کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام اس مسئلے کے بارے میں کہ پندرہ سولہ سال کی قضا نمازیں ہیں تو کیا سنت مؤکدہ کو چھوڑ کر قضا نمازیں پڑھ سکتے ہیں؟
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ
پوچھی گئی صورت کا حکم یہ ہے کہ اگر کسی کی فرض نمازیں باقی ہیں ، توحکم ہے کہ انہیں جلد سے جلد ادا کرے اور ضروری کاموں کے علاوہ فارغ اوقات میں قضا نمازیں پڑھتا رہے اور سنت مؤکدہ پڑھے یا نہ پڑھے اس حوالے سے شرعی حکم یہ ہے کہ سنن مؤکدہ تو لازماً پڑھے گا کہ ان کی شریعت میں بہت تاکید آئی ہے ، حتی کہ جو شخص ان کو چھوڑنے کی عادت بنا لے ، وہ گنہگار و فاسق ہے۔ اس کے علاوہ سنن غیر مؤکدہ اور وہ نوافل جن کے بارے میں فضائل وارد ہوئے ہیں ، جیسے تہجد چاشت، اوابین، تحیۃ المسجد ،عصر سے پہلی والی چار سنتیں وغیرہ بھی پڑھ سکتا ہے اور ان سے ہٹ کر زائد نوافل پڑھنے کے بجائے اپنی قضا نمازیں ادا کرتا رہےکہ نوافل کے بجائے قضا نمازیں پڑھنا زیادہ اہم و ضروری ہے، کیونکہ نوافل نہ پڑھنے پر کچھ نہیں ہوگا ، لیکن قضا نمازیں ذمے پر باقی رہیں ، توآدمی عذاب کا مستحق ہوگا۔
تنویر الابصار و درمختار میں ہے :
”(ويجوز تأخير الفوائت) وان وجبت على الفور (لعذر السعی على العيال وفی الحوائج على الأصح)“
یعنی فوت شدہ نمازوں کی ادائیگی اگرچہ فوری طور پر واجب ہے ، لیکن عیال کی پرورش اور حاجت کے کاموں میں سعی و کوشش کے عذر کی وجہ سے تاخیر جائز ہے اصح قول کے مطابق۔
ردالمحتار میں ہے :
”أی ما يحتاجه لنفسه من جلب نفع ودفع ضره وأما النفل فقال فی المضمرات: الاشتغال بقضاء الفوائت أولى وأهم من النوافل الا سنن المفروضة وصلاة الضحى وصلاة التسبيح والصلاة التی رويت فيها الأخبار اهـ ط أی كتحية المسجد والأربع قبل العصر والست بعد المغرب“
یعنی انسان کو اپنی ذات کے لیے جس نفع کو حاصل کرنے کی اور جس نقصان کو اپنے سے دور کرنے کی حاجت ہے ، اس کے عذر سے تاخیر جائز ہے اور جہاں تک نفل کا معاملہ ہے ، تو مضمرات میں ہے کہ قضا نمازوں کی ادائیگی میں مشغول ہونا یہ نوافل پڑھنے سے زیادہ اہم و اَولی ہے ، مگر یہ کہ فرضوں کی سنتیں اور چاشت کی نماز اور نمازتسبیح اور وہ نماز ، جس کے بارے میں اخبار وارد ہوئی ہیں یعنی تحیۃ المسجد اور عصرسے قبل والی چار رکعتیں اور مغرب کے بعد والی چھے رکعتیں( کہ ان کو پڑھنے میں حرج نہیں۔)
(رد المحتارعلی الدر المختار، جلد2،صفحہ646، مطبوعہ کوئٹہ)
طحطاوی علی مراقی الفلاح میں ہے :
” والاشتغال بقضاء الفوائت أولى وأهم من النوافل الا السنة المعروفة وصلاة الضحى وصلاة التسبيح والصلاة التی وردت فی الأخبار فتلك بنية النفل وغيرها بنية القضاء كذا فی المضمرات عن الظهيرية وفتاوى الحجة ومراده بالسنة المعروفة المؤكدة وقوله وغيرها بنية القضاء مراده به أن ينوی القضاء اذا أراد فعل غير ما ذكر فانه الأولى بل المتعين“
ترجمہ: قضا نمازوں کی ادائیگی میں مشغول ہونا یہ نوافل پڑھنے سے زیادہ اہم و اَولی ہے ، سوائے معروف سنتوں کے اور چاشت وتسبیح کی نماز کے اور اس نماز کے ، جس کے بارے میں اخبار وارد ہوئی ہیں ۔ یہ نمازیں نفل کی نیت سے پڑھے اور اس کے علاوہ قضا کی نیت سے پڑھے۔ ایسا ہی مضمرات میں ظہیریہ کے حوالے سے ہے اور فتاوی الحجۃ میں ہے : معروف سنتوں سے مراد مؤکدہ سنتیں ہیں اور یہ جو کہا کہ
” اس کے علاوہ قضا کی نیت سے پڑھے۔ “ تواس کا مطلب یہ ہے کہ ان مذکوره نمازوں کے علاوہ کوئی نماز پڑھنا چاہے ، تو قضا کی نیت کر لے ، کیونکہ یہ زیادہ اولی ہے ، بلکہ یہی متعین ہے۔
(طحطاوی علی المراقی، صفحہ447، مطبوعہ دار الکتب العلمیہ، بیروت)
سنن مؤکدہ کی اہمیت و شرعی حکم بیان کرتے ہوئے صدر الشریعہ مفتی محمد امجد علی اعظمی رحمۃ اللہ تعالی علیہ لکھتے ہیں :
”سنتیں بعض مؤکدہ ہیں کہ شریعت میں اس پر تاکید آئی ، بلاعذر ایک بار بھی ترک کرے ، تو مستحقِ ملامت ہے اورترک کی عادت کرے ، تو فاسق، مردود الشہادۃ، مستحقِ نار ہے اور بعض ائمہ نے فرمایا کہ ”وہ گمراہ ٹھہرایا جائے گا اور گنہگار ہے اگرچہ اس کا گناہ واجب کے ترک سے کم ہے۔“ تلویح میں ہے کہ اس کا ترک قریب حرام کے ہے، اس کا تارک مستحق ہے کہ معاذ اللہ! شفاعت سے محروم ہو جائے کہ حضور اقدس صلی اللہ تعالیٰ علیہ و سلم نے فرمایا: ” جو میری سنت کو ترک کرے گا، اسے میری شفاعت نہ ملے گی۔“
(بہار شریعت، جلد1، صفحہ662، مکتبۃ المدینہ ، کراچی )
فتاوٰی عالمگیری میں ہے:
الاشتغال بالفوائت اولی و اهم من النوافل الا السنة المعروفة۔
ترجمہ: سنن مؤکدہ کے علاوہ دیگر نوافل پڑھنے سے قضا نمازوں کی ادائیگی میں مشغول ہونا اولی اور اہم ہے۔
(فتاویٰ عالمگیری، کتاب الصلاۃ، جلد 1، ص125، مکتبۃ رشیدیہ)
بہار شریعت میں ہے:
قضا نمازیں نوافل سے اہم ہیں یعنی جس وقت نفل پڑھتا ہے انھیں چھوڑ کر ان کے بدلے قضائیں پڑھے کہ بری الذمہ ہو جائے البتہ تراویح اور بارہ رکعتیں سنت مؤکدہ کی نہ چھوڑے۔
(بہار شریعت، جلد1، صفحہ706، مکتبۃ المدینہ، کراچی)
واللّٰه تعالی اعلم بالصواب۔
کتبه: ندیم عطاری مدنی حنفی۔
نظر ثانی: ابو احمد مفتی انس رضا قادری۔