عمرہ کرنے کے بعد مکمل حلق کروانے سے پہلے اپنے ملک واپس آجانا

عمرہ کرنے کے بعد مکمل حلق کروانے سے پہلے اپنے ملک واپس آجانا

کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیانِ شرعِ متین اس بارے میں کہ زید نے دو عمرے ادا کیے اور حلق بھی کروایا، اب تیسرے عمرے میں سارے ارکان مکمل کرنے کے بعد دوران حلق استرے کے ذریعے چوتھائی سر سے بھی کم مقدار کے بال مونڈے، تو کیا اس صورت میں حلق ہوگیا۔ اگر نہیں تو اب زید کے لیے کیا حکم ہے جبکہ وہ اپنے وطن (اٹلی) واپس آ چکا ہے؟ نیز کیا حلق اور تقصیر دونوں میں چوتھائی سر کی مقدار لازم ہے؟

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم

الجواب بعون الملک الوھاب اللھم ھدایۃ الحق وا لصواب

صورتِ مسئولہ میں زید پر دو دم لازم ہوں گے، ایک دم اس لیے کہ عمرے کے ارکان ادا کر لینے کے بعد احرام سے باہر ہونے کے لیے حلق یا تقصیر کروانا واجب ہے، حلق سے مراد کم از کم چوتھائی سر کے بال مونڈنا اور تقصیر سے مراد کم از کم سر کے چوتھائی حصہ کے بال ایک پورے کی مقدار اتارنا ؛ چونکہ تیسرے عمرے کے وقت اس کے بال قابل تقصیر نہ تھے اس لیے زید تقصیر نہیں کروا سکتا تھا۔ ایسی صورت میں اس پر حلق کروانا (اگر حلق کے قابل بھی بال نہ ہوں تو استرا پھروانا) لازم تھا اور اس کی لازم مقدار چوتھائی سر تھی، لہذا چوتھائی سے کم سر منڈوانے کی وجہ سے حلق والا واجب ادا نہ ہوا، جس کے باعث زید احرام کی پابندیوں سے باہر ہی نہ نکلا، اور اس پر احرام کی پابندیاں بدستور لاگو رہیں۔ لہذا جب زید سے اسی حالت میں ممنوعاتِ احرام میں سے کسی چیز کا ارتکاب ہو گیا جیسے چار پہر سلے ہوئے کپڑے پہن لیے تو اس پر ایک دم لازم ہو گیا۔ اب چونکہ احرام کے ممنوعات میں سے پہلی خلاف ورزی زید نے یہ سمجھ کر کی تھی کہ اب میں احرام سے باہر ہوں، اور اس کے بعد خلاف ورزیوں کا سلسلہ جاری رکھا مثلاً سلے کپڑے پہنتا رہا، خوشبو استعمال کرتا رہا، اور معمول کی زندگی گزارنا شروع کر دی تو اس صورت میں بقایا ہر ہر خلاف ورزی پر الگ الگ جنایت شمار نہیں ہوگی بلکہ وہی ایک دم جو پہلی جنایت پر لازم ہوا تھا، کافی ہوگا۔ اگر پہلی خلاف ورزی کے وقت رِفض یعنی احرام ختم کرنے کی نیت نہ پائی جاتی تو ہر خلاف ورزی پر الگ الگ جنایت ہوتی اور الگ الگ اتنے ہی دم لازم ہوتے۔ البتہ زید پر دوسرا دم اس لیے لازم ہوگا کیونکہ ابھی بھی زید پر حلق کروانا واجب ہے کہ اس کا وقت عمر بھر ہوتا ہے، اور چونکہ زید اٹلی واپس آ چکا ہے تو اب حلق کروانے کی صورت میں حلق حدودِ حرم کے باہر واقع ہو گا جبکہ حلق یا تقصیر کا حرم کے اندر ہونا واجب ہے، پس اس واجب کے ترک کرنے پر ایک دم دینا لازم ہوگا۔

یادرہے! حلق یا تقصیر میں چوتھائی سر کی مقدار ضروری ہے، یعنی حلق میں کم از کم چوتھائی سر گنجا کروانا واجب ہے، جبکہ پورے سر کا حلق سنت ہے۔ یوں ہی تقصیر میں بھی کم از کم چوتھائی سر کے بالوں میں سے ہر بال اُنگلی کے ایک پورے کے برابر یعنی تقریباً ایک اِنچ کاٹ لیا جانا واجب اور پورے سر کے بالوں کی تقصیر سنت ہے۔

یہ بھی ذہن نشین رہے کہ عمرے میں دم لازم ہونے سے مراد کسی جنایت کی وجہ سے بکرے، بکری یا بھیڑ وغیرہ کی قربانی کا واجب ہو جانا ہے۔ اگر کسی پر دَم واجب ہوا تو اس پر دَم کی ادائیگی واجب ہوگی، ہاں! فوری ادائیگی واجب نہیں بلکہ تاخیر کرنا بھی جائز ہے اس میں کوئی گناہ نہیں، البتہ بہتر یہی ہے کہ جلد از جلد دم ادا کر دے۔ نیز یہ دم وغیرہ کفارے کی قربانی حرم ہی میں کی جاسکتی ہے، پاکستان، اٹلی وغیرہ ،غیر حرم میں نہیں ہوسکتی۔ اگر زید اب حرم میں خود جاکر ادا نہیں کرسکتا تو کسی کو رقم دے کر حرم میں دَم ادا کرنے کے لیے وکیل کر دے اور وہ شخص حرم میں اس کی طرف سے دَم ادا کردے۔

علامہ رضی الدین محمد بن محمد السرخسی ﷫ (المتوفی:571ھ/1175ء) لکھتے ہیں:

”وأما واجباتها: فالسعي بين الصفا والمروة والحلق أو التقصير“

ترجمہ: بہر حال عمرے کے واجبات؛ صفا و مروہ کے درمیان سعی کرنا اور حلق یا تقصیر کروانا ہیں۔(المحیط الرضوی، کتاب الحج، باب الحلق والتقصير، جلد نمبر 2، صفحه نمبر 188، مطبوعه: دار الكتب، پشاور)

علامہ زين الدين بن ابراہيم ابن نجیم مصری ﷫ (المتوفی: 970ھ/1562ء)لکھتے ہیں:

”والمراد بالحلق إزالة شعر ربع الرأس ‌إن ‌أمكن … والمراد بالتقصير أن يأخذ الرجل أو المرأة من رءوس شعر ربع الرأس مقدار الأنملة “

ترجمہ: اور حلق سے مراد ممکنہ صورت میں سر کے چوتھائی حصے کے بال (مونڈ کر) ختم کر دینا۔ … اور تقصیر سے مراد یہ ہے کہ مرد یا عورت اپنے چوتھائی سر کے بالوں کے سروں سے ایک پورے کی مقدار اتار لیں۔(البحر الرائق شرح کنز الدقائق، کتاب الحج، باب احرام، جلد نمبر 2، صفحه نمبر 372، مطبوعه: دار الكتاب الإسلامي)

خاتم المحققین علامہ ابن عابدين سید محمد امين بن عمر شامی حنفی ﷫ (المتوفى: 1252ھ/1836ء) لکھتے ہیں:

”لو اقتصر على حلق الربع جاز كما في التقصير، لكن مع الكراهة لتركه السنة فإن السنة حلق ‌جميع ‌الرأس أو تقصير جميعه“

ترجمہ: اگر محرم نے چوتھائی سر کے حلق ہر اکتفا کیا تو جائز ہے، جیسے کہ تقصیر میں (کہ چوتھائی سر کی تقصیر پر اکتفا جائز ہے) لیکن یہ جواز کراہت کے ساتھ ہے کیونکہ پورے سر کا حلق یا پورے سر کی تقصیر سنت ہے۔(رد المحتار علی الدر المختار، کتاب الحج، جلد نمبر 2، صفحه نمبر 516، مطبوعه: دار الفکر، بیروت)

علامہ نور الدین ملا علی قاری حنفی ﷫ (المتوفی: 1014ھ/1605ء) لکھتے ہیں:

” (ولو تعذّر …التقصیر) أی: تعذّر لکون الشعر قصیراً (تعیّن الحلق)“

ترجمہ: اور اگر تقصیر کروانا بالوں کے (ایک پورے سے) چھوٹے ہونے کی وجہ سے متعذر ہو تو حلق متعین ہو جائے گا۔(شرح لباب المناسک، باب مناسك منى، فصل فی الحلق والتقصیر، صفحه نمبر 324 ملتقطا، مطبوعه: المکتبۃ الامدادیۃ، المکۃ المکرمۃ)

علامہ ملا رحمۃ اللہ سندی حنفی ﷫ (المتوفی: 993ھ/1585ء)لکھتے ہیں:

”ومن لا شعر لہ علی رأسہ یجری الموسی علی رأسہ وجوباً ھو المختار“

ترجمہ: اور جس کے سر پر بال ہی نہ ہوں تو اس کے سر پر استرا پھیر دیا جائے گا وجوبی طور پر، یہی مختار قول ہے۔(لباب المناسک، باب مناسك منى، فصل فی الحلق والتقصیر ، صفحه نمبر 154 ، مطبوعه: دار قرطبه، بیروت)

علامہ الحاج مخدوم محمد ہاشم ٹھٹھوی حنفی﷫ (المتوفی: 1174ھ/1161ء) لکھتے ہیں:

” شرط خروج از احرام حج و عمرہ حلق ربع سر یا قصر ربع اوست در وقت حلق، پس اگر حلق و قصر ننمود بیرون نیا ید از احرام اگر چہ بگذرند بروئے سالہائے بسیار “

ترجمہ:حج و عمرہ کے احرام سے نکلنے کی شرط حلق کے وقت پر چوتھائی سر کا حلق یا قصر کروانا ہے، لہذا اگر کسی شخص نے نہ ہی سر منڈوایا اور نہ ہی قصر کروایا تو وہ احرام سے باہر نہیں نکلے گا، خواہ اسے کتنے ہی سال گزر جائیں۔(حیاۃ القلوب فی زیارۃ المحبوب، باب اول، فصل دہم در بیان کیفیت خروج از احرام، صفحه نمبر 27-28 ، مخطوطه)

علامہ رحمۃ اللہ سندی حنفی ﷫ (المتوفی: 993ھ/1585ء)لکھتے ہیں:

”فصل فی ارتکاب المُحرِم المَحظُورَعلی نیّۃ رفض الإحرام… ویجب دم واحد لجمیع ماارتکب ولو فعل کلّ المحظورات“

ترجمہ: محرم کے رفضِ احرام کی نیت سے ممنوع کام کا ارتکاب کرنے کے متعلق فصل؛… اور رفض احرام کی نیت سے ممنوع کام کا ارتکاب کرنے والے پر ایک ہی دم لازم ہوگا ان تمام جنایات کے عوض جن کا وہ (اس کے بعد) مرتکب ہوا، اگرچہ وہ تمام ممنوعاتِ احرا م کام کر لے۔(لباب المناسک، باب فى جزاء الجنايات وكفاراتها، فصل فی ارتکاب المحرم المحظور، صفحه نمبر 253 ، مطبوعه: دار قرطبه، بیروت)

محقق اہل سنت، ماہر امور مناسک مولانا ابو محمد مفتی علی اصغر عطاری ﷾ لکھتے ہیں:

”جس نے احرام سے باہر ہونے کے لیے حلق یا تقصیرکو اختیار نہیں کیا وہ بدستور حالتِ احرام میں ہی رہے گا۔ حج اور عمرہ دونوں کے احرام کے بعد عمومی حالات میں یہی حکم ہے۔ کسی نے بغیر حلق یا تقصیر کئے لباس وغیرہ پہن لیا اور احرام کی خلاف ورزیاں شروع کر دیں تو اگر پہلی خلاف ورزی یہ سمجھ کر کی گئی کہ اب میں احرام سے باہر ہوں اور اس کے بعد خلاف ورزیوں کا تسلسل جاری رہا مثلاً خوشبو استعمال کی، چہرہ چھپایا وغیرہ ذٰلک اور معمول کی زندگی شروع کر دی اور خوب خلاف ورزیاں کیں تو اس صورت میں بقایا ہر ہر خلاف ورزی پر الگ الگ جنایت نہیں ہوگی۔ بلکہ مجموعی طور پر زیادہ سے زیادہ ایک ہی دَم ہوگا۔ اور اگر رِفْض یعنی احرام ختم کرنے کی نیت نہیں پائی گئی تھی تو ہر خلاف ورزی پر الگ الگ جنایت ہوگی۔“(27 واجبات حج و تفصیلی احکام، صفحه نمبر 121 ، مطبوعه: مکتبة المدینه، کراچی)

علامہ ملا رحمۃ اللہ سندی حنفی ﷫ (المتوفی: 993ھ/1585ء)لکھتے ہیں:

”لو حلق فی الحل … فعلیہ دم“

ترجمہ: اگر محرم نے حل میں حلق کیا تو اس پر دم لاز م ہوگا۔(لباب المناسک، باب الجنايات وأنواعها، فصل فى الذبح والحلق، صفحه نمبر 220 ، مطبوعه: دار قرطبه، بیروت)

علامہ نور الدین ملا علی قاری حنفی ﷫ (المتوفی: 1014ھ/1605ء) لکھتے ہیں:

”أمّا الزمان فی حلق المعتمر فلا یتوقّت بالاجماع “

ترجمہ: جہاں تک عمرہ کرنے والے کے حلق کی (انتہائی) مدت کا سوال ہے تو بالاجماع اس کے لیے کوئی (آخری وقت) متعین نہیں (یعنی جب بھی کرے گا ادا ہو جائے گا۔)(شرح لباب المناسک، باب مناسك منى، فصل فی زمان الحلق ومكانه …، صفحه نمبر 325، مطبوعه: المکتبۃ الامدادیۃ، المکۃ المکرمۃ)

محقق اہل سنت، مولانا ابو محمد مفتی علی اصغر عطاری ﷾ لکھتے ہیں:

”جنایت در اصل جُرم یا غلطی کرنے کو کہتے ہیں اور حج و عمرہ میں ہونے والی غلطیوں پر مختلف طرح کے کفارے مقرر کیے گئے ہیں۔ واجبات چھوڑنے کا معاملہ ہو یا احرام کی پابندیاں ترک کرنے کا موقع، اس کے نتیجے میں مختلف طرح کے کفارے حسبِ موقع مقرر ہیں ۔ (ان میں سے ایک ہے) دم:چھوٹے جانور مثلاً بکرے،دنبے کو حَرَم میں قربان کرنا۔…جرم کے ارتکاب پر دیئے جانے والے کفارے یعنی بدنہ اور دم کے لئے حرم میں ذبح ہونا شرط ہے۔ نیز اس کا گوشت شرعی فقیر کا حق ہے اس کو نہ خود کھا سکتا ہے نہ کسی مالدار کو کھلا سکتا ہے۔ …اوربدنہ یا دَم کے جانور کے لئے وہی شرائط ہیں جو قربانی کے جانور میں حسبِ ترتیب بڑے اور چھوٹے جانور کے لئے ہیں۔“(27 واجبات حج و تفصیلی احکام، صفحه نمبر 194، 198،199 ملتقطا، مطبوعه: مکتبة المدینه کراچی)

علامہ نور الدین ملا علی قاری حنفی ﷫ (المتوفی: 1014ھ/1605ء) لکھتے ہیں:

”اعلم ان الکفارات کلھا واجبۃ علی التراخی فلایاثم بالتاخیر عن او ل وقت الامکان ویکون مودیالا قاضیا فی ای وقت ادیٰ وانما یتضیق علیہ الوجوب فی آخر عمرہ فی وقت یغلب علی ظنہ ان لو لم یؤدہ لفات فان لم یؤد فیہ فمات اثم ویجب علیہ الوصیۃ بالاداء والافضل تعجیل اداء الکفارات“

ترجمہ: جان لو کہ تمام کفارے علی التراخی واجب ہیں، لہذا اولاً ادائیگی ممکن ہونے کے باوجود تاخیر کرنے پر گنہگار نہیں ہو گا ، جب بھی ادا کرے گا ، ادا ہی ہو گا ،قضا نہیں ہو گا البتہ عمر کے آخری حصے میں جب اسے موت کا ظن غالب ہو جائے کہ اب ادا نہ کیا تو کفارہ ذمہ پر باقی رہ جائے گا تو اسی وقت کفارہ ادا کرنے کا وجوب متوجہ ہو جائے گا اور بغیر ادا کیے فوت ہو گیا تو گناہ گار ہوگا اور کفارہ ادا کرنے کی وصیت کرنا اس پر واجب ہے ۔ البتہ افضل یہ ہے کہ کفارے جلدی ادا کر دے۔(شرح لباب المناسک، باب فی جزاء الجنایات، ، صفحه نمبر 542 ، مطبوعه: المکتبۃ الامدادیۃ، المکۃ المکرمۃ)

و اللہ اعلم عزوجل ورسولہ اعلم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم

کتبہ

مولانا احمد رضا عطاری حنفی

24 صفر المظفر 1445ھ / 10 ستمبر 2023ء

اپنا تبصرہ بھیجیں