ذوالحجہ میں ناخن نہ کاٹنے کی شرعی حیثیت

ذوالحجہ میں ناخن نہ کاٹنے کی شرعی حیثیت

سوال: کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلے کے بارے میں کہ جس پر قربانی واجب ہو کیا اسے قربانی تک بال اور ناخن نہ کاٹنا ضروری ہیں؟ دوسرا جس پر قربانی واجب نہیں اس کے لیے کیا حکم ہے؟

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم

بعون الملک الوھاب اللھم ھدایۃ الحق والصواب

مذکورہ سوال کا جواب یہ ہے کہ جس نے قربانی کرنی ہو حدیثِ مبارکہ میں اسے ذو الحجۃالحرام کا چاند طلوع ہونے کے بعد سے قربانی تک اپنے بال اور ناخن کاٹنے سے منع کیا گیا ہے ۔لیکن اس پر عمل کرنا واجب نہیں بلکہ مستحب ہے لہذا اگر کسی نے بال یا ناخن کاٹ لیے تو وہ گنہگار نہیں۔

نوٹ زیرِ ناف و زیرِ بغل بال اور ناخن چالیس دن کے اندر کاٹنا ضروری ہیں چالیس دن سے اوپر بڑھانا مکروہِ تحریمی ناجائز اور گناہ ہے لہذا اگر کسی نے کئی دن سے ناخن یا زیرِ ناف و زیر بغل بال نہ کاٹے ہوں اور قربانی تک نہ کاٹنے سے چالیس دن سے زائد ہو جائے گا تو اب وہ اس مستحب کام پر عمل نہیں کر سکتا۔

دوسرا جو بندہ قربانی نہ کر سکے اگر وہ بھی ذوالحجۃالحرام کے پہلے دس دن بال اور ناخن نہ کاٹے اور بعدِ نمازِ عید حجامت وغیرہ کروائے تو قربانی کا ثواب پائے گا ان شاءاللہ۔

صحیح مسلم میں ہےکہ حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا

” من کان لہ ذبح یذبحہ فاذا اھل ھلال ذی الحجۃ فلا یاخذن من شعرہ ولا من اظفارہ شیئاً حتی یضحی“

ترجمہ جس کے پاس قربانی کے لیے جانور ہو، تو جب ذو الحجہ کا چاند طلوع ہو جائے، وہ اپنے بالوں اور ناخنوں سے کچھ بھی نہ کاٹے، حتی کہ قربانی کر لے۔(صحیح مسلم، کتاب الاضاحی، باب نھی من دخل۔۔ الخ، جلد 2، صفحہ 160،مطبوعہ کراچی)

جامع ترمذی میں ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا”من رای ھلال ذی الحجۃ واراد ان یضحی، فلا یاخذن من شعرہ ولا من اظفاره “

ترجمہ جو ذو الحجہ کا چاند دیکھے اور قربانی کا ارادہ رکھتا ہو، تو وہ اپنے بال اور ناخن نہ کاٹے۔(جامع ترمذی، ابواب الاضاحی، باب ترک اخذ الشعر لمن ارادہ ان یضحی، جلد 1، صفحہ 278 مطبوعہ کراچی)

مراۃ المناجیح میں ہے:

”جو امیر وجوباً یا فقیر نفلاً قربانی کا ارادہ کرے، وہ بقر عید کا چاند دیکھنے سے قربانی کرنے تک ناخن بال اور مردار کھال وغیرہ نہ کاٹے، نہ کٹوائے تاکہ حاجیوں سے قدرے مشابہت ہو جائے، کہ وہ لوگ احرام میں حجامت نہیں کرا سکتے اور تا کہ قربانی ہر بال، ناخن کا فدیہ بن جائے۔ یہ حکم استحبابی ہے، وجوبی نہیں، لہذا قربانی والے پر حجامت نہ کرانا بہتر ہے، لازم نہیں۔ اس سے معلوم ہو اکہ اچھوں سے مشابہت بھی اچھی ہے۔“(مراۃ المناجیح، جلد 2، صفحہ 370، نعیمی کتب خانہ، گجرات)

فتاوی رضویہ میں ہے:

”یہ حکم صرف استحبابی ہے، کرے تو بہتر ہے، نہ کرے تو مضائقہ نہیں، نہ اس کو حکم عدولی کہہ سکتے ہیں، نہ قربانی میں نقص آنے کی کوئی وجہ، بلکہ اگر کسی شخص نے ۳۱ دن سے کسی عذر کے سبب خواہ بلا عذر ناخن نہ تراشے ہوں، نہ خط بنوایا ہو کہ چاند ذی الحجہ کا ہو گیا، تو وہ اگرچہ قربانی کا ارادہ رکھتا ہو، اس مستحب پر عمل نہیں کر سکتا، اب دسویں تک رکھے گا، تو ناخن و خط بنوائے ہوئے اکتالیسواں دن ہو جائےگااور چالیس دن سے زیادہ نہ بنوانا گناہ ہے، فعل مستحب کے لئے گناہ نہیں کر سکتا۔“(فتاوی رضویہ، جلد 20، صفحہ 353، رضا فاؤنڈیشن، لاھور)

سنن نسائی میں ہے کہ حضرت عبد اللہ بن عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ سے مروی ہے ، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشادفرمایا

”امرت بیوم الاضحی عیداً، جعلہ اللہ عزوجل لھذہ الامۃ، فقال الرجل: ارایت ان لم اجد الّا منیحۃ انثی، افاضحی بھا؟ قال: لا، لکن تاخذ من شعرک وتقلم اظفارک وتقص شاربک وتحلق عانتک، فذلک تمام اضحیک عند اللہ عزوجل“

ترجمہ : مجھے یوم اضحیٰ کا حکم دیا گیا، اس دن کو اللہ عزوجل نے اس امت کے لیے عید بنایا۔ ایک شخص نے عرض کی: یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم! اگر میرے پاس منیحہ (یعنی ادھار لیے گئے جانور) کے سوا کوئی جانور نہ ہو، تو کیا اسی کی قربانی کر دوں؟ فرمایا: نہیں۔ہاں! تم اپنے بال، ناخن اور مونچھیں تراشو اور موئے زیر ناف مونڈھ لو، اسی میں تمہاری قربانی اللہ عزوجل کے ہاں پوری ہو جائے گی۔(سنن نسائی، کتاب الضحایا، باب من لم یجد الاضحیۃ، جلد 2، صفحہ 201، مطبوعہ لاھور)

مراۃ المناجیح میں ہے:

”جو قربانی نہ کر سکے، وہ بھی اس عشرہ میں حجامت نہ کرائے، بقر عید کے دن بعدِ نماز حجامت کرائے، تو ان شاء اللہ ثواب پائے گا، جیسا کہ بعض روایت میں ہے۔“(مراۃ المناجیح، جلد 2، صفحہ 370، نعیمی کتب خانہ، گجرات)

صدر الشریعہ مولانا مفتی محمد امجد علی اعظمی علیہ الرحمۃ مذکورہ حدیثِ پاک ذکر کرنے کے بعد فرماتے ہیں:

’’یعنی جس کو قربانی کی توفیق نہ ہو، اسے ان چیزوں کے کرنے سے قربانی کا ثواب حاصل ہو جائے گا۔“(بہار شریعت، حصہ 15، صفحہ 330، مکتبہ المدینہ، کراچی)

واللہ ورسولہ اعلم عزوجل و صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم

کتبہ

بابر عطاری مدنی

6ذوالجۃ الحرام1444/ 26جون2023

اپنا تبصرہ بھیجیں