اسلام کے نظریہ غلام پر اعتراض کا جواب
پیشکش: صدائے قلب
اعتراض:اسلام دنیا کا شاید وہ واحد مذہب ہے ہے جس نے آکر انسانی غلامی اور تجارت کو شرعی حیثیت دی اور انسان کو قانونی طور پر آزاد اور غلام میں تقسیم کردیا۔ صحیح البخاری ،کتاب المغازی ،باب غزوہ خیبر ،حدیث نمبر3891 میں ہے کہ جب نبی اسلام نے صفیہ بنت حیی کو اپنے لئے منتخب کیا تو مسلمانوں نے کہا کہ یہ یا تو امہات المومنین میں سے ہے یا باندیوں میں سے تو اگر انہوں نے اسے پردہ کرایا تو یہ امہات المومنین میں سے ہوگی اور اگر نہیں کرایا تو کنیز اور باندی ہوگی۔ پھر جب نبی اسلام نے اسے پردہ کرایا تو مسلمانوں کو پتہ چل گیا کہ یہ ام المومنین ہے۔ یعنی نبی اسلام خود نہ صرف باندیاں رکھتے تھے بلکہ انہیں پردہ بھی نہیں کرواتے تھے ۔یعنی ان کی نظر میں باندی یا کنیز کی حیثیت محض”مال“ کی سی ہوئی تھی۔ ان لوگوں کے لئے بہت بڑا سوالیہ نشان ہے جو اسلام میں عورت کے مقام کا راگ الاپتے نہیں تھکتے ؟
عمر بن الخطاب کے بارے میں مشہور ہے کہ وہ جب کسی باندی کنیز کو پردے میں دیکھتے تو اسے جھڑک دیتے اور کہتے کہ آزاد عورتوں سے مشابہت اختیار نہ کرو۔یعنی اپنے ہاتھ سے انہیں ننگا کرتے تھے۔ سنن البیہقی کتاب الصلاۃ میں انس بن مالک سے مروی ہے کہ عمر بن الخطاب کی باندیاں ننگے سر خدمت کرتی تھیں۔
تحفۃ الاحوذی میں شرح جامع الترمذی میں فرمایا گیا ہے کہ شافعی ،ابی حنیفہ اور جمہور علماء نے آزاد اور غلام عورت کے ستر میں تفریق کی ہے اور غلام عورت کا ستر ناف سے گھٹنے تک قرار دیا ہے۔
امام ابن تیمیہ کی کتاب الفتاوٰی میں امام صاحب نے فرمایا ہے کہ جمہور شافعیوں اور مالکیوں اور بیشتر حنابلہ کے نزدیک کنیزکا سترناف سے گھٹنے تک ہے۔ اس میں احناف نے صرف اتنا اضافہ کیا ہے کہ اس میں پیٹ اور کمر بھی شامل کردی ہے یعنی سینہ بھلے نظر آتا رہے ۔تاہم جمہور علماء اور ائمہ اسلام کے نزدیک کنیز یا باندی کا ستر ناف سے گھٹنے تک ہی ہے۔
یہ ہے وہ انسانیت، عزت،شرافت اور مساوات سے بھرپور خوبصورت اسلام۔۔۔!؟ اسلام تو جو کچھ ہے سو ہے ،حیرت تو ان لوگوں پر ہوتی ہے جو ایسی گھٹیا آئیڈیالوجی کا دفاع کرتے ہیں۔
جواب:معترض کے دعویٰ اور دلیل میں زمین آسمان کا فرق ہے،دعویٰ یہ ہے کہ اسلام نے غلام و باندی کے نظام کو شرعی حیثیت دی اور دلیل میں آزاد اور باندی کے پردے کے احکام پیش کئے ہیں،یہ تو اس کی علمی حالت ہے اور زبان درازی اسلام جیسے عظیم مذہب پر کررہا ہے۔ پھرتاریخ سے جہالت ہے یا اسلام سے بغض کہ معترض نے اصل حقائق کو چھپاتے ہوئے یہ اعتراض کیا کہ اسلام نے غلامی اور اس کی تجارت کو شرعی حیثیت دی ہے۔دراصل غلام باندیوں کا نظام اور بے پردگی اسلام سے پہلے دیگر مذاہب و اہل عرب میں جاری تھا،قریش ننگے ہو کر خانہ کعبہ کا طواف کرتے تھے اور سیٹیاں اور تالیاں بجاتے تھے جیسا کہ روایتوں سے ثابت ہے ۔اسلام نے عورت کو عزت دیتے ہوئے پردے کو رائج کیا اور غلام و باندیوں کے حقوق مقرر فرمائے اور انہیں آزاد کرنے پر نہ صرف اجر عظیم کی بشارت دی بلکہ بہانے بہانے سے انہیں آزاد کرنے کو لازم قرار دیا۔
باندی کا پردہ آزاد عورت کی مثل نہ کرنے میں باندی کا ہی فائدہ تھا تاکہ لوگ اسے پہچان سکیں اور جس نے اسے آزاد کرنا ہو وہ خرید کر آزاد کرسکے،اسے خرید کر نکاح کرسکے وغیرہ۔اگر باندیوں پر آزاد عورت کی طرح پردہ لازم کردیا جاتا تو یہ ان پر بہت بڑا حرج تھا کہ آقا کے سامنے پردہ کرتے ہوئے گھر کا کام کاج کرنا ،مالک کی خدمت کرنا بہت مشکل ہے۔موجودہ دور میں گھروں میں کام کرنے والی خادماؤں کی مثال ہمارے سامنے ہے کہ یہ سب آزاد ہیں ان پر پردہ لازم ہے لیکن نوے فیصد نوکرانیاں شرعی پردہ نہیں کرتیں اور گناہ گار ہوتی ہیں ۔
اگر مزدور و غلام کو بھی سیٹھ جیسا لباس پہننے کو کہا جائے گا تو اس میں اس کا فائدہ نہیں نقصان ہے جیسے آج بھی مزدور اپنے خاص لباس اور اوزار ہاتھ میں لئے کھڑے ہوتے ہیں تاکہ لوگ اسے پہچان کر ان سے کام کاج کروائیں اور ان کا گزر بسر ہوتارہے۔ اگر حکومت مزدورں پر رحم کھاتے ہوئے کہہ دے کہ تم سب نے پینٹ کوٹ پہن کر کھڑا ہونا ہے تو اس میں مزدورں کا فائدہ نہیں نقصان ہے۔
معترض نے لونڈی کے بارے میں پردے کے متعلق چند حوالے دے کر یہ ثابت کرنے کی مذموم کوشش کی ہے کہ اسلام نے لونڈی کو برہنا رہنے کی ترغیب دی ہے جبکہ ایسا نہیں ہے اسلام سے پہلے آزاد اور لونڈی دونوں کے متعلق پردے کا کوئی نظام نہ تھا اسلام نے ان دونوں کے پردے کے احکام بتائے،لونڈی پر احسان کرتے ہوئے کہ اس نے کام کاج کرنا ہوتا ہے اس لئے اس کا پردہ آزاد عورت کی بہ نسبت کم رکھا لیکن یہ نہیں حکم دیا کہ چھاتیاں ننگی کرکے پھرتی رہیں ۔ حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ معاذ اللہ لونڈیوں کو برہنہ نہیں کرتے تھے بلکہ فقط سر سے دوپٹہ اتارتے تھے تاکہ آزاد اور لونڈی کا امتیاز باقی رہے ۔پھر غلام و لونڈی کا یہ فرق فقط دنیاوی اعتبار سے ہے دینی اعتبار سے نیک غلام کی حیثیت فاسق بادشاہ سے بہتر ہے ۔
اس مختصر جواب کے بعد اب معترض کے اس دعوی پر کہ” اسلام نے غلامانہ نظام کو شرعی حیثیت دی“ اس پر تفصیلی گفتگو کی جاتی ہے اور دلائل سے ثابت کیا جاتا ہے کہ اسلام سے پہلے ہی غلامانہ نظام دیگر مذاہب میں رائج تھا۔اسلام نے تو اس نظام کو کم کیا ہے:
دورِ غلامی آ سمانی وغیر آسمانی مذاہب میں
دور غلامی قدیم زمانے سے رائج تھا۔یہی وجہ ہے کہ موجودہ تحریف شدہ توریت وانجیل میں بھی ان کی صراحت ملتی ہے ۔ اللہ عزوجل نے غلاموں پر رحم وکرم اور احسان فرمانے کی ترغیب قرآن پاک کی طرح پچھلی کتب میں بھی دی ہے۔قرآن پاک میں ہے(وَاعْبُدُوا اللّٰہَ وَلَا تُشْرِکُوْا بِہٖ شَیْـًا وَّ بِالْوٰلِدَیْنِ اِحْسٰنًا وَّبِذِی الْقُرْبٰی وَالْیَتٰمٰی وَالْمَسٰکِیْنِ وَالْجَارِ ذِی الْقُرْبٰی وَالْجَارِ الْجُنُبِ وَالصَّاحِبِ بِالْجَنْبِ وَابْنِ السَّبِیْلِ وَمَا مَلَکَتْ اَیْمٰنُکُمْ اِنَّ اللّٰہَ لَا یُحِبُّ مَنْ کَانَ مُخْتَالًا فَخُوْرَا)ترجمہ کنزالایمان :اور اللہ کی بندگی کرو اور اس کا شریک کسی کو نہ ٹھراؤ اور ماں باپ سے بھلائی کرو اور رشتہ داروں اور یتیموں اور محتاجوں اور پاس کے ہمسائے اور دور کے ہمسائے اور کروٹ کے ساتھی اور راہ گیر اور اپنی باندی غلام سے ،بے شک اللہ کو خوش نہیں آتا کوئی اترانے والا بڑائی مارنےوالا۔
(سورۃ النساء،سورۃ4،آیت36)
تورات کے قانون کے مطابق آزاد شخص کو بدکاری کے جرم میں موت کی سزا مقرر کی گئی تھی۔ لیکن کنیزوں کے حالات کو پیش نظر رکھتے ہوئے ان کے لئے اس سزا میں تخفیف کر دی گئی چنانچہ لکھا ہے :”اگر کوئی آدمی کسی ایسی کنیز سے جنسی تعلقات پیدا کر لے جو کسی اور کی منگیتر ہو لیکن نہ تو اس کا فدیہ دیا گیا ہو اور نہ ہی وہ آزاد کی گئی ہو تو کوئی مناسب سزا دینا ضروری ہے تاہم انہیں جان سے نہ مارا جائے کیونکہ وہ عورت آزاد نہیں کی گئی تھی۔“ (احبار ،باب 19 )
اگر کوئی آقا اپنی کنیز کے طرز عمل سے خوش نہ ہو تو وہ اسے آزاد کر دے چنانچہ لکھا ہے:”اگر وہ (کنیز)آقا کو جس نے اسے اپنے لئے منتخب کیا تھا خوش نہ کرے تو وہ اس کی قیمت واپس لے کر اسے اپنے گھر جانے دے۔ اسے اس کنیز کو کسی اجنبی قوم کو بیچنے کا اختیار نہیں کیونکہ وہ اس کنیز کو لانے کے بعد اپنا کیا ہوا وعدہ پورا نہ کر سکا۔“
(خروج، باب 21 )
غلام پر تشدد کو حرام قرار دے دیا گیا۔ ایسا کرنے والے کو حکومت کی جانب سے سزا دی جائے چنانچہ لکھا ہے:”اگر کوئی شخص اپنے غلام یا کنیز کو لاٹھی سے ایسا مارے کہ وہ فوراً مر جائے تو اسے لازماً سزا دی جائے۔“
(خروج ،باب 21 )
انجیل لوقا میں ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے غلاموں کو آزادی کی بشارت دیتے ہوئے ارشاد فرمایا:”خداوند کا روح مجھ پر ہے۔ اس نے مجھے مسح کیا ہے، تاکہ میں غریبوں کو خوشخبری سناؤں، اس نے مجھے بھیجا ہے تاکہ میں قیدیوں کو رہائی اور اندھوں کو بینائی کی خبر دوں، کچلے ہوؤں کو آزادی بخشوں اور خداوند کے سال مقبول کا اعلان کروں۔“
(لوقا، باب 4 )
ان آسمانی مذاہب کے علاوہ دیگر مذاہب میں بھی غلاموں کا وجود ثابت ہے ۔چین اور کنفیوشن ممالک میں بھی دور قدیم میں غلامی موجود رہی ہے۔ انسائیکلو پیڈیا بریٹانیکا کے مقالہ نگار کے الفاظ ہیں:”چین میں غلامی شانگ خاندان (اٹھارہویں سے بارہویں صدی قبل مسیح)کے دور سے موجود رہی ہے۔ تفصیلی تحقیق کے مطابق ہان خاندان (220CE 206BC )کے دور میں چین کی کم و بیش پانچ فیصد آبادی غلاموں پر مشتمل تھی۔ غلامی بیسویں صدی عیسوی تک چینی معاشرے کا حصہ رہی ہے۔ زیادہ تر عرصے میں یہ ظاہر ہوتا ہے کہ یہاں بھی غلام انہی طریقوں سے بنائے جاتے تھے جن طریقوں سے دنیا کے دوسرے حصوں میں غلام بنائے جاتے تھے۔ ان میں جنگی قیدی، آبادی پر حملہ کر کے انہیں غلام بنانا اور مقروض لوگوں کو غلام بنانا شامل ہے۔ اس کے علاوہ چین میں قرضوں کی ادائیگی یا خوراک کی کمی کے باعث اپنے آپ کو اور اپنی عورتوں اور بچوں کو بیچ ڈالنے کا رواج بھی رہا ہے۔ جرائم میں ملوث مجرموں کے قریبی رشتہ داروں کو بھی غلام بنا لیا جاتا۔ بعض ادوار میں اغوا کر کے غلام بنانے کا سلسلہ بھی رائج رہا ہے۔“
(http://www.britannica.com/eb/article-24156/slavery)
کنفیوشس کے فلسفے اور اخلاقیات پر یقین رکھنے والے دیگر ممالک جیسے مشرقی چین، جاپان اور کوریا میں بھی غلامی موجود رہی ہے۔
دنیا بھر کے مختلف معاشروں کی تاریخ کا اگر جائزہ لیا جائے تو غلام بنائے جانے کے یہ طریقے معلوم ہوتے ہیں جیسے بچوں کو اغوا کر کے غلام بنا لیا جائے۔ اگر کسی کو کوئی لاوارث بچہ یا لاوارث شخص ملے تو وہ اسے غلام بنا لے۔ کسی آبادی پر حملہ کر کے اس کے تمام شہریوں کو غلام بنا لیا جائے۔ کسی شخص کو اس کے کسی جرم کی پاداش میں حکومت غلام بنا دے۔ جنگ جیتنے کی صورت میں فاتحین جنگی قیدیوں کو غلام بنا دیں۔ قرض کی ادائیگی نہ کر سکنے کی صورت میں مقروض کو غلام بنا دیا جائے۔ پہلے سے موجود غلاموں کی اولاد کو بھی غلام ہی قرار دے دیا جائے۔ غربت کے باعث کوئی شخص خود کو یا اپنے بیوی بچوں کو فروخت کر دے۔
فاتح علاقوں سے حاصل ہونے والے غلام
مفتوحہ علاقوں کے لوگوں کو غلام وباندی بنانا بھی نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مبعوث ہونے سے پہلے رائج تھا۔یہودیوں نے توریت میں تحریف کرکے تمام انسانی حقوق کویہودیوں کے ساتھ خاص کر لیا اور دیگر اقوام کو Gentiles قرار دے کر ان کے استحصال کی اجازت دے دی۔ موجودہ بائبل میں ہے:” تمہارے غلام اور تمہاری کنیزیں ان قوموں میں سے ہوں جو تمہارے ارد گرد رہتی ہیں، انہی سے تم غلام اور لونڈیاں خریدا کرنا۔“
(استثنا ،باب 25 )
عورتوں کو لونڈیاں بنانے کے متعلق ہے :”جب تم اپنے دشمنوں سے جنگ کرنے نکلو اور خداوند تمہارا خدا انہیں تمہارے ہاتھ میں کر دے اور تم انہیں اسیر کر کے لاؤ اور ان اسیروں میں سے کوئی حسین عورت دیکھ کر تم اس پر فریفتہ ہو جاؤ تو تم اس سے بیاہ کر لینا۔۔۔۔جب وہ تمہارے گھر میں رہ کر ایک ماہ تک اپنے ماں باپ کے لئے ماتم کر چکے تب تم اس کے پاس جانا اور تب تم اس کے خاوند ہو گے اور وہ تمہاری بیوی ہو گی۔ اور اگر وہ تمہیں نہ بھائے تو جہاں وہ جانا چاہے، اسے جانے دینا۔ تم اس کا سودا نہ کرنا، نہ اس کے ساتھ لونڈی کا سا سلوک روا رکھنا کیونکہ تم نے اسے بے حرمت کیا ہے (یعنی اس سے ازدواجی تعلقات قائم کیے ہیں۔)“ (استثنا ،باب 21)
اسلام اور دیگر مذاہب میں غلامانہ نظام میں فرق
اسلام کے علاوہ دیگر مذاہب میں غلامانہ نظا م میں بہت فرق ہے ۔ دیگر مذاہب میں غلام بنانے کے کئی عجیب وغریب اور غیر اخلاقی طریقے رائج تھے اور ان کے ساتھ ذلت آمیز سلوک رکھنا روارکھا گیا ۔ اس کے برعکس حضور علیہ السلام اور ان سے پہلے انبیاء علیہم السلام نے غلاموں کے ساتھ حسن سلوک کرنے کی نہ صرف ترغیب دی بلکہ خود کو بطور نمونہ پیش کیا ۔مصر میں چوری جیسے جرائم کی سزا کے طور پر غلام بنانے کے رواج کا ذکر قرآن مجید کی سورہ یوسف میں ہوا ہے۔ مصر میں غربت کے باعث لوگوں میں خود کو فروخت کر دینے کا رجحان بھی موجود تھا۔ مصر کی تاریخ میں سیدنا یوسف علیہ الصلوۃ والسلام وہ پہلےسربراہ تھے جنہوں نے اس رواج کو ختم کرتے ہوئے کثیر تعداد میں غلاموں کو آزادی عطا کی۔ حافظ ابن کثیر اہل کتاب کے علماء کے حوالے سے لکھتے ہیں”وَعِنْدَ أَہْلِ الْکِتَابِ:أَنَّ یُوسُفَ بَاعَ أَہْلَ مِصْرَ وَغَیْرَہُمْ مِنَ الطَّعَامِ الَّذِی کَانَ تَحْتَ یَدِہِ، بِأَمْوَالِہِمْ کُلِّہَا،مِنَ الذَّہَبِ وَالْفِضَّۃِ، وَالْعَقَارِ وَالْأَثَاثِ، وَمَا یَمْلِکُونَہُ کُلَّہُ، حَتَّی بَاعَہُمْ بِأَنْفُسِہِمْ فَصَارُوا أَرِقَّاء َ.ثُمَّ أَطْلَقَ لَہُمْ أَرْضَہُمْ وَأَعْتَقَ رِقَابَہُمْ عَلَی أَنْ یَعْمَلُوا، وَیَکُونُ خُمْسُ مَا یستغلون من زُرُوعہمْ وَثِمَارِہِمْ لِلْمَلِکِ فَصَارَتْ سُنَّۃَ أَہْلِ مِصْرَ بَعْدَہُ“ترجمہ:اہل کتاب کے علم کے مطابق سیدنا یوسف علیہ السلام نے اہل مصر اور دیگر لوگوں کو سونا، چاندی، زمین اور دیگر اثاثوں کے بدلے کھانے پینے کی اشیاء فروخت کیں۔ جب ان کے پاس کچھ نہ رہا تو انہوں نے خود کو ہی بیچ دیا اور غلام بن گئے۔ اس کے بعد آپ نے انہیں ان کی زمینیں واپس کر دیں اور ان تمام غلاموں کو آزاد کر دیا اور شرط یہ رکھی کہ وہ کام کریں گے اور فصلوں اور پھلوں کا پانچواں حصہ حکومت کو دیں گے۔ اس کے بعد مصر میں یہی قانون جاری ہو گیا۔
( قصص الانبیاء ،ذکر ما وقع من الأمور العجیبۃ فی حیاۃ إسرائیل،صفحہ355،مطبعۃ دار التألیف ،القاہرۃ)
اہل عرب میں بھی اسلام سے پہلے غلام اور لونڈی کا نظام رائج تھا۔ اکثر مالکان غلاموں کے ساتھ نہایت ہی برا سلوک کیا کرتے تھے۔ غلاموں سے زیادہ مشقت والا کام لیتے تھے ۔آقا اپنی لونڈیوں سے عصمت فروشی کروایا کرتے تھے اور ان کی آمدنی خود وصول کیا کرتے تھے۔ ایسی لونڈیوں کو جنس مخالف کو لبھانے کے لئے مکمل تربیت فراہم کی جاتی تھی۔ شب بسری کے لئے کسی دوست کو لونڈی عطا کر دینے کا رواج بھی ان کے ہاں پایا جاتا تھا۔
اسلام نے تمام مذاہب سے زیادہ آزادی کے طریق کو فروغ دیا ،آزد شخص کے غلام بننے کے کئی طریقے ختم فرمائے جیسے مقروض و چورکو غلام بناناوغیرہ ،کسی آزاد شخص کو غلام بنانے کو ناجائز وحرام ٹھہرایا،جگہ جگہ غلام آزاد کرنے کا ذہن دیا ۔ قرآن پاک میں اللہ عزوجل فرماتا ہے(لَیْسَ الْبِرَّ اَنْ تُوَلُّوْا وُجُوْہَکُمْ قِبَلَ الْمَشْرِقِ وَالْمَغْرِبِ وَلٰکِنَّ الْبِرَّ مَنْ اٰمَنَ بِاللّٰہِ وَالْیَوْمِ الْاٰخِرِ وَ الْمَلٰۤئِکَۃِ وَ الْکِتٰبِ وَ النَّبِیّٖنَ وَاٰتَی الْمَالَ عَلٰی حُبِّہٖ ذَوِی الْقُرْبٰی وَ الْیَتٰمٰی وَ الْمَسٰکِیْنَ وَ ابْنَ السَّبِیْلِ وَالسَّآئِلِیْنَ وَ فِی الرِّقَابِ )ترجمہ کنزالایمان:کچھ اصل نیکی یہ نہیں کہ منہ مشرق یا مغرب کی طرف کرو ہاں اصلی نیکی یہ کہ ایمان لائے اللہ اور قیامت اور فرشتوں اور کتاب اور پیغمبروں پر اور اللہ کی محبت میں اپنا عزیز مال دے رشتہ داروں اور یتیموں اور مسکینوں اور راہ گیر اور سائلوں کو اور گردنیں چھوڑانے (یعنی غلام آزاد کرنے) میں ۔
(سورۃ البقرہ،سورۃ2،آیت177)
اللہ عزوجل نے غلام و باندیوں کے نکاح کرنے کا اور انہیں رقم لے کر آزاد کرنے کا ذہن دیا اور ان سے بدکاری کروانے سے منع کیا چنانچہ قرآن پاک میں ہے(وَ اَنْکِحُوا الْاَیٰمٰی مِنْکُمْ وَ الصّٰلِحِیْنَ مِنْ عِبَادِکُمْ وَ اِمَآئِکُمْ ۔۔۔۔۔وَالَّذِیْنَ یَبْتَغُوْنَ الْکِتٰبَ مِمَّا مَلَکَتْ اَیْمٰنُکُمْ فَکَاتِبُوْہُمْ اِنْ عَلِمْتُمْ فِیْہِمْ خَیْرًا وَّاٰتُوْہُمْ مِّنْ مَّالِ اللّٰہِ الَّذِیْۤ اٰتٰیکُمْ وَلَا تُکْرِہُوْا فَتَیٰتِکُمْ عَلَی الْبِغَآء ِ اِنْ اَرَدْنَ تَحَصُّنًا لِّتَبْتَغُوْا عَرَضَ الْحَیٰوۃِ الدُّنْیَا ) ترجمہ کنز الایمان :اور نکاح کردو اپنوں میں ان کا جو بے نکاح ہوں اور اپنے لائق بندوں اور کنیزوں کا ۔ اور تمہارے ہاتھ کی مِلک باندی غلاموں میں سے جو یہ چاہیں کہ کچھ مال کمانے کی شرط پر انہیں آزادی لکھ دو تو لکھ دو اگر ان میں کچھ بھلائی جانو اور اس پر ان کی مدد کرو اللہ کے مال سے جو تم کو دیااور مجبور نہ کرو اپنی کنیزوں کو بدکاری پر جب کہ وہ بچنا چاہیں تاکہ تم دنیوی زندگی کا کچھ مال چاہو ۔
(سورۃ النور،سورۃ 24،آیت32,33)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم نے اپنی تعلیمات میں غلام آزاد کرنے کی فضیلت بیان کرتے ہوئے ارشاد فرمایا”أَیُّمَا رَجُلٍ أَعْتَقَ امْرَأً مُسْلِمًا، اسْتَنْقَذَ اللَّہُ بِکُلِّ عُضْوٍ مِنْہُ عُضْوًا مِنْہُ مِنَ النَّارِ“ترجمہ: جو شخص بھی کسی مسلمان غلام کو آزاد کرتا ہے، اللہ تعالی اس (غلام)کے ہر ہر عضو کے بدلے (آزاد کرنے والے کے)ہر ہر عضو کو جہنم سے آزاد کرے گا۔
(صحیح البخاری، کتاب العتق،باب فی العتق و فضلہ،جلد3،صفحہ144،حدیث2517،دارطوق النجاۃ،مصر)
کئی احکام میں ایک طرح بہانوں سے کفارہ غلام آزاد کرنا مقرر فرمایا جیسے قتل ،قسم کا کفارہ وغیرہ۔غلام آزاد کرنے میں صرف مسلمان کی قید نہ لگائی بلکہ کئی مسائل میں غیر مسلم غلام کو بھی آزاد کروانے کی اجازت دی چنانچہ قرآن پاک میں ظہار کے مسئلہ میں ہے(وَ الَّذِیْنَ یُظٰہِرُوْنَ مِنْ نِّسَآئِہِمْ ثُمَّ یَعُوْدُوْنَ لِمَا قَالُوْا فَتَحْرِیْرُ رَقَبَۃٍ مِّنْ قَبْلِ اَنْ یَّتَمَآسَّا )ترجمہ کنزالایمان:اور وہ جو اپنی بیبیوں کو اپنی ماں کی جگہ کہیں پھر وہی کرنا چاہیں جس پر اتنی بڑی بات کہہ چکے تو ان پر لازم ہے ایک بردہ آزاد کرنا قبل اس کے کہ ایک دوسرے کو ہاتھ لگائیں ۔
(سورۃالمجادلہ،سورۃ58،آیت3)
یہاں مسلمان غلام آزاد کرنا ضروری نہیں بلکہ کافر غلام آزاد کرنا بھی درست ہے جیسا کہ کتب فقہ میں صراحت ہے۔
جیسا کہ اوپر بیان کیا جا چکا ہے کہ اس دور میں لونڈیوں کی اخلاقی حالت اچھی نہ تھی۔ نوجوان لونڈیوں کو عصمت فروشی کی تربیت دے کر انہیں تیار کیا جاتا۔ یہی وجہ ہے کہ ان سے کوئی شریف آدمی شادی کرنے کو تیار نہ ہوتا تھا۔ حضور صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم نے ان لونڈیوں کی اخلاقی تربیت کر کے انہیں آزاد کرنے کی ترغیب دلائی چنانچہ آپ نے فرمایا”ثَلاَثَۃٌ لَہُمْ أَجْرَانِ:رَجُلٌ مِنْ أَہْلِ الکِتَابِ، آمَنَ بِنَبِیِّہِ وَآمَنَ بِمُحَمَّدٍ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، وَالعَبْدُ المَمْلُوکُ إِذَا أَدَّی حَقَّ اللَّہِ وَحَقَّ مَوَالِیہِ، وَرَجُلٌ کَانَتْ عِنْدَہُ أَمَۃٌ فَأَدَّبَہَا فَأَحْسَنَ تَأْدِیبَہَا، وَعَلَّمَہَا فَأَحْسَنَ تَعْلِیمَہَا، ثُمَّ أَعْتَقَہَا فَتَزَوَّجَہَا فَلَہُ أَجْرَانِ“ترجمہ: تین قسم کے افراد کے لئے دوگنا اجر ہے:اہل کتاب میں سے کوئی شخص جو اپنے نبی پر ایمان لایا اور اس کے بعد محمد پر بھی ایمان لایا۔ ایسا غلام جو اللہ کا حق بھی ادا کرتا ہے اور اپنے مالکان کی تفویض کردہ ذمہ داریوں کو بھی پورا کرتا ہے۔ ایسا شخص جس کے پاس کوئی لونڈی ہو وہ اسے بہترین اخلاقی تربیت دے، اسے اچھی تعلیم دلوائے، اس کے بعد اسے آزاد کر کے اس سے شادی کر لے تو اس کے لئے بھی دوہرا اجر ہے۔ (صحیح البخاری، کتاب العلم،باب تعلیم الرجل أمتہ وأہلہ، جلد1،صفحہ31،حدیث 97،دارطوق النجاۃ،مصر )
رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم نے خود اس کی مثال قائم فرمائی۔ آپ نے سیدہ صفیہ اور ریحانہ رضی اللہ عنہما کو آزاد کر کے ان کے ساتھ نکاح کیا۔ اسی طرح آپ نے اپنی لونڈی سیدہ ام ایمن رضی اللہ عنہا کو آزاد کر کے ان کی شادی سیدنا زید بن حارثہ رضی اللہ عنہ سے کی۔ آپ نے اپنی ایک لونڈی سلمی رضی اللہ عنہا کو آزاد کر کے ان کی شادی ابو رافع رضی اللہ عنہ سے کی۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم کو غلاموں کی آزادی سے ذاتی طور پر دلچسپی تھی۔ اوپر بیان کردہ عمومی احکامات کے علاوہ آپ بہت سے مواقع پر خصوصی طور پر غلاموں کو آزاد کرنے کی ترغیب دیا کرتے تھے۔ بہت سی جنگوں جیسے غزوہ بدر، بنو عبدالمصطلق اور حنین میں فتح کے بعد آپ نے جنگی قیدیوں کو غلام نہ بنانے کے لئے عملی اقدامات کئے اور انہیں آزاد کروایا۔ اس کے علاوہ بھی آپ مختلف غلاموں کے بارے میں ان کے مالکوں سے انہیں آزاد کرنے کی سفارش کیا کرتے تھے۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم نے غلاموں کو آزاد کرنے کی محض ترغیب ہی نہ دی بلکہ ایسا کرنے کی بذات خود مثال قائم فرمائی۔ یہ سلسلہ آپ کی پوری زندگی میں جاری رہا حتی کہ آپ کے وصال کے وقت آپ کے پاس کوئی غلام نہ تھا۔بخاری شریف کی حدیث پاک ہے”عَنْ عَمْرِو بْنِ الحَارِثِ خَتَنِ رَسُولِ اللَّہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَخِی جُوَیْرِیَۃَ بِنْتِ الحَارِثِ، قَالَ:مَا تَرَکَ رَسُولُ اللَّہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ عِنْدَ مَوْتِہِ دِرْہَمًا وَلاَ دِینَارًا وَلاَ عَبْدًا وَلاَ أَمَۃً وَلاَ شَیْئًا، إِلَّا بَغْلَتَہُ البَیْضَاء َ، وَسِلاَحَہُ وَأَرْضًا جَعَلَہَا صَدَقَۃً“ترجمہ:رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم کے برادر نسبتی عمرو بن حارث جو ام المومنین جویریہ بنت حارث رضی اللہ عنہما کے بھائی ہیں، کہتے ہیں:رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم نے اپنے وصال کے وقت درہم، دینار، غلام، لونڈی اور کوئی چیز نہ چھوڑی تھی۔ ہاں ایک سفید خچر، کچھ اسلحہ (تلواریں وغیرہ)اور کچھ زمین چھوڑی تھی جسے آپ صدقہ کر گئے تھے۔
(صحیح البخاری، کتاب الوصایا،جلد4،صفحہ2، حدیث 2739،دارطوق النجاۃ،مصر )
حضور صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم نے جن غلاموں اور لونڈیوں کو آزادی عطا فرمائی ، ان میں زید بن حارثہ، ثوبان، رافع، سلمان فارسی، ماریہ، ام ایمن، ریحانہ رضی اللہ عنہم مشہور ہوئے۔ ابن جوزی نے تلقیح الفہوم میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم کے جن آزاد کردہ غلاموں کے نام گنوائے ہیں ان کی تعداد 41 ہے جبکہ انہوں نے آپ کی 12 آزاد کردہ لونڈیوں کا تذکرہ کیا ہے۔
غلامی کے بارے میں اسلام کا یہ نظریہ اتنا واضح ہے کہ اس کا اعتراف انصاف پسند مستشرقین بھی کرتےہیں:
For, far from being passive submission to Allah’s inscrutable will, Islam gives each individual the chance to contribute actively towards his own salvation. For instance, in the Koran slavery was taken for granted, in accordance with prevailing practice; but freeing of slaves was encouraged as meritorious. Thus, the Koran, in the seventh century A.D., does not consider slavery an immutable, God-given state for certain groups of human beings, but an unfortunate accident. It was within the reach of man to ameliorate this misfortune.
اسلام محض اللہ کی رضا کے سامنے سر جھکا دینے کا نام نہیں ہے۔ اسلام ہر شخص کو یہ حق دیتا ہے کہ وہ اپنی نجات کے لئے خود متحرک ہو کر کام کرے۔ مثال کے طور پر قرآن یہ بیان کرتا ہے کہ غلامی دنیا میں متواتر عمل کے طور پر موجود ہے لیکن غلام آزاد کرنے کو ایک بڑی نیکی قرار دے کر اس کی حوصلہ افزائی کی گئی ہے۔ ساتویں صدی کے قرآن نے غلامی کو ناقابل تبدیلی قرار نہیں دیا کہ یہ ایک ایسی حالت ہے جو خدا نے چند انسانی گروہوں پر مسلط کر دی ہے، بلکہ (قرآن کے نزدیک)یہ ایک منحوس حادثہ ہے جس کا ازالہ کرنا انسان کے اختیار میں ہے۔
(Ilse Lichtenstadter; Islam & the Modern World)
اگر معترض یہ کہے کہ اسلام نے غلامی کو بیک وقت ختم کرنے کی بجائے تدریجی طریقہ کیوں اختیار کیا؟ کیا ایسا ممکن نہ تھا کہ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم تمام غلاموں کو بیک وقت آزاد کردیتے اور دنیا سے اس لعنت کا خاتمہ ہو جاتا؟
تو اس کا جواب یہ ہے کہ انقلابی تبدیلیوں کی یہ خصوصیت ہے کہ وہ جہاں ایک برائی کو ختم کرتی ہیں وہاں دسیوں نئی برائیوں کو جنم دیتی ہیں۔ اسی وجہ سے اسلام نے برائیوں کے خاتمے کے لئے بالعموم انقلاب (Revolution)کی بجائے تدریجی اصلاح(Evolution)کا طریقہ اختیار کیا۔ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کے زمانے میں غلاموں کی حیثیت بالکل آج کے زمانے کے ملازمین کی تھی جن پر پوری معیشت کا دارومدار تھا۔غلامی کے خاتمے کی حکمت عملی کو سمجھنے کے لئے اگر درج ذیل مثال پر غور کیا جائے تو بات کو سمجھنا بہت آسان ہوگا:
موجودہ دور میں بہت سے مالک( Employers)اپنے ملازمین(Employees)کا استحصال کرتے ہیں۔ان سے طویل اوقات تک بلامعاوضہ کام کرواتے ہیں، کم سے کم تنخواہ دینے کی کوشش کرتے ہیں، بسا اوقات ان کی تنخواہیں روک لیتے ہیں، خواتین ملازموں کو بہت مرتبہ جنسی طور پر ہراساں کیا جاتا ہے۔ان حالات میں آپ ایک مصلح ہیں اور یہ چاہتے ہیں کہ دنیا سے ملازمت کا خاتمہ ہوجائے اور تمام لوگ آزادانہ اپنا کاروبار کرنے کے قابل ( Self Employed)ہوجائیں۔ آپ نہ صرف ایک مصلح ہیں بلکہ آپ کے پاس دنیا کے وسیع و عریض خطے کا اقتدار بھی موجود ہے اور آپ اپنے مقصد کے حصول کے لئے بہت کچھ کرسکتے ہیں۔ان حالات میں آپ کا پہلا قدم کیا ہوگا؟ کیا آپ یہ قانون بنا دیں گے کہ آج سے تمام ملازمین فارغ ہیں اور آج کے بعد کسی کے لئے دوسرے کو ملازم رکھنا ایک قابل تعزیر جرم ہے ؟ اگر آپ ایسا قانون بنائیں گے تو اس کے نتیجے میں کروڑوں بے روزگار وجود پذیر ہوں گے ۔ یہ بے روزگار یقینا روٹی ، کپڑے اور مکان کے حصول کے لئے چوری ، ڈاکہ زنی ، بھیک اور جسم فروشی کا راستہ اختیار کریں گے۔جس کے نتیجے میں پورے معاشرے کا نظام تباہ ہوجائے گا اور ایک برائی کو ختم کرنے کی انقلابی کوشش کے نتیجے میں ایک ہزار برائیاں پیدا ہوجائیں گی۔
یہ بات بالکل واضح ہے کہ ملازمت کے مسئلے کو حل کرنے کے لئے تدریجی اصلاح کا طریقہ ہی کارآمد ہے۔ اس طریقے کے مطابق مالک و ملازم کے تعلق کی بجائے کوئی نیا تعلق پیدا کیا جائے گا۔ لوگوں میں یہ شعور پیدا کیا جائے گا وہ اپنے کاروبار کو ترجیح دیں۔
عین ممکن ہے کہ اس سارے عمل میں صدیاں لگ جائیں۔ ایک ہزار سال کے بعد، جب دنیا اس مسئلے کو حل کرچکی ہو تو ان میں سے بہت سے لوگ اس مصلح پر تنقید کریں اور یہ کہیں کہ انہوں نے ایسا کیوں نہیں کیا، ویسا کیوں کیا ،مگر اس دور کے انصاف پسند یہ ضرور کہیں گے کہ اس عظیم مصلح نے اس مسئلے کے حل کے لئے ابتدائی اقدامات ضرور کئے تھے۔
اب اسی مثال کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم اور آپ کے صحابہ رضی اللہ عنہم پر منطبق کیجئے۔ اسلام غلامی کا آغاز کرنے والا نہیں تھا۔ غلامی اسے ورثے میں ملی تھی۔اسلام کو اس مسئلے سے نمٹنا تھا۔ عرب میں بلامبالغہ ہزاروں غلام موجود تھے۔ جب فتوحات کے نتیجے میں ایران ، شام اورمصر کی مملکتیں مسلمانوں کے پاس آئیں تو ان غلاموں کی تعداد کروڑوں میں تھی۔ اگر ان سب غلاموں کو ایک ہی دن میں آزاد کر دیا جاتا تو نتیجہ اس کے سوا کچھ نہ نکلتا کہ کروڑوں کی تعداد میں طوائفیں، ڈاکو، چور، بھکاری وجود میں آتے جنہیں سنبھالنا شاید کسی کے بس کی بات نہ ہوتی۔