رمضان ٹرانسمیشنز
پیشکش: صدائے قلب
ایک وقت تھا کہ مسلمان رمضان المبارک کا مہینہ یوں گزارتے تھے کہ روزہ رکھ کر صرف بھوک پیاس ہی برداشت نہ کرتے تھے بلکہ آنکھ ،زبان اور دل کو بھی بُرائی سے روکتے تھے،اپنی زبان کو گالی گلوچ،غیبتوں سے محفوظ رکھ کر ذکر الٰہی میں مصروف رکھتے تھے،آنکھوں کو بدنگاہی سے بچاتے ہوئے قرآن کریم کے دیدار سے ٹھنڈا کرتے تھے۔افطاری کے بعد قیام اللیل کا اہتما م کرتے تھے ۔پھر جب عید کا چاند نظر آتا توحدیث پاک پر عمل کرتے ہوئے اس رات عبادت کرکے دل کو زندہ اورخود پر جنت کو واجب کرلیتے تھے ۔عید کے دن کو کھیل کود اور سیر و تفریح میں نہ گزارتے تھے بلکہ اس فکر میں گزارتے تھے کہ پتہ نہیں ہمارے روزے اور ہماری عبادات مقبول ہوئی ہیں یا نہیں؟
وقت گزرنے کے ساتھ جس طرح مسلمانوں میں دیگر نیک اعمال میں سُستی آئی اسی طرح رمضان المبارک جیسے عظیم مہینہ میں عبادت کرنے میں بھی سُستی آگئی ۔روزے کو فقط بھوک اور پیاس برداشت کرنے کے ساتھ گزارنے کے لئے مختلف انٹرٹینمنٹ کے طریقے وجود میں آئے جن میں ٹی۔وی ،انٹرنیٹ ،اور دیگر کھیل کود جیسے افعال سرزرد ہونے لگے۔افطار کے وقت خصوصی دعا مانگنے کی بجائے ٹی۔وی کی طرف ہی نظر رکھتے ہوئے مختصر سی دعا مانگ کر روزہ افطار کرنا رائج ہوگیا۔ٹی۔وی پر بھی ایک وقت ایسا گزرا ہے جس میں افطاری کے وقت اللہ عزوجل کی ننانوے ناموں کو ایک خوبصورت انداز میں سنایا جاتا تھا،کچھ مشہورو معروف نعتوں کو سنایا جاتا تھا۔پھر لوگوں کی عادات کو دیکھتے ہوئے افطارپروگرام بھی انٹرٹینمنٹ کی صورت اختیا ر کرگئے جس میں چرب زبان اینکرز دین کے نام پر دنیا کمانے کے لئے میدان میں آگئے۔افطا ر پروگراموں میں مردوں کے ساتھ بے پردہ عورتوں کو بھی لانا شروع کردیاگیا بلکہ کئی اینکرز ہی فی میل آنا شروع ہوگئیں۔بے پردگی اور ہنسی مذاق ان پروگراموں کا خاصہ ہے۔ان مخلوط نشریات کو عام کروانے میں بعض نعت خوانوں اور اہل علم حضرات کا بھی ایک کردار رہا ہے جو شرعی احکام سے مستثنیٰ نہیں ہیں۔
ان مخلوط پروگراموں کو دیکھ کر شاید آج تک ایک بھی شخص کی اصلاح نہ ہوئی ہو کیونکہ ان میں اہم کردار ادا کرنے والے اینکر ز خود بے عمل ہوتے ہیں ۔نعتوں کو سن کر ذوق اور آنسو آنا بھی بعید ہوتا ہے کیونکہ ایک طرف کان نعت کی طرف ہوتے ہیں تو آنکھیں مجمع میں موجود بے پردہ عورتوں کی طرف۔
انہی زبان کا تیز استعمال کرنے والوں میں ڈاکٹر عامر لیاقت صاحب بھی ہےں جن کو عوام حسب عادت دو چار دینی باتوں کی وجہ سے اسلامی اسکالر سمجھتی ہے۔ لوگ ڈاکٹر عامر لیاقت کی تیز زبانی کے سبب اُس وقت تک انہیں پسند کرتے رہے جب تک سوشل میڈیا پر ان کے وہ کلپ عام نہ ہوئے جن میں انہوں نے نہ صرف بازاری زبان استعمال کی بلکہ صاف گالیاں بھی نکالی تھیں۔
جب عوام الناس جب عامر لیاقت صاحب کی حقیقت حال سے آشنا ہوئی تو دیگر اینکرز کی طرح ان کوبھی ناپسند کرنے لگی اور ان کے مخلوط رمضان پروگراموں پر اعتراض کرنے لگی کہ دیگر اینکرز کی طرح یہ شخص بھی ساراسال ناچ گانے اور دیگر غیر شرعی افعال میں ملوث ہوتا ہے اور رمضان میں نیم مولوی بن کر مردوں اور عورتوں کو اکٹھا کرکے دین کی باتیں کرنا شروع کردیتا ہے۔عامر لیاقت صاحب نے جب سوشل میڈیا پر اپنے متعلق لوگوں کے یہ اعتراضات سنے تو دل برداشتہ ہوکر اپنے مخلوط حرام فعل کو شریعت کا لبادہ پہنانے کی مذموم کوشش کرنے لگے۔ عامر لیاقت صاحب اگرچہ علماء کی صحبت میں رہے لیکن چونکہ جاہل تھے اس لئے اعتراضات سن کر اپنی اصلاح نہ کی بلکہ شرعی احکام کی دھجیاں اڑا دیں۔ یہ علمائے کرام کا ہی خاصہ ہے کہ فی زمانہ میڈیا پر دین اور علماء کے خلاف ہونے والے دل خراش پروگراموں کے باوجود شرعی احکام کو تھامے رہتے ہیں۔
ڈاکٹر عامر لیاقت نے مخلوط پروگراموں کو جائز ثابت کرتے ہوئے 1437 ہجری کی شب براءت کے پروگرام میں یہ کہا کہ مخلوط پروگراموں پر اعتراض کرنے والوں کو چاہئے کہ حج کو روکیں جہاں مرد وعورت اکٹھے ہوتے ہیں۔ یعنی ڈاکٹر عامر لیاقت کے نزدیک چونکہ حج میں مرد و عورت اکٹھے ہوتے ہیں اس لئے اگر رمضان جیسے دینی پروگراموں میں بھی عورتیں مردوں کے ساتھ ہوں تو کوئی حرج نہیں۔
ڈاکٹر عامر لیاقت صاحب کا یہ قیاس نہ صرف باطل بلکہ شرعا قابل گرفت ہے جس سے اعلانیہ رجوع کرنا ان پر لازم ہے۔دراصل شریعت کے جو احکام اللہ عزوجل اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ہم پر لازم کئے ہیں ان میں ہم اپنی عقل نہیں لڑا سکتے۔ ہماری ناقص عقل میں اگرچہ شرعی احکام نہ آئےں ہم پرلازم ہیں کہ ان پر سرتسلیم خم کردیں۔لیکن شرع کے ہر حکم میں کئی حکمتیں ہوتی ہیں اور شرعی احکام بعض اوقات بظاہر ایک جیسے لگتے ہیں لیکن ان کا حکم الگ ہوتا ہے جیسے اجنبیہ عورت کو دیکھنے کی ممانعت ہے لیکن جس سے شادی کرنا ہو اسے ایک نظر دیکھنا جائز قرار دے دیا گیا،رضاعی باپ سے پردہ نہ کرنے کی اجازت دی حالانکہ رضاعی والد کے ساتھ عموماساری زندگی گزارنا نہیں ہوتی اور دیور جو ایک ہی گھر میں رہتا ہے اس سے پردہ کو لازم قرار دے دیا۔عورت اگرچہ تنہا بھی ہوچہرے اور ہاتھ پاؤں کے علاوہ پورے جسم کو نماز کی حالت میں چھپانا لازم قرار دے دیا ،گھر سے باہر نکلنے پر جسم کے ساتھ ساتھ چہرہ بھی ڈھانپنے کو بھی شرع نے پسند فرمایا ،لیکن حج و عمرہ اور طواف میں چہر ہ کھلا رکھنے کا حکم دیا اور مردکے ساتھ طواف کی اجازت دی لیکن مساجد میں مردوں کے ساتھ نماز پڑھنے سے منع کردیا گیا۔
ان بیان کردہ مسائل کی حکمتوں پر کلام کیا جائے تو کئی صفحات بھر جائیں صرف حج کے مسئلہ ہی کو لیا جاتا ہے جس پر عامر لیاقت صاحب نے قیاس کرکے مخلوط پروگرام کو جائز ثابت کرنے کی کوشش کی ہے۔ طواف و سعی وغیرہ میں مردو عورت کے مخلوط ہونے کی اجازت درج ذیل وجوہات کی بنا پر ہے:
٭ حج و عمرہ ادا کرتے ہوئے اسی طرح نفلی طواف کرتے ہوئے عموما انسان دنیا سے بے خبر ہوکر اپنے گناہوں کو یاد کرکے بخشش کے دَر پرہوتا ہے۔ میدان عرفات گویا قیامت کے منظر کی عکاسی کرتا ہے جب سب ننگے ہوں گے لیکن کوئی بھی کسی کی طرف متوجہ نہ ہوگا ہر ایک کو اپنی اپنی فکر ہوگی۔کہاں حرم میں عورت کا احرام باندھ کر چہرے پر بزرگی لئے حاضر ہونا اور کہاں ان پروگراموں میں ہزاروں روپے چہرے کے میک پرلگا کرعارضی سا سر پر دوپٹہ لے کر موجود ہونا،کہاں حرم میں گناہوں کو سامنے رکھ کر آنکھوں سے اشک باری کرنا اور کہاں اس مخلوط نظام میں عورتوں کی چہرے اور کپڑوں پر نظر کرنااورہنسی مذاق کے ماحول میں قہقہے لگانا ،کہاں حجرہ اسود،ملتزم کو ترسی ہوئی نگاہوں سے دیکھنا اور زبان سے رب تعالیٰ کے حضور عرض گزار ہونا اور کہاں دورانِ نعت اپنے کلام پرعورتوں سے مسکراتے انداز میں داد لینا۔
٭ اگر حج و عمرہ کے دوران مرد و عورت کا الگ الگ نظام ہوتا تو اس میں بہت حرج ہوتا ۔اگر عورتوں کے لئے طواف و سعی کے لئے ایک خاص وقت ہوتا تو عورتیں بقیہ سارا وقت زیارت کعبہ سے محروم رہتیں اور پھر ہر عورت اپنے مخصوص وقت میں باآسانی طواف و سعی کرلیتی یہ بھی ایک مشکل امر تھا۔زیارت مکہ و مدینہ کرنے والے باخوبی جانتے ہیں کہ ہوٹل سے حرم تک کا فاصلہ کتنا لمبا ہوتا ہے، اگرعورتوں کے ساتھ مردوں کا حرم میں داخلہ ممنوع ہوتا تو ہوٹل سے عورتوں کااکیلے اتنا لمبا سفر کرکے حرم تک آنا بہت آزمائش ہوتا پھر اگر مرد ساتھ ہوتا تو وہ حرم سے باہر کسی گیٹ پر بیٹھا عورت کا انتظار کرتا رہتا کہ کب وہ طواف و سعی سے فارغ ہوکر آئے گی پھر حرم کے کثیر گیٹ ہونے کی وجہ سے اسی گیٹ سے واپس آئے گی جس سے گئی تھی یہ بھی ایک بڑا مسئلہ ہوتا۔
٭طواف و سعی کرنا کوئی آسان کام نہیں ہے اچھا بھلا سخت مند آدمی بھی تھک جاتا ہے پھر عورت ذات کمزور مخلوق ہے۔اگر مرد و عورت کا اکٹھا طواف و سعی کرنا حرام ہوتا تو جو عورت بیمار ہوتی وہ شاید طواف و سعی سے محروم ہی رہتی کہ مرد کی بہ نسبت عورت کا ویل چیئر پر کسی عورت کو طواف و سعی کروانا بہت مشکل کام ہے۔پھر اگر بچے ساتھ ہوں تو مرد و عورت کا الگ الگ ان کی حفاظت کرنا بہت صبر آزما فعل ہوتا۔
المختصر ڈاکٹر عامر لیاقت صاحب کا اس طرح حج جیسے شرعی فعل کر اپنے مخلوط پروگراموں پر قیاس کرنا جائز نہ تھا ۔ڈاکٹر عامر لیاقت صاحب کو میرا مخلصانہ مشورہ ہے کہ آپ بڑا دل کرکے اپنے اس موقف سے رجوع کریں اور آئندہ کے لئے ایسے رمضان پروگرام کریں جو شریعت کے دائرے میں ہوں ، یقین جانیئے کہ اللہ عزوجل آپ کو دنیا و آخرت میں عزت دے گا۔ورنہ اگر آپ اپنی اس ناجائز بات پر رجوع کو اپنی بے عزتی سمجھیں گے تو یاد رکھیں آپ سے پہلے بھی ایسے کئی دوکاندار آئے جن کو عوام بھول چکی ہے ،جب کبھی یاد کرتے ہیں تو بُرے لفظوں سے یاد کرتے ہیں۔