امام حرم کے عقائد کا تعارف
پیشکش: صدائے قلب
امام حرم خالد غامدی پاکستان آیا اور کئی مساجد میں جمعہ و دیگر نمازیں پڑھاتا رہا اور اتحاد کی باتیں بھی کرتارہا جبکہ اتحادفقط سعودی نجدی وہابی عقائد رکھنے والوں سے ہوتارہا ،اس نے کسی اہل سنت کے جامعہ ،کسی مسجد یا کسی بزرگ کے مزار پر حاضری نہیں دی۔ درحقیقت اس کااصل مقصد پاکستانیوں کو یمن میں سعودیہ کی ہونے والی جنگ کے لئے ابھارنا تھا۔ پوری دنیا میں جب کسی مسلمان کو کوئی مصیبت آتی ہے تووہ مکہ و مدینہ کی طرف رخ کرتا ہے اور امامِ حرم کا یہ حال ہے کہ سعودی حکومت ختم ہونے کا خدشہ ہے تو مدد کے لئے پاکستان کا رخ کیا ہے۔مسلمانوں کی بڑی تعداد اس کے پیچھے نما ز پڑھنے کے لئے جاتی رہی اور امام حرم یہ سمجھتا رہا کہ یہ پاکستانیوں کا سعودیہ کے فعل کی تائید کرنا ہے جو اس نے یمن پر حملہ کیا ہے اور پاکستانی قوم یہ چاہتی ہے کہ پاکستانی فوجی بھی اس لڑائی میں شامل ہوں۔دیوبندی ،وہابی جن کے مولوی دہشت گردی کے خلاف ہورہے آپریشن میں پکڑے جارہے ہیں ،وہ عوام کی توجہ دوسری طرف کرنے اور ریال کمانے کئے سعودیہ کی جی حضوری کرتے رہے اور دوچار بینرز اور چھوٹے چھوٹے جلوس نکال کر حکومت سے اپیل کرتے دیکھے گئے کہ پاکستان اپنی فوج یمن بھیجے۔ان وہابیوں کے نزدیک لبیک یا ر سول اللہ کہنا شرک ہے لیکن خود اپنے پوسٹروں پرلبیک یا خادم الحرمین لکھتے ہیں۔حیرانگی اس بات کی ہے کہ دیوبندی
بھی امام حرم کو اپنی مساجد و مراکز میں بلا تے ہیں جبکہ انہی سعودی مفتیوں نے دیوبندیوں اور ان کی تبلیغی جماعت کو گمراہ کہا ہے ملاحظہ ہو کتاب”تبلیغی جماعت علمائے عرب کی نظر میں“اور”الدیوبندیہ تعریفھا، عقائدھا“
امام حرم کا یہ سمجھنا کہ پاکستانی بہت بڑی تعداد میں میرے پیچھے نماز پڑھتے ہیں یہ اس بات کی دلیل ہے کہ ہم سعودیہ والے صحیح کررہے ہیں، بالکل غلط ہے۔ پاکستانی قوم اپنی کم علمی میں امام حرم کے عقائد و نظریات سے یکسر غافل ہوکر فقط حرم کی نسبت کی وجہ سے اس کو دیکھنے جاتی ہے اور اس کے پیچھے نماز پڑھنے جاتی ہے۔اگر امام کعبہ اپنے درج ذیل عقائدونظریات پاکستان آتے ہی لوگوں کو بتادیں تو ہم دیکھتے ہیں کتنے لوگ ان کے پیچھے نماز پڑھنے آتے ہیں: حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے مدد مانگنا شرک ہے، روضہ پر کھڑے ہوکر دعا مانگنا شرک ہے،گنبد خضرا بنانا ایک بدعتی عمل تھا اور نبی پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور دیگر صحابہ و اولیاء کرام کے مزارات اوران پر بنے گنبد گرانا واجب ہے،روضہ رسول کو مسجد نبوی سے اکھاڑ کر جنت البقیع میں منتقل کیا جاناچاہئے،حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے والدین (معاذ اللہ ) مشرک تھے،یزید حق پر تھاامام حسین (معاذ اللہ)خطا پر تھے ،عید میلاد النبی منانا حرام ہے،پیری مریدی تصوف،تعویذ وغیرہ سب گمراہی و شرک ہے۔
امام کعبہ کے دیدار اور اسکے پیچھے نماز پڑھنے کے لئے لوگ سفر کرتے رہے جبکہ اس کا عقیدہ یہ ہے کہ روضہ رسول کی زیارت کے لئے سفر حرام ہے، امام کعبہ کی گاڑی پر پھول ڈالے جاتے رہے جبکہ اس کا عقیدہ یہ ہے کہ قبروں پر پھول ڈالنا بدعت ہے۔ اس مولوی کی فقط مسجد الحرام سے نسبت ہونے کی وجہ سے اتنی تعظیم کی جاتی رہی ہے جبکہ اس کا عقیدہ یہ ہے کہ نبی علیہ السلام،صحابی یاکسی ولی سے نسبت کام نہ آئے گی ۔اس طرح کے اور کئی گمراہ کن عقائد ان سعودی نجدی وہابیوں کے ہیں جن کو پاک وہند کے علمائے کرام کے علاوہ دیگر ممالک کے علماء نے اپنی کتابوں میں درج کیا ہے۔
اگر کوئی مسلمان امام حرم کے خلاف کوئی بات کہے تو بعض نادان لوگ اس پر ناراض ہوجاتے ہیں اور آگے سے کہتے ہیں کہ امام حرم اگر غلط ہوتا تو کیا اللہ عزوجل اسے اس مقدس جگہ کا امام بناتا ؟ اس کاجواب یہ ہے کہ یہ تاریخ سے جہالت کی بنا پر کہا جاتا ہے۔ تاریخ شاہد ہے کہ مکہ ومدینہ پر کئی گمراہوں کی حکومت آئی ہے ابوجہل مکہ کا ظالم
ترین سردار تھا اور عبد اللہ بن ابی مدینہ کا منافق سردار تھا، یزید مکہ ومدینہ کا بادشاہ تھا، حجاج بن یوسف قاتل بادشاہ تھا، مروان جیسا ظالم مدینہ کا گورنر تھا، حضرت عثمان غنی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو شہید کرنے والے سبائی جب مدینہ میں نماز پڑھاتے تو صحابہ ان کے پیچھے نماز نہ پڑھتے تھے،یزید ی امام کے پیچھے مسلمان نماز نہ پڑھتے تھے۔وفاء الوفاء بأخبار دار المصطفی میں علامہ سمہودی لکھتے ہیں کہ ایک وقت میں مکہ و مدینہ پر شیعوں کی حکومت تھی جس میں مکہ وہ مدینہ کا امام اور خطیب شیعہ تھا اور اہل سنت کی کتابوں پر پابندی تھی۔ الغرض ایسے کئی ادوار آئے جس میں ایسا ہوتا رہا ہے کہ مکہ و مدینہ پر گمراہوں نے قبضہ کرکے حکومت کی ہے یہی حال ان نجدیوں سعودیوں کا ہے جنہوں نے 1925 ء میں مکہ پر حملہ کیااور قتل و غارت کرکے ا س پر قبضہ کیا ہوا اور پوری دنیا میں وہابیت کو پھیلانے کے لئے سعودیہ سے مالی امداد کی جاتی ہے جس کی صراحت کئی چینلز پر ہوچکی ہے ۔ ایسا کسی حدیث میں نہیں ہے کہ مکہ و مدینہ کا مولوی ہمیشہ صحیح ہوگابلکہ اس کے خلاف ثابت ہے۔
اس مختصر تحریر کو مدنظر رکھتے ہوئے فیصلہ کریں کہ کیا امام حرم اس قابل ہے کہ اس کی تعظیم کی جائے؟اس کے پیچھے نماز پڑھی جائے؟
نوٹ: اس تحریرکو حرمین کی عقیدت کے جذبات میں آکر نظر انداز نہ کیا جائے بلکہ شرعی نقطہ نظر سے عشق رسول کے جذبہ سے پرکھاجائے ۔