کیا تمام مسلمانوں پرجہاد فرض ہوچکا ہے؟

کیا تمام مسلمانوں پرجہاد فرض ہوچکا ہے؟

فلسطین میں موجودہ صورتحال میں کیا تمام مسلمانوں پر جہاد فرض ہوچکا ہے؟مسلمانوں کے اس حوالے سے کیا کرنا چاہیے؟

بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم

الجواب بعون الملک الوہاب الھم ہدایۃ الحق و الصواب

فلسطین کی موجودہ صورتحال پر اللہ کریم ان پر اپنا خصوصی فضل و کرم فرمائے،لیکن شرعی طور پر تمام دنیا کے مسلمانوں پر جہاد فرض عین کہنا درست نہیں۔ جہاد کے بارے میں تفصیل یوں کہ دشمن کے حملہ کرنے سے پہلے جہاد فرض کفایہ ہے(اس کی بھی مخصوص شرائط ہوتی ہیں۔) یعنی ایک جماعت بھی کر لے تو سب بری الذمہ ہو جائیں گے اور اگر دشمن حملہ کریں تو اس علاقے کے جو لوگ جہاد کی طاقت رکھتے ہیں ان پر جہاد فرض عین ہے۔ اور جو دشمن سے دور ہیں تو ان پر فرض کفایہ ہے نہ کہ فرض عین لہذا ترک کی اجازت ہے۔ اور جب حاجت ہو بایں طور پر کہ وہاں کے لوگ دشمن کے مقابلے سے عاجز آجائیں یا سستی کریں اور جہاد نہ کریں تو جو ان سے قریب والے جہاد کی طاقت رکھتے ہیں، ان پر فرض عین ہو گا اور یہ نہ کریں تو ان کے قریب والوں پر فرض عین ہے۔ اسی ترتیب پر یہاں تک کہ مشرق و مغرب میں تمام اہل زمین جو جہاد کی قوت و طاقت رکھتے ہیں،ان پر فرض ہو جائے گا۔

لہٰذا اس وقت فلسطینی مجاہدین پر جہاد فرض عین ہے اور اللہ تعالیٰ ان کو اس میں کامیابی عطاکرے۔ اگر خدانخواستہ وہ عاجز آجائیں تو جو ان کے قریب ممالک ہیں ان مسلمانوں بالخصوص افواج پر لازم ہے کہ وہ ان کی مدد کریں ،وہ بھی اگر عاجز آجائیں تو پھر جو دیگر قریب کے ممالک کی افواج وعوام ہیں وہ مدد کریں۔ہم جیسے عام مسلمان جو وہاں نہیں جاسکتے،ان کو چاہیے کہ وہ جہاد کی تمنا رکھیں،فلسطین کے لیے دعائے خیر کریں اور مسلم ممالک کے حکمرانوں کو مجبور کریں کہ وہ فلسطین کی مدد افواج و اسلحہ کے ذریعے کریں۔اسرائیلی مصنوعات کا بائیکاٹ کرنا بھی احتجاج کا ایک اہم حصہ ہے(اگرچہ ان کی خرید وفروخت شرعا ناجائز و حرام نہیں) کہ مشہور یہی ہے کہ وہ اس کاروباری نفع کو مسلمانوں کے خلاف ہی استعمال کرتے ہیں۔اس بائیکاٹ کی نظیر وہ مسئلہ ہے جو فقہ میں موجود ہے کہ ایسے شخص کے ہاتھ لوہا بیچنا جو اس سے ہتھیار بنا کر ظلم کرے گا یہ منع ہے کہ یہ تعاون کا ایک پہلو ہے۔ نیز اگر اللہ کریم نے اسباب پیدا فرمائے اور اہل سنت کی عظیم تحریک دعوت اسلامی فلسطین متاثرین کی مدد کو پہنچ سکی تو ضرور تمام مسلمان اپنے مال کے ساتھ ان کی مدد کریں۔

اللّٰہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے:

”كُتِبَ عَلَیْكُمُ الْقِتَالُ وَ هُوَ كُرْهٌ لَّكُمْۚ وَ عَسٰۤى اَنْ تَكْرَهُوْا شَیْــٴًـا وَّ هُوَ خَیْرٌ لَّكُمْۚ وَ عَسٰۤى اَنْ تُحِبُّوْا شَیْــٴًـا وَّ هُوَ شَرٌّ لَّكُمْؕ وَ اللّٰهُ یَعْلَمُ وَ اَنْتُمْ لَا تَعْلَمُوْنَ“

ترجمۂ کنز الایمان:

تم پر فرض ہوا خدا کی راہ میں لڑنا اور وہ تمہیں ناگوار ہے اور قریب ہے کہ کوئی بات تمہیں بری لگے اور وہ تمہارے حق میں بہتر ہو اور قریب ہے کہ کوئی بات تمہیں پسند آئے اور وہ تمہارے حق میں بری ہو اور اللہ جانتا ہے اور تم نہیں جانتے۔(بقرہ:216)

تفسیر روح المعانی میں مذکورہ آیت کے تحت ہے:

”كتب عليكم القتال أي قتال الكفار وهو فرض عين إن دخلوا بلادنا، وفرض كفاية إن كانوا ببلادهم“

ترجمہ:تم پر قتال فرض کیا گیا یعنی تم پر کفار سے جہاد فرض ہے اگر وہ ہمارے شہروں میں داخل ہوں(حملہ کریں) اور اگر وہ اپنے ہی شہروں میں ہوں تو فرض کفایہ ہے۔(تفسیر روح المعانی ،1/501، دارالکتب العلمیہ بیروت)

تفسیر خزائن العرفان میں اسی آیت کے تحت ہے:

{ كُتِبَ عَلَیْكُمُ الْقِتَالُ:تم پر جہاد فرض کیا گیا ہے۔} جہاد فرض ہے جب اس کے شرائط پائے جائیں اور اگر کافر مسلمانوں کے ملک پر حملہ کردیں تو جہاد فرض عین ہوجاتا ہے ورنہ فرض کفایہ۔(تفسیر خزائن العرفان،ص72، مکتبۃ المدینہ)

تفسیر صراط الجنان میں ہے:

” فرمایا گیا کہ تم پر جہاد فرض کیا گیا اگرچہ یہ تمہیں طبعی اعتبار سے ناگوار ہے اور تمہارے اوپر شاق ہے لیکن تمہیں طبعی طور پر کوئی چیز ناگوار ہونا اس بات کی علامت نہیں کہ وہ چیز ناپسندیدہ اور نقصان دہ ہے جیسے کڑوی دوائی، انجکشن اورآپریشن طبعی طور پر ناپسند ہوتے ہیں لیکن نقصان دہ نہیں بلکہ نہایت فائدہ مند ہیں۔ یونہی کسی چیز کا تمہیں پسند ہونا اس بات کی دلیل نہیں کہ وہ اچھی اور مفید ہے۔۔۔اللہ تعالیٰ نے جس چیز کا حکم دیا وہ بہرحال ہمارے لئے بہتر ہے اور جس سے منع فرمایا وہ بہرحال ہمارے لئے بہتر نہیں ہے۔ اسی سے ملتا جلتا مضمون سورۂ نساء آیت 19میں بھی ہے۔“(تفسیر صراط الجنان،پارہ2، سورہ بقرہ، آیت:216، مکتبۃ المدینہ)

اللّٰہ پاک نے ارشاد فرمایا:

”وَ مَا لَكُمْ لَا تُقَاتِلُوْنَ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰهِ وَ الْمُسْتَضْعَفِیْنَ مِنَ الرِّجَالِ وَ النِّسَآءِ وَ الْوِلْدَانِ الَّذِیْنَ یَقُوْلُوْنَ رَبَّنَاۤ اَخْرِجْنَا مِنْ هٰذِهِ الْقَرْیَةِ الظَّالِمِ اَهْلُهَا وَ اجْعَلْ لَّنَا مِنْ لَّدُنْكَ وَلِیًّا وَّ اجْعَلْ لَّنَا مِنْ لَّدُنْكَ نَصِیْرًا“

ترجمۂ کنز العرفان:اور تمہیں کیا ہوگیا کہ تم اللہ کے راستے میں نہ لڑواور کمزور مرد وں اور عورتوں اور بچوں کی خاطر (نہ لڑو جو) یہ دعا کررہے ہیں کہ اے ہمارے رب! ہمیں اس شہرسے نکال دے جس کے باشندے ظالم ہیں اور ہمارے لئے اپنے پاس سے کوئی حمایتی بنادے اور ہمارے لئے اپنی بارگاہ سے کوئی مددگار بنادے۔

تفسیر صراط الجنان میں ہے:

{وَ مَا لَكُمْ لَا تُقَاتِلُوْنَ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰهِ: اور تمہیں کیا ہوگیا کہ تم اللہ کے راستے میں نہ لڑو۔} ارشاد فرمایا گیا کہ جہاد فرض ہے اور اس کے ترک کا تمہارے پاس کوئی عذر نہیں تو تمہیں کیا ہوگیا کہ تم اللہ عَزَّوَجَلَّ کی راہ میں جہاد نہ کرو حالانکہ دوسری طرف مسلمان مرد وعورت اور بچے ظلم کی چکی میں پس رہے ہیں اور اُن کا کوئی پُرسانِ حال نہیں اور وہ ربُّ العٰلَمین عَزَّوَجَلَّ کی بارگاہ میں دعائیں مانگ رہے ہیں کہ اے اللہ!عَزَّوَجَلَّ ہمیں اس بستی کے ظالموں سے نجات عطا فرما اور ہمیں اپنے پاس سے کوئی مددگار عطا فرما۔ تو جب مسلمان مظلوم ہیں اور تم ان کو بچانے کی طاقت رکھتے ہو تو کیوں ان کی مدد کیلئے نہیں اٹھتے۔

اس آیت سے ثابت ہوا، جہاد فرض ہے، بلاوجہ جہاد نہ کرنے والا ایسا ہی گنہگار ہوگا جیسے نماز چھوڑنے والا بلکہ کئی صورتوں میں اِس سے بھی بڑھ کر ہے۔ البتہ یہ خیا ل رہے کہ جہاد کی فرضیت کی کچھ شرائط ہیں جن میں ایک اہم شرط اِستِطاعت یعنی جنگ کی طاقت ہونا بھی ہے۔ جہاد یہ نہیں ہے کہ طاقت ہو نہیں اور چند مسلمانوں کو لڑائی میں جھونک کر مروا دیا جائے۔ جہاد کبھی فرضِ عین ہوتا ہے اور کبھی فرضِ کِفایہ۔(تفسیر صراط الجنان،پارہ5، سورہ نساء،آیت:75، مکتبۃ المدینہ،کراچی)

درمختار مع ردالمختار میں ہے:

”(هو فرض كفاية) كل ما فرض لغيره فهو فرض كفاية إذا حصل المقصود بالبعض، وإلا ففرض عين ولعله قدم الكفاية لكثرته (ابتداء) وإن لم يبدءونا۔(قوله هو فرض كفاية) قال في الدر المنتقى وليس بتطوع أصلا هو الصحيح“

ترجمہ:جہاد فرض کفایہ ہے۔ فرض کفایہ وہ ہے جو غیر کی وجہ سے فرض ہو جبکہ بعض کے ذریعے مقصد حاصل ہو جائے وگرنہ(جب دشمن حملہ کرے تو) فرض عین ہے۔ اور ماتن نے فرض کفایہ کو مقدم کیا کہ یہ کثرت واقع ہے۔ فرض کفایہ ابتداءً ہے یعنی اگر کفار پہل نہ کریں۔مصنف کا قول فرض کفایہ الدر المنتقی میں فرمایا جہاد نفل تو بالکل نہیں، اور یہی صحیح قول ہے۔ (درمختار مع ردالمختار، کتاب الجہاد ،4/ 122-123، دارالفکر بیروت)

فتاوی ہندیہ میں ہے:

”قال بعضهم: الجهادقبل النفير تطوع، وبعد النفير يصير فرض عين وعامة المشايخ رحمهم الله تعالى قالوا الجهاد فرض على كل حال غير أنه قبل النفير فرض كفاية وبعد النفير فرض عين وهو الصحيح، ومعنى النفير أن يخبر أهل مدينة أن العدو قد جاء يريد أنفسكم وذراريكم وأموالكم فإذا أخبروا على هذا الوجه افترض على كل من قدر على الجهاد من أهل تلك البلدة أن يخرج للجهاد وقبل هذا الخبر كانوا في سعة من أن يخرجوا، ثم بعد مجيء النفير العام لا يفترض الجهاد على جميع أهل الإسلام شرقا وغربا فرض عين وإن بلغهم النفير، وإنما يفرض فرض عين على من كان يقرب من العدو، وهم يقدرون على الجهاد. أما على من وراءهم ممن يبعد من العدو، فإنه يفترض فرض كفاية لا فرض عين حتى يسعهم تركه، فإذا احتيج إليهم بأن عجز من كان يقرب من العدو عن المقاومة مع العدو أو تكاسلوا، ولم يجاهدوا، فإنه يفترض على من يليهم فرض عين ثم وثم إلى أن يفرض على جميع أهل الأرض شرقا وغربا على هذا الترتيب“

ترجمہ:بعض نے کہا کہ (دشمن کا)قافلہ آنے سے پہلے جہاد نفل ہے اور قافلہ کے بعد فرض عین ہے۔ اور عام مشائخ نے فرمایا کہ ہر حال میں جہاد فرض ہے علاوہ اس کے کہ(دشمن کا)قافلہ آنے سے پہلے جہاد فرض کفایہ ہے اور قافلہ کے بعد فرض عین ہے۔ اور یہی صحیح قول ہے۔ اور نفیر کا مطلب یہ ہے کہ شہر والے خبر دیں کہ دشمن تمہیں،تمہارے بچوں اور مالوں کو نقصان پہنچانے آرہا ہے، جب اس طرح خبر دی گئی تو اس شہر کے جہاد پر قدرت رکھنے والوں پر فرض ہے کہ جہاد کے لئے نکلیں۔ اور اس خبر سے پہلے انکو نکلنے کی وسعت (اجازت) تھی (یعنی فرض نہ تھا) پھر عام دشمن کا قافلہ آنے کے بعد شرق و غرب کے تمام مسلمانوں پر جہاد فرض عین نہیں، اگرچہ ان تک قافلہ پہنچ جائے ۔ بلکہ ان پر فرض ہے جو قریب والے اس کی طاقت رکھتے ہیں۔ اور جو دشمن سے دور ہیں تو ان پر فرض کفایہ ہے نہ کہ فرض عین لہذا ترک کی اجازت ہے۔ اور جب حاجت ہو باین طور پر کہ قریب والے دشمن کے مقابلے سے عاجز آجائیں یا سستی کریں اور جہاد نہ کریں تو جو ان سے قریب ہیں ان پر فرض عین ہو گا اور یہ نہ کریں تو ان کے قریب والوں پر فرض عین ہے۔ اسی ترتیب پر یہاں تک کہ شرق و غرب میں تمام اہل زمین پر فرض ہو جائے گا۔(فتاوی ہندیہ،کتاب السیر ،جلد2،صفحہ188، دارالفکر بیروت)

بہار شریعت میں ہے:

”جہاد ابتداءً فرض کفایہ ہے کہ ایک جماعت نے کرلیا تو سب بری الذمہ ہیں اور سب نے چھوڑ دیا توسب گنہگار ہیں اور اگر کفار کسی شہر پر ہجوم کریں (اچانک حملہ کر دیں) تو وہاں والے مقابلہ کریں اور اون میں اتنی طاقت نہ ہو تو وہاں سے قریب والے مسلمان اعانت کریں(مددکریں) اور ان کی طاقت سے بھی باہر ہو تو جو ان سے قریب ہیں وہ بھی شریک ہوجائیں. وعلیٰ ہذا القیاس۔“(بہار شریعت،حصہ9،کتاب السیر،مسئلہ:3،مکتبۃ المدینہ)

حبیب الفتاوی میں ہے:

”شرعاً جہاد دین حق کی طرف بلانا ہے اور جو اسے نہ قبول کرے اس سے جنگ کرنا ہے۔ جہاد کے لئے پیش قدمی کرنا اگرچہ کفارپیش قدمی نہ کریں، فرض کفایہ ہے۔ اگر بعض نے پیش قدمی کر کے اس فرض کوادا کردیا تو سب سے ساقط ہوگیا۔ ورنہ سب گناہ گار ہوئے۔ دشمن حملہ کردے تو جہاد فرض عین ہوجاتا ہے۔ ہر شخص بلا اجازت نکلے گا۔ شوہر وغیرہ نے اگر منع کیا تو گناہ گار ہوگا۔ فرضیت جہاد کے لئے استطاعت ضروری ہے۔“(حبیب الفتاوی،ج4، ص333)

ردالمحتار میں ہے

’’ لأن الحدید وإن لم تقم المعصیۃ بعینہ لکن إذا کان بیعہ ممن یعملہ سلاحا کان فیہ نوع إعانۃ ‘‘

ترجمہ: اس لیے کہ فقط لوہا بیچنے میں اگرچہ معصیت اس کے عین کے ساتھ قائم نہیں لیکن جب بیع اس کے ساتھ ہوجو اس لوہے کو ہتھیار کے طور پر استعمال کرے گا تو اس میں تعاون کا ایک پہلو موجود ہے۔ (ردالمحتار ،کتاب الجہاد،مطلب فی کراھۃ بیع ما تقوم المعصیۃ بعینہ،جلد6،صفحہ409،مکتبہ ،کوئٹہ)

فتاوی رضویہ میں امام احمد رضا خان علیہ رحمۃ الرحمن سے سوال ہوا:

”مخزن علوم حقانی وربانی ادام اﷲفیوضہم،تسلیم بعد تعظیم میری اہلیہ عرصہ سے ہر سال حضرت غوث الاعظم کی گیارھویں میں سوامن بریانی پکواکر نیاز دلاتی ہے اور مساکین کو تقسیم کی جاتی ہے کیا ایسا ہوسکتا ہے کہ یہ رقم امسال شہداء ویتامیٰ عساکر عثمانیہ کی امداد کے لیے بھیجی جائے اور گیارہویں شریف معمولاًقدرے شیرینی یا طعام پر دلادی جائے؟

جوابا اعلیٰ حضرت مجاہدین کی خدمت کرنے کا ذہن دیتے ہوئے فرماتے ہیں:

” اگر دونوں باتیں نہ ہوں تو یہی بہتر ہے کہ قدرے نیاز دے کر وُہ تمام قیمت امداد مجاہدین میں بھیج دی جائے اور اس کا ثواب بھی نذرِرُوح اقدس حضرت سیّدنا غوثِ اعظم رضی اﷲتعالیٰ عنہ کو کیا جائے۔واﷲ تعالیٰ اعلم۔“(فتاوی رضویہ،جلد10،صفحہ327،رضافاؤنڈیشن،لاہور)

واللّٰہ تعالیٰ اعلم و رسولہ اعلم باالصواب

صلی اللّٰہ تعالیٰ علیہ و آلہ و اصحابہ و بارک و سلم

ابوالمصطفٰی محمد شاہد حمید قادری

1ربیع الثانی 1445ھ17اکتوبر2023ء

نظرثانی و ترمیم:

مفتی محمد انس رضا قادری

اپنا تبصرہ بھیجیں