بکرے کی قیمت صدقہ کرنے میں کونسے دن کا اعتبار ہوگا؟

بکرے کی قیمت صدقہ کرنے میں کونسے دن کا اعتبار ہوگا؟

کیا فرماتے ہیں علماء دین و مفتیان شرع متین اس بارے میں کہ قربانی واجب ہونے کے باوجودنہ کرنے کی صورت میں اس کی جگہ پرصدقہ دیاجائے گادریافت طلب امریہ ہے کہ جوصدقہ کیاجائے اس میں کس قیمت کااعتبار ہوگا؟قربانی کے ایام میں جوریٹ تھااس کااعتبار ہوگایاجس وقت صدقہ دیاجائے اس وقت کے ریٹ کاحساب ہوگا؟

بسم اﷲ الرحمٰن الرحیم

الجواب بعون الوہاب اللہم ہدایۃالحق والصواب

قربانی کے ایام گزرنے کے بعد چوتھے دن جو بکری کی قیمت ہو اس کا اعتبار کیا جائے گا ۔اصل کلی یہ ہے کہ کفارہ اگر عین جانور کا ہو تو اس میں یوم الادا کا اعتبار ہے اور جانوروں کے علاوہ کفارات میں یوم وجوب کا اعتبار ہے۔ جانوروں کی زکوٰۃ میں جانوروں کی قیمت نہیں دیکھی جاتی بلکہ عین جانور کی زکوٰۃ لازم ہوتی ہے چاہے جانوروں کی قیمت دوسو درہم سے کم ہے۔ ہمارے مسئلہ میں کفار ہ عین بکری کا نہیں بلکہ اس کی قیمت کا ہے اس لئے یوم وجوب کا اعتبار ہوگا۔

درمختار میں ہے

’’(وجاز دفع القیمۃ فی زکاۃ وعشر وخراج وفطرۃ ونذر وکفارۃ غیر الإعتاق) وتعتبر القیمۃ یوم الوجوب، وقالا یوم الأداء.وفی السوائم یوم الأداء إجماعا وہو الأصح‘‘

ترجمہ: عتاق کے علاوہ زکوٰۃ، عشر، خراج، صدقہ فطر، نذرمیں کفار ہ میں قیمت کا دینا جائز ہے اور قیمت یوم وجوب کے اعتبار سے ہوگی اور صاحبین کی رائے کے مطابق یومِ ادا کی قیمت کا اعتبار کیا جائے گا۔سوائم میں اجماعا یوم اداء کا اعتبا ر ہوگا ۔یہی زیادہ صحیح ہے۔

ردالمحتار میں ہے

’’(قولہ فی زکاۃ إلخ) قید بالمذکورات؛ لأنہ لا یجوز دفع القیمۃ فی الضحایا والہدایا والعتق؛ لأن معنی القربۃ إراقۃ الدم ۔۔۔ولا یخفی أنہ مقید ببقاء أیام النحر، أما بعدہا فیجوز دفع القیمۃ کما عرف فی الأضحیۃ. اہ‘‘

ترجمہ: ان کا فرمان زکوۃ میں الخ اس میں مذکورات کی قید لگائی کیونکہ قربانی ،ہدی کے جانور اور عتق میں قیمت دینا جائز نہیں ہے کیونکہ وہاں خون بہانا قربت ہے ۔یہ مخفی نہ رہے کہ یہ مقید ہے ایام نحر کے دنوں تک باقی بعد میں قیمت ادا کرناجائز ہے جیسا کہ قربانی میںمعلوم ہے۔(درمختار مع ردالمحتار ،کتاب الزکوٰۃ،باب زکوٰۃ الغنم،جلد2،صفحہ286،دارالفکر،بیروت)

المحیط البرہانی میں ہے

’’أن الواجب عند أبی حنیفۃ یوم حولان الحول فی مال التجارۃ أحد الشیئین بالعین أو القیمۃ، لأن القیمۃ یوم حولان الحول معتبرۃ بالإجماع حتی إن قیمۃ الحنطۃ إن کانت أقل من مائتی درہم، لا تجب الزکاۃ والعین أیضاً معتبرۃ، لأن قیمۃ الشیء مالیتہ، والمالیۃ تقوم بالعین، ومالیۃ ہذا العین تقوم بعین آخر، وکان کل واحد معتبراً أصلاً، وکل واحد منہما صالح للخروج عن عہدۃ الواجب، وکان الواجب أحدہما لا بعینہ، فثبت أن الواجب أحد الشیئین إذا اختار أحدہما، فجعل ما اختار کأنہ ہو الواجب من الأصل دون غیرہ.

وإذا صار الواجب من الأصل ہو القیمۃ، حتی اختار أداء ہا لا یتغیر الواجب عند ذلک بتغیر السعر، وہذا القائل یقول بأن مسألۃ السوائم علی الوفاق، والفرق علی قول ہذا القائل بین السوائم وبین عروض التجارۃ أن القیمۃ فی السوائم یوم حولان الحول غیر معتبرۃ للوجوب، إنما المعتبر ہو العین؛ ألا تری لو کان لہ خمس من الإبل لا تساوی مائتی درہم تجب الزکاۃ‘‘(المحیط البرہانی،کتاب الزکوٰۃ،الفصل الثالث فی بیان مال الزکاۃ،جلد2،صفحہ249، دار الکتب العلمیۃ، بیروت)

ایک سوال کاجواب دیتے ہوئے مفتی محمدامجدعلی اعظمی علیہ رحمۃا للہ القوی فرماتے ہیں :’’عموماًیہ دیکھاجاتاہے کہ عیدالاضحی کے چندروزقبل سے جانوروں کی قیمتیں خریداروں کی کثرت کی وجہ سے زیادہ ہوجایاکرتی ہیں اورایام نحرگزرنے کے بعد قیمتیں کم ہوجاتی ہیں پس صورت مسئولہ میں کرناتویہ چاہئے تھاکہ زندہ جانورکوصدقہ کردیتااگروہ فقیرہے یااس نے اس معین جانورکی قربانی اپنے ذمہ واجب کی ہے مگراس کواگرفروخت کرڈالاہے تواتنے داموں میں فروخت کیاکہ اس وقت بازارکایہی نرخ تھانرخ بازار سے کم میں نہیں فروخت کیاہے توانھیں داموں کاصدقہ کردیناکافی ہے اوراگراس روزجونرخ تھااس سے کم پربیچاہے توجتنی کمی ہے اسے بھی صدقہ کردے۔‘‘

(فتاوی امجدیہ،جلد3،صفحہ333،مکتبۃ رضویہ ،کراچی)

واللہ اعلم ورسولہ عزوجل و صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ واصحابہ وبارک وسلم

کتبہ

ابواحمد مفتی محمد انس رضا قادری

05ذوالحجہ 1444ھ 24 جون2023ء

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اپنا تبصرہ بھیجیں