حل میں رہنے والے کے لیے احرام باندھنے کا حکم

کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام اس مسئلے کے بارے میں کہ اگر کوئی شخص حل کے اندر اور حرم کے باہر رہتا ہو اور پاکستان میں چھٹی گزار کر آجائے تو کیا اس کو عمرہ ادا کرنے کے لئے میقات پہ جانا لازم ہوگا؟

بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

پوچھی گئی صورت کا حکم یہ ہے کہ ایسے شخص کو عمرہ ادا کرنے کے لئے میقات پہ جانا لازم نہیں، اس لئے کہ جو لوگ حل میں یعنی میقات کے اندر اور حدودِ حرم سے باہر رہنے والے ہیں ان کے لئے عمرے کے احرام کا حکم یہ ہے کہ بیرونِ حرم کہیں سے بھی احرام باندھ سکتے ہیں اور گھر سے احرام باندھنا ان کے لئے افضل ہے۔

حضرت علامہ ابو الحسن علی بن ابی بکر مرغینانی حنفی ھدایہ شریف میں لکھتے ہے:

ومن کان داخل المیقات فوقته الحل معناه الحل الذي بين المواقيت… الخ.

ترجمہ: اور جو شخص میقات کے اندر رہتا ہے تو اسکی میقات حل ہے، اس کا معنی یہ ہے کہ وہ حل جو مواقیت (خمسہ) اور (حرم) کے درمیان ہے۔ (ھدایہ، کتاب الحج، فصل فی المواقیت التی لایجوز ان یتجاوزھا الانسان الا محرما، جلد2، صفحہ161، مطبوعہ کراچی)

محیط برہانی میں ہے: وأما من كان أهله في الميقات، أو داخل الميقات إلى الحرم، فميقاتهم للحج والعمرة الحل الذي بين المواقيت والحرم حتى لو أخر الإحرام إلى الحرم جاز؛ لأنه جاز لهم الإحرام من دويرة أهلهم

ترجمہ: بہرحال جس کے گھر والے میقات میں یا میقات کے اندر کسی جگہ رہتے ہوں تو حج و عمرہ کے لئے ان کی میقات حل ہے، حل سے مراد وہ جگہ ہے کہ جو مواقیت اور حرم کے درمیان واقع ہے حتی کہ اگر ان میں سے کسی شخص نے حرم تک احرام باندھنے کو مؤخر کیا تو یہ ان کے لئے جائز ہے کیونکہ ان کے لئے اپنے گھروں سے احرام باندھنا جائز ہے۔ (محیط برہانی، کتاب الحج، الفصل الرابع فی بیان مواقیت۔۔۔الخ، جلد2، صفحہ434، دارالکتب العلمیہ، بیروت)

صدرالشریعہ بدرالطریقہ حضرت علامہ مولانا مفتی محمد امجد علی اعظمی علیہ رحمۃ اللہ القوی لکھتے ہیں:

”جو لوگ میقات کے اندر کے رہنے والے ہیں مگر حرم سے باہر ہیں اُن کے احرام کی جگہ حل یعنی بیرونِ حرم ہے، حرم سے باہر جہاں چاہیں احرام باندھیں اور بہتر یہ کہ گھر سے احرام باندھیں۔

(بہارِ شریعت، جلد1، صفحہ 1068، مکتبۃ المدینہ)

واللّٰه تعالی اعلم بالصواب۔

کتبه: ندیم عطاری مدنی حنفی۔

نظر ثانی: ابو احمد مفتی انس رضا قادری۔

اپنا تبصرہ بھیجیں