حج کرے یا بیٹی کی شادی

حج کرے یا بیٹی کی شادی

کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ اگر کسی شخص کے پاس موجودہ دور میں پندرہ بیس لاکھ روپے ہوں کہ حج کرسکتا ہے لیکن اس نے بچی کی شادی بھی کرنی ہو تو اب وہ کیا کرے؟

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم

الجواب بعون الملک الوھاب اللھم ھدایۃ الحق والصواب

صورتِ مسئولہ میں کہ وہ شخص جو حج کی استطاعت رکھتا ہے اس پر حج فرض ہے وہ اسی سال حج کو جائے کہ بلا عذرِ شرعی اس سال حج نہ کرنا گناہ ہے اور فقہاء کرام نے جن اعذار کی وجہ سے حج کی ادائیگی فرض نہ ہونے کا حکم دیا ہے ان میں بیٹی کی شادی کو شمار نہیں کیا لہٰذا اس وجہ سے جو حج موخر کرے گا گناہ گار ہوگا، چند سال تک نہ کیا تو فاسق ہے اور اسکی گواہی مردود ہے، مگر جب کریگا ادا ہی ہے قضا نہیں ہے۔ نیز یہ بھی یاد رہے کہ شادی کیلئے کثیر اخراجات کرنا نہ فرض ہے نہ لازم بلکہ بعض صورتوں میں گناہ ہے جیسے گانے باجے اور ناجائز رسموں پر خرچ کرنا تو شریعت کے مطابق اور سادگی سے شادی کریں جس کے لئے کثیر مال ہونا ضروری نہیں ہے ، اور یہ بھی یاد رہے کہ حج مفلسی پیدا نہیں کرتا بلکہ غنی بناتا ہے ، لہذا حج کریں اور مقدس مقامات پر جا کر دعا کریں اللہ پاک بہتر اسباب پیدا فرمائے گا ۔

قرآن پاک میں ہے:

” وَ لِلّٰهِ عَلَى النَّاسِ حِجُّ الْبَیْتِ مَنِ اسْتَطَاعَ اِلَیْهِ سَبِیْلًا “

ترجمہ : اور ﷲ (عزوجل) کے لیے لوگوں پر بیت ﷲ کا حج ہے، جو شخص باعتبار راستہ کے اس کی طاقت رکھے ۔ (پارہ 4 ، سورۃ آل عمران ، آیت 97)

سنن ترمذی میں ہے:

“عن ابن عمر قال: جاء رجل إلى النبي صلى الله عليه وسلم فقال: يا رسول الله، ما يوجب الحج؟ قال: الزاد والراحلة.”

ترجمہ : یعنی ابن عمر رضی اللہ عنہما نے فرمایا : ایک شخص نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا عرض کی : یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کیا چیز حج کو واجب کرتی ہے؟ فرمایا: توشہ اور سواری(یعنی جب سواری اور نفقہ ہو تو حج لازم ہے۔) (سنن ترمذی ، أبواب الحج، باب ماجاء فی ایجاب الحج بالزاد و الراحلۃ، الحدیث: 813 ، جلد 2 ،صفحہ 169، دار الکتب العلمیہ بیروت)

المحیط میں ہے:

” وأما كيفية وجوبه، فنقول: ذكر الحسن الكرخي رحمه الله أنه يجب على الفور ولا يجوز التأخير عن أول أوقات الإمكان، وهذا قول أبي يوسف روى عنه بشر والمعلى، قال شيخ الإسلام رحمه الله: وهو قول أبي حنيفة رحمه الله في أصح الروايتين.”

ترجمہ : یعنی حج کے واجب ہونے کی کیفیت ، تو ہم کہتے ہیں کہ: حسن کرخی رحمہ اللہ نے ذکر فرمایا کہ فوراً ادا کرنا واجب ہے اور اول اوقاتِ ممکنہ سے تاخیر جائز نہیں ،اور یہ قول امام یوسف رحمہ اللہ کا ہے جسے بشر اور المعلی نے روایت کیا ، شیخ الاسلام رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ: یہ امام اعظم ابو حنیفہ رحمہ اللہ کا قول ہے دو اصح روایتوں میں سے ہے ۔ (المحیط ، فصل ثالث فی تعلیم اعمال الحج ، جلد 2 ، صفحہ 420 ، دار الکتب العلمیہ بیروت)

بحر الرائق اور در مختار میں ہے :

” فرض علی الفور فی العام الاول عند الثانی واصح الروایتین عن الامام ومالک واحمد فیفسق وترد شہادتہ بتاخیرہ ای سنینا لان تاخیرہ صغیرۃ وبارتکابہ مرۃ لایفسق الابالاصرار۔”

ترجمہ : حج کی فرضیت علی الفور ہوتی ہے اور پہلے ہی سال ادا کرنا چاہئے امام ابویوسف کے نزدیک ، اور امام ابوحنیفہ سے منقول دو روایتوں میں سے اصح روایت کے مطابق اور امام مالک واحمد کے مطابق چند سال مؤخر کرنے سے فاسق قرار دیا جائے گا اور اس کی شہادت مردود ہوگی کیونکہ تاخیر حج گناہ صغیرہ ہے اس کے مرتکب کو اس پر اصرار کے بغیر فاسق قرار نہیں دیا جائے گا۔ (در مختار مع حاشیہ شامی ، کتاب الحج ، جلد 2 ، صفحہ 457 ، دار الکتب العلمیہ بیروت)

بدایع صنائع میں ہے:

” أنه لو أدى في السنة الثانية أو الثالثة يكون مؤديا لا قاضيا، ولو كان، واجبا على الفور”

ترجمہ : یعنی اگر (حج ) دوسرے یا تیسرے سال میں کرے گا تو وہ ادا کرنے والا ہے نا کہ قضاء کرنے والا اگرچہ فوری طور پر ادا کرنا واجب ہے ۔ (بدایع صنائع ، فصل کیفیۃ فرض الحج ،جلد 2 ، صفحہ 119، د ار الکتب العلمیہ بیروت)

سنن ترمذی میں ہے :

” عن عبد الله بن مسعود قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: ۔۔۔فإنهما ينفيان الفقر والذنوب كما ينفي الكير خبث الحديد، والذهب، والفضة، وليس للحجة المبرورة ثواب إلا الجنة”

ترجمہ : عبدﷲ بن مسعود رضی ﷲ تعالیٰ عنہ سے راوی، حضورِ اقدس صلی ﷲ تعالیٰ علیہ وسلم فرماتے ہیں : حج و عمرہ محتاجی اور گناہوں کو ایسے دور کرتے ہیں، جیسے بھٹّی لوہے اور چاندی اور سونے کے میل کو دور کرتی ہے اور حج مبرور کا ثواب جنت ہی ہے۔ (سنن ترمذي ، أبواب الحج، باب ماجاء فی ثواب الحج و العمرۃ، الحدیث : 810، جلد 2، صفحہ218، دار الکتب العلمیہ بیروت)

مسند امام احمد بن حنبل میں ہے:

“عن عمر رضی الله عنه قال:قال رسول ﷲ صلی الله عليه وآله وسلم تابعوا بين الحج والعمرة. فإن متابعة بينهما تنفي الفقر والذنوب کما ينفي الکير خبث الحديد.”

ترجمہ : حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ رسول ﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا: حج اور عمرہ یکے بعد دیگرے کیا کرو، کیونکہ یکے بعد دیگرے حج و عمرہ کرنا فقر اور گناہوں کو ایسے ہی مٹا دیتا ہے، جیسے بھٹی لوہے کی میل کچیل دور کر دیتی ہے۔ (مسند احمد بن حنبل ، جلد 3 ، حدیث : 15732، صفحہ 446)

فتاوی خلیلیہ میں اسی طرح کے ایک سوال کے جواب میں ہے:

” اگر اسکے پاس مصارف حج کے بقدر ،اپنا مال ہو اور ضروریات سے فارغ ہو یعنی سفرِ خرچ اور واپسی تک اہل و عیال کا نفقہ وغیرہ بھی ہو اور اس پر حج فرض ہو ،تو لازم ہے کہ وہ حج کو جائے ،اولاد اگرچہ لڑکیاں ہوں ،ان کی شادی کے مصارف فرضیت حج سے مانع نہیں ۔۔۔ غرض لڑکیوں کا قابل شادی ہونا ، کسی ایسے شخص سے حج کو مؤخر نہیں کر سکتا جس پر حج کو جانا شرعاً فرض ہو چکا ۔۔۔ کتب فقہ میں جہاں حج سے مانع اسباب کا ذکر ہے کہیں اسکا پتہ نہیں کہ جوان لڑکیوں کی شادی ،فریضۂ حج کی ادائیگی پر مقدم ہے ۔” (فتاوی خلیلیہ ، جلد 1 ، صفحہ 513 ، ضیاء القرآن پبلی کیشنز)

واللہ اعلم باالصواب

کتبہ

ارشاد حسین عفی عنہ

1/06/2023

اپنا تبصرہ بھیجیں