شوال میں عمرہ کرنے پر حج فرض ہونا

شوال میں عمرہ کرنے پر حج فرض ہونا

سوال:کیا فرماتے ہیں علمائے کرام کہ اگر کوئی حج کےمہینوں میں یعنی شوال ،ذوالقعدہ وغیرہ میں عمرہ کرے تو کیا اس پر حج فرض ہوجاتا ہے؟

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم

الجواب بعون الملک الوھاب اللھم ھدایۃ الحق والصواب

حج کے مہینوں میں فقط عمرہ کرنے سے حج فرض نہیں ہوتا بلکہ حج کی دیگرشرائط دیکھی جائیں گی۔ مثلا مکہ میں ایام حج تک رہنے،اور واپس گھر آنے تک کے اخراجات،اور گھر آنے تک اہل و عیال کہ جن کا نفقہ اس پر واجب ہے اور دیگر سرکاری اخراجات وغیرہ کے لیے پیسے ہونا۔ ان کے اخراجات پرقادر ہے تو حج فرض ہے ورنہ اس پر حج فرض نہیں کیونکہ حج فرض ہونے کے لیے یہ قدرت و استطاعت شرط ہے۔نیز اسی سال اگر وہاں کے قانون کے مطابق اجازت لے حج کرنے میں کامیاب ہو جاتا ہے تو فبہا ورنہ آئندہ سال یہ حج کی ادائیگی لازمی بجا لائے۔

اللہ تعالیٰ ارشادفرماتا ہے:

”وَلِلّٰہِ عَلَی النَّاسِ حِجُّ الْبَیْتِ مَنِ اسْتَطَاعَ اِلَیْہِ سَبِیْلاً “

ترجمہ کنزالایمان:اوراللہ کے لیے لوگوں پراس گھرکاحج کرناہے جواس تک چل سکے۔ (سورہ اٰل عمران،پاره 4، آیت97)

اس آیت کے تحت حضرت صدرالافاضل مفتی سید محمد نعیم الدین مرادآبادی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ ارشادفرماتے ہیں:

” اس آیت میں حج کی فرضیت کابیان ہے اوراس کاکہ استطاعت شرط ہے ۔حدیث شریف میں سید عالم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم نے اس کی تفسیرزاد و راحلہ سے فرمائی زادیعنی توشہ کھانے پینے کانتظام اس قدرہوناچاہئے کہ جاکرواپس آنے تک کے لیے کافی ہواوریہ واپسی کے وقت تک اہل وعیال کے نفقہ کے علاوہ ہوناچاہئے ۔“(خزائن العرفان فی تفسیرالقرآن،ص126،مکتبۃ المدینہ)

ملتقی الابحرمیں حج کی شرائط بیان کرتے ہوئے فرمایا:

” وقدرة زاد وراحلة ونفقة ذهابه وأيابه فضلت عن حوائجه الأصلية و نفقة عياله إلى حين عوده“

ترجمہ: اور(حج کی شرائط میں سے ہے) سامان سفراورسواری اورآنے جانے کے نفقہ پرقدرت ہوناجوکہ اس کی حاجات اصلیہ سے زائدہواوراس کی واپسی تک اس کے عیال کے نفقہ پرقدرت ہونا۔(ملتقی الابحرمع مجمع الانھر،کتاب الحج،ج01، ص383،386،مطبوعہ کوئٹہ)

بہار شریعت میں ہے:

”سفر خرچ اور سواری پر قادر ہونےکے یہ معنی ہیں کہ یہ چیزیں اُس کی حاجت سے فاضل ہوں یعنی مکان و لباس و خادم اور سواری کا جانور اور پیشہ کے اوزار اور خانہ داری کے سامان اور دَین سے اتنا زائد ہو کہ سواری پر مکہ معظمہ جائے اور وہاں سے سواری پر واپس آئے اور جانے سے واپسی تک عیال کا نفقہ اور مکان کی مرمت کے لیے کافی مال چھوڑجائے اور جانے آنے میں اپنے نفقہ اور گھر اہل وعیال کے نفقہ میں قدرِ متوسط کا اعتبار ہے نہ کمی ہو نہ اِسراف۔عیال سے مراد وہ لوگ ہیں جن کا نفقہ اُس پر واجب ہے، یہ ضروری نہیں کہ آنے کے بعدبھی وہاں اور یہاں کے خرچ کے بعد کچھ باقی بچے۔“(بہارشریعت،ج1،حصہ6،ص 1039،1040،مکتبۃ المدینہ)

فیصلہ جات شرعی کونسل میں درج ہے:

” جوغنی مکہ مکرمہ میں ہے اورایام حج تک وہاں ٹھہرنے کاویزانہیں اورشوال کاہلال ہوچکاہوتوشرائط وجوب اداپائے جانے کی وجہ سے اس پرحج کی ادائیگی واجب ہوگی اوروہ حکم محصر میں ہوگااورمنع من السلطان کی وجہ سے وہ سال رواں حج نہ کرسکے توگنہگارنہ ہوگا،البتہ سال آئندہ ادائیگی حج لازم ہوگی۔“(فیصلہ جات شرعی کونسل،ص234،مرکزالدراسات الاسلامیۃ جامعۃ الرضا،بریلی شریف)

واللہ تعالی اعلم باالصواب

محمد شاہد حمید

22 مئی 2023

اپنا تبصرہ بھیجیں