آسیہ مسیح کیس پر ایک منصفانہ نظر

آسیہ مسیح کیس پر ایک منصفانہ نظر

پیشکش: صدائے قلب

چیف جسٹس ثاقب نثار صاحب جو کچھ عرصہ سے چھوٹے چھوٹے اچھے کام کرکے عوام میں مقبولیت پارہے تھے اور عوام کی ان کے ساتھ بہت امیدیں وابستہ تھیں۔دیکھا گیا ہے کہ ایک عزت دار شخص کو جب عزت راس نہ آئے تو وہ دینی احکام کو تختہ مشق بنا لیتا ہے اور جس فیلڈ میں اسے کمانڈ ہو اس کو دین پر منطبق کرنے کی کوشش کرتا ہے،حالانکہ وہ دینی اعتبار سے ایک غیر عالم ہوتا ہے، ایسا کرنے سےاس کے الٹے دن شروع ہوجاتے ہیں اور دینی طبقہ میں تو اس پر طعن ہوتا ہی ہے ،عام عوام میں بھی اس کی عزت کم ہونا شروع ہوجاتی ہے ،بالآخررب تعالیٰ اس بندے کو دنیاوی طور پر ناکام و نامراد کرکے نشانِ عبرت بنا دیتا ہے۔یہی کچھ چیف جسٹس ثاقب نثار کے ساتھ بھی ہونے والا ہے کہ اس کے ایک فیصلے نےمسلمانوں کی ایک بہت بڑی تعداد کو بدظن کیا ہے، ہاں سیکولر ،لبرل طبقہ اور یہودو نصاریٰ ضرور ان کے فیصلے سے خوش ہیں اور تاریخ گواہ ہے جن سے بے دین و کفار خوش ہوں وہ شرعی اعتبار سے بدبخت ہوتا ہے۔آسیہ مسیح کی آزادی کے فیصلہ نےناموس رسالت جیسے مسئلہ کو غیر اہم کرکے سیکولر ،لبر ل اور گستاخ لوگوں کے لیے راہ ہموار کردی ہے۔اب دنیا دیکھے گی کہ چیف جسٹس صاحب کس طرح ہر مسئلہ میں ناکام ہوتے ہیں اور کچھ عرصہ بعد کوئی ان کا نام لینے والا نہ ہوگااور جو کچھ انہوں نے آسیہ مسیح کیس میں کیا ہے اس کا خمیازہ ان کو دنیا و آخرت میں بھگتنا پڑے گا۔

سپریم کورٹ کے اس فیصلے کے بعد تین گروہ بنے:

1۔ایک گروہ وہ تھا جو ہمیشہ کی طرح دین اسلام کے خلاف ہونے والے کسی فعل میں اس کی تائیدمیں پیش پیش رہتا ہے،اس گروہ میں یہود و نصاریٰ کے ساتھ پاکستا ن میں رہنے والے بعض سیکولر اور لبرل طبقہ کے افراد ہیں ،جن کا کام ہی یہی ہے کہ اسلامی احکام ،ناموس رسالت اور ختم نبوت کے اہم مسائل کو متنازعہ بنایا جائے اور عوام کی نظر میں علما و دینی طبقہ کو شدت پسند ثابت کیا جائے ،حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ یہ خود سب سے بڑے شدت پسند ہوتے ہیں جو کسی صورت دینی طبقہ کو دیکھنا گوارا نہیں کرتے۔

آسیہ مسیح کیس میں حیرت کا مقام یہ ہے کہ کسی بھی سیاسی لیڈر نے اس فیصلہ کی مذمت نہیں کی ،بلکہ ریاست مدینہ بنانے کا دعویدار وزیر اعظم صاحب نے چھٹ سے سپریم کورٹ کے فیصلہ کے خلاف بولنے کو فتنہ قرار دیا حالانکہ نہ صرف عمران خان صاحب بلکہ دیگر کئی بڑے بڑے سیاستدان کئی مرتبہ اپنی سیاست چمکانے میں کورٹ کے فیصلوں کو نظر انداز کرچکے ہیں جیسا کہ آگے اس پر تفصیلی کلام ہوگا۔

2۔دوسرا طبقہ وہ تھا جو علماء،ائمہ اور دینی سوچ رکھنے والوں کا تھا،جو اس کیس کی حساسیت کو سمجھتے تھے اور کبھی سوچ بھی نہیں سکتے تھے کہ اچانک اس طرح دو مرتبہ سزائے موت پانے والی ملزمہ کو ایسے چھوڑ دیا جائے گا کہ جیسےوہ کیس جھوٹ کا پلندہ تھا اور جن دو ججوں نے اسے سزائے موت دی ان کو نہ سمجھ بوجھ تھی اور نہ ہی قانون کا کچھ پتہ تھا۔اس طبقہ نے جب اس فیصلے کو بذات خود پڑھا تو اغلاط سے بھرے فیصلے کوپڑھ عشق رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے جذبہ میں سراپا احتجاج بن گیا ۔اس گروہ میں بعض بڑے بڑے سینئر وکلاء بھی شامل ہوئے جنہوں نےمضبوط دلائل کے ساتھ اس فیصلے پر بہترین انداز میں جرح کی اور اسے کالعدم قرار دیا۔اس فیصلے کو جس ذی شعور نے بھی پڑھااس نے کئی غلطیاں نکالیں۔ کیونکہ اس فیصلہ کو لکھنے والے ججز کونہ تو اردو کے صحیح الفاظ لکھنے آئے اور نہ ہی کلمہ شہادت کا ترجمہ کرنا آیا،آسیہ کا معنی ہی غلط لکھ دیا اور انتہائی احمقانہ انداز میں اس کیس پر کلام کرکے اس کو بے بنیاد و جھوٹا ثابت کرنے کی مذموم کوشش کی۔ اگر فیصلے میں موجود تمام اغلاط کو اکٹھا کیا جائے تو ایک کتاب مرتب ہوسکتی ہے۔ لیکن اس کے باوجود چیف جسٹس صاحب اس قدر مطمئن تھے کہ اس فیصلے میں اپنی جان قربان کرنے کو نبی علیہ السلام کی غلامی کا حق سمجھتے تھے اور یہ کہتے رہے کہ یہ فیصلہ باوضو ہوکردرود پڑھ کر لکھا گیا ہے۔سوال یہ ہے کہ اگر یہ فیصلہ اتنانیک نیتی پر مبنی تھا تو کیا وہ دو جج بدنیت وحرام خور تھے جنہوں نے آسیہ کو سزائے موت دی؟ممتاز قادری کے بعد یہ دوسرا کیس تھا کہ جج خود آسیہ کے حق میں صفائی پیش کررہا تھا۔

اس فیصلے پر اعتراض کرنا علمائے دین اور عوام کا حق تھا کیونکہ یہ کوئی شرعی دلیل نہیں کہ جس کی مخالفت ناجائز وحرام ہو۔جج رشوت لے کر یا ہراساں ہوکر فیصلے کرتے ہیں یہ کسی سے ڈھکی چھپی بات نہیں ہے۔خود یہ جج قرآن و سنت کے خلاف فیصلے کرتے ہیں اور مستند مفتیان دین کے فتاویٰ جو قرآن وحدیث سے مدلل ہوتے ہیں ان کو نہیں مانتے تو ہر مسلمان ان ججوں کے ہر فیصلہ کو کیسے مان لے۔

3۔تیسرا گروہ وہ تھا جو عام عوام تھی جس میں پڑھا لکھا وہ طبقہ بھی شامل تھا جن کو موبائل پر نیٹ چلانے ،میڈیا کی خبریں سننے کا تووقت مل جاتا ہے لیکن نماز اور دیگر نیک اعمال کرنے اور دین کا علم سیکھنے کانہ وقت ملتا ہے اور نہ کوئی جذبہ ہوتاہے۔اس طبقہ کو ہمیشہ میڈیا نے دینی طبقہ کے حوالےسے بدظن کرنے کی کوشش کی ہے۔آسیہ کیس میں بھی ایسے کئی لوگ تذبذب کا شکار نظر آئے اوراس حوالے سے تو فیصلہ نہ کرپائے کہ سپریم کورٹ نے بددیانتی کی ہے یا نہیں البتہ اس قدر میڈیا کے بہکاوے میں آگئے کہ مولویوں نےجلاؤگھیراو کرکے ملک کو نقصان پہنچایا ہے۔میڈیاجو کہ ضمیر فروش کے ساتھ دین فروش بھی ہوچکا ہے اس نے احتجاج میں شریک ایک شخص کے بیان کو اس قدر تنقید کا نشانہ بنایا کہ عوام کی نظر میں یہ ثابت کردیا کہ یہ احتجاج نہیں بلکہ بغاوت ہے۔حالانکہ جس شخص نے ججز اور فوج کے خلاف بیان دیا وہ ایک غیر مفتی شخص تھا،یہ اس کا اپنا ایک ذاتی قول تھا جس کی تائید ہرگز کسی مستند مفتی نے نہیں کی۔آگے دلائل سے ثابت کیا جائے گا کہ ججز اور فوج کے خلاف عمران خان صاحب سمیت کئی وزراء اور سیاستدان سرعام بیان دیتے آئے ہیں،لیکن حیرت یہ ہے کہ ناموس رسالت جیسے اہم مسئلہ کو نظر انداز کرکے میڈیا کی ساری توجہ اس پر ہونا کہ احتجاج کرنے والے ججز اور فوج کے خلاف باتیں کرتے ہیں،اس بات کی طرف عکاسی کرتا ہے کہ میڈیا آسیہ کو نظر انداز کرنا اور الٹادینی طبقہ کوقصور وار ثابت کرنا چاہتا ہے۔ اس کی ایک اور بڑی دلیل یہ ہے کہ احتجاج ختم ہونے کے باوجود میڈیا کا منفی پروپیگنڈہ ابھی تک جاری ہے،حالانکہ حکومت اور احتجاج کرنے والوں کامعاہدہ ایسا نہیں جس کا دینی طبقہ کو مستقبل میں کوئی خاص فائدہ ہو۔معاہدے میں جو کیس پر نظر ثانی کرنا طے ہے اور آسیہ کو باہر کے ملک نہ جانے دینے کی درخواست ہے یہ دونوں چند دنوں تک مسترد ہوجانی ہیں اور ساری دنیا دیکھے گی کہ آسیہ مسیح آرام سے باہر کے ملک جائے گی اور اسے آزادی رائے کا ایوارڈ بھی ملے گا کیونکہ جن کفار نے اس ملزمہ کو تختہ دار سے بچا لیا ہے وہ کیا اسے ملک سے باہر نہیں نکلواسکتے۔اس ایک کھیت میں کام کرنے والی ملازمہ پر مغرب کا اس طرح فدا ہونا یونہی نہیں بلکہ اصل مقصد مسلمانوں کے جذبات کو مجروح کرنا اور ناموس رسالت کے مسئلہ کو غیر اہم قرار دینا ہے۔ہر اس شخص سے سوال ہے جس نے کلمہ پڑھا ہے اور نبی علیہ السلام کی غلامی کا دم بھرتا ہے کہ آسیہ کو کس آزادی رائے پر ایوار ڈ ملے گا ،جب بقول چیف جسٹس اس نے گستاخی کی ہی نہیں تو پھر آزادی رائے کیسی؟؟؟؟؟

اس تحریر میں تیسرے گروہ کی اصلاح کے لیے ان کے سامنےان تاریخی حقائق کو پیش کیا گیا ہے جن کو قارئین اگر منصفانہ نظر سے پڑھیں گے تو یہ جان جائیں گےآسیہ کیس میں سیاستدان،میڈیا اور ادارے ایک سازش کے تحت ملزمہ کو بری کرکے باہر کے ملک بھیجنے میں کوشاں ہیں اور میڈیا کے ذریعے عوام کا دھیان آسیہ سے ہٹاکر دینی طبقہ کی طرف کررہے ہیں تاکہ لوگ آسیہ کو نظر انداز کرکے دینی طبقہ پر خوب تنقید اس بات پر کریں کہ یہ ناموس رسالت کے لیے اور کبھی ختم نبوت کے لیے کیوں نکلتے ہیں۔پھر چند شر پسند عناصر کا توڑ پھوڑ کے افعال دینی طبقہ کے کھاتے میں ڈال کر اور ان کو عدلیہ اور فوج کا مخالف قرار دے کران کے خلاف قانونی کاروائی کرنے پر بضد ہیں۔

یہ بات دلائل سے ثابت ہے کہ یہ ضروری نہیں کہ ہر جج ایمانداراور قرآن و حدیث کے مطابق صحیح فیصلہ کرنے والا ہو۔پھر جو لوگ ناموس رسالت کے مسئلہ میں آج متحد ہوکر یہود و نصاریٰ کو خوش کرنے کے لیے آسیہ مسیح کو بری کررہے ہیں یہ خود عدلیہ کے فیصلوں کو مسترد کرتے رہے ہیں اور فوج کے خلاف برملا بولتے رہے ہیں۔اگر ایک شخص کے ذاتی قول کو تمام دینی طبقہ پر مسلط کرکے سب کو دہشت گرد اور شدت پسند ثابت کرنا انصاف ہے تو پھر یہ قانون دینداروں ہی پر کیوں ان لیڈروں پر کیوں نہیں جو عرصہ دراز سے یہ ارتکاب کررہے ہیں؟؟؟؟؟؟

رشوت خور جج

سب سے پہلے تووزیر اعظم سمیت کوئی بھی شخص یہ گارنٹی دے کہ جج کبھی رشوت لے کر یا پریشر میں آکر فیصلہ نہیں کرسکتا۔تاریخی دلائل سے ثابت ہے کہ ججز رشوت لے کر بھی فیصلے کرتے ہیں اور کسی کے پریشر میں آکر بھی غلط فیصلہ کردیتے ہیں ۔وکلاسے سنا ہے کہ بعض بڑے سینئر وکیل بالخصوص بار کے صدر وغیرہ زبردستی رعب ڈال کر اپنے حق میں فیصلہ لیتے ہیں ،خاص طور پر جب کسی کی ضمانت کروانی ہو اور قانونا اس کی ضمانت بنتی نہ ہو۔ججزکا رشوت لے کر فیصلے کرنے کے حوالے سے چند اخبارات کے حوالے پیش خدمت ہیں:

جسارت اخبار میں ہے:”عدالت عالیہ اسلام آباد نے ایڈیشنل سیشن جج پرویز القادر میمن کو رشوت لینے پر برطرف کر دیا ہے۔ جج نے ایگزیکٹ جعلی ڈگری کے مقدمے میں ایگزیکٹ کے سربراہ شعیب شیخ سے 50لاکھ روپے رشوت لے کر بری کرنے کا حکم جاری کیا تھا۔ اطلاعات کے مطابق یہ رقم دو کروڑ روپے تھی اور باقی ڈیڑھ کروڑ کی ادائیگی ملک سے باہر ہونی تھی۔ جرم ثابت ہوا اور مرتشی جج کو برطرف بھی کردیا گیا۔ لیکن کیا اتنا ہی کافی ہے۔ یہ تو ایک معاملہ ہے جس میں عدلیہ کو بے توقیر کرنے والا جج گرفت میں آگیا۔ لیکن کیا ایسے اور متعدد معاملات نہیں ہوں گے جن میں پرویز میمن نے رشوت لے کر فیصلے دیے ہوں گے۔ اس کے تمام فیصلوں کا جائزہ بھی لیا جانا چاہیے اور اس کی برطرفی کافی نہیں بلکہ اس پر رشوت ستانی، عدلیہ کو بدنام کرنے اور انصاف کا خون کرنے کے مقدمات عاید کر کے ایسی سزا دی جانی چاہیے جو دوسروں کے لیے مثال ہو۔ ایسے ہی ججوں کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ ’’ وکیل کرنے کے بجائے جج کرلیا‘‘۔ عوام میں یہ تاثر پایا جاتا ہے کہ جج رشوت لے کر فیصلہ کرتے ہیں۔“

(جسارت،18فروری2018)

روزنامہ جنگ میں ہے:”راولپنڈی (نمائندہ جنگ)ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج راولپنڈی سہیل ناصر نے رشوت لینے کی شکایت پر سول جج کی عدالت میں چھاپہ مار کر ریکارڈ قبضے میں لے لیا۔“

(روزنامہ جنگ،23مئی2017)

مشہور سینئر سیاستدان جاوید ہاشمی کا بیان ہے:”ملتان(ملتان اپڈیٹس)سینئرسیاستدان مخدوم جاوید ہاشمی نے کہا ہے کہ ججوں اور جرنیلوں سے کوئی پوچھنے والا نہیں،ملک میں قربانیاں ہمیشہ سیاستدانوں نے دیں،تین دفعہ جرنیلوں نے جمہوریت کواپنے گھوڑوں کی ٹاپوں تلے کچل دیا لیکن ان کا کبھی احتساب نہیں ہوا۔۔۔ ملک کے سیاستدانوں سے تو ان کے اثاثوں پرسوالات پوچھے جاتے ہیں لیکن کیا کوئی ان ججز اور جرنیلوں سے سوالات کرے گا کہ انہوں نے اثاثے کیسے بنائے؟جس جج نے پا ناما کیس میں پیسے لگائے وہ سپریم کورٹ بیٹھا ہے،اگر سیاستدانوں کااحتساب لازمی ہے تو وہ جج کیوں بیٹھا ہے جس کا پاناما میں نام ہے۔ ان کے احتساب کی جرات کون کرے گا، سپریم کورٹ کا موجودہ بینچ اپنا وقار کھوچکا ہے، عدالت عظمیٰ کے فیصلوں سے قوم کے سرشرم سے جھک جاتے ہیں۔انہوں نے کہا کہ جے آئی ٹی کا تماشا بند کیا جائے، ججوں کو احتیاط سے کام لینا چاہئے۔“

)ملتان اپ ڈیٹس،12جولائی 2017 )

پاکستان نیوز میں ایک کالم رانا جاوید صاحب نے بنام”قانون کے عجیب محافظ“لکھا جس میں ایک جگہ لکھتے ہیں:”ہمارے ملک میں علم سے محبت رکھنے والوں نے قانون کے احترام کو عام کرنے کیلئے یا کمائی کرنے کیلئے جگہ جگہ سینکڑوں لاءکالج کھول دیئے جس سے وکیلوں کا ایک سیلاب آ گیا اور ہر وہ شخص جو ڈاکٹر یا انجینئر نہ بن سکا وکیل بن گیا۔ اب ان وکیلوں نے اپنے پیشروؤں کی طرح بڑی بڑی لائبریریاں بنانے اور اس میں قانون کی کتابیں سجانے کی بجائے اچھے دفاتر، بہترین لباس اور نئی نویلی کاریں خریدنے پر زور دیا جو زیادہ تر ہمارے مجسٹریٹوں اور ججوں کے استعمال میں رہتی ہیں۔ اب وکیل عدالتوں میں بحث کے پیسے نہیں لیتے بلکہ رشوت کے پیسے لیتے ہیں جن کا ایک حصہ جج صاحب اور دوسرا وکیل صاحب کی جیب میں چلا جاتا ہے اور یوں دن دیہاڑے جرائم کرنے والے صاف بری ہو جاتے ہیں اور مزدوری کر کے اپنے اہل خانہ کو رزق حلال کھلانے والے جیل کی سلاخوں میں چلے جاتے ہیں ۔ پہلے سائل وکیل اور اس کی ذہانت کو خریدتا تھا آج وکیل جج کی دیانت خریدتا ہے۔ جب زمانے کا چلن ایسا ہو تو پھر کون سا قانون اور کہاں کا انصاف؟ پولیس افسر بھی وکیلوں پر اسی لئے گرم ہیں کہ پہلے لوگ ان کی مٹھی گرم کرتے تھے اب وہ براہ راست وکلاءکے ذریعے عدلیہ کا سودا کر لیتے ہیں۔ ہمارے ایک وکیل دوست جن کے سسر اور ماموں ایک اعلیٰ عدالت کے چیف جسٹس تھے وہ سر عام ان کے نام پر پیسے وصول کیا کرتے تھے اور جو پیسے دے دیتا فیصلہ اس کے حق میں اور جو نہیں دیتا فیصلہ اس کے خلاف ۔ آج کل موصوف ایک ٹیلی ویژن چینل پر ملکی حالات اور قانون اور انصاف کے بخیے ادھیڑتے ہیں۔ جب ہر طرف گولیاں برسانے والے اور انسانوں کی جانوں کو جانوروں سے بھی ارزاں سمجھنے والے پولیس افسران موجود رہیں گے اور ان پولیس افسران پر جوتے برسانے، تھانوں کا گھیراؤ کرنے اور پولیس کی گاڑیوں کو نذر آتش کرنے والے وکلاءموجود رہیں گے۔ تو کونساقانون اور کہاں کے محافظ؟“

(پاکستان نیوز،28مئی 2015)

وہ چیف جسٹس پاکستان جس نے آسیہ کے حق میں فیصلہ دے کر یورپ کو خوش کیا،خود اس پر رشوت لینے کا الزام اس کے منہ پر ایک شخص نے بھری عدالت میں لگایا تھا چنانچہ روزنامہ پاکستان میں ہے:”ایک اور درخواست گزار شاکراللہ نے عدالت میں کہا کہ سپریم کورٹ کے ایک جج ہائیکورٹ کے حکم پر عمل نہیں ہونے دے رہے، وہ جج اور کوئی نہیں بالکل چیف جسٹس صاحب آپ خود ہیں،9 ماہ سے آپ فیصلہ نہیں ہونے دے رہے ۔

براہ راست اس قسم کی گفتگو پر چیف جسٹس ثاقب نثار نے کہا کہ آپ وہی ہیں جن کی درخواست میں نے بطور سیکرٹری قانون منظور نہیں کی اور آپ کے خلاف فیصلہ دیا، شاکراللہ نے جواباً کہا کہ آپ نے مجھ سے رشوت مانگی مگر میں نے آپ کو رشوت نہیں دی۔ چیف جسٹس نے کہا کہ آپ کے بارے میں جسٹس عظمت سعید نے کہا ہے آپ کے دماغی توازن کا معائنہ ہونا چاہیے۔ شاکراللہ نے جواب دیا کہ چلیں ہم دونوں چل کر معائنہ کراتے ہیں، آپ میڈیکل بورڈ بنائیں اس میں ہم دونوں پیش ہوں گے تاہم بعدازاں عدالتی عملے نے درخواست گزار کو کمرہ عدالت سے باہر نکال دیا۔“

)روزنامہ پاکستان،7جون2018 )

میں یہ نہیں کہتا کہ شاکر نے جو چیف جسٹس پر الزام لگایا ہے وہ درست ہے لیکن میں اتنا ضرور کہوں گا کہ جس چیف جسٹس پر رشوت لینے کاالزام ہو،اس کو کیسے صادق وامین مان کر ناموس رسالت کے مسئلہ میں آنکھیں بند کر اس کے بے ڈھنگے فیصلے کو مان لیں ۔

تاریخ میں سپریم کورٹ کے فیصلوں کو کس کس نے مسترد کیا؟

وزیر اعظم ، میڈیا اور بعض لوگوں نے سپریم کورٹ کے فیصلے کو ایسی اہمیت دی کہ جیسے یہ خان صاحب اور ان جیسے دیگر سیاسی لیڈر ہمیشہ کورٹ کے فیصلوں کا احترام کرتے آئے ہیں۔سب سے پہلے قارئین کو عمران خان صاحب کاکردار دکھایا جاتا ہے کہ یہ خود اپنی سیاست چمکانے کے لیے کس طرح قانون کی خلاف ورزی کرتے رہے ہیں اور دھرنوں میں ناچ گانوں کے ساتھ لوگوں کے اخلاقیات اور کاروبار کا کس قدر بیڑہ غرق کرتے رہے ہیں چنانچہ آؤٹ لائن ڈاٹ کام میں ہے:”راولپنڈی ،اسلام آباد میں دفعہ 144 نافذ ،مظاہرین کا پابندی اور عدالتی حکم ماننے سے انکار:راولپنڈی ،اسلام آباد(نمائندگان) حکومت نے اسلام آباد ہائی کورٹ کا فیصلہ آنے کے بعد اسلام آباد اور راولپنڈی میں دفعہ 144 نافذ کر دی ہے جس کے تحت نماز جنازہ کے علاوہ کسی اور مقصد کے لیئے پانچ سے زائد افراد جمع نہیں ہو سکتے جبکہ مظاہرین نے اس پابندی اور عدالتی حکم کا تسلیم کرنے سے انکار کر دیا ہے۔

شیخ رشید احمد نے دعویٰ کیا ہے کہ کل ریلی اپنے شیڈول کے مطابق ہو گی اور وہ دفعہ 144 کے 144 ٹکڑے کر کے پھینکیں گے۔دوسری طرف پاکستان تحریکِ انصاف کے سربراہ عمران خان نے کہا ہے دو نومبر کو جس احتجاج کی کال انھوں نے دی ہے وہ ان کا آئینی حق ہے جس سے انھیں کوئی نہیں روک سکتا۔اپنی جماعت کے رہنماؤں کے اہم اجلاس کے بعد صحافیوں سے بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ احتجاج روکنے کی حکومتی کوششوں کی وجہ سے معاملہ انتشار کی جانب جائے گا اورجو مرضی ہو جائے ہم نکلیں گے۔ان کا کہنا تھا کہ میں پاکستان میں انصاف کے اداروں کو بتانا چاہتا ہوں کہ ہم سے جمہوری پرامن احتجاج کا حق چھینا جا رہا ہے۔ یہ میرا اور میری قوم کا آئینی حق ہے۔ کوئی بھی ہمیں اس سے نہیں روک سکتا۔اس موقع پر تحریکِ انصاف کے رہنما اور معروف وکیل نعیم بخاری نے کہا کہ یہ(عدالتی) فیصلہ نہیں ایک حکم ہے۔ یہ حکم ہمیں سنے بغیر جاری کیا گیا ہے۔“

)آؤٹ لائن ڈاٹ کام،27اکتوبر2016)

92نیوز میں ہے:”اسلام آباد (92نیوز) پاکستان تحریک انصاف نے اسلام آباد کی بندش روکنے کے لیے ہائی کورٹ کے فیصلے کو ماننے سے انکار کر دیا۔ پی ٹی آئی کے وکلاءکا کہنا ہے کہ عدالتی فیصلہ یکطرفہ ہے جو ان کا موقف سنے بغیر کیا گیا۔ پی ٹی آئی نے ہائیکورٹ کے فیصلے کو چیلنج کرنے کا بھی اعلان کر دیا۔تفصیلات کے مطابق پی ٹی آئی کے اسلام آباد میں احتجاج کو روکنے سے متعلق عدالتی فیصلے پر رد عمل کا اظہار کرتے ہوئے پی ٹی آئی کے وکیل نعیم بخاری نے کہا یہ فیصلہ نہیں حکم ہےجوان کی جماعت کے موقف کو سنے بغیر جاری کیا گیا۔تحریک انصاف کی قانونی ٹیم کے دوسرے وکیل ڈاکٹر بابر اعوان نے بھی نعیم بخاری کے موقف کی تائید کی اور کہا کہ پاکستان کے آئین میں آرٹیکل دس کے مطابق کسی کو سنے بغیر آرڈر پاس نہیں کیا جاسکتا۔ ایسی درخواستیں تو سپریم کورٹ میں بھی دائر کی گئی ہیں ،لیکن ہائیکورٹ کا فیصلہ سمجھ سے بالاتر ہے۔“

(92نیوز،26اکتوبر2016)

عمران خان کے چیختے جہانگیر ترین نے بھی سپریم کورٹ کا فیصلہ کو ماننے سے انکارکرتے ہوئے اس پر مایوسی کا اظہار کیا چنانچہ اے آر وائے نیوز میں ہے:”سپریم کورٹ سے تا حیات نا اہلی کے فیصلے پر جہانگیر ترین نے نظرِ ثانی کی درخواست دائر کی تھی جسے سپریم کورٹ نے مسترد کرتے ہوئے نا اہلی کا فیصلہ برقرار رکھا۔جہانگیر ترین نے سپریم کورٹ کے فیصلے کو مایوس کن قرار دیتے ہوئے کہا:میری خواہش تھی کہ پیش کردہ حقائق کا تفصیلی جائزہ لیا جاتا، مجھے سپریم کورٹ کے فیصلے سے مایوسی ہوئی۔“

(ARY NEWS،30ستمبر2018 )

جب عمران خان اور اس کا خاص ممبر کورٹ کے فیصلے کا انکار کرے تو وہ ان کاحق اور مسلمانوں کی بہت بڑی تعداد ناموس رسالت کے مسئلہ میں کورٹ کے متضاد بھرے فیصلے کا انکار کرے تو باغی اورچھوٹا سا طبقہ۔واہ کیا انصاف ہے۔

افسوس ناک بات یہ ہے کہ کسی بھی سیاسی لیڈر نے کورٹ کے فیصلے کی مذمت نہیں کی صرف اس لیے کہ کہیں ہماری سیاسی ساکھ خراب نہ ہوجائے اور یہودو نصاریٰ ہم سے ناراض نہ ہوجائے ورنہ جب ان کی اپنی ذات کی باری آتی ہے تو ایک معمولی سے کرسی کے لیے برملا سپریم کورٹ کے فیصلے کو مسترد کرتے ہیں چنانچہ نواز شریف نے نااہلی کے بعد کچھ اس طرح سے سپریم کورٹ کے فیصلے کا انکار کیا:” عوام نے سپریم کورٹ کا فیصلہ مسترد کر دیا ہے،اب عوام کا فیصلہ پاکستان میں جھومے گا اور لاڈلوں کو منہ چھپانے کیلئے کوئی جگہ نہیں ملے گی، پچھلے پانچ ماہ سے عوام اور میں بھی یہی پوچھ رہا ہے کہ کہاں کرپشن کی ہے؟اس پانچ ججوں والے بینچ کو اس سوال کا جواب دینا پڑیگا،ملک میں ترقی کی رفتار میں سستی کےذمہ دار شاہد خاقان عباسی نہیں فیصلے سے پوچھیں۔“

(Javedch.com،6جنوری2018)

92نیوز میں ہے:”سردار ایاز صادق نےبھی سپریم کورٹ کا فیصلہ ماننے سے انکار کردیا: لاہور (92 نیوز) اسپیکرقومی اسمبلی بھی دیگر ن لیگی رہنماؤں کی لائن پر چل پڑے ۔سردار ایاز صادق نے بھی سپریم کورٹ کا فیصلہ ماننے سے انکار کردیا۔کہتے ہیں کہ سپریم کورٹ کے فیصلے سے اتفاق نہیں کرتا۔“

(92نیوز،22ستمبر2017)

بی بی سی اردو ڈاٹ کام میں نواز شریف کا 27فروری 2009 کا بیان درج ہے کہ اس نے کہا:” نواز شریف نے پولیس اور انتظامیہ کے افسروں کو مخاطب کرکے کہاکہ شہباز شریف، مسلم لیگی اراکین اسمبلی اور عوام کے درمیان روکاٹیں کھڑی کرنے کی کوشش نہ کرنا۔ انہوں نے کہا کہ اگر چند دن کی لاقانونیت پر مبنی گورنر راج والی حکومت ان کے خلاف کوئی کارروائی کرتی ہے تو وہ یعنی نواز شریف اس کا مداوا کریں گے اور نہ صرف واپس بحال کریں بلکہ انعام کے ساتھ بحال کریں گے۔نواز شریف نے اپنے خطاب میں کہا کہ وہ اپنے چھوٹے بھائی اور پنجاب کے سابق وزیراعلی شہباز شریف کو کہہ آئے ہیں کہ وہ جاکر اسمبلی میں بیٹھیں کیونکہ ان کے بقول جعلی عدالتوں کے جعلی فیصلوں کو عوام تسلیم نہیں کرتے۔مسلم لیگ نون کے قائد نے کہا کہ گورنر راج بھی جعلی ہے عدالتی فیصلہ بھی جعلی اور زرداری کے تمام ایکشن بھی جعلی ہیں۔ نمبر دو ہیں نہ آئینی ہیں نہ قانونی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ شہباز شریف جاؤ اس حکومت کی جو عوام کی امانت ہے اس کا تحفظ کرو۔“ (بی بی سی اردو ڈاٹ کام،27فروری2009)

بلاو ل بھٹو جو سیکولر قسم کا ہے اور دیندار طبقے کے خلاف بھراس نکالنا اس کی عادت بن چکی ہے۔ اس نے بھی دھرنے کی مذمت کرتے ہوئے ، حکومت اور سپریم کورٹ کے فیصلے کی تائید کی،لیکن حال ہی میں اس کے باپ آصف زرداری نے چیف جسٹس ثاقب نثار کا حکم ماننے سے واضح طور پر انکار کردیا چنانچہ کالم کار ڈاٹ کام میں ہے:”سابق صدرآصف زرداری کا چیف جسٹس کا حکم ماننے سے صاف انکار:سابق صدر آصف علی زرداری نے سپریم کورٹ میں اثاثوں کی تفصیلات جمع کروانے سے انکار کر دیا ہے اور اثاثوں کی تفصیلات فراہم کرنے کے حکم کے خلاف نظر ثانی اپیل دائر کرتے ہوئے کہا ہے کہ دس سال پرانے اثاثوں کی تفصیلات مانگنا آئین و قانون کے خلاف ہے۔تفصیلات کے مطابق این آر او کے تحت قومی خزانے کو نقصان پہنچانے کے خلاف دائر درخواست پر سپریم کورٹ میں جواب دیتے ہوئے آصف زرداری نے کہا ہے کہ کیا میری اہلیہ بے نظیر بھٹو شھید کے اثاثوں کی تفصیلات مانگنا مرحومہ کی قبر کے ٹرائل کے مترادف نہیں؟واضح رہے کہ سپریم کورٹ نے این آر او کیس میں آصف علی زرداری اور ان کے بچوں کے اثاثوں کی تفصیلات طلب کی تھیں۔ عدالت نے 29 اگست کی سماعت پر 2007 سے 2018 تک آصف علی زرداری اور فیملی کے اثاثوں کی تفصیلات طلب کی تھیں۔“

(کالم کارڈاٹ کام،18ستمبر2018)

نوائے وقت میں ہے”پرویز مشرف کا سپریم کورٹ کا حکم ماننے سے انکار، عدالت میں پیش نہ ہونے کا فیصلہ:سابق صدر پرویز مشرف نے سپریم کورٹ کا حکم ماننے سے انکار کرتے ہوئے سپریم کورٹ میں پیش نہ ہونے کا فیصلہ کیا ۔ سپریم کورٹ نے سنگین غداری کیس میں سابق صدر پرویز مشرف کو 14 جون کو دوپہر 2 بجے تک عدالت میں پیش ہونے کی مہلت دی۔ میڈیارپورٹس کے مطابق پرویز مشرف نے آج 14 جون کوسپریم کورٹ پاکستان میں پیش نہ ہونے کا فیصلہ کیا ہے۔ “ (نوائے وقت ،14جون2018)

فوج کے خلاف کس کس لیڈر نے گفتگو کی ؟

جیسا کہ پہلے کہا گیا کہ فوج کے خلاف جو گفتگو ایک غیر مفتی شخص نے کی وہ درست نہ تھی لیکن اس ایک کلپ کو لے کر پورے احتجاج کو سیاست چمکانے کا کہہ دینااور علمائے کرام کو دہشت گرد اور فتنہ باز قرار دے کر سیکولر اور لبرل طبقے کا ان کے خلاف قانونی کاروائی کرنے کہ کہنا اور کورٹ میں ان کے خلاف دہشت گردی ،توڑ پھوڑ کر الزمات عائد کرنے کی کوشش کرنا صریح ناانصافی ہے۔اگر فوج کے خلاف کوئی بھی بات کرے تو اس کا یہی انجام ہوناچاہیے تو پہلے عمران خان،نواز شریف،زرداری اور دیگر بڑے بڑے لیڈروں کے خلاف ایکشن لیں جنہوں نے اپنی سیاست بچانے کے لیے برملا ٹی۔وی چینل،اخبارات اور بڑے بڑے جلسوں میں فوج کے خلاف گفتگو کی ہے اور اس پر سنگین قسم کے الزامات لگائے ہیں ۔آیئے قارئین اس کی چند جھلکیاں دکھاتے ہیں:

روزنامہ پاکستان میں ہے:”اسلام آباد(ڈیلی پاکستان آن لائن )تحریک انصاف کے چیئر مین عمران خان ماضی میں خفیہ اداروں کی جانب سے سیاست میں کردار کے الزامات لگا چکے ہیں ،معروف صحافی مبشر زیدی نے عمران خان کی ایسی ہی ایک ویڈیو شیئر کو تو سوشل میڈیا پر ہنگامہ برپا ہو گیا ۔ ویڈ یو میں دیکھا جا سکتا ہے کہ عمران خان الزام لگاتے ہوئے کہتے تھے کہ اب وقت آگیا ہے کہ پاکستان میں خفیہ اداروں کا کردار ختم ہو ،ایجنسیوں نے جوڑ توڑ کر کے ملک کا ستیا ناس کر کے رکھ دیا ہے ،خفیہ اداروں کا ایک کام ہوتا ہے کہ اس کو اوپر لے کر آئیں جس کو کنٹرول کرسکتے ہیں ،ان کو کنٹرولڈ سیاستدان،کنٹرولڈ جج اور کنٹرولڈ بیورو کریٹس چاہئیں اور یہ الیکشن میں دھاندلی کر کے کنٹرولڈ پتلے سامنے لاتے ہیں ۔عمران خان نے کہا تھا کہ اب وقت آگیا ہے کہ فوج آئینی کردار پر چلے ،کوئی پاکستانی نہیں چاہتا کہ ہماری فوج کمزور ہو ،پاکستان کو ایک مضبوط فوج چاہیے لیکن جو جنرل مشرف فوج سے کروا رہا ہے ،وہ ٹھیک نہیں عمران خان نے ایک رپورٹ کا ذکر کرتے ہوئے پاک فوج میں کرپشن کے الزامات بھی عائد کیے تھے ۔“

) روزنامہ پاکستان،19جولائی2018)

روزنامہ پاکستان میں عمران خان کا بیان ہے:”سلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین۔ 03 مئی2018ء) چیئرمین تحریک انصاف عمران خان نے کہا ہے کہ 2013 کے الیکشن میں نواز شریف کو فوج کی مدد حاصل تھی۔۔۔۔انہوں نے کہا کہ میں بہت سوچ سمجھ کر الزام لگا رہا ہوں 2013 کے انتخابات میں ایک بریگیڈیئر نے پنجاب میں نواز شریف کی بہت مدد کی تھی۔انہوں نے کہا کہ اگر نواز شریف کی سیاسی تاریخ اٹھا کر فوج اور عدلیہ کے لاڈلے رہے ہیں۔“ (اردو پوائنٹ،3مئی2018)

بی بی سی اردو میں ہے:” نواز شریف کا چند ججوں اور چند جرنیلوں کے خلاف اعلان جنگ پاکستان کے سابق وزیر اعظم نواز شریف نے لگی لپٹی اب بلکل ترک کردی ہے۔ جیسا کہ توقع تھی، انھوں نے احتساب عدالت سے اپنے خلاف ایون فیلڈ ہاؤس اپارٹمنٹس کا فیصلہ آتے ہی چند ججوں اور چند جرنیلوں کو آڑے ہاتھوں لیا ہے۔مجھے جو سزا دی جارہی ہے وہ کرپشن کی وجہ سے نہیں دی جا رہی بلکہ میں نے 70 برس سے جاری ملک کی تاریخ کا جو رخ موڑنے کی جدوجہد شروع کی ہے یہ اس کی سزا دی جارہی، جمعے کو احستاب عدالت میں مجرم قراد دیے جانے اور قید کی سزا پانے کے بعد نواز شریف نے اپنے پریس کانفرنس کے ذریعے اپنے باقاعدہ ردعمل کا اظہار کیا ہے۔“

(بی بی سی اردو ڈاٹ کام،7جولائی2018)

یونہی سعد رفیق،خواجہ آصف،احسن اقبال،پرویز رشید کے بیانات پاک فوج کے خلاف اخبارات میں موجود ہیں۔

سچ ٹی وی میں ہے :”سابق آصف علی زرداری نے رواں ہفتے ایک تقریب میں تقریر کرتے ہوئے کہا تھا کہ اگر اُنھیں دیوار سے لگانے اور ان کی کردار کشی کرنے کی روش ترک نہ کی گئی تو وہ قیام پاکستان سے لے کر آج تک کے جرنیلوں کے بارے میں وہ کچھ بتائیں گے کہ وہ وضاحتیں دیتے پھریں گے۔“

(سچ ٹی وی،18جون2015)

حرف ِآخر

امید ہے کہ ایک منصف مزاج قاری کو یہ تحریرپڑھ کر سیاسی لیڈروں کی اوقات پتہ چل گئی ہوگی اور یہ معلوم ہوگیا ہوگا کہ ناموس رسالت کے مسئلہ میں یہودو نصاریٰ کو اپنی سیاست کے لیے خوش کرنے والے یہ لیڈر کس طرح اتحاد کرکے دینی طبقہ کے خلاف زہر اگلتے ہیں اور میڈیا کس طرح ان کا پالتو غلام بن کر ان اس ظالمانہ مشن میں اس کا ساتھ دیتا ہے۔

آخر میں دینی طبقہ کی بارگاہ میں عرض ہے کہ آسیہ کیس کے حوالے سے دینی طبقہ کی طرف سے پلاننگ میں کچھ کمی تھی۔سپریم کورٹ کا فیصلہ آسیہ مسیح کے حق میں ہوگا اس کا سب سے بڑا یہ ثبوت تھا کہ آسیہ کے خلاف لڑنے والے وکیل نے ہی کہہ دیا تھا کہ ججوں نے ہماری بات سنی ہی نہیں اور فیصلہ ملزمہ کے حق میں ہوگا۔یہی وجہ ہے کہ مذہبی تحریکیں اس فیصلہ کے خلاف پیشگی ہی احتجاج کرنا شروع ہوگئی تھیں،لیکن حیرت والی بات یہ ہے کہ فیصلہ کہ بعد احتجاج جو ہوگا اس میں کیا معقول مطالبات ہوں گے یہ کوئی طے نہیں تھا۔

احتجاج شروع ہوتے ہیں کہ ایک غیر مفتی شخص نے تینوں جج واجب القتل قرار دے کراور فوج کے خلاف بیان دے کر احتجاج کو بغاوت کا روپ دے دیا۔جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ دجالی میڈیا نے مسلسل دیندار طبقہ کو باغی ثابت کیااور منفی پروپگینڈہ کرتا رہا۔وزیر اعظم صاحب بھی میدان میں کود پڑے اور اسی بات کو بنیاد بنا کر عام عوام کو اس فیصلے سے اختلاف کرنے والوں کو فتنہ و فسا د بھرپا کرنے والا اور سیاست چمکانے والا کہہ دیا۔

پھر جب معاہدہ ہوا تو اس میں ہوسکتا ہے کہ دھرنے کے قائدین کے نزدیک حالات کے پیش نظر یہ نکات معقول ہوں لیکن بظاہریہ اتنے جاندار نہ تھے ،اگر ان میں ایک شرط یہ ہوتی کہ سپریم کورٹ امت مسلمہ کو اس فیصلے پر موجود تحفظات دور کرے،پھرکسی ماہر قانون دان کی مشاورت سے وہ تحفظات مختصر وقت میں تیار کرکے وہی پریس کانفرنس میں بیان کردیتے تو اس کا ایک فائدہ یہ ہوتا کہ عوام الناس کے اذہان میں بھی اس فیصلہ کے متعلق شکوک و شبہات بیٹھ جاتے اور دوسرا یہ کہ سپریم کورٹ اس کا جواب نہ بھی دیتا تو تاریخ میں یہ بات رقم ہوجاتی کہ حکومت اور سپریم کورٹ معاہدے پر پورا نہ اترے۔

دراصل دین اس وقت مظلوم ہوچکا ہے،ہمارے سیاستدان اور بڑے عہدوں پر بیٹھے لوگ دین فروش ہوچکے ہیں جو کفار کو راضی کرنے کے لیے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حرمت کو بھی قربان کرنے پر راضی ہیں۔ میڈیا اس وقت ان کا زرخرید بن چکا ہے جس کا بس ایک کام ہے کہ جس لیڈر سے پیسے لیے ہیں اس کو صحیح ثابت کرنا اور دیندار طبقہ کو بدنام کرنا۔ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم دینی لوگوں کو سوچنا چاہیے کہ ہمارا اس صورتحال میں کیا کردار ہوناچاہیے،ہمیں کس طرح اس دین کا دفاع کرنا ہے،سیکولرازم اور لبرل ازم کے خلاف جنگ کرنے کے لیے ہمارے پاس کیا ہے،ہمیں سوچ سمجھ کر بولنا چاہیے۔

آخر میں ان جیالوں سےجو دھرنے میں شرکت کو ہی دین بچانے کی واحد راہ سمجھ کر ہمیشہ کی طرح دھرنے میں شرکت نہ کرنے والوں پر طعن کرتے رہتے ہیں ،ان سے گزارش ہےکہ جو جس طرح دین کا کام کررہا ہے اسے کرنے دیں،سب مورچے بے دینوں کے لیے چھوڑ چھاڑ کر دھرنے میں شریک ہونے ہی پر زور نہ دیں ۔یہ نہ ہو کہ احتجاج کے نتیجہ میں ایک عارضی پانچ نکاتی معاہدہ لے کر واپس آئیں تو وہ محاذ غیروں کے ہاتھ جاچکے ہوں اور ہم ان نکات کا تعویذ بنا کر گلے میں ڈال کر آنے والی مشکلات حل ہونے کے متمنی ہوں۔

اپنا تبصرہ بھیجیں