت من ولده بمكة، ثم مات عبد الله. فقال العاص بن وائل السهمي: قد انقطع نسله فهو أبتر، فأنزل الله عز وجل﴿ إن شانئك هو الأبتر﴾ ثم ولدت له مارية بالمدينة إبراهيم في ذي الحجة سنة ثمان من الهجرة فمات ابن ثمانية عشر شهراً “ترجمہ:حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما نے فرمایا: نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اولاد مبارک میں بڑے حضرت قاسم رضی اللہ تعالیٰ عنہ تھے،پھر حضرت زینب،پھر حضرت عبد اللہ،پھر حضرت ام کلثوم،پھر حضرت فاطمہ،پھرحضرت رقیہ رضی اللہ تعالیٰ عنہن تھیں۔حضرت ابوالقاسم فوت ہوگئے اور یہ پہلے مکہ میں فوت ہونے والے تھے،پھر حضرت عبد اللہ کا وصال ہوا تو عاص بن وائل سہمی نے کہا: آپ علیہ السلام کی نسل ختم ہوگئی اور آپ معاذ اللہ خیر سے محروم ہیں۔ تب اللہ عزوجل نے قرآن میں فرمایا:بے شک جو تمہارا دشمن ہے وہی ہر خیر سے محروم ہے۔پھر حضرت ماریہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے ہاں مدینہ میں ذو الحجہ آٹھ ہجری کو حضرت ابراہیم رضی اللہ تعالیٰ عنہ پیدا ہوئے جواٹھارہ ماہ بعد وصال فرماگئے۔

(مختصر تاريخ دمشق لابن عساكر، ذكر بنيه وبناته وأزواجه وسُرَياته ،جلد2،صفحہ263،دار الفكر،بیروت)

”تاريخ الخميس في أحوال أنفس النفيس“میں حسين بن محمد بن الحسن الدیاربکری (المتوفى966ھ)لکھتے ہیں”قيل رقية اكبر من امّ كلثوم وهو الاشبه لان عثمان تزوّجها أوّلا فى اوّل اسلامه ثم امّ كلثوم بعدها بعد وقعة بدر والظاهر ان الكبيرة تزوّج اوّلا وان جاز خلافه والاكثر على أن فاطمة اصغرهنّ سنا ولا خلاف ان زينب اكبرهنّ سنا “ترجمہ:کہا گیا کہ حضرت رقیہ ام کلثوم سے بڑی تھیں اور یہ زیادہ واضح ہے ، اس لیے کہ حضرت عثمان غنی نے پہلے ان سے نکاح کیا ،پھر حضرت ام کلثوم سے واقعہ بدر کے بعد۔ظاہر ہے کہ بڑی سے پہلے نکاح کیا جاتا ہے اگرچہ اس کے خلاف بھی جائز ہے۔ اکثر اس پر ہیں کہ حضرت فاطمہ سب شہزادیوں سے چھوٹی تھیں۔حضرت زینب کے سب سے بڑے ہونے میں اختلاف نہیں۔

(تاريخ الخميس في أحوال أنفس النفيس،جلد1،صفحہ273،دار صادر،بيروت)

”ذخائر العقبى في مناقب ذوى القربى“میں محب الدين احمد بن عبد الله الطبری (المتوفى694ھ)لکھتے ہیں”رواه ابن إسحق أن أولاد النبي صلى الله عليه وسلم ولدوا قبل النبوة إلا ابراهيم“ترجمہ:ابن اسحاق نے روایت کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تمام اولاد اعلان نبوت سے قبل پیدا ہوچکی تھی سوائے حضرت ابراہیم رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے۔

(ذخائر العقبى في مناقب ذوى القربى،صفحہ26،دار الكتب المصرية،التيمورية)

باقی ان چاروں کا حضور علیہ السلام کی شہزادیاں ہونے میں اہل سنت کا اختلاف نہیں چنانچہ حافظ ابن عبدالبر(463 ھ) فرماتے ہیں”وولده صلى الله عليه وسلم من خديجة أربع بنات، لا خلاف فى ذلك“ترجمہ:آپ صلى اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سیدہ خدیجہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے چار بیٹیاں تھیں۔ اس میں کوئی اختلاف نہیں۔

)الاستيعاب فى معرفة الأصحاب، محمد رسول الله ،جلد1،صفحہ50، دار الجيل، بيروت)

حافظ عبدالغنی مقدسی(600 ھ)”الدرة المضية على السيرة النبوية“میں حافظ صفدی(696-764 ھ)،”الوافى بالوفيات“میں حافظ مزی(742ھ)،”تهذيب الكمال فى أسماء الرجال“میں اورامام نووی(676ھ)تہذیب الاسماءمیں لکھتے ہیں”فالبنات اربع بلا خلاف“ترجمہ:آپ صلى اللہ علیہ وسلم کی بالاتفاق چار بیٹیاں ہیں۔ (تهذيب الأسماء، أبناءه وبناته صلى الله عليه وسلم ،جلد1،صفحہ26، دار الكتب العلمية، بيروت)

شیعوں کی کتب سے ثبوت

خودشیعوں کے بعض علماء بھی نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے چار حقیقی بیٹیوں کو تسلیم کرتے ہیں جیسا کہ بعض نے امام جعفر رحمہ اللہ سے نقل کیا ہے”ولد لرسول الله صلى الله عليه وسلم من خديجة : القاسم، والطاهر، وام كلثوم، ورقية، وفاطمة، وزينب“ترجمہ:سیدہ خدیجہ رضی اللہ عنہا سے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی اولاد یہ تھی : قاسم، طاہر، ام کلثوم، رقیہ، فاطمہ اور زینب رضی اللہ عنھن۔

)قرب الإسناد للحميري : 9/3، بحار الأنوار للمجلسي : 151/22(

ایک نے امام جعفر صادق رحمہ اللہ سے نقل کرتے ہوئے لکھتا ہے”ولد لرسول الله صلى الله عليه وسلم من خديجة : القاسم، والطاهر، وهو عبدالله، وام كلثوم، ورقية، وزينب، وفاطمة“ترجمہ:رسول اللہ صلى اللہ علیہ وسلم کی سیدہ خدیجہ رضی اللہ عنہا کے بطن اطہر سے اولاد یہ تھی۔ قاسم، طاہر وہی عبداللہ ہیں، ام کلثوم، رقیہ، زینب اور فاطمہ رضی اللہ عنھن۔

(الخصال لابن بابويه القمي، ص : 404)

محمد باقر مجلسی (1111ھ) نے رمضان المبارک میں پڑھی جانے والی تسبیح یوں ذکر کی ہے”اللهم صل على أم كلثوم ابنة نبيك، والعن من أذى نبيك فيها، اللهم صل على رقية ابنة نبيك، والعن من أذى نبيك فيها“ترجمہ:اے اللہ ! تو اپنے نبی کی بیٹی ام کلثوم پر رحمتیں نازل فرما اور اس شخص پر لعنت فرما جس نے تیرے نبی کو ام کلثوم رضی اللہ عنہا کے حوالے سے تکلیف دی۔ اے اللہ ! تو اپنے نبی کی بیٹی رقیہ پر رحمتیں نازل فرما اور اس شحص پر لعنت فرما جس نے تیرے نبی کو رقیہ کے حوالے سے تکلیف پہنچائی۔

(بحار الأنوار : 110/95)

ابن ابی الحدید (656ھ) نے لکھا ہے”ثم ولدت خديجة من رسول الله صلى الله عليه وسلم : القاسم، والطاهر، وزينب، ورقية، وأم كلثوم، وفاطمة“ترجمہ:سیدہ خدیجہ رضی اللہ عنہا کے بطن سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دو بیٹے، قاسم و طاہر رضی اللہ عنہما اور چار بیٹیاں، زینب، رقیہ، ام کلثوم اور فاطمہ رضی اللہ عنہن تھیں۔

(شرح نهج البلاغة : 132/5)

شیعوں کا یہ کہنا کہ سیدہ زینب،رقیہ،ام کلثوم رضی اللہ تعالیٰ عنہن کو عرفاً بیٹیاں کہا جاتا تھا،یہ دعویٰ بالکل غلط اور قرآنی تعلیمات کے خلاف ہے۔فرمان باری تعالیٰ ہے﴿اُدْعُوهُمْ لِآبَائِهِمْ هُوَ أَقْسَطُ عِنْدَ اللَّـهِ﴾ترجمہ کنزالایمان:انہیں ان کے باپ ہی کا کہہ کر پکارو یہ اللہ کے نزدیک زیادہ ٹھیک ہے۔

(سورۃ الاحزاب،سورۃ33،آیت5)

معلوم ہوا کہ اس آیت کے بعد کسی انسان کو اس کے باپ کے علاوہ کسی غیر کی طرف منسوب کرنا ناانصافی ہے۔ احادیث میں واضح طور پر سیدہ زینب، سیدہ رقیہ اور سیدہ ام کلثوم کو رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی بیٹیاں کہا گیا ہے۔ سارے مسلمان بھی ہر دور میں ان کو آپ صلى اللہ علیہ وسلم کی بیٹیاں قرار دیتے رہے ہیں۔ اگر یہ آپ کی حقیقی بیٹیاں نہیں تھیں تو ان کو آپ صلى اللہ علیہ وسلم کی طرف منسوب کرنا ناانصافی تھی اور یہ ناممکن ہے کہ احادیث اور اجماع امت مسلمہ ناانصافی پر مبنی ہو۔

حقیقت یہ ہے کہ یہ تینوں آپ صلى اللہ علیہ وسلم کی حقیقی بیٹیاں تھیں۔ ان کے (معاذ اللہ) کسی کافر کی اولاد ہونے پر کوئی دلیل نہیں۔ پھر اصول فقہ کا یہ مسلمہ قاعدہ بھی اس بات کی تائید کرتا ہے کہ جب تک حقیقت متعذر نہ ہو اور مجاز پر کوئی دلیل نہ ہو، مجازی معنیٰ کی طرف انتقال جائز نہیں ہوتا۔ ان تینوں صاحبزادیوں کے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی حقیقی اولاد ہونے میں کوئی مانع نہیں، نہ ان کے غیر کی اولاد ہونے پر کوئی دلیل ہے۔

دوسری قرآن سے دلیل یہ ہے کہ اللہ عزوجل نے ارشاد فرمایا﴿يَا أَيُّهَا النَّبِيُّ قُلْ لِأَزْوَاجِكَ وَبَنَاتِكَ وَنِسَاءِ الْمُؤْمِنِينَ يُدْنِينَ عَلَيْهِنَّ مِنْ جَلَابِيبِهِنَّ ذَلِكَ أَدْنَى أَنْ يُعْرَفْنَ فَلَا يُؤْذَيْنَ وَكَانَ اللَّـهُ غَفُورًا رَحِيمًا﴾ترجمہ کنزالایمان:اے نبی اپنی بیبیوں اور صاحبزادیو ں اور مسلمانوں کی عورتوں سے فرمادو کہ اپنی چادروں کا ایک حصہ اپنے منھ پر ڈالے رہیں، یہ اس سے نزدیک تر ہے کہ ان کی پہچان ہو تو ستائی نہ جائیں اور اللہ بخشنے والا مہربان ہے۔

(سورۃالأحزاب،سورۃ33،آیت59)

یہ آیت کریمہ واضح دلیل ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک سے زائد بیٹیاں تھیں، کیونکہ اس میں”بنات“کا لفظ مستعمل ہے جو کہ”بنت“کی جمع ہے۔ عربی میں جمع کے کم سے کم تین افراد ہوتے ہیں۔ ایک فرد کے جمع ہونے کا دنیا میں کوئی بھی قائل نہیں۔ اگر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی حقیقی بیٹی صرف سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا تھیں تو”بنات“کہنے کا کیا معنی؟؟؟

اب عقلی اور نقلی دلائل کے ساتھ تینوں شہزادیوں کا حضور علیہ السلام کے ہاں پیدا ہونا اور نکاح کے معاملات کو پیش کیا جاتا ہے:

سیدہ زینب رضی اللہ تعالی عنہا

سیدہ خدیجۃ الکبری رضی اللہ تعالی عنہا کے بطن سے سیدہ زینب رضی اللہ تعالی عنہا سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سب سے بڑی صاحبزادی ہیں۔ بعثت نبوی سے دس سال پہلے مکہ مکرمہ میں پیدا ہوئیں۔ اعلان نبوت کے وقت سیدہ خدیجہ رضی اللہ عنہا نے اسلام قبول فرمایا تو سیدہ زینب کی عمر دس سال تھی‘اپنی والدہ کے ہمراہ مشرف بہ اسلام ہوئیں۔المواہب اللدنیہ میں ہے” أما زينب فهى أكبر بناته بلا خلاف إلا ما لا يصح، وإنما الخلاف فيها وفى القاسم أيهما ولد أولا. وعند ابن إسحاق أنها ولدت فى سنة ثلاثين من مولد النبى صلى الله عليه وسلم، وأدركت الإسلام، وهاجرت، وماتت سنة ثمان من الهجرة“ترجمہ:حضرت زینب نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بلاخلاف بڑی بیٹی تھیں سوائے اس کے جو صحیح نہیں۔ اختلاف اس میں ہے کہ حضرت قاسم بڑے ہیں یا نہیں۔ابن اسحاق کے نزدیک حضرت زینب اس وقت پیدا ہوئیں جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی عمر مبارک تیس(۳۰) سال تھی ۔ انہوں نے اسلام کو پایا اور ہجرت کی۔ہجرت کے آٹھویں سال دنیا سے پردہ کرگئیں۔

(المواهب اللدنية بالمنح المحمدية،جلد1،صفحہ479،المكتبة التوفيقية،القاهرة)

سیرت و تاریخ کی کتب میں مذکور ہے کہ سیدہ زینب رضی اللہ عنہا کا نکاح حضرت ابوالعاص بن ربیع سے ہوا جو مکہ کے صا حب ثروت، شریف اور امانت دار شخص تھے۔ حضرت ابوالعاص سیدہ خدیجۃ الکبریٰ رضی اللہ عنہا کے سگے بھانجے تھے۔ اعلانِ نبوت کے بعد مشرکین مکہ نے حضرت ابوالعاص کو اکسایا کہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بیٹی سیدہ زینب رضی اللہ عنہا کوطلاق دے دو اور قبیلہ قریش کی جس عورت سے نکاح کرنا چاہو ہم پیش کر سکتے ہیں۔ حضرت ابوالعاص نے سیدہ زینب کو طلاق دینے سے انکار کر دیا۔حضرت ابوالعاص نے ہجرت کے چھٹے سال اسلام قبول کیا۔شرف المصطفى میں عبد الملك بن محمد بن ابراہيم النيسابوری (المتوفى407ھ)رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں”وأما زينب فتزوجها أبو العاص بن الربيع واسمه القاسم بن الربيع بن عبد العزى بن عبد شمس، وأمه هالة بنت خويلد، فهو ابن خالتها، تزوجها وهو مشرك فقالت له قريش: طلقها فنزوجك بنت سعيد بن العاص، فأبى أبو العاص، وأتت زينب رسول الله صلى الله عليه وسلم الطائف، ثم أتت رسول الله صلى الله عليه وسلم بالمدينة، فقدم أبو العاص المدينة بعد أربع سنين “

(شرف المصطفى، باب ذكر أولاد رسول الله صلى الله عليه وسلم وأصهاره،جلد2،صفحہ52،دار البشائر الإسلامية،مكة)

حضرت سیدہ رقیہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا

حضرت رقیہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی دوسری صاحبزادی ہیں جو حضرت زینب رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے تین سال چھوٹی ہیں۔ سیدہ رقیہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا بھی سیدہ خدیجۃ الکبریٰ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے بطن سے پیدا ہوئیں۔ ان کی پیدائش کے وقت نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی عمر مبارک تقریبا تینتیس برس تھی۔ اعلان نبوت کے بعد سیدہ رقیہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے اپنی والدہ اور بڑی بہن کے ہمراہ اسلام قبول کیا۔

کثیر مستند کتب سے ثابت ہے کہ بعثت سے قبل سیدہ رقیہ رضی اللہ عنہا کا نکاح ابولہب کے بیٹے عتبہ سے ہوا تھا مگر رخصتی ہونا باقی تھی۔ اعلانِ نبوت کے بعد پیغمبر اسلام کے راستہ میں رکاوٹ ڈالنے اور پیغام حق کے مقابلہ میں کفر اور شرک کی اشاعت کرنے کی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے ابولہب اور اس کی بیوی کی مذمت فرمائی تو ابولہب نے اپنے بیٹے کو رقیہ بنتِ محمد سے علیحدگی اختیار کرنے پر زور دیا‘ اس پر عتبہ بن ابولہب نے سیدہ رقیہ رضی اللہ عنہا کو طلاق دے دی۔ اس کے بعد مکہ مکرمہ میں ہی سیدہ رقیہ رضی اللہ عنہا کا نکاح حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ کے ساتھ کردیا گیا۔ حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے میری طرف وحی بھیجی ہے کہ میں اپنی بیٹی رقیہ رضی اللہ عنہا کا نکاح حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ سے کردوں۔ چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ ووآلہ وسلم نے آپ کا نکاح حضرت عثمان رضی اللہ عنہ سے کر دیا اور ساتھ ہی رخصتی بھی کردی۔

”الوافي بالوفيات“میں صلاح الدين خليل بن ايبك الصفدی (المتوفى764ھ)رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں”ولدت رقية وَعمر رَسُول الله صلى الله عَلَيْهِ وَسلم ثَلَاث وَثَلَاثُونَ سنة “ترجمہ:حضرت رقیہ پیدا ہوئیں اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی عمر مبارک اس وقت تینتیس برس تھی۔

(الوافي بالوفيات، ابنة النبي صلى الله عليه وسلم،جلد14،صفحہ95،دار إحياء التراث، بيروت)

”الطبقات الكبرى“میں ابو عبد الله محمد بن سعد بن منيع الہاشمی ابن سعد(المتوفى230ھ)اور”أسد الغابة في معرفة الصحابة“ میں ابو الحسن علی بن ابی الكرم محمد بن محمد بن عبد الكريم ابن الاثير (المتوفى630ھ)لکھتے ہیں”وكان رسول الله صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قد زوج ابنته رقية من عتبة بن أبي لهب، وزوج أختها أم كلثوم عتيبة بن أبي لهب، فلما نزلت سورة ” تبت“، قال لهما أبوهما أبو لهب، وأمهما أم جميل بنت حرب بن أمية حمالة الحطب: فارقا ابنتي محمد.ففارقاهما قبل أن يدخلا بهما “ترجمہ:رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے بیٹی رقیہ کا نکاح عتبہ بن ابی لہب سے کیا تھا اور رقیہ کی بہن ام کلثوم کا نکاح عتیبہ بن ابی لہب سے کیا تھا،جب سورۃ لہب نازل ہوئی تو ابو لہب نے اپنے ان دونوں بیٹوں اور ان کی ماں ام جمیل بنت حرب بن امیہ لکڑیوں کا گٹّھا سر پر اٹھانے والی نے ان سے کہا کہ محمد کی دونوں بیٹیوں کو طلاق دے دو،تو ان دونوں نے رخصتی سے قبل طلاق دے دی۔

(اسد الغابة في معرفة الصحابة، رقية بنت رسول الله صلى الله عليه وسلم،جلد7،صفحہ114،دار الكتب العلمية،بیروت)

حضرت سیدہ ام کلثوم رضی اللہ تعالیٰ عنہا

حضرت سیدہ ام کلثوم رضی اللہ تعالیٰ عنہا نبی مکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تیسری بیٹی ہیں۔ یہ سیدہ رقیہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے چھوٹی ہیں اور ایک قول کے مطابق یہ حضرت رقیہ سے بڑی ہیں۔ ان کی ولادت بھی سیدہ خدیجۃ الکبریٰ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے بطن سے پیدا ہوئی۔اعلان نبوت سے پہلے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے سیدہ ام کلثوم رضی اللہ تعالیٰ عنہا کا نکاح اپنے چچا ابولہب کے بیٹے عتیبہ کے ساتھ کر دیا تھا رخصتی ہونا باقی تھی کہ ابو لہب کے کہنے پر عتیبہ نے آپ کو طلاق دے دی۔سیدہ رقیہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے وصال کے بعد نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے سیدہ ام کلثوم کا نکاح حضرت عثمانِ غنی سے کر دیا۔

”ذخائر العقبى في مناقب ذوى القربى“میں محب الدين احمد بن عبد الله الطبری (المتوفى694ھ)لکھتے ہیں”(في ذكر أم كلثوم بنت رسول الله صلى الله عليه وسلم)وهى ممن عرف بكنيته ولم يعرف اسمه.وقد تقدم ذكر الخلاف في أيهما أكبر هي أم رقية.وهى أكبر سنا من فاطمة “ترجمہ: ام کلثوم بنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ذکر: یہ اپنی کنیت سے مشہور ہیں ان کا نام معروف نہیں۔پیچھے ہم نے خلاف کو ذکر کیا کہ یہ حضرت رقیہ سے بڑی ہیں یا نہیں البتہ حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے بڑی تھیں۔

(ذخائر العقبى في مناقب ذوى القربى،صفحہ26،دار الكتب المصرية،التيمورية)

”تاريخ دمشق“میں ابو القاسم علی بن الحسن بن ہبة اللہ ابن عساكر(المتوفى571ھ) اورالاستيعاب في معرفة الأصحاب میں ابو عمر يوسف بن عبد الله القرطبی (المتوفى463ھ)لکھتے ہیں”ولدت زينب بنت رسول الله صلى الله عليه وسلم ورسول الله صلى الله عليه وسلم ابْن ثلاثين سنة، وولدت رقية بنت رَسُول الله صلى الله عليه وسلم، ورسول الله صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ابن ثلاث وثلاثين سنة.وَقَالَ مصعب وغيره من أهل النسب: كانت رقية تحت عتبة بْن أبي لهب، وكانت أختها أم كلثوم تحت عتیبة بْن أبى لهب، فلما نزلت: تبّت يدا أبى لهب قال لهما أبو هما أبو لهب وأمهما حمالة الحطب: فارقا ابنتي محمد.وقال أبو لهب: رأسي من رأسيكما حرام إن لم تفارقا ابنتي محمد. ففارقاهما “ترجمہ:حضرت زینب بنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس وقت پیدا ہوئیں جب آپ علیہ السلام کی عمر تیس سال تھی اور حضرت رقیہ بنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس وقت پیدا ہوئیں جب آپ علیہ السلام کی عمر مبارک تینتیس سال تھی۔ مصعب اور دیگر اہل نسب نے فرمایا کہ حضرت رقیہ عتبہ بن ابی لہب کے نکاح میں تھیں اور ان کی بہن ام کلثوم عتیبہ بن ابی لہب کے نکاح میں تھیں۔جب قرآ ن پاک میں آیا:تباہ ہوجائیں ابولہب کے دونوں ہاتھ۔ابولہب نے اپنے ان دونوں بیٹوں اور ان کی ماں لکڑیوں کا گٹھا سر پر اٹھانے والی نے کہا کےمحمد کی ان دونوں بچیوں کو طلاق دے دو۔ ابولہب نے کہا: میرا سر تم دونوں کے سروں پر حرام ہے اگر تم نے ان کو طلاق نہ دی۔تب دونوں نے طلاق دے دی۔

(الاستيعاب في معرفة الأصحاب، رقية بنت رسول الله صلى الله عليه وسلم،جلد4،صفحہ1839،دار الجيل، بيروت)

”السيرة النبوية“میں اسماعيل بن عمر بن كثير القرشی الدمشقی (المتوفى774ھ)لکھتے ہیں”وزعم الواقدي أن في ربيع من هذه السنة تزوج عثمان بن عفان أم كلثوم بنت رسول الله صلى الله عليه وسلم “ترجمہ: واقدی کا گمان ہے کہ اسی سال(یعنی تیسری ہجری میں)حضرت عثمان بن عفان نے ام کلثوم بنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے نکاح کیا۔

(السيرة النبوية،سنة ثلاث من الهجرة في أولها كانت غزوة نجد ويقال لها غزوة ذي أمر،جلد3،صفحہ9، دار المعرفة ، بيروت)

حاصلِ کلام

تمام تر دلائل پیش کرنے کے بعدجو خلاصہ نکلا وہ یہ ہے:

(1)حضور علیہ السلام کی چار شہزادیاں تھیں،اہل سنت کا اس بارے میں کوئی اختلا ف نہیں۔

(2)چاروں کی پیدائش اورنکاح عقلی ونقلی طور پر درست ہے۔حضرت زینب جو سب سے بڑی ہیں وہ اعلان نبوت سے دس سال پہلے پیدا ہوئیں ۔حضرت رقیہ اعلان نبوت سےسات سال پہلے پیدا ہوئیں ،حضرت ام کلثوم ان کے بعد پید ا ہوئیں ،پھر حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہن۔یہ سب شہزادیاں اعلان نبوت سے قبل پیدا ہوچکی تھیں ۔لہٰذاحضرت رقیہ اور ام کلثوم کے نکاح پراعتراض کرنا باطل ٹھہرا کیونکہ اعلان نبوت سے قبل نکاح ہوچکا تھا لیکن رخصتی نہیں ہوئی تھی اور نبوت کے تیسرے سال سورۃ لہب نازل ہونے کے بعددونوں کو طلاقیں ہوگئیں۔سیرت مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں ہے:”تین برس کی اس خفیہ دعوت اسلام میں مسلمانوں کی ایک جماعت تیار ہوگئی اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے اپنے حبیب صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم پر سورۂ ”شعراء” کی آیت﴿وَ اَنۡذِرْ عَشِیۡرَتَکَ الْاَقْرَبِیۡنَ ﴾نازل فرمائی اور خداوند تعالیٰ کا حکم ہوا کہ اے محبوب! آپ اپنے قریبی خاندان والوں کو خدا سے ڈرائیے تو حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے ایک دن کوہ صفا کی چوٹی پر چڑھ کر ”یامعشر قریش“ کہہ کر قبیلہ قریش کو پکارا۔جب سب قریش جمع ہو گئے تو آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اے میری قوم! اگر میں تم لوگوں سے یہ کہہ دوں کہ اس پہاڑ کے پیچھے ایک لشکر چھپا ہوا ہے جو تم پر حملہ کرنے والا ہے تو کیا تم لوگ میری بات کا یقین کر لو گے؟ تو سب نے ایک زبان ہو کر کہا کہ ہاں! ہاں! ہم یقینا آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی بات کا یقین کر لیں گے کیونکہ ہم نے آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کو ہمیشہ سچا اور امین ہی پایا ہے۔ آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اچھا تو پھر میں یہ کہتا ہوں کہ میں تم لوگوں کو عذاب الہٰی سے ڈرا رہا ہوں اور اگر تم لوگ ایمان نہ لاؤ گے تو تم پر عذاب الہٰی اتر پڑے گا۔ یہ سن کر تمام قریش جن میں آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کا چچا ابو لہب بھی تھا، سخت ناراض ہو کر سب کے سب چلے گئے اور حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی شان میں اول فول بکنے لگے۔ “

(سیرتِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم،صفحہ112،مکتبۃ المدینہ،کراچی)

بخاری شریف میں ہے” فقال أبو لهب: تبا لك سائر اليوم، ألهذا جمعتنا؟ فنزلت: {تبت يدا أبي لهب وتب ما أغنى عنه ماله وما كسب} “ترجمہ:ابولہب نے کہا:تم تباہ ہوجاؤتمام دن، کیا تم نے ہمیں اس لئے جمع کیا تھا اس پر یہ سورت نازل ہوئی:تباہ ہوجائیں ابولہب کے دونوں ہاتھ اور وہ تباہ ہو ہی گیا۔اسے کچھ کام نہ آیا اس کا مال اور نہ جو کمایا۔

(صحیح البخاری، كتاب تفسير القرآن ، باب {وأنذر عشيرتك الأقربين واخفض جناحك} [الشعراء: 215] ألن جانبك ،جلد6،صفحہ111،حدیث4770، دار طوق النجاة،مصر)

اب اگرکوئی یہ کہے کہ حضرت رقیہ اور حضرت ام کلثوم کے پیدائش و نکاح اگرچہ ممکن ہے لیکن نابالغی کے حالت میں ان دونوں کا نکاح کیسے ممکن ہے تو اس کا جواب یہ ہے کہ نکاح نابالغہ کا بھی ہوجاتا ہے چنانچہ مصنف ابن ابی شیبہ میں ہے”عن الحسن، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «إذا أنكح الرجل ابنه وهو كاره فليس بنكاح، وإذا زوجه وهو صغير جاز نكاحه» “ترجمہ:حضرت حسن سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:اگر کوئی شخص اپنے بچے کا نکاح کرے اور وہ اس کو ناپسند کرے تو وہ نکاح صحیح نہیں اور اگر باپ چھوٹے نابالغ کا نکاح کردے تو وہ نکاح جائز ہے۔

(مصنف ابن ابی شیبۃ،کتاب النکاح،في رجل يزوج ابنه وهو صغير، من أجازه،جلد3،صفحہ462،مكتبة الرشد،الرياض)

اعلیٰ حضرت امام احمد رضاخان علیہ رحمۃ الرحمن فرماتے ہیں:”نکاح کسی عمر میں ناجائزنہیں، اگر اسی وقت کے پیدا ہوئے بچے کا نکاح اس کا ولی کردے گا نکاح ہوجائے گا، ہاں پیٹ کے بچے کا نکاح نہیں ہوسکتا۔اذلاولایۃ علی الجنین لاحد کمافی غمزالعیون کیونکہ پیٹ میں بچے پرکسی کو ولایت نہیں، جیساکہ غمز العیون میں ہے۔ واللہ تعالیٰ اعلم۔“

(فتاویٰ رضویہ،جلد11،صفحہ261،رضافاؤنڈیشن،لاہور)

بلکہ شیعوں کے نزدیک بھی نابالغ لڑکے یا لڑکی کا نکاح جائز ہے چنانچہ ایک انٹرنیٹ کی ویب سائیٹ پر لکھا ہے:باپ اور دادا اپنے نابالغ لڑکے یا لڑکی (پوتے یا پوتی)یا دیوانے فرزند کا جو دیوانگی کی حالت میں بالغ ہوا ہو ،نکاح کرسکتے ہیں۔“ (https://www.sistani.org/urdu/book/61/3649/)

اپنا تبصرہ بھیجیں