یہ کہنا کہ اللہ عزوجل اپنے محبوب کی نماز پڑھتا ہے

یہ کہنا کہ اللہ عزوجل اپنے محبوب کی نماز پڑھتا ہے

کیا فرماتے ہیں علماء دین و مفتیان شرع متین اس بارے میں کہ ایک شخض نے کہا اللہ عزوجل داعی ہے، ہمیں حکم دیتا ہے کہ میری نماز پڑھو اور خوداپنے محبوب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نماز پڑھتا ہے۔لوگوں کو کہتا ہے کہ گھر میں پوچھ کر جایا کرو اور خود بغیر پوچھے آجاتا ہے۔ دوسرا شخص اس پر کہتا ہے کہ دیکھا کیسی زبردست بات کی ہے۔ ان دونوں پر کیا حکم ہے؟

بسم اﷲ الرحمن الرحیم

الجواب بعون الوہاب اللہم ہدایۃالحق والصواب

یہ جملے بولنے والا اور جس نے ان کی تائید کی دونوں پر توبہ لازم ہے اور احتیاطا تجدید ایمان بھی کریں ۔اللہ عزوجل کا نبی پر درود بھیجنےکا یہ مطلب نہیں کہ وہ اپنے محبوب کی معاذ اللہ نماز پڑھتا ہے کیونکہ نماز ایک عبادت ہے اور اللہ عزوجل عبادت کرنے سے پاک ہے۔ اللہ عزوجل کے درود بھیجنے سے مراد رحمت بھیجنا ہے۔نیز قائل کا یہ کہنا کہ ”اللہ عزوجل بغیر پوچھے گھر آجاتا ہے “اس جملے سے مراد قائل کی ہوسکتا ہے علم و قدرت ہو لیکن یہ الفاظ بظاہر جسم و جہت کے معنی دے رہے ہیں جو اللہ عزوجل کے لیے کہنا جائز نہیں بلکہ کفر ہے۔

تفسیر کبیر میں امام رازی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں

’’أن إلہ العالم یجب أن یکون غنیاً عن کل ما سواہ ، ویکون کل ما سواہ محتاجاً إلیہ ، فلو کان عیسی کذلک لامتنع کونہ مشغولاً بعبادۃ اللہ تعالی ، لأن الإلہ لا یعبد شیئاً ، إنما العبد ہو الذی یعبد الإلہ‘‘

ترجمہ:الہ العالمین کے لئے واجب ہے کہ وہ اپنی ذات کے علاوہ ہر کسی سے بے نیاز ہو اور ہر کوئی اس کا محتاج ہو۔ اگر حضرت عیسیٰ علیہ السلام خدا ہوتے تو ضروراللہ عزوجل کی عبادت میں مشغول نہ ہوتے۔ اس لئے کہ خدا کسی کی عبادت نہیں کرتا بلکہ بندہ خدا کی عبادت کرتا ہے۔ (تفسیر کبیر، فی التفسیر، سورۃ المائدہ،سورت5،آیت76،جلد4،صفحہ410،مکتبہ علوم اسلامیہ،لاہور)

تفسیر صاوی میں ہے

” الصلاة من الله على نبيه، ورحمته المقرونة بالتعظيم ۔۔۔والصلاة من الملائكة الدعاء للنبي بما يليق به “

ترجمہ: اللہ تعالیٰ کے درود بھیجنے سے مراد ایسی رحمت فرمانا ہے جو تعظیم کے ساتھ ملی ہوئی ہو اور فرشتوں کے درود بھیجنے سے مراد ان کا ایسی دعا کرنا ہے جو رسولِ کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی شان کے لائق ہو۔(تفسیر صاوی، الاحزاب، تحت الآیۃ: 56،صفحہ1511)

(صاوی، / ۱۶۵۴)

فتاوٰی تاتارخانیہ میں ہے

’’وان اراد بذلک اثبات الجسد والمکان یکفر ‘‘

ترجمہ: اگر اس سے اس نے جسم و مکان کا ارادہ کیا تو اس کی تکفیر کی جائے گی۔ (الفتاوٰی التاتارخانیہ،کتاب السیر، فصل فی ذکر المکان للہ تعالیٰ،جلد5،صفحہ316، قدیمی کتب خانہ ،کراچی)

واللہ اعلم عزوجل ورسولہ اعلم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم

کتبـــــــــــــــــــــــــــہ

ابو احمد مفتی محمد انس رضا قادری

10صفر المظفر 1445ھ28اگست 2023ء

اپنا تبصرہ بھیجیں