تروایح میں تین رکعتیں پڑھیں، دوسری میں بیٹھا نہیں تو کتنی رکعتیں ہوئیں؟

تروایح میں تین رکعتیں پڑھیں، دوسری میں بیٹھا نہیں تو کتنی رکعتیں ہوئیں؟

کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین اس مسئلے کے بارے میں کہ تروایح میں تین رکعتیں پڑھیں، دوسری میں بیٹھا نہیں تو کتنی رکعتیں ہوئیں؟

بینوا توجروا

بیان فرما کر اجر پائیے

بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

پوچھی گئی صورت میں یہ نماز ہی فاسد ہوگئی ہے، لہذا اس کے بدلے میں دوبارہ دو رکعتیں پڑھنی ہوں گی، اور جتنا قرآن پاک ان تین رکعتوں میں پڑھا ہے وہ دوبارہ ان دو رکعتوں میں پڑھیں تا کہ ختم قرآن پاک میں نقصان نہ ہو،

اس مسئلے کی تفصیل یہ ہے کہ نفل نماز کا ہر قعدہ، قعدہ اخیرہ ہوتا ہے اور فرض ہوتا ہے تو چونکہ مذکورہ صورت میں دوسری رکعت پر قعدہ نہیں کیا گیا بلکہ تیسری پر قعدہ کیا گیا ہے، لہذا فرض چھوٹنے کی وجہ سے اصح قول کے مطابق نماز فاسد ہوجائے گی۔

فتاوی ہندیہ میں ہے:

“ولو صلى التطوع ثلاث ركعات ولم يقعد على رأس الركعتين، الأصح أنه تفسد صلاته”.

ترجمہ: اگر کسی شخص نے تین رکعات نفل نماز پڑھی اور دوسری رکعت پر قعدہ نہ کیا تو اصح قول کے مطابق نماز فاسد ہوجائے گی۔

(فتاوی ہندیہ، کتاب الصلاۃ، الباب التاسع في النوافل، فصل في التراويح، جلد1، صفحہ113، دارالفکر، بیروت)

فتاوی تاتار خانیہ میں ہے:

“وأما إذا صلى ثلاثا بتسليمة واحدة إن قعد على رأس الركعتين يجزيه عن تسليمة واحدة … وإن لم يقعد على رأس الثانية ساهياً أو عامداً لا شك أن صلاته باطلة”.

ترجمہ: اگر کسی شخص نے ایک سلام کے ساتھ تین رکعتیں ادا کیں اور دوسری رکعت پر قعدہ بھی کیا، تو یہ رکعتیں ایک سلام کے ذریعے دو رکعتوں کا بدل بن جائیں گی۔ اور اگر اس نے سہوا یا عمدا دوسری رکعت پر قعدہ نہ کیا تو بغیر کسی شک کے اس کی نماز باطل ہوجائے گی۔

(فتاوی تاتار خانیۃ، کتاب الصلاۃ، الفصل الثالث عشر فی التراویح، جلد2، صفحہ330، مطبوعہ: ہند)

فتاوی ہندیہ میں ہے:

“وإذا فسد الشفع وقد قرأ فيه لايعتد بما قرأه فيه، ويعيد القراءة؛ ليحصل له الختم في الصلاة الجائزة”.

ترجمہ: اور جب شفع فاسد ہوجائے تو اس شفع میں کی گئی قراءت شمار نہیں ہوگی، اس لیے اسے دہرایا جائے تا کہ نماز میں مکمل قرآن پاک ختم ہو۔

(فتاوی، ہندیہ، کتاب الصلاۃ، الباب التاسع في النوافل، فصل في التراويح، جلد1، صفحہ118، مطبوعہ: دارالفکر، بیروت)

بہار شریعت میں ہے:

تین رکعت پڑھ کر سلام پھیرا، اگر دوسری پر بیٹھا نہ تھا تو نہ ہوئیں ان کے بدلے کی دو رکعت پھر پڑھے۔

(بہار شریعت، تراویح کا بیان، جلد1، صفحہ694، مطبوعہ: مکتبۃ المدینۃ، کراچی)

بہار شریعت میں ہے:

اگر کسی وجہ سے نماز تراویح فاسد ہو جائے تو جتنا قرآن مجید ان رکعتوں میں پڑھا ہے اعادہ کریں تاکہ ختم میں نقصان نہ رہے۔

(بہار شریعت، تراویح کا بیان، جلد1، صفحہ694، مطبوعہ: مکتبۃ المدینۃ، کراچی)

رد المحتار میں ہے:

“(قوله: أو ترك قعود أول) ؛ لأن كون كل شفع صلاة على حدة يقتضي افتراض القعدة عقيبه؛ فيفسد بتركها، كما هو قول محمد، وهو القياس، لكن عندهما لما قام إلى الثالثة قبل القعدة فقد جعل الكل صلاةً واحدةً شبيهةً بالفرض، وصارت القعدة الأخيرة هي الفرض، وهو الاستحسان، وعليه فلو تطوع بثلاث بقعدة واحدة كان ينبغي الجواز اعتبارًا بصلاة المغرب، لكن الأصح عدمه؛ لأنه قد فسد ما اتصلت به القعدة وهو الركعة الأخيرة؛ لأن التنفل بالركعة الواحدة غير مشروع فيفسد ما قبلها”.

ترجمہ: مصنف کا قول: “یا پہلا قعدہ چھوڑ دیا” اس لیے کہ نفل نماز کا ہر قعدہ علیحدہ ایک نماز ہے اور یہ تقاضہ کرتا ہے کہ اس کے آخر میں قعدہ فرض ہو، لہذا اس کو چھوڑنے کی وجہ سے نماز فاسد ہوجائے گی، جیسے کہ یہی قول امام محمد علیہ الرحمۃ کا ہے اور قیاس کا تقاضہ بھی یہی ہے، لیکن شیخین کے نزدیک جب کوئی شخص دوسری رکعت پر قعدہ کیے بغیر تیسری کے لیے کھڑا ہوجائے تو تحقیق اس نے پوری نماز کو ایک نماز بنا دیا تو اب اس کا آخری قعدہ فرض کہلائے گا اور یہ استحسان ہے، اور اسی بنا پر اگر کوئی شخص تین رکعات نفل ایک قعدہ کے ساتھ پڑھے تو چاہیے کہ اس کی نماز جائز ہوجائے نماز مغرب پر قیاس کرتے ہوئے، لیکن اصح قول کے مطابق نماز جائز نہیں ہوگی؛ اس لیے کہ جب اس صورت میں قعدہ کے ساتھ ملی ہوئی رکعت یعنی آخری رکعت فاسد ہوچکی ہے، ایک رکعت نفل مشروع نہ ہونے کی وجہ سے تو اس سے پہلے والا قعدہ بھی فاسد ہوجائے گا۔

(رد المحتار، کتاب الصلاۃ، باب الوتر والنوافل، جلد2، صفحہ579، دار المعرفۃ، بیروت، لبنان)

واللّٰه تعالی أعلم بالصواب۔

کتبه: ابو معاویہ محمد ندیم عطاری مدنی حنفی۔

نظر ثانی: ابو احمد مفتی انس رضا قادری۔

مؤرخہ 07شوال المکرم 1444ھ بمطابق 28اپریل 2023ء، بروز پیر

اپنا تبصرہ بھیجیں