لاش ملے کہ جس کے متعلق پتہ نہ چلےکہ مسلمان ہے یا غیر مسلم

لاش ملے کہ جس کے متعلق پتہ نہ چلےکہ مسلمان ہے یا غیر مسلم

کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ لاش ملے اور یہ نہیں معلوم کہ مسلمان ہے یا غیر مسلم تو اسے غسل دیا جائے گا یا نہیں؟نیز اس کی تدفین کا کیا حکم ہو گا؟

بسم اللہ الرحمن الرحیم

الجواب بعون الملک الوھاب اللھم ھدایۃ الحق وا لصواب

اگر کوئی لاش ملے جس کا مسلمان یا غیر مسلم ہونا معلوم نہیں تو اولاً دیکھا جائے گا کہ اس پر کوئی ایسی علامت موجود ہے جس سے اس کا مسلمان ہونا یاغیر مسلم ہونا واضح ہوتا ہو۔ اگر کوئی ایسی علامت مل جائے تو پھر اسی کے مطابق عمل کیا جائے گا مثلاً اگر اس کی وضع قطع مسلمانوں کی سی ہے تو اسے مسلمان سمجھتے ہوئے غسل دے کر نماز جنازہ پڑھیں گے ۔اور اگر اس نےصلیب پہنی ہے یا قشقہ لگایا ہےیا اس کا ختنہ نہیں ہوا تو پھر اسے غیر مسلم شمار کرتے ہوئے نہ غسل دیں گے اور نہ جنازہ پڑھیں گے۔

اگر کوئی علامت ایسی موجود نہیں کہ جس سے اس کا مسلمان ہونا یا کافر ہونا واضح ہوتا ہو تو پھر اگر وہ لاش مسلمانوں کے شہر یا مسلمانوں کی بستی میں ملی ہے تو اس کو مسلمان شمار کیا جائے گا۔ اوراگر وہ لاش کفار کے شہر یا کفار کی بستی میں ملی تواس لاش کو غیر مسلم تصورکیا جائے گا اورنہ تو غسل دیا جائے گا اور نہ ہی مسلمانوں کے قبرستان میں دفن کیا جائے گا ۔

اگر کسی حادثے میں کثیر لوگ ہلاک ہوجائیں تو ان میں سے جس کے بارے میں کسی علامت وغیرہ کے ذریعے معلوم ہو جائے کہ یہ مسلم ہے یا غیر مسلم تو اس کے بارے میں تو اسی کے مطابق عمل کیا جائے گا یعنی مسلم کی نماز جنازہ پڑھی جائے گی اور غیر مسلم کی نہیں ۔ اور اگر کسی میت کے بارے میں علامت وغیرہ کے ذریعے اس کا مسلمان ہونا یا غیر مسلم ہونا واضح نہ ہو تو پھر اس علاقے کا اعتبار کیا جائے گا جہاں وہ دھماکہ ہوا ہے یعنی اگر وہ مسلمانوں کی بستی ہے تو ان کو مسلمان ہی شمار کیا جائے اور اگرغیر مسلموں کی بستی ہے تو ان کو کفار شمار کرتے ہوئے نماز جنازہ نہیں پڑھی جائے گی اور اگر دھماکے میں مرنے والوں کے بارے میں یہ حتمی طور پر معلوم ہے کہ اس میں مسلمان و غیر مسلم بھی ہیں تو اولا وہی علامت کے ذریعے شناخت کا طریقہ اختیار کیا جائے گا۔اور اگر علامت کے ذریعے شناخت ممکن نہ رہے تو اس صورت میں حکم یہ ہے سب میتوں کوسامنے رکھ کر نماز جنازہ پڑھیں گے لیکن نماز جنازہ میں خاص مسلمان میتوں کے لئے دعا کی نیت کریں۔ پھر اگر مسلمانوں کی تعداد زیادہ ہے تو مسلمانوں کے قبرستان میں دفن کریں ورنہ علیحدہ یعنی نہ مسلمانوں کے قبرستان میں اور نہ مشرکین کے بلکہ ان کو علیحدہ سے کسی جگہ دفن کریں۔

المبسوط میں ہے

’’وإذا وجد میت لا یدری أمسلم ھو أم کافر فإن کان فی قریۃ من قری أھل الإسلام فالظاھر أنہ مسلم فیغسل ویصلی علیہ وإن کان فی قریۃ من قری أھل الشرک فالظاھر أنہ منھم فلا یصلی علیہ إلا أن یکون علیہ سیما المسلمین فحینئذ یغسل ویصلی علیہ وسیما المسلمین الختان والخضاب ولیس السواد وما تعذر الوقوف علی حقیقتہ یعتبر فیہ العلامۃ والسیما قال اللہ تعالی (یعرف المجرمون بسیماھم)‘‘

یعنی کوئی لاش ملی جس کے متعلق پتہ نہیں کہ وہ مسلمان ہے یا غیر مسلم ؟تو اگر اہل اسلام کی بستیوں میں سے کسی بستی میں ملی ہے تو ظاہر یہی ہے کہ وہ مسلمان ہے لہٰذااسے غسل دیا جائے گا اور اس کی نماز جنازہ پڑھی جائے گی۔ اگر کفار کی کسی بستی میں ملی ہے تو ظاہر یہی ہے کہ یہ انہی میں سے ہوگا لہٰذااس کی نماز جنازہ نہیں پڑھی جائے گی الا یہ کہ اس پر کوئی مسلمانوں والی نشانی ہو تو پھر اسے غسل دے کر اس کی نماز جنازہ پڑھیں گے۔اورمسلمانوں کی نشانی ختنہ،خضاب،کالے کپڑے پہننا ہے۔اور جہاں حقیقتِ حال جاننا ممکن نہ رہے وہاں علامت و نشانی معتبر ہوتی ہے کہ اللہ عزوجل فرماتا ہے :’’ مجرمین اپنی نشانیوں سے پہچانے جائیں گے۔‘‘

(المبسوط،کتاب الصلوٰۃ،باب الشہید،جلد2،صفحہ54،دار المعرفۃ،بیروت)

بدائع الصنائع میں ہے

”ولووجد میت او قتیل فی دارالاسلام،فان کان علیہ سیما المسلمین یغسل ویصلیٰ علیہ ویدفن فی مقابر المسلمین وھذا ظاھر وان لم یکن معہ سیما المسلمین ففیہ روایتان والصحیح انہ یغسل ویصلیٰ علیہ ویدفن فی مقابر المسلمین لحصول غلبۃ الظن بکونہ مسلماًبدلالۃ المکان وھی دارالاسلام ،ولو وجد فی دارالحرب ،فان کان معہ سیما المسلمین یغسل ویصلیٰ علیہ ویدفن فی مقابر المسلین باالاجماع ۔ وان لم یکن معہ سیما المسلمین ففیہ روایتان ،والصحیح انہ لا یغسل ولا یصلیٰ علیہ ولا یدفن فی مقابرالمسلمین “

ترجمہ : اگر کوئی مردہ یا مقتول دارالاسلام میں پایا جائے تو اگر اس میں مسلمانوں کی علامات پائی جائیں تو اس کو غسل دیاجائے گا اور نماز پڑھی جائے گی اور مسلمانوں کے قبرستان میں دفن کیا جائے گا یہی ظاہر ہے اور اگر اس میں مسلمانوں کی علامات نہ پائی جائیں تو اس میں دوروایات ہیں صحیح روایت یہ ہے کہ غسل دیا جائے گا اور نمازپڑھی جائے گی اور مسلمانوں کے قبرستان میں دفن کیا جائے گا دارالاسلام میں پائے جانے کے سبب اس کے مسلمان ہونے پر ظن غالب کی وجہ سے ،اور اگر دارالحرب میں ایسا مردہ پایا جائےتو اگر اس میں مسلمانوں کی علامات موجود ہیں تو اس کو غسل دیا جائے گا اور اس پر نماز جنازہ پڑھی جائے گی اور باالاتفاق مسلمانوں کے قبرستان میں دفن کیا جائے گا اور اگر اس میں مسلمانوں کی علامات موجود نہ ہوں تو اس اس میں دو روایت ہیں صحیح یہ ہے کہ نہ تو غسل دیا جائے گا اور نہ ہی نمازہ جنازہ پڑھی جائے گی اور نہ مسلمانوں کے قبرستان میں دفن کیا جائے گی۔(بدائع الصنائع،کتاب الصلوٰۃ ، جلد 2،صفحہ 32،مطبوعہ کوئٹہ)

درمختار میں ہے

’’اختلط موتانا بکفار ولا علامۃ اعتبر الأکثر فإن استووا غسلوا واختلف فی الصلاۃ علیھم ومحل دفنھم کدفن ذمیۃ حبلی من مسلم قالوا: والأحوط دفنھا علی حدۃ‘‘

ترجمہ: اگر ہماری(یعنی مسلمان) میتیں کفار کے ساتھ مل جائیں اورکوئی علامت نہ ہو جن کی تعداد زیادہ ہو ان کا اعتبار کیا جائے گااور اگر برابر ہو تو پھر ان کی نماز جنازہ میں اختلاف ہے یونہی اس میں بھی اختلاف ہے کہ ان کو کہاں دفن کیا جائے جس طرح کہ اس ذمیہ عورت کے دفن کے بارے میں اختلاف ہے کہ جو مسلمان سے حاملہ ہوئی ہو اور علماء فرماتے ہیں کہ احوط یہ ہے کہ ان کو علیحدہ دفن کیا جائے (یعنی نہ مسلمانوں کے قبرستان میں اور نہ کفار کے )

علامہ شامی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ اس کے تحت لکھتے ہیں

’’قال فی الحلیۃ: فإن کان بالمسلمین علامۃ فلا إشکال فی إجراء أحکام المسلمین علیہم وإلا فلو المسلمون أکثر صلی علیہم وینوی بالدعاء المسلمین،…..(قولہ: واختلف فی الصلاۃ علیہم) فقیل لا یصلی لأن ترک الصلاۃ علی المسلم مشروع فی الجملۃ کالبغاۃ وقطاع الطریق فکان أولی من الصلاۃ علی الکافر لأنہا غیر مشروعۃ (ولا تصل علی أحد منہم مات أبدا) (التوبۃ: 84) وقیل یصلی ویقصد المسلمین لأنہ إن عجز عن التعین لا یعجز عن القصد کما فی البدائع.قال فی الحلیۃ: فعلی ہذا ینبغی أن یصلی علیہم فی الحالۃ الثانیۃ أیضا أی حالۃ ما إذا کان الکفار أکثر لأنہ حیث قصد المسلمین فقط لم یکن مصلیا علی الکفار، وإلا لم تجز الصلاۃ علیہم فی الحالۃ الأولی أیضا مع أن الاتفاق علی الجواز فینبغی الصلاۃ علیہم فی الأحوال الثلاث کما قالت بہ الأئمۃ الثلاث وہو أوجہ قضاء لحق المسلمین بلا ارتکاب منہی عنہ اہ ملخصا ‘‘

یعنی صاحب حلیہ نے فرمایا: اگر مسلمان ہونے کی علامت ہے تو پھر احکام اسلام جاری کرنے میں کوئی اشکال نہیں وگرنہ مسلمانوں کی تعداد اگر زیادہ ہے تو ان کی نماز جنازہ پڑھی جائے گی اور دعا میں مسلمانوں کی نیت کی جائے گی ۔….جب مسلمان میتوں اور کفار کی لاشوں کی تعداد برابر ہو توان کی نماز جنازہ کے بارے میں اختلاف ہے ، ایک قول یہ ہے کہ ان کی نماز جنازہ نہیں پڑھی جائے گی کیونکہ مسلمان کی نماز جنازہ چھوڑنا بعض صورتوں میں جائز ہوتا ہے جیسے باغیوں اور ڈاکوؤں کی نماز جنازہ وغیرہ لہٰذا غیر مسلم کی نماز جنازہ پڑھنا لازم آئے، اس سے بہتر ہے کہ سب کی نماز نہ پڑھی جائے کیونکہ غیر مسلم کی نماز جنازہ پڑھنا کسی صورت بھی جائز نہیں کہ قرآن میں ہے ’’اور ان میں سے کسی کی میّت پر کبھی نماز نہ پڑھنا ۔‘‘(التوبۃ :84) اور ایک قول یہ ہے کہ اس صورت میں نماز پڑھی جائے گی اورنیت مسلمانوں کی جائے گی کیونکہ (اگر مسلمان میتوں کا حقیقتاً )تعین ممکن نہیں تو باعتبار قصد و نیت کے تعین تو ممکن ہے، جیسا کہ بدائع میں ہے ۔ صاحب حلیہ نے فرمایا: تو اس کی بنیاد پر دوسری حالت میں یعنی جب کفارمیتوں کی تعداد زیادہ ہو اس صورت میں بھی نماز جنازہ پڑھنے کا ہی حکم ہونا چاہیے کیونکہ فقط مسلمان میتوں کی نیت سے جب نماز پڑھی جائے گی تو کفار کی نمازجنازہ پڑھنا لازم نہ آئے گا اور اگر ایسا نہ ہو تا تو پھر پہلی حالت میں (یعنی جب مسلمان میتوں کی تعداد زیادہ ہے اس صورت میں )بھی سب میتوں کو سامنے رکھ کر نماز جنازہ پڑھنا جائز نہ ہوتا حالانکہ وہ بالاتفاق جائز ہے ۔ لہٰذا تینوں حالتوں میں (یعنی مسلمانوں میتوں کی تعددا کفار میتوں کے برابر ہو ، کم ہو یا زیادہ ہو ان سب صورتوں میں ) نماز جنازہ پڑھنے کا حکم ہونا چاہیے جیسا کہ آئمہ ثلاثہ کا بھی یہی قول ہے اور کسی ممنوع کام کا ارتکاب کئے بغیر مسلمانوں کا حق ادا کرنا اوجہ و بہتر ہے ۔ (درمختار مع ردالمحتار، کتاب الصلوۃ، باب صلوۃ الجنازۃ، جلد2، صفحہ200-1، دار الفکر، بیروت)

واللہ اعلم عزوجل ورسولہ اعلم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم

کتبہ

ابو احمد مفتی محمد انس رضا عطاری

14 محرم الحرام 1445ھ بمطابق02 اگست 2023ء

اپنا تبصرہ بھیجیں