فیض آباد دھرنا

فیض آباد دھرنا

پیشکش: صدائے قلب

ختم نبوت کے دفاع میں جاری دھرنے کی شرعی اور قانونی کیا اہمیت ہے یہ پاکستان کے تمام علماء و مشائخ کے اتحاد اور وکلاء حضرات کی بذات خود دھرنے میں شرکت سے عیاں ہے ۔لیکن آج رات23نومبر2017کو جب یہ خبر سنی کہ ہائیکورٹ کی طرح سپریم کورٹ نے بھی فیض آباد میں جاری دھرنے کو ایک غیرقانونی رنگ دے کرحکومت اورسیکولرلوگوں کو خوش کیا ہے،تو دل خون کے آنسو رویا،نیند اڑگئی اوردل و ایمان نے یہ تحریر لکھنے کا کہا۔

بے دین و سیکولرلوگ جو کافروں اور جانوروں کے حقوق کے لیے تو احتجاج کرتے ہیں لیکن ناموس رسالت و ختم نبوت کے موقع پراحتجاج کرنے کو غیراخلاقی کہتے ہیں اوراس موقع پر ان کو حقوق عامہ یاد آجاتے ہیں۔میڈیا بالخصوص جیو چینل عوام کو دیندارطبقہ سے بدظن کرنے کے لیے یہ پروپیگنڈہ کرتا ہے کہ مولوی دھرنے میں حقوق عامہ تلف کررہے ہیں اورگالی گلوچ کررہے ہیں۔میں اگر اس مسئلہ پر لکھوں کہ تاریخ میں کس کس نے لانگ مارچ کیا،دھرنے دیئے اورٹریفک بلاک کی تو اس پرایک پوری کتاب لکھی جاسکتی ہے۔عمومی طورپرعوام بھی جانتی ہے کہ کسی وزیریا صدرکے آنے اور دیگر مواقع پر کس طرح ٹریفک بلاک اور عوام پریشان رہتی ہے۔

اسلام آبادمیں تقریبا چار ماہ تک پی ٹی آئی کا دھرنا جس میں قانونی و اخلاقی ا ور شرعی احکام کی دھجیاں اڑائی گئیں ،اس وقت کسی کو قانون و اخلاقیات اورحقوق عامہ تلف ہونے کا وسوسہ نہ آیا۔لیکن جب بات ختم نبوت کی آئی تو کفار کے اشاروں پر مر مٹنے والے سیاستدان،اینکرز میں کھلبلی مچ گئی۔

سپریم کورٹ نے ختم نبوت کے سلسلہ میں فیض آباد راولپنڈی کے دھرنے کو غیرقانونی قرار دیا ہے اوراس بات کو یکسر نظرانداز کرتے ہوئے کہ روڈ دھرنے والوں نے بند کیے ہیں یا حکومت نے ؟ (واضح رہے کہ دھرنےوالے صرف ایک روڈ پر خاک نشین ہیں ،بقیہ تمام اطراف سے راہ بندی خود حکومت کا کارنامہ ہے)سارا ملبہ دھرنے والوں پرڈال کرعوام کی نظر میں ان کو حقوق عامہ تلف کرنے والا قراردیا ہے ۔ میں نے وکلاحضرات اورعوام الناس کو اس طرف توجہ دلانا ضروری سمجھا ہے کہ اورلوگوں کی طرح وکلا حضرات خود اپنے ذاتی مفادات کے لیے نہ صرف دھرنے دیتے ہیں بلکہ آئے دن ٹریفک بلاک کرکے احتجاج کرنا ،یہاں تک کہ لانگ مارچ کرنا بھی ان کامعمول ہے ۔بلکہ عدلیہ کی بحالی کے لیے اس طرح کا احتجاج تاریخ کاحصہ ہے۔اس لیے سپریم کورٹ کے جج کی بات کو حرف آخر سمجھ کرتھوڑی دیر کی عوامی تکلیف کو مدنظر رکھتے ہوئے حکومت و میڈیا کا ساتھ نہ دیں بلکہ یہ غور کریں کہ اصل حقائق کیا ہیں۔ذیل میں ماضی قریب کی وکلا کی بعض تحریکوں کی ایک رپورٹ قارئین کی خدمت میں پیش کی جاتی ہے ،(یہ بات بھی پیش نظر رہے کہ یہ تقابل محض معزز ججز صاحبان کو آئینہ دکھانے کےلیے ہے ورنہ کئی عاشقان رسول وکلااب بھی دھرنے کے حامی و شریک ہیں ۔)آپ خود فیصلہ کریں کہ جب انہی معزز ججز صاحبان میں سے کچھ تو ان احتجاجوں میں شریک و حامی رہے اور بقیہ پوری عدلیہ کی طرف سے ان کے خلاف ایسا کوئی نوٹس ریکارڈ پر نہیں ہے ۔تو کیاان کے نزدیک گویا حرمت عدالت کی بحالی تحفظ ناموس رسالت وختم نبوت سے بھی بڑھ کر ہےکہ عدلیہ کے لیے تو سب درست اور ختم نبوت کے معاملہ میں یہ اعتراضات ؟؟؟؟

٭سب سے پہلے میں سابق چیف جسٹس افتخار چوہدری کے بارے میں کلام کروں گا جس کی بحالی کے لیے وکلاء نے اٹھارہ ماہ سڑکوں پر احتجاج کیا،لانگ مارچ کیا، اپنی جانیں دیں،ان کو زندہ جلایا گیا۔ ان کے ساتھ ساتھ سیاسی جماعتوں بلکہ خود نون لیگیوں بلکہ خود نون نے بھی اس میں بھرپورشرکت وحمایت کی۔اس افتخار چوہدری کی حیثیت ختم نبوت کے آگے ایک ذرہ برابر نہ تھی بلکہ اس شخص کے متعلق سپریم کورٹ بارایسوسی ایشن کے صدرعلی احمد کرد نے کہا کہ وہ نہ ہی اچھے انسان ہیں اور نہ اچھے جج۔سابق صدر پرویز مشرف نے ان کو غدار اورتھرڈ کلاس آدمی قرار دیا۔کیا وکلا اور ججز کا ایک ایسے بندے کی بحالی کے لیے احتجاج،لانگ مارچ ،ہڑتالیں کرناآئینی قانونی اور اخلاقی فریضہ تھا او ر ختم نبوت کے حق میں دیا گیا فیض آباد کا دھرنا غیرقانونی و غیر اخلاقی ہوگیا؟

٭جنگ 17مارچ 2017کی خبر کے مطابق آزاد کشمیر کے وکلاء نے پونچھ بارمیں72دن کی ہڑتال اس لیے کی کہ آئی جی پولیس ان کو ناپسند ہے جسے تبدیل کیا جائے اور آزاد حکومت کو بااختیار بنا یا جائے ۔جب اس قدر لمبی ہڑتال پر حکومت نے نوٹس نہ لیا تووکلاء نے اسے افسوس ناک اور مجرمانہ غفلت قرار دیا۔ قانون کے محافظوں نے اپنے ا س مقصد پر حکومت کی لاپرواہی کو جرم و غفلت تو قرار دے دیا لیکن ختم نبوت جیسے اہم بنیادی عقیدہ پرحکومت کی پراسرار خاموشی کو کیوں جرم قرارنہ دیا؟الٹا دھرنے والوں کو مجرم قراردے کر عوام میں بدنام کرنے کی کیوں کوشش کی؟

٭ایکسپریس نیوز لاہور21اگست2017 کے مطابق لاہور ہائی کورٹ میں ملتان ہائی کورٹ بار کے صدر اور سیکریٹری کے خلاف توہین عدالت کیس کی سماعت کے موقع پروکلاء اور پولیس کی جھڑپ ہوئی جس کے نتیجے میں وکلا نے جی پی او چوک میں شدید نعرے بازی کرنے کے ساتھ عدالت کے احاطے میں لگے واک تھرو گیٹ کو توڑ دیا جب کہ کئی وکلا نے ڈنڈوں کے ساتھ چیف جسٹس کے داخلی گیٹ پر دھاوا بول دیا۔اس کے بعد وکلا نے مال روڈ پردھرنا دے دیا ۔

٭بی بی سی اردو ڈاٹ کام01فروری 2009کے مطابق وکلا نے عدلیہ کی آزادی اور معزول چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کی بحالی کے لیے نو مارچ کو لانگ مارچ اور پارلیمنٹ کے سامنے دھرنا دینے کا اعلان کیا ہے جبکہ وکلا کے لانگ مارچ میں مسلم لیگ نواز سمیت حزب مخالف کی دیگر جماعتوں نے شرکت کرنے کا اعلان کیا ہے۔

٭جیو اردو 6مئی2014کے مطابق کراچی میں وکلا کی ٹارگٹ کلنگ کے خلاف احتجاجی ریلی نکالی گئی۔ سندھ اسمبلی کے سامنے دھرنا دینے والے کچھ وکلا دیوار پھلانگ کر اسمبلی احاطے میں بھی داخل ہو گئے۔ اس دوران وکلاء اور پولیس کے درمیان ہاتھا پائی بھی ہوئی۔ اس موقع پر وکلاء سے بات کرتے ہوئے سینئر وزیر نثار کھوڑو نے کہا کہ اسمبلی آپ ہی کی ہے اور آپ کو اس کی عزت کرنی ہے۔ وکلاء رہنماوٴں کا کہنا تھا کہ، وہ ذاتی مفاد کیلئے یہاں نہیں آئے، لیکن ان کی جائز شکایات کا بھی نوٹس نہیں لیا جارہا۔سرکار! ختم نبوت میں موجود دھرنے والے بھی ذاتی مفاد کے لیے نہیں آئے ان پر بھی رحم کریں۔

٭روزنامہ جنگ19اکتوبر2016کے مطابق لاہور کی سول عدالت میں وکلاءنے بات نہ ماننے پر عدالتی اہلکار آصف کو تشدد کا نشانہ بنا ڈالا۔واقعہ کے خلاف عدالتی اہلکار عدالتی کام چھوڑ کر احتجاج کرتے ہوئے سڑک پر نکل آئے اور وکلاءکے خلاف نعرے بازی کرتے رہے۔عدالتی اہلکاروں نے تشدد کا نشانہ بنانے والے وکلاءکے خلاف احتجاج کی کال دے دی چنانچہ مال روڈ پرعدالتی کلیریکل سٹاف کے احتجاج کی وجہ سے ٹریفک بلاک ہوگئی۔ جس میں گاڑیوں کی لمبی لائنیں لگ گئیں۔عدالتی اہلکاروں کی جانب سے ہڑتال کے باعث ہزاروں مقدمات کی سماعت متاثر ہونے سے سائلین کو مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔

٭خبرنامہ پاکستان21اگست2017کے مطابق لاہور میں وکیل رہنماؤں کی گرفتاری کے حکم پر وکلاء نے قانون ہاتھ میں لے لیا۔ راولپنڈی میں‌ بھی وکلا کا احتجاج، ایئرپورٹ تک ٹریفک جام ہو گیا۔

نوٹ :اس تحریر کو پڑھنے والے تین طرح کے لوگ ہوں گے:

1۔علمائے کرام و دینی سوچ کے حامل افراد:یہ طبقہ کبھی بھی ختم نبوت کے مسئلہ میں سپریم کورٹ کے موجودہ فیصلہ کو درست نہیں سمجھے گا۔ہاں جو سرکاری دین فروش مولوی ہیں وہ یہی کہہ رہے ہیں کہ دھرنے والے انتشارپھیلا رہے ہیں جب ترمیم واپس لے لی گئی ہے تو اب کیا مسئلہ ہے؟یعنی ان مولویوں کے نزدیک چور اگر چوری کرنے کے بعد پیسے واپس کر دے تو اس سے NRO جیسامعاملہ کرکےسزا نہیں دینی چاہیے بلکہ یہ بھی نہیں پوچھنا چاہیے کہ تم نے کیوں چور ی کی اور کس کے کہنے پر کی۔اس طرح کی شرعی ایڈوائزری کا فریضہ یہ پہلے بھی بہت ساروں کے حق میں سرانجام دے چکے ہیں۔

2۔عوام الناس جس میں پڑھا لکھا طبقہ بھی شامل ہے:عوام الناس کی ایک بڑی تعداد چونکہ میڈیاکی ہر جھوٹی سچی بات پرآنکھیں بند کرکےاعتبار کر لیتی ہے ،اس کے صدق وکذب کی پڑتال کی کوئی تکلیف گوارا نہیں کرتی ۔نہ یہ جاننے کی کوشش کرتی ہے کہ دینی اعتبار سے یہ کس قدراہم مسئلہ ہے۔عوام کے لیے صرف میرا ایک سوال ہے کہ اگر بالفرض یہ ثابت ہوجائے کہ ختم نبوت کے مسئلہ میں ترمیم کروانے میں حکومت اوردیگر بڑی طاقتوں کا ہاتھ ہے یااللہ نہ کرے کل کوقادیانیوں کومسلم قرار دے دیا جائے تو آپ احتجاج کس طرح کریں گے؟کیا وٹس ایپ یا فیس بک پر احتجاج کریں گے؟کیا اس طریقہ سے آپ کی بات یہ اقتدار والے سن لیں گے ؟نہیں !یقینا نہیں۔آپ کو احتجاج کرنا ہوگا اوریہی احتجاج شریعت کے دائرے میں رہ کرفیض آباد میں موجود عاشقان رسول کررہے ہیں ۔ان کی حوصلہ افزائی کریں ،نہ کہ ان پرطعن کرکےختم نبوت کے مسئلہ کو کھیل بنادیں۔

3۔تیسرا گروہ صاحب اقتدار لوگ ہیں جن میں وزیر و مشیر،جج صاحبان وغیرہ ہیں ۔ان سے عرض ہے کہ اگر اللہ عزوجل نے آپ کو منصب دے کرموقع دیا ہے تو دین کے لیے بھی سوچ لیں اور دھرنے میں موجود مظلوم لوگوں پر کوئی کاروائی کرنے سے پہلے فرعون،نمرود،یزید جیسے لوگوں کا انجام دیکھ لیں۔یہ کرسی چار دن کی ہے اگر دین فروشی کرو گے تو ریٹائر منٹ کے بعد پنشن اور لعنتیں کھانا تمہارا مقدر ہوگا۔

تاجدارِ ختم نبوت زندہ باد

الشفاء (جلد2،صفحہ 492،دارالفیحاء ،عمان)میں ہے کہ ہارون رشید نے امام مالک سے پوچھا:اگر دنیا میں کسی جگہ حضورعلیہ السلام کی گستاخی ہوجائے تو حضور کی اُمت کی کیا ذمہ داری ہے؟امام مالک نے فرمایا: امتِ مُسلمہ بدلہ لے اُس سے۔ہارون نے پوچھا:اگر وہ ایسا نہ کرے تو پھر؟امام مالک نے پُرغضب ہو کر فرمایا: پھر امت کو جینے کا کوئی حق نہیں ۔

اپنا تبصرہ بھیجیں