الیکشن2018ء۔۔۔قیادت۔۔۔اور دینی فکر

الیکشن2018ء۔۔۔قیادت۔۔۔اور دینی فکر

پیشکش: صدائے قلب

الیکشن 2018 کی دھوم دھام ہے۔ مختلف سیاسی جماعتوں کے قائدین بیچاری عوام کو پھر سے اپنی چکنی چپڑی باتوں سے بہلانے پھسلانے اور نئے پرانے جالوں میں پھنسانے کو ایک بار پھر خوب سے خوب تر متحرک ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ اب عوام میں شعوری بیداری اور اس کے زاویہ نگاہ میں تبدیلی واقع ہو چکی ہے، لہٰذا پرانے جال انہیں پھانسنے میں اب کام نہ آئیں گے۔ لیکن اگر خود فریبی سے بچ کر حقیقت پسندانہ تجزیہ کیا جائے تو ہزار ٹھوکریں کھا کر بھی اس عوام کا شعور ابھی بیدار ہوتا معلوم نہیں ہوتا، اور زاویہ نگاہ میں بھی وہی کجی اب بھی برقرار ہے کہ وہی بدکردار قائدین پارٹیاں بدل بدل کرہم پر مسلط ہونے کے لیے تیار ہیں اور ان کی وہی گھسی پٹی پالیساں ابھی بھی ان کی ترجیحات بنی ہوئی ہیں۔ بہت کم ہی ایسے لوگ ہیں جو ان لیڈروں کا کردار دینی نظر سے دیکھ رہے ہیں۔ حتی کہ اس عوامی سوچ پر بہت تعجب ہوتا ہے کہ وہ کسی لیڈر کی کرپشن تو دیکھتے ہیں، کسی لیڈرپر تین شادیوں کے سبب تو اعتراض کرتے ہیں لیکن یہ نہیں دیکھتے کہ کس لیڈر نے دینی احکام کا انکار کیا،کس لیڈر نے غیر شرعی کلمات کہے،کس نے بے حیائی اور ناچ گانے کو فروغ دیا، کس نے ہندؤوں کے مندر میں جاکر پوجا کی، کس نے ختم نبوت پر ڈاکہ ڈالا۔

شاید اس عدم توجہ کاسبب حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالی عنہما کی روایت کردہ یہ حدیث ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”آخری زمانے میں کچھ قومیں آئیں گی جن کی شکلیں آدمیوں جیسی ہوں گی لیکن دل شیطان جیسے ہوں گے۔ ان کے دِلوں میں رحم نہیں ہوگا۔ خون بہانے والے گناہوں کی طرف توجہ نہ کریں گے۔ انکا خریدنا بیچنا دھوکے بازی پر مشتمل ہوگا۔ جب بات کریں گے تو جھوٹ بولیں گے۔ امانت میں خیانت کریں گے۔ انکے بچے شرارتی اور بڑے شاطر ہوں گے۔ انکے بڑے نیکی کا حکم اور برائی سے منع نہ کریں گے۔ مؤمن ان میں ذلیل اور فاسق عزت والا ہو گا۔ سنت انکی نظر میں بدعت اور بدعت سنت ہوگی۔ ایسے لوگوں پر اللہ عزوجل شریر لوگوں کو مسلط فرما دے گا۔ پھر نیکو کار دعا کریں گے لیکن انکے لئے قبولیت نہ ہو گی۔“

(المعجم الأوسط، جلد6،صفحہ227،حدیث6259،دار الحرمين،القاهرة)

اس حدیث سے واضح ہوتا ہے کہ ہماری سوچوں میں دین کیوں نہیں۔ وجہ یہ ہے کہ ہم خود بے عمل ہیں۔آج ہماری عوام کے اعمال ہم سب پر عیاں ہیں کہ سرکاری اداروں میں ایک چپڑاسی سے لے کر افسر تک کس قدر رشوت خوری میں غرق ہے۔ ڈاکٹر کس طرح بے رحمی سے مریضوں کولوٹ رہے ہیں۔ تاجر کس قدر ملاوٹ اور دھوکے بازی سے پیسے بٹوررہے ہیں۔ بوڑھے تک داڑھی منڈواتے اور تاش کھیلتے،بجائے نوجوانوں کو نیکی کی دعوت دینے کے الٹا ان سے گندی گفتگو کرتے دکھائی دیتے ہیں۔

ایک مذہبی گروپ ایسا بھی ہے جس کا کام امت مسلمہ کو مشرک و بدعتی ٹھہراکر مسلمانوں کے ہی خلاف جہاد کرنا ہے۔ سنت ان کی نظر میں بدعت ہوچکی ہے جیسے وہ نبی اکرم صلی اللہ تعالی علیہ و آلہ وسلم کی سنت عمامہ چھوڑ کر چرواہوں کی طرح لال رومال باندھنے لگے ہیں، اور بدعت ان کی نظر میں سنت ہے جیسا کہ وہ ننگے سر نماز پڑھتے ہیں۔ جب عوام کا عملی کردار ایسا ہوگا اور بجائے اپنی حرام کاریوں کی اصلاح کے الٹا دین دار طبقے پر تنقید کریں گے اور حرام کو حرام نہیں سمجھیں گے تو ان لیڈروں کے ہاتھوں ملک و قوم کی ہلاکت ہونا کو ئی حیرانی کی بات نہیں، بلکہ اپنے ہی اعمال کی سزا ہے۔

یہ ہماری عوام کی بداعمالیاں ہی ہیں کہ ہماری سوچ میں غیرت و حمیت اور سابقہ لیڈروں کے اعمال ِبد سے عبرت و نصیحت حاصل کرنا مفقود ہوچکا ہے۔ہم ان کھوٹے سکوں کو بار بار آزماتے ہیں اور ہر بار دین و ملک کا نقصان اٹھاتے ہیں۔ ہر الیکشن کی طرح اس الیکشن میں بھی وہی کرپٹ لیڈر اپنی دولت و سیاسی طاقت کے سبب پارٹیاں بدل کر برسراقتدارآنے کے لیے تیار ہیں اور ہم اپنی امیدوں کو پھر سے ان کے ساتھ وابستہ کیے ہوئے ہیں۔

ہمیشہ کی طرح2018کے الیکشن میں بھی ہماری قوم کے ووٹ ڈالنے کی روش وہی پرانی ہے جودرج ذیل ہے:

٭ بعض لوگوں میں قرآن پاک میں بیان کردہ یہ مرض قدیم پایا جاتا ہے کہ ان کے بڑوں نے بھلے جہالت و نادانی کا ثبوت دیا ہو مگر وہ ان کی پیروی یہ کہہ کر کرتے ہیں کہ میرا دادا چونکہ پیپلز پارٹی کو ووٹ دیتا تھا ،لہٰذا میں بھی پیپلز پارٹی ہی کو ووٹ دوں گا اگرچہ زرداری جیسا کرپٹ ترین شخص بھی وزیر بن رہا ہو،یا اس کا عیاش اور بے دین بیٹا بلاول برسراقتدار آرہا ہو جو ہم جنس پرستی کی بدعملی کا ملزم اور ہندؤوں کی عبادت گاہ پر جاکر ان کے ساتھ بت پرستی میں شریک رہا ہو۔

٭ بعض قومیں وہ ہیں جو آج بھی وڈیروں اور گدی نشینوں کو ووٹ دیتی ہے اگرچہ وہ کسی بھی کرپٹ اور بے دین تحریک سے وابستہ ہوں جیسا کہ کئی سندھی اور بلوچی قوموں کا حال ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ان وڈیروں نے ان صوبوں میں ترقیاتی کام نہ کیے بلکہ ہندوستان کے ایجنٹ کے طورپر ملک کو نقصان پہنچایا۔ اگر جنگ آزادی کی تاریخ کا مطالعہ کریں تو ا س میں مسلمانوں کے خلاف غداری کرنے والے جن نوابوں کو انگریزوں نے جاگیریں دیں، آج انہی جاگیر دار وں کی اولاد برسر اقتدار آکر اس ملک اور اس کی قوم سے غداری کو برقرار رکھے ہے۔

وہ مذہبی گدی نشین طبقہ جنہوں نے دین وملک کے لیے ایک آنے کا کام نہیں کیا، فقط اپنے آباؤاجداد کی بزرگی کو کیش کرواکر اپنی تجوریاں بھریں اور آپس میں گدیوں پر لڑتے رہے اور بدعقیدوں کی صحبت میں بیٹھ کر صلح کلیت کو پروان چڑھایاہے،وہ آج بھی انہی بے دین و کرپٹ پارٹیوں کے ممبر بنے نظر آرہے ہیں۔

٭ لوگوں کی ایک تعدا د ایسی ہے جو ہمیشہ اسے ووٹ دیتے ہیں جس کے جیتنے کی چہ مگوئیاں ہو رہی ہوں۔ پھر اگر وہی جیت بھی جائے تو وہ اس بات پر اتراتے ہیں کہ ہم نے جسے ووٹ دیا وہ جیت گیا اگرچہ وہ جیتنے والی پارٹی کرپٹ ترین یابے دین ہو۔

٭ ایک بہت بڑی تعداد نواز شریف اور شہباز شریف جیسے بے دین ،متکبر اور کرپٹ لوگوں کو یہ سمجھ کر ووٹ دیتی ہے کہ بقیہ لیڈروں کی بہ نسبت یہ کم لوٹ مار کرنے والے ہیں۔ یعنی ہماری قوم کا گویا یہ حال ہے کہ آنکھوں دیکھا زہر یہ کہہ کر کھانے کو تیار ہے کہ اس سے بندہ فورا نہیں مرتا بلکہ تڑپ تڑپ کر مرتا ہے۔

٭ ہماری اکثر عوام جب لیڈروں کے متعلق غوروفکر کرتی ہے تو ہر کوئی اپنے لیڈر کے عیبوں کو یکسر نظر انداز کرکےاس کی چند اچھائیاں پیش کرتا ہے اور اپنے لیڈروں کے خلاف ثابت شدہ باتوں کی ایسی باطل تاویلات کرتا ہے جسے سن کر ہنسی کے ساتھ ساتھ دکھ ہوتا ہے۔ جیسے جو نون لیگ کے ووٹر ہیں جب ان سے کہا جائے کہ نواز شریف نے قادیانیوں کو بھائی کہا،ہندؤوں کے مذہبی تہوار میں شرکت کی اور ہندؤوں کے لیے بھی جنت جائز قرار دے دی اور غازی ممتاز قادری رحمۃ اللہ علیہ کو شہید کروایا، تو بقیہ مسائل میں تو یہ ن لیگی جواب دینے سے عاجز آجاتے ہیں البتہ ممتاز قادری کے مسئلہ میں کہتے ہیں کہ اسے پھانسی کورٹ نے دی ہے، نواز شریف نے نہیں۔حالانکہ کورٹ نے تو آسیہ سمیت اور بھی کئی گستاخوں کو پھانسی کی سزا دی ہوئی ہے ، انہیں اب تک پھانسی کیوں نہیں ہوئی؟ اوریا مقبول کا ٹی وی چینل پر بیان موجود ہے کہ صدرممنون نے ان سے کہا تھا کہ مجھے ہر ہفتہ وزیر اعظم آفس سے یہ فون آتا ہے کہ ممتاز قادری کے پھانسی کی جلد توثیق کرو۔یعنی نواز شریف نے اپنے مغربی آقاؤں، سیکولر اور لبرل لوگوں کو راضی کرنے کے لیے ممتاز قادری کو پھانسی دی اور جیسے ہی اس نے یہ کیا اس دن سے اللہ عزوجل نے اس کی ایسی گرفت کی کہ یہ ہردن ذلت ورسوائی کے گڑھے میں گر رہا ہے، جس کا انجام اس کے لئے بھی جیل کی سلاخیں ہی نظر آ رہا ہے۔

٭ ایک تعداد ہے جو آج عمران خان سے متاثر ہے اور اس میں میڈیا کا بہت بڑا ہاتھ ہے۔ یہ وہی میڈیا ہے جو کبھی عمران خان کے جلسے کی کوریج بھی نہ دیتا تھا اور خان صاحب ا س پر شکوہ کناں رہتے تھے۔ لیکن پتہ نہیں اب میڈیا کو عمران خان نے پتہ نہیں کون سی پھکی دی ہے کہ اسے ممتاز قادری کے جنازے میں موجود لاکھوں افراد تو نظر نہ آئے لیکن خان صاحب کے جلسے میں چند ناچنے گانے والے افراد ایسے پسند آئے کہ کیمرہ ان کی ایک ایک حرکت عوام کے سامنے لاتا ہے۔عمران خان کا کردار اگر دینی اعتبار سے دیکھا جائے تو یہ نواز شریف سے بھی گیا گزرا ہے۔یہ عمران خان اور اس کے کارندے جیسے فواد چوہدری وغیرہ تو نواز شریف سے بھی قبل قادیانیوں کے خیرخواہ نظر آتے تھے۔ اسی عمران خان نے ممتاز قادری کو قاتل کہا اور فوا د چوہدری نے سلمان تاثیر کے قصیدے گائے اور ممتاز قادری پر سخت تنقید کی۔ اسی عمران خان نے واضح طور پر خود کو لبرل کہا اور 80فیصد داڑھی والوں کو دو نمبر کہا۔ اس نے اپنی تقریروں میں کئی غیر شرعی بلکہ کفریہ کلمات کہے۔یہ شخص ہر پلیٹ فارم پر نواز شریف کے خلاف بولا لیکن ختم نبوت اور ناموس رسالت کے مسئلہ پر اور برما و فلسطین میں مسلمانوں پر ہونے والے مظالم کے خلاف کبھی نہیں بولا۔

٭دینی سیاسی تحریکوں کی طرف نظر کریں تو یہ ثابت ہوتا ہے کہ پاکستان میں موجود فضل الرحمن اور طاہر القادری ایسے نام نہاد دینی قائدین کی سیاست نے لوگوں کو دینی طبقہ سے دور کیا ہے۔فضل الرحمن صاحب وہ نایاب لیڈر ہے جو کبھی بھی بکانہیں، بلکہ ہر حکومت کو کرایہ پر مل جاتا ہے اور طاہر القادری صاحب نے لوگوں کو جھوٹے خواب سنا کر اپنی سیاست چمکانے کی بہت کوشش کی لیکن خود باعمل و مخلص نہ ہونے کی وجہ سے سوفیصد ناکام رہے۔ اب ان کا یہ حال ہے کہ کینیڈا جاکر انگریزوں کے حق میں بیان دیتے ہیں اور پاکستان آکر کبھی عیسائیوں کے ساتھ کرسمس کا کیک کاٹ رہے ہوتے ہیں اور کبھی حضرت امیر معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ پر طعن کر کے اہلسنت میں رافضیت کا بیج بو رہے ہوتے ہیں۔ وقفے وقفے سے سیاسی کرتب دکھاتے ہیں لیکن ناکام ہوکر پھر کینیڈا چلے جاتے ہیں۔

٭ اب ایک نئی تحریک ” تحریک لبیک پاکستان“ وجود میں آئی ،جس میں مخلص علماو عوام نے حصہ لے کر ختم نبوت پر ثابت قدم رہ کر ایک بہت بڑا کارنامہ سرانجام دیا ،جس کا انعام یہ ملنے والاتھا کہ ایک مضبوط مذہی سیاسی جماعت وجود میں آنے والی تھی کہ اس کے بعض قائدین کے اختلاف نے اسے سخت نقصان پہنچایا ہے۔ اب ایک ہی حلقے میں دونوں علماکے ممبران کا ایک دوسرے کے سامنےآنا دینی سیاست کے لئے کسی طور فائدہ مند نہیں بلکہ دوسری لبرل سیاسی پارٹیوں ہی کو فائدہ پہنچانا ہے۔جہاں تک ڈاکٹر اشرف آصف جلالی صاحب اورعلامہ خادم حسین رضوی صاحب کے کردار کا تعلق ہے تو یہ دونوں شخصیات اہل علم ، مخلص اور انتہائی ایماندار ہیں۔ کبھی، کہیں، کسی طرح کی کرپشن ان سے ہر گز ثابت نہیں۔ یوں یہ دونوں شخصیات زرداری،نوازشریف، شہباز شریف اور عمران خان وغیرہا سے بدرجہا بہتر ہیں۔ لیکن ان کے پاس چونکہ مغربی حمایت اور میڈیا کی سپورٹ نہیں ہے جس کی وجہ سے یہودونصاری، سیکولرطبقہ اور ظالم میڈیا ان مذہبی لوگوں کی کردار کشی کرنے اور انہیں شدت پسند مشہور کرنے میں رات دن ایک کئے ہوئے ہے۔ علامہ خادم حسین رضوی صاحب کے چند جملے آگے پیچھے سے کاٹ کراس طور پر پیش کرتے ہیں کہ یہ شخص فحش کلامی اور شدت پسندی کو فروغ دیتا ہے۔ بالفرض ایک شخص سے سخت کلامی ثابت بھی ہوتو اس سے یہ کیسے ثابت ہوگیا کہ تمام مذہبی لوگ اور تحریک لبیک کے تمام ممبران شدت پسند اور غیر اخلاقی گفتگو کرنے والے ہیں۔ اہل مغرب ، سیکولر اور سیاسی طبقات دینی لوگوں کی سیاست سے خوف زدہ ہے۔ یہی وجہ ہے کہ وہ ان کو اقتدار میں نہیں دیکھنا چاہتے اور ان کے خلاف اوچھے ہتھکنڈے استعمال کررہے ہیں۔

آج ہماری عوام کی اکثریت دینی سوچ سے عاری ہوچکی ہے۔یہ عوام جب ملک و قوم کے متعلق سوچتی ہے تو ان کی سوچ میں دین نہیں ہوتا ۔ہر تیسرا چوتھا شخص نواز شریف ، زرداری اور عمران خان کی کرپشن پر روتا ہے لیکن ان لیڈروں کے دینی احوال پر کوئی گفتگو نہیں کی جاتی اور نہ ہی ان کے غیر شرعی افعال کی مذمت کی جاتی ہے۔جب ہماری سوچوں میں دین نہیں اور نہ ہی ہمیں دیندار لیڈروں سے لگاؤ ہے تو اس کا نتیجہ یہی ہو گاکہ عیاش بے دین لیڈر ہم پر مسلط ہوکر ہمارے دین احکام کا مذاق اڑائیں گے ،کافروں کو راضی کرنے کے لیے قرآن وحدیث کا انکارکرکے بے دینی و بے حیائی کو عام کرکے ہماری عوام اور ہماری قوم کی بچیوں کو بدکاری کی طرف لگائیں گے۔آج ہمارا نوجوان طبقہ دین سے دور ہوکر موبائل اور عشق معشوقی جیسے حرام کاموں میں مشغول ہوگیا،طلاقیں عام ہوگئیں،بے حیائی اور زنا کو روزبروز فروغ مل رہا ہے۔ آج اگر ہم نے ووٹ دیتے ہوئے ان لیڈروں کے دینی احوال کو نہ دیکھا تو ہماری آنے والی نسلوں میں ایسا دین پہنچے گا جس میں نفسانی خواہشات غالب ہوں گی،ختم نبوت کا قانون ختم ہوگا تو کئی جعلی پیر اور گمراہ مولوی نبوت کا دعوی کرکے ہماری نسلوں کا ایمان برباد کریں گے،ناموس رسالت کا قانون ختم ہوگا تو میڈیا پر آزادی کے نام پر(خدانخواستہ) آپ علیہ السلام کی شان میں گستاخیاں کی جائیں گی اور کوئی بعید نہیں کہ یہ گستاخ ہماری نسلوں ہی سے ہوں کہ جب ان کو آزادی رائے کا اختیار دے دیا جائے گا تو جس طرح آج یہ شرعی احکام کے خلاف زبان درازی کرتے ہیں تو آئندہ انبیا علیہم السلام کی شان میں بھی تنقید یں کریں گے۔

اس مختصرتحریر میں قارئین کے سامنے تمام سیاسی تحریکوں کی صورتحال پیش کردی ہے اور فیصلہ ان پر چھوڑا ہے کہ اپنا ووٹ سوچ سمجھ کر دیں ، کہیں ایسا نہ ہو ہمار ا ووٹ کسی ایسے لیڈر کو جائے جو بے دینی و بے حیائی پھلانے اور ملک کو نقصان پہنچانے والا ہو اور ہم اس کے مددگار بن جائیں۔ضرورت اس بات کی ہے کہ ہماری سوچ میں فقط سڑکیں بنانے،بس و ٹرین چلانے اور روٹی ،کپڑا،مکان کی لولی پوپ نہ ہو بلکہ دین بھی ہو کہ ہم لیڈروں میں یہ دیکھیں کہ یہ دیندار ہیں یا نہیں؟ جو اللہ عزوجل اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا فرمانبردار نہیں وہ عوام کا کیاخیر خواہ ہوگا؟؟؟جولیڈر ملک کو لوٹ کر اربوں پتی بن گئے اور باہر کے ممالک جاکر سرمایہ کاری کررہے ہیں،ذرا سا مسئلہ ہو تو علاج کے لیے باہر بھاگے جاتے ہیں اور امریکہ جیسے کافروں کو راضی کرنے کے لیے دینی احکام کاانکار کرکے آئین پاکستان کو بھی توڑ رہے ہیں، وہ لیڈر اس ملک و قوم اور دین اسلام کے لیے مخلص نہیں ہوسکتے۔آئیں ہم پاکستانی عوام یہ نیت کرتے ہیں کہ ہم اپنا ووٹ ایسے عاش رسول دینی شخصیات کو دیں گے جو اسمبلیوں میں بیٹھ کر دین کی حفاظت کریں اور ختم نبوت اور ناموس رسالت کا دفاع کرسکیں۔

اس مکمل تحریر کو پڑھنے کے باوجود اگر لوگ نواز شریف و شہباز شریف،عمران خان،بلاول بھٹو جیسےکرپٹ لوگوں سے متاثر ہیں یا غداروظالم جاگیر داروں اورجاہل وفاسق گدی نشینوں کی عقیدت میں مرے بیٹھے ہیں تو ایسے لوگوں کے لیے بس یہی حدیث پیش کرکے کلام ختم کیا جاتا ہے:رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا”حبک الشیء یعمی و یصم“ترجمہ: کسی چیز سے تیر امحبت کرنا اندھا،بہرا کردیتا ہے۔

(مسند احمد بن حنبل ،مرویات ابو الدرداء ، جلد6،صفحہ450، دارالفکر ،بیروت)

اپنا تبصرہ بھیجیں