آزادی رائے یا بدمعاشی

آزادی رائے یا بدمعاشی

پیشکش: صدائے قلب

آج پوری دنیا میں آزادی رائے کو بہت اہمیت دی جارہی ہے اور سیکولر و لبرل طبقہ کے ساتھ ایک پڑھا لکھا طبقہ بھی اپنے عقائدو نظریات کا برملااظہار کرتا اور اسے اپنا حق سمجھتا ہے۔ اقوام متحدہ کے بین الاقوامی چارٹر کی شق نمبر 19 کے مطابق”ہرشخص کو اپنی رائے رکھنے اور اظہارِ رائے کی آزادی کا حق حاصل ہے۔ اس حق میں یہ امر بھی شامل ہے کہ وہ آزادی کے ساتھ اپنی رائے قائم کرے اور جس ذریعے سے چاہے بغیر ملکی سرحدوں کا خیال کیے علم اور خیالات کی تلاش کرے، انہیں حاصل کرے اور ان کی تبلیغ کرے۔“

یہ ایک خود ساختہ ،غیر واضح اور حدو دقیود سے آزاد شق ہے۔اس شق کو آڑ بناکر ایک طبقہ نہ صرف اپنے کلام کو آزادسمجھتا ہے بلکہ اپنے نظریات کو دوسروں کے اوپر مسلط کرنے کی بھی کوشش کرتا ہے۔اس آزادی رائے کی آڑ میں بہت زیادہ نقصان دینِ اسلام اور علمائے اسلام کو پہنچایاجارہا ہے۔ آئے دن مختلف ممالک میں اسلام کے خلاف سازشیں کی جارہی ہیں اور اسے آزادی کا نام دیا جارہا ہے ،مسلم ممالک میں موجود سیکولر و لبر ل طبقہ اسلامی احکام کے خلاف زبان درازی کرتا اور علمائے دین پر سخت تنقید کررہا ہے۔اسلام اور علما کو قدامت و شدت پسند ثابت کیا جارہا ہے۔ جبکہ حقیقت میں اسلام ہی وہ واحد مذہب ہے جس نے سب سے پہلے اظہار رائے کی آزادی کا فلسفہ دیا، اس سے پہلے لوگ غلام تھے، مصنوعی خداؤں کے آگے جھکتے تھے، ان کے بارے کچھ نہیں کہہ سکتے تھے، جو کوئی ان کے بارے میں لب کھولتاپوری سوسائٹی اس کی دشمن بن جاتی۔

اسلام سے قبل روم وفارس میں لوگ حکمرانوں کے غلام تھے، ان کے خلاف ایک لفظ کہنے کی اجازت تک نہ تھی، یونان کا کلیسا خدائی کا دعویدار تھا، جس سے اختلاف رائے کا مطلب موت تھی۔ مگر اسلام نے انسانوں کو انسانیت کی غلامی سے نکال کر آزاد کروایا اور صرف ایک اللہ وحدہ لاشریک کا بندہ بنانے کا اعلان کیا۔

یہ اسلام ہے جس میں ہر انسان آزاد ہے، وہ جو چاہے کرسکتا ہے، جو چاہے بول سکتا ہے۔ اللہ عزوجل نے” لَاۤ اِکْرَاہَ فِی الدِّیۡنِ“(کچھ زبردستی نہیں دین میں)،”لَا یُکَلِّفُ اللہُ نَفْسًا اِلَّا وُسْعَہَا “ (اللہ کسی جان پر اس کی طاقت کے برابر ہی بوجھ ڈالتا ہے ۔) اور حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو سماج چلانے کے لیے”وَشَاوِرْہُمْ فِی الۡاَمْرِ “(اور کاموں میں ان سے مشورہ لو)جیسے سنہری اصولوں سے واضح کردیا کہ اسلام اظہاررائے کی آزادی کاحامی ہے۔

لیکن اسلام اعتدال پسند ہے، فساد کے خلاف ہے،چنانچہ اسلام نے رائے کی آزادی کے ساتھ یہ فلسفہ بھی پیش کیا کہ انسان رائے دینے میں حیوانوں کی طرح بے مہار نہیں، بلکہ اس کی اظہار رائے کی آزادی کچھ حدود Limits کی پابندہے۔ ان حدود پر تنبیہ کرنے کے لیے ارشاد فرمایا” مَا یَلْفِظُ مِنۡ قَوْلٍ اِلَّا لَدَیۡہِ رَقِیۡبٌ عَتِیۡدٌ “(کوئی بات وہ زبان سے نہیں نکالتا کہ اس کے پاس ایک محافظ تیار نہ بیٹھا ہو۔)سورہ حجرات میں اظہار رائے کی آزادی کا فلسفہ بیان کرتے ہوئے فرمایا کہ انسان کسی کا تمسخر نہیں کرسکتا، کسی کی غیبت نہیں کرسکتا، کسی پر بہتان، الزام تراشی، یاکسی کی ذاتی زندگی کے عیب نہیں ٹٹول سکتا، حتی کہ کسی کو برے نام اور القاب سے نہیں پکارسکتا۔

اظہار رائے کی آزادی میں اسلام نے ایک طرف بہترین اخلاقی اقدار فراہم کیں تو دوسری طرف انسان کو رائے دہی میں آزاد کیا اور جبر اور طاقت سے زیادہ ذمہ داری سونپنے کی حوصلہ شکنی کی۔ مشورے اور اظہار رائے کی آزادی کا عملی مظاہرہ ہمیں سیرت مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم میں بھی جابجاملتاہے۔ چنانچہ آپ ﷺ نے غزوہ خندق ، غزہ احداور غزوہ بدر کے قیدیوں کے معاملے میں نہ صرف صحابہ کرام سے مشورہ کیا بلکہ ان کے مشورے کو عملی جامہ بھی پہنایا۔ اسی طرح قبیلہ غطفان کے ساتھ مدینہ کی پیداوار کے تیسرے حصے پر جب معاہدہ کرنے لگے تو انصار نے بلاخوف وخطر آزادی رائے کا اظہار کیا اور آپ ﷺ کو اس معاہدے سے روک دیا۔ نیز حضرت بریرہ اور مغیث کے معاملے میں حضرت بریرہ نے کھل کراپنی رائے کا اظہارکیا اور اس پر عمل کرکے دکھایا۔ حیرت ہے لوگ پھر بھی اسلام کو الزام دیتے ہیں کہ وہ اظہاررائے کی آزادی کے خلاف ہے۔

دوسری طرف مغرب کے ہاں آزادی اظہار رائے کاجو تصور پایا جاتاہے وہ منافقت اورتضاد سے بھرپورہے۔ ایک تو ان کے ہاں عملًا اظہار رائے کی آزادی کی کوئی لمٹس نہیں، چنانچہ چغل خوری، عیب جوئی، تمسخر، مذاق وغیرہ وہاں معمول ہے۔ دوسرا آزادی اظہار رائے کے نام پر جو چیزیں وہ خود پسند نہیں کرتے مسلمانوں سے ان کا مطالبہ کرتے ہیں۔ مثلاً ہولوکاسٹ پر بات کرنا، دونوں جنگ عظیم میں ہلاک ہونے والے لوگوں پر بات کرنا، امریکہ کے قومی پرچم،قومی پرندے کی قید، عدلیہ اور دیگر بعض دفاعی اداروں پر بات کرنا جرم سمجھاجاتاہے۔ کینیڈا کے قانون میں عیسائیت کی توہین وتنقیص جرم ہے۔ دوسری طرف مسلمانوں کو پیغمبر اسلام کی توہین پر عدم برداشت کا طعنہ دیا جاتاہے۔مغرب کی دوغلی پالیسی کا اندازہ ان مثالوں سے بخوبی لگایاجاسکتاہے۔ ایک مرتبہ آسٹریلیا میں ایک مراکشی عالم نے تنگ وچست لباس پر بات کی تو پورا آسٹریلیا ان کے خلاف ہوگیا۔ 27 جنوری 2003 میں ٹیلی گراف اخبارنے اسرائیلی وزیر اعظم کا خاکہ شائع کیا جس میں وہ فلسطینی بچوں کی کھوپڑیاں کھاتا دکھایا گیا۔ اس پر اسرائیل اور ان کے ہمنواؤں نے ہنگامہ کھڑا کردیا جس پر اخبار نے معذرت کی۔ اٹلی کے وزیراعظم نے حضرت عیسی علیہ السلام کے مشابہ حکومت کی بات کی تو پورا یورپ ان کے خلاف ہوگیا۔ اظہار رائے کی آزادی کے نام نہاد علمبردار امریکہ کاحال یہ ہے کہ وہاں لوگوں کے فون تک ٹیپ کیے جاتے ہیں۔ آزادی اظہار رائے کے نام پر امریکہ کے نیچ اخلاق کا اندازہ اس واقعہ سے لگائیں کہ لیبیا میں توہین قرآن وتوہین رسالت ﷺکا واقعہ ہوا جس میں مشتعل مظاہرین نے امریکی ایمبیسی میں آگ لگادی اور چندامریکی مارے گئے، جس کے بعد اقوام متحدہ کا اجلاس بلایا گیا، اجلاس سے خطاب کے دوران امریکی صدر نے کہا کہ ” توہین رسالت ﷺوتوہین قرآن آزادی اظہار رائے کی ایک شکل ہے۔ امریکی آئین اسے تحفظ دیتاہے۔ امریکی اکثریت عیسائی ہے،ہم باوجود عیسائی ہونے کے عیسیٰ علیہ السلام کی توہین پر قدغن نہیں لگاسکتے۔“ لیکن منافقت اور گھٹیا پن دیکھیے کہ پیغمبر اسلام ﷺ ومقدس شعائر کی توہین تو برداشت ہے مگرامریکہ کے قومی پرچم، قومی پرندے کی قید اور عدالتوں کی توہین پر سزائیں اور جرمانے ہیں۔ ابھی حال ہی کا واقعہ ہے کہ امریکہ میں ایک لیڈی ڈینٹل ڈاکٹر کو حجاب پہننے پر نوکری سے برطرف کردیاگیا، فرانس اور جرمنی میں حجاب پر پابندی تو پوری دنیا کے سامنے ہے۔ ان مثالوں سے با آسانی فیصلہ کیا جاسکتاہے کہ اظہاررائے، عمل اور مذہب کی جس آزادی کا ڈھنڈورا اقوام متحدہ ، یورپ اور امریکہ پیٹتاہے وہ صرف ایک دھوکہ ہے۔

(ماخوذ ازآرٹیکل:اظہار رائے کی آزادی ;اسلام اور مغرب کا نقطہ نظر)

افسوس کہ ملکِ پاکستان کا ایک پڑھا لکھا طبقہ رفتہ رفتہ سیکولر و لبرل نظریات کا حامل ہوکر دین اور دینی لوگوں سے دور ہوتا جارہا ہے۔ہر کوئی اپنی مرضی کے عقائدو نظریات اپنا رہا ہے۔خود یہ لوگ جو بھی غیر شرعی افعال کریں ،اس کی کوئی پرواہ نہیں کرتے اور اسے آزادی سمجھتے ہیں لیکن ایک مسلمان کو اتنی بھی آزادی نہیں دیتے کہ وہ قرآن وسنت کے مطابق زندگی گزار سکے۔ داڑھی والے حضرات اور حجاب والی عورتوں پر سخت تنقید کی جاتی ہے جبکہ آزادی کے اصول کے مطابق بھی دیکھا جائے تو اگر ایک شخص نے داڑھی رکھی ہے یا ایک مسلمان عورت نے ججاب کیا ہے تو اس میں سیکولر لوگوں کو کیا تکلیف ہے؟؟؟لیکن حقیقت یہ ہے کہ آزادی رائے کا فتنہ اسلام کو کمزور کرنے اور اسلامی احکامات کو ختم کرنے کے لیے ہے۔

آج پاکستان میں موجود سیکولر اور مغربیت کے دلدادہ لوگ علمائے کرام پر یہ الزام تو لگاتے ہیں کہ انہوں نے لوگوں کو اپنا غلام بنالیا ہے اور انسانوں کو اپنی مرضی کے مطابق جینے نہیں دیتے،سخت احکام ہم پر مسلط کرکے ہماری آزادی کو چھیننا چاہتے ہیں لیکن یہ لوگ اس وقت مغربی ممالک اور کفار پر تنقیدنہیں کرتے ہیں جب وہ انگریز اپنے ہاں موجود مسلمانوں کو ان کی مرضی کے مطابق اسلامی قوانین پر عمل پیرا نہیں ہونے دیتے۔ ذیل میں چند وہ واقعات پیش کیے جاتے ہیں جو مختلف ممالک میں مسلمانوں کے خلاف روپذیر ہوئے۔ قارئین ان واقعات کو پڑھیں اور غور کریں کہ اس وقت اسلام دشمن طاقتیں کس طرح مسلمانوں کے خلاف کاروائیوں میں مصروف عمل ہیں اور آزادی کے نام پر ترقی کو جو خواب مسلمانوں کو دکھایاجارہا ہے وہ ایک فریب ہے۔

حجاب پر پابندی

یورپین ممالک جن میں آزادی کے نام پر بے حیائی عام ہے، وہاں جو مسلمان عورت اپنی مرضی اور شریعت اسلام پر عمل پیرا ہوتے ہوئے حجاب کرے اس کے ساتھ انتہائی بُراسلوک کیا جارہا ہے۔اس نازیبا سلوک کی ایک بڑی وجہ یہ ہے کہ یورپی لوگ بےحیائی اور غیر اخلاقی افعال سے تنگ آکر جب اسلامی تعلیمات دیکھتے ہیں تو اسلام کو ہر لحاظ سے ایک کامل دین پاکر اس کی طرف مائل ہورہے ہیں۔ان کفار کوشعائر اسلام اور اسلامی تہذیب کی کشش کا خوف ہے۔یہی وجہ ہے کہ یورپ میں کچھ عرصہ سے حجا ب کے خلاف قانون سازی کی آوازیں بلند ہو رہی ہیں۔جن میں فرانس، بیلجیم،اسپین،جرمنی وغیرہ شامل ہیں۔

بیلجیم:بیلجیم کی پارلیمنٹ نے عوامی مقامات پر برقعہ پہننے پر پابندی عائد کر دی ہے۔بیلجیم کی پارلیمنٹ میں رائے شماری میں ایک سو چونتیس ارکان نے برقعہ پر پابندی کے حق میں ووٹ دیا ،جبکہ مخالفت میں ایک بھی ووٹ نہیں آیا۔ قانون کی خلاف ورزی کرنے والے پر پندرہ سے پچیس یورو جرمانہ عائد کیا جائے گا ،جبکہ سات دن قید بھی ہو سکتی ہے۔

اسپین:طویل عرصے تک مسلمانوں کے زیرِ حکومت رہنے والے ملک اسپین میں بھی حجاب پر پابندی کے بارے میں بحث و مباحثے جاری ہیں چنانچہ اس کے دو بڑے شہروں میں پابندی عائد کی جاچکی ہے۔” لیڈا“اسپین کا پہلا شہر بن گیا ہے جہاں برقع پہننے پر مکمل پابندی ہے۔ واضح رہے کہ”لیڈا“ کی تین فیصد آبادی مسلمان ہے۔ جبکہ اسپین میں مسلمانوں کی کل آ بادی تقریباً دس لاکھ ہے۔ غیر ملکی خبر ایجنسی کے مطابق اسپین کے” لیڈا“ٹاؤن کے حکام نے خواتین کو پردہ نہ کرنے کے قانون پر سختی سے عمل کرنے کی ہدایت جاری کر دی ہے۔ لیڈا میونسپل نے رواں برس جون میں برقعے اور حجاب پر پابندی کا قانون پاس کیا تھا۔

فرانس:فرانس میں کئی سالوں سے حجاب کے خلاف تحریک چلتی رہی جو بعد میں قانونی شکل اختیار کر گئی ہے۔پہلے یہ پابندی صرف تعلیمی اداروں تک محدود تھی اور اسے سکول،یونیفارم اور ڈسپلن کی خلاف ورزی قرار دیا گیا،لیکن بعد میں 11اپریل2010سے عمومی طور پر پابندی لگا دی گئی ۔ اس وقت فرانس میں مسلمانوں کی ایک کثیر تعداد رہائش پذیر ہے۔ فرانس کی وزارت داخلہ کے مطابق فرانس جہاں یورپی ممالک کے مقابلے میں سب سے زیادہ مسلمان رہائش پذیر ہیں اور 1900 خواتین برقع پہنتی ہیں،مسلمانوں کے شدید تحفظات کے باوجود فرانس میں حجاب پر پابندی کا قانون نافذ کر دیا گیا۔نئے قانون کے تحت عوامی مقامات اور عدالتوں میں چہرہ چھپانے پر پابندی عائد کی گئی ہے۔ ایسا کرنے والی کسی بھی عورت کو پولیس اسٹیشن بلاکر نقاب اتارنے کا کہا جائے گااور حکم عدولی پر ڈیڑھ سو یورو جرمانہ کیا جائے گا۔ اور اگر کسی مرد نے کسی مسلم خاتون کو برقعہ پہننے پر مجبور کیا یا اِس کی ترغیب بھی دی تو اسے ایک سال قید اور پندرہ ہزار یورو جرمانے لگانے کا بھی قانون پاس کر لیا گیا ہے۔بلکہ فرانس کی حکومت نے ایک غیر ملکی شخص کو اس بنیاد پر شہریت دینے سے انکار کر دیا ہے جس نے اپنی بیوی کو زبردستی نقاب پہننے کا حکم دیا تھا۔

آسٹریا:العربیہ ڈاٹ نیٹ کے مطابق آسٹرین وزیرخارجہ اسپٹین کورٹز کا تعلق ملک کی قدامت پسند عیسائی سیاسی جماعت’پیپلز پارٹی‘سے ہے اور وہ ایک مسلمان فلسطینی نژاد خاتون وزیر مملکت منیٰ دزدار کے ساتھ مل کر ملک میں حجاب پر پابندی کے لیے قانون سازی کررہے ہیں۔ آسٹرین وزیرخارجہ نے جہاں ایک طرف مسلمان خواتین کے حجاب پر پابندی کے قانون کے نفاذ کی مہم شروع کی ہے، وہیں دوسری طرف کیتھولک عیسائی عورتوں کو صلیب کی علامت گلے میں ڈالنے کی اجازت دی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ اسکول میں کلاسوں کے دوران بھی صلیب کی علامت نمایاں کی جاسکتی ہے۔ بقول ان کے صلیب کی علامت گلے میں ڈالنا ملک کی قومی تہذیب وتاریخ کے اظہار کا بہترین ذریعہ ہے۔

چین:چین کے شورش زدہ شمالی صوبے سنکیانگ کے ایک شہر میں ہیڈ اسکارف یا حجاب کا استعمال کرنے والی خواتین اور داڑھی والے مردوں کے لیے بسوں میں سفر کرنے پر پابندی عائد کر دی گئی ہے۔ سنکیانگ ایغور نسل کے مسلمانوں کا آبائی علاقہ ہے۔ ایغور باشندے ’ترکش‘زبان بولتے ہیں جو 25 مختلف زبانوں سے مل کر بنی ہے۔

تسنیم نیوز کے مطابق چینی حکومت نے اپنے شہریوں پر پابندیاں عائد کردی ہیں جن میں داڑھی رکھنے اور خواتین کے برقعہ پہننے پر پابندی لگا دی اس کے علاوہ ریڈیو اور ٹیلی ویژن پر حکومتی پالیسیوں کے بارے میں پیش کیے جانے والے پروگرامز کو سننے یا دیکھنے سے انکار بھی ممنوع قرار دے دیا گیا ہے۔چینی حکومت کی جانب سے نافذ کیے جانے والے ضابطوں کے تحت بچوں کو نیشنل تعلیمی پروگرام سے دور رکھنے کی بھی ممانعت کر دی گئی ہے۔

(تسنیم نیوز ایجنسی31مارچ2017)

مساجد کے میناروں پر پابندی

آزاد دائرۃ المعارف،ویکیپیڈیا پر ہے:سوئٹزرلینڈ کے مذہبی انتہا پسندوں کی طرف سے مسلمانوں کی مساجد میں مینار تعمیر کرنے کی مخالفت تحریک شروع کی گئی جسے سوئس قوم کی اکثریت کی حمایت حاصل ہو گئی۔سوئٹزرلیند میں قریبا 3 لاکھ دس ہزار مسلمان آباد ہیں جو 160 مساجد یا سینٹر نمازوں کو ادائیگی کے لیے استعمال کرتے ہیں۔ لیکن باقاعدہ مسجد کے طور پر سارے ملک میں صرف 3 مساجد ہیں۔کچھ عرصہ پہلے سوئٹزرلینڈ میں مساجد کے میناروں کے متعلق ایک ریفرنڈم کرایا گیا جس میں حصہ لینے والوں کی اکثریت نے ملک میں میناروں پر پابندی لگانے کا مطالبہ کیا۔ اس معاملے کا آغاز سن 2007 میں اس وقت ہوا جب مختلف مسلمان تنظیموں نے سوئٹزرلینڈ کے تین مختلف شہروں میں میناروں کی تعمیر کی اجازت مانگی،نیز سارے یورپ کے مسلمانوں کے لیے برن شہر میں ایک عالیشان سنٹر بنانے کا منصوبہ پیش کیا۔ جب عوام کے سامنے یہ منصوبے آئے تو کچھ لوگوں نے میناروں کی تعمیر کی مخالفت شروع کر دی۔ چنانچہ یکم مئی 2007 کو میناروں کی تعمیر کے خلاف ایک تحریک کا آغاز ہوا اور 29 جولائی 2008 تک اس تحریک کے حق میں ایک لاکھ سے زائد لوگوں کے دستخط اکٹھے کر لیے گئے تھے۔ جس کے بعد سوئس قانون کے مطابق اس موضوع پر ایک ریفرنڈم کرانا ضروری ہو گیا۔ یہ ریفرنڈم 92 نومبر 2009 کو منعقد کیا گیا۔تمام اندازوں کے برخلاف 5.57 فی صد لوگوں اور سوئٹزرلینڈ کے 23 میں سے ساڑھے 19 کینٹونز نے میناروں کی ممانعت کے حق میں ووٹ دیا۔

اذان پر پابندی

ہنگری:ڈیلی پاکستان کی خبر ہے:”بڈاپسٹ(مانیٹرنگ ڈیسک) مغربی و یورپی ممالک میں اسلام فوبیا اس وقت اپنے عروج کو پہنچ رہا ہے اور ان نام نہاد آزادی اظہاراور انسانی حقوق کے علمبردار ملکوں میں حکومتی و انتظامی سطح پر مسلمانوں کے خلاف کئی گھناؤنے اقدامات کیے جا رہے ہیں۔نسلی و مذہبی منافرت میں فرانس اور جرمنی سمیت کئی دیگر یورپی ممالک سے ایک ہاتھ آگے بڑھتے ہوئے ہنگری میں اب مسلم ثقافت کے خلاف کھلا اعلان جنگ کر دیا گیا ہے۔میل آن لائن کی رپورٹ کے مطابق جنگ کا یہ اعلان ہنگری کے شہر ایسوتھالوم (Asotthalom) کے میئر لیزلو توروکزکائی (Laszlo Toroczkai)کی طرف سے کیا گیا ہے جس نے اپنے زیرانتظام شہر میں مسلمانوں کے ثقافتی لباس پہننے،سکارف اور حجاب لینے ، حتیٰ کہ اذان دینے پر بھی پابندی عائد کر دی ہے۔اس کا کہنا ہے کہ ”ہمارا یہ اقدام مسلم ثقافت کے خلاف جاری جنگ کا ایک حصہ ہے۔“

https://dailypakistan.com.pk/08-Feb-2017/523192))

فلسطین:مقبوضہ بیت المقدس (مانیٹرنگ ڈیسک) اسرائیلی فوج نے جنوری 2018ء کے دوران تاریخی جامع مسجد ابراہیمی میں 49 بار اذان کی ادائیگی پر پابندی لگادی۔اسرائیلی کنیسٹ نے ایک متنازع مسودہ قانون پر ابتدائی رائے شماری کرانے کے بعد اس کی منظوری دی تھی جس میں بیت المقدس اور فلسطین کے دوسرے شہروں کی مساجد میں اذان پر پابندی کا فیصلہ کیا گیا تھا۔ قرارداد کی حمایت میں 120 کے ایوان میں 55 نے حمایت اور 48 نے مخالفت کی تھی۔ اس قانون کے تحت رات گیارہ بجے سے صبح سات بجے تک مساجد میں لاؤڈ اسپیکر پر اذان نہیں دی جاسکتی۔ قانون کے تحت خلاف ورزی کرنے پر مسجد کی انتظامیہ کو 5سے 10 ہزار شیکل جرمانہ ادا کرنا ہوگا۔ امریکی کرنسی میں یہ رقم 1300 سے 2600 ڈالر کے مساوی ہے۔

جرمن:جرمنی کی مقامی عدالت نے مقامی جوڑے کی شکایت پر مسجد میں لاؤڈ اسپیکر پر اذان دینے پر پابندی عائد کردی۔غیرملکی خبررساں ادارے کے مطابق جرمنی کے شہر ڈورٹمنڈ کے نواحی قصبے اوہر ایرکنشویک میں واقع مسجد میں لاؤڈ اسپیکر پر اذان دینے پر پابندی عائد کردی گئی۔مسجد سے 600 میٹر دور رہنے والے 69 سالہ ہانس یوآخم لیہمان نے اپنی بیوی کے ہمراہ مقامی عدالت میں درخواست دائر کی تھی۔درخواست میں مؤقف پیش کیا گیا کہ اذان میں الفاظ کے ذریعے عقائد کا اظہار کیا جاتا ہے اور اذان سننے والے کو نماز میں شرکت کے لیے مجبور کیا جاتا ہے، بالخصوص جمعے کے روز لاؤڈ اسپیکر پر دی جانے والی اذان ان کے مسیحی عقائد اور مذببی آزادی کے منافی ہے۔

ہندوستان:بھارتی ریاست اترپردیش کے وزیر اعلیٰ نے صوبے بھر میں لاؤڈ اسپیکر پر اذان دینے کی پابندی عائد کرتے ہوئے مساجد سے لاؤڈ اسپیکر اتارنے کا حکم جاری کردیا۔تفصیلات کے مطابق بھارتیہ جنتا پارٹی کے انتہا پسند رہنماء یوگی آدیتیہ ناتھ نے اترپردیش کا وزیراعلی بننے کے بعد مسلمانوں کا جینا دوبھر کردیا، گائے کے گوشت پر پابندی اور مسلمانوں پر سرعام تشدد کے بعد اب انہوں نے اسپیکر پر اذان دینے کی پابندی بھی عائد کردی۔بھارتی میڈیا کے مطابق اترپردیش کے وزیر اعلیٰ نے مساجد میں سرکلر بھیجا کہ 15 جنوری سے قبل مینار سے اسپیکر اتار لیے جائیں اور آئندہ اسپیکر پر اذان نہ دی جائے بصورت دیگر سخت کارروائی عمل میں لائی جائے گی۔

یوگی آدیتیہ نے یہ پابندی گزشتہ برس آلہ باد ہائی کورٹ کی جانب سے جاری ہونے والے فیصلے کی روشنی میں عائد کی جس میں تمام عوامی مقامات پر اسپیکر استعمال کرنے کی پابندی عائد کی گئی تھی۔

مساجد پر پابندی

سماء نیوز کے مطابق: گزشتہ دنوں کی ایک خبر کے مطابق افریقا کے ایک ملک انگولا میں مذہب اسلام اور مساجد کی تعمیر پر پابندی لگادی گئی ہے اور اسلام کو غیر قانونی مذہب قرار دیا گیا ہے، اس سے پہلے افریقی ریاست نے تمام مساجد کو شہید کرنے کا حکم دیا تھا لیکن مسلمانوں کے شدید احتجاج کے باعث ایسا نہیں کیا جاسکا۔

ایک سال پہلے انگولا کی ثقافتی وزیر نے اسلام کو شیطانی مذہب قرار دیا تھا اور کہا تھا کہ اسلام پر مکمل پابندی لگائی جائے ۔جبکہ انگولا ریاست کے صدر نے کہا تھا کہ انکے ملک میں مذہب اسلام کو ختم کیا جارہا ہے اور اب گزشتہ دنوں افریقی ریاست انگولا نے اسلام پر مکمل پابندی عائد کردی ہے۔

انگولا کی کل آبادی تقریباً 2 کروڑ ہے، جن میں ایک فیصد یعنی ایک لاکھ 90 ہزار مسلمان ہیں، اس ریاست میں 194 دیگر فرقوں پر بھی پابندی ہے جبکہ ریاست کا سرکاری مذہب عیسائیت ہے۔ حکومت کا مؤقف ہے کہ انگولا ایک عیسائی ریاست ہے، اس لئے اسلام کو قانونی حیثیت نہیں دی گئی۔

عیسائی اکثریتی ریاست میں مسلمانوں کی تیزی سے بڑھتی ہوئی آبادی اور اسلام کی اشاعت سے کافی پریشانی پائی جاتی ہے، یہی وجہ ہے کہ انگولا کی حکومت نے مذہب پر پابندی لگا کر اسلام کو پھیلنے سے روکنے کی ایک ناکام کوشش کی ہے۔

(سماء نیوز18ستمبر2015)

نماز پڑھنے پر پابندی

آگرہ:بھارت کی سخت گیر ہندو نظریاتی تنظیم آر ایس ایس نے تاج محل سے متصل مسجد میں نماز پڑھنے پر پابندی کا مطالبہ کردیا۔تفصیلات کے مطابق بھارتی میڈیا کے مطابق آر ایس ایس کے رہنمابالمکنڈ پانڈے نے تاج محل سے متصل شاہ جہانی مسجد میں مسلمانوں کے لیے نماز کے دروازے بند کرنے کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ تاج محل کو قومی ورثہ ہونے کے ناطے اسے مذہبی سرگرمیوں کے لیے استعمال کرنے کی ہرگز اجازت نہ دی جائے اورتاج محل کے احاطے میں نماز کی ادائیگی پر مکمل پابندی عائد کی جائے۔بال مکنڈ پانڈے نے کہا کہ کس بنیاد پر مسلمانوں کو تاج محل میں نماز پڑھنے کی اجازت دی گئی ہے ؟اگر تاج محل میں نماز کی ادائیگی پر پابندی نہ لگائی گئی تو ہندوؤں کوبھی یہاں پوجا کرنے کی اجازت دی جائے۔نماز کے لیے تاج محل کے دروازے کھلے ہیں تو ہندوؤں کو بھی مذہبی رسومات کی ادائیگی کی اجازت ملنی چاہیے۔اس نے مزید کہا کہ تاج محل کوئی محبت کی نشانی نہیں بلکہ تاج محل پہلے شیو مندر تھا جسے ایک ہندوراجا نے تعمیر کرایا تھا ۔

ڈنمارک:روزنامہ نوائے وقت میں ہے: کوپن ہیگن (آئی این پی) ڈنمارک کے شہر کوپن ہیگن میں ایک مقامی سکول کی انتظامیہ نے تدریسی اوقات میں مسلمان طلبا طالبات کی نماز کی ادائیگی پر پابندی عائد کردی جس پر مسلمان طلبا میں تشویش کی لہر دوڑ گئی۔کوپن ہیگن کے کسی سکول میں مسلمان طلبا طالبات پر نماز کی ادائیگی اور حجاب پر پابندی کا یہ پہلا واقعہ نہیں۔ سکول کی پرنسپل انگر مارگریٹ جنسن کا کہنا ہے وقفے کے دوران مسلمان طلبا سکول کی راہ داریوں میں مصلے بچھا کر نماز پڑھنا شروع کردیتے ہیں جس سے دوسرے طلبا کی آمد ورفت میں خلل پیدا ہوتا ہے۔ اس لئے وقفے کے دوران اور تدریسی اوقات میں طلبا کو نماز کی ادائیگی کی اجازت نہیں دی جاسکتی۔ سکول انتظامیہ کے اقدام پر طلبا سراپا احتجاج ہیں۔ سکول کی ایک مسلمان طالبہ نے فیس بک پر پوسٹ بیان میں بتایا ہم انتظامیہ کے فیصلے کے خلاف ایک پیٹیشن تیار کررہے ہیں جس پر تمام مسلمان طلبا کے دستخط کرائے جائیں گے۔

(https://www.nawaiwaqt.com.pk/17-Jun-2016/484430)

میانمار:ایک خبر کے مطابق میانمار کے سب سے بڑے شہر رنگون کے مشرق میں حکومتی اہلکاروں نے رمضان المبارک میں سڑک پر نماز پڑھنے کےجرم میں تین روہنگیا مسلمانوں کو گرفتار کر لیا ہے۔یہ واقعہ اس وقت پیش آیا جب پچاس لوگوں نےاس سڑک پر نمازجماعت قائم کی جو بدہشٹوں کے ٹاکٹا مندر کی طرف جاتی ہے،جہاں کچھ عرصہ سے مسلمانوں کے خلاف مذہبی شدت پسندی جاری ہے۔نیز علاقہ میں موجود مسلمان رہنما’’زامین لٹ‘‘ کا کہنا ہے کہ بدہشٹوں کے کہنے پر حکومت نے اس شہر میں ہمارے دو مدرسوں کو بھی بند کردیا ہے جو پچھلے ساٹھ سال سے چل رہے تھے۔تاہم حکام کا کہنا ہے کہ عمومی جگہ پر نماز پڑھنے سے امن میں خلل اور یہاں کے قانون کے خلاف ہےلیکن ایک پولیس آفیسر نے اپنے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر کہا ہے کہ یہ صرف مسلمانوں کے خلاف الزام ہے۔

روزہ رکھنے پر پابندی

چین: چین کے سنکیانگ صوبے میں روزہ رکھنے پر پابندی عائد کردی گئی ہے۔حالانکہ سنکیانگ میں مسلمانوں کی اچھی خاصی تعداد ہے مگر اس کے باوجود چین نے اپنی سابقہ ظالمانہ پالیسی کو جاری رکھتے ہوئے ایک بار پھر سرکاری ملازمین،طلباء اور اساتذہ کے لئے رمضان میں روزہ رکھنے پرپابندی عائد کردی ہے۔ایک خبر رساں ایجنسی کے مطابق حکومت کی جانب سے نہ صرف سرکاری ملازمین ، طلباء اور اساتذہ کو روزہ رکھنا منع ہے بلکہ انہیں نماز پڑھنے کی بھی اجازت نہیں ہے اور تلاوت قرآن کی بھی۔گزشتہ سال جب مسلمان طلبانے روزے رکھے تو چین نے زبردستی انہیں کھانا کھلانے کا حکم جاری کیا۔اس کے علاوہ پولس نے بڑے پیمانہ پر مسلمانوں کے گھروں پر چھاپے بھی مارے تاکہ وہاں روزہ رکھنے والے اور دیگر مذہبی سرگرمیاں انجام دینے والے مسلمانوں کو گرفت میں لیاجاسکے ۔

برطانیہ:ایکسپریس نیوز کے مطابق برطانیہ کے ایک بڑے سرکاری اسکول نے کمسن طالبات کے حجاب کرنے اور روزے رکھنے پر پابندی عائد کردی۔برطانوی میڈیا رپورٹس کے مطابق مشرقی لندن کے علاقے نیوہم کے سینٹ اسٹیفن پرائمری اسکول نے ادارے میں زیر تعلیم مسلمان بچیوں کے حجاب کرنے اور روزے رکھنے پر مکمل پابندی عائد کرنے کا اعلان کیا ہے، اسکول انتظامیہ نے محکمہ تعلیم سے یونیفارم میں از خود تبدیلی کرنے والے طلبا کے خلاف کارروائی کا بھی مطالبہ کیا ہے۔

اسکول انتظامیہ نے والدین پر زور دیا ہے کہ تدریس کے اوقات میں بچوں کو رمضان کے روزے رکھنے نہ دیں اور روزے کی حالت میں طلبا کو اسکول نہ بھیجیں۔ مذکورہ اسکول کے چیئرمین آف گورنر عارف قوی نے محکمہ تعلیم کو تحریری تجویز میں کہا کہ وہ اسکول کی سفارشات کو نافذ العمل کرنے کے لیے ٹھوس اقدامات کریں۔

(ایکسپریس نیوز15جنوری2018)

الوقت اخبار میں ہے:برطانیہ کے دارالحکومت لندن کے بارکلے پرائمری اسکول،سائیبرون پرائمری اسکول، تھوماس گیبئیول پرائمری اسکول اور والتھام فاریسٹ اینڈ بروک ہاؤس پرائمری اسکول انتظامیہ نے اپنے مسلم طلبا کو ماہ رمضان کے دوران روزے رکھنے پر پابندی عائد کردی ہے۔ پابندی لگانے والے اسکولوں کی جانب سے مسلم طلبا کے والدین کو خطوط بھیجے گئے ہیں جس میں کہا گیا ہے کہ ان کی درسگاہوں میں یہ وقت طلبا اوراساتذہ کے لئے مصروفیت سے بھرپورہوتا ہے کیونکہ ان مہینوں میں طلبا کے لئے مختلف کھیلوں کی سرگرمیوں کا انعقاد کیا جاتا ہے۔ اس لئے اسکول انتظامیہ نے فیصلہ کیا ہے کہ طلبا پر روزے رکھنے پر پابندی لگادی جائے۔برطانیہ میں آباد مسلمانوں کی نمائندہ تنظیم مسلم ایسوسی ایشن آف برٹین نے اسکولوں کی جانب سے لگائی گئی اس پابندی کی شدید مخالفت کی ہے۔ تنظیم کے ترجمان کی جانب سے جاری بیان میں کہا گیا ہے کہ دین اسلام میں سختی نہیں، ہمارے دین میں بچوں، بیماروں اور انتہائی ضعیف افراد پر روزہ کے لئے چھوٹ دی گئی ہے اس لئے اسکولوں کی جانب سے روزے پر پابندی درست عمل نہیں اسے طلبا اور ان کے والدین کی صوابدید پر چھوڑ دیا جانا چاہیے۔“(الوقت16جون2015)

اسلامی ناموں پر پابندی

نیونیوز میں ہے:چینی حکومت نے مسلم اکثریتی صوبے سنکیانگ میں مسلمان بچوں کے درجنوں ناموں پر پابندی عائد کردی۔بین الاقوامی میڈیا کی رپورٹ میں چین کی کمیونسٹ پارٹی کی ایک دستاویز بعنوان اقلیتوں کے لیے ناموں کے قواعد کے حوالے سے بتایا کہ چین نے اسلام، قرآن، مکہ، جہاد، امام، صدام، حج اور مدینہ جیسے نام رکھنے پر پابندی لگا دی ہے۔ممنوعہ ناموں کی فہرست سے اگر کسی بچے کا نام رکھا جاتا ہے تو اسے ریاست کی طرف سے ملنے والی سہولیات سے دور رکھا جائے گا۔ چین نے یہ قدم اس علاقے میں دہشت گردی کے بڑھتے ہوئے خطرے سے نمٹنے کے لئے اٹھایا ہے۔اس علاقے میں تقریبا ایک کروڑ مسلمان رہتے ہیں۔

(نیو نیوز26اپریل2017)

جن ناموں میں پابندی لگی ہے اس میں ”محمد “نام بھی شامل ہے۔اس قانون کے مطابق جس نے بھی اپنے نام کے ساتھ” محمد“ لگایا اس کا اندراج شناختی کارڈ پر نہیں ہوگا۔اس کے علاوہ دیگر نام بھی ممنوعہ فہرست میں شامل کیے گئے ہیں جن میں،عائشہ،فاطمہ،خدیجہ،مجاہد،جہاد،طالب، امام،مسلمہ ،مجاہد، سمیہ،نصر اللہ،ترک ناز،ترک ذات،حاجی،عرفات،مدینہ،شمس الدین،سیف اللہ،عبدالعزیز،اسد اللہ اور مخلصہ بھی شامل ہیں ۔

(اردو26اپریل2017)

داڑھی رکھنے پر پابندی

سیکولر ملک ہندوستان جس کے علاقہ مدھیہ پردیس کے تعلیمی اداروں میں مسلمانوں کو اپنے مذہب پر آزادی سے عمل پیراہوتے ہوئے داڑھی رکھنے کی اجازت نہیں ہے۔ایک مسلم طالبعلم کی درخواست کو سپریم کورٹ نے مسترد کرتے ہوئے کہاہے کہ سیکولرازم کو ایک حد سے زیادہ نہیں کھینچا جاسکتا اور ملک کے طالبا نائزیشن کی اجازت نہیں دی جاسکتی۔مدھیہ پردیش کے اقلیتی ادارہ کے طالب علم نے عدالت عظمیٰ سے درخواست کی تھی کہ اسے اسکول کے اس ضابطے سے مستثنیٰ کردیا جائے جس کے تحت ہر طالب علم کے لئے کلین شو ہونا ضروری ہے۔ سلیم نے پہلے مدھیہ پردیش ہائی کورٹ سے رجوع کیا تھا جہاں اس کی عرضداشت مسترد کردی گئی تھی ۔ سلیم کا کہنا تھا کہ ہر شخص کو اپنے مذہبی اعتقادات پر عمل درآمد کا اختیار ہے اور ایک آزاد ملک میں کسی کو اس سے روکا نہیں جاسکتا۔ سلیم کے وکیل ریٹائرڈ جسٹس بی اے خان نے کہا کہ داڑھی رکھنا ہر مسلمان کے لئے لازمی ہے اس پر جج نے وکیل کو مخاطب کرتے ہو ئے کہا کی مسٹر خان آپ داڑھی نہیں رکھتے ۔ عدالت عظمیٰ نے کہا کی اقلیتی اداروں کو آئین کی دفعہ ۳۰ کے تحت اپنے اداروں کو چلانے اور ان کے لئے قواعدوضوابط بنانے کا اختیار حاصل ہے اور کسی کو اس کی خلاف ورزی کا حق حاصل نہیں ہے ۔ سپریم کورٹ کی بینچ کا کہنا تھا کہ اگر کہیں ضابطہ بنا ہوا ہے تو آپ یہ نہیں کہہ سکتے کہ میں یونیفارم نہیں پہنوں گا یا کوئی طالبہ یہ کہے کہ میں برقع ہی پہنوں گی تو اسے قبول نہیں کیا جاسکتا۔

(اردومحفل)

اسلام پر پابندی

قدرت روزنامہ 21اکتوبر2017 میں ہے کہ چیک ریپبلک کے معروف سیاستدان ٹومیو اوکامورا نے ملک میں اسلام پر پابندی لگانے کا مطالبہ کردیا ہے۔ہالینڈ میں دائیں بازو کی فریڈم پارٹی کے اسلام مخالف رہنما گیئرٹ ولڈرز نے کہا ہے کہ وہ اپنے ملک میں اسلام پر عائد کی جانے والی کسی بھی ممکنہ پابندی کی حمایت کریں گے۔

مسلمانوں کے اعمال

اے میرے مسلمان بھائیو!یہ چند جھلکیاں دیکھ کر یقینا آپ کو دکھ ہوا ہوگا کہ پوری دنیا میں کس طرح اسلام کے خلاف پروپیگنڈہ کیا جارہا ہے اور اس کو دبانے کی مذموم کوشش کی جارہی ہے۔اس وقت ہر اس لیڈر کو برسراقتدار لایا جارہا ہے جو مسلمانوں کا دشمن ہے۔جس کی سب سے بڑی مثال امریکی صدر ٹرمپ،ہندوستان کا وزیر اعظم مودی ہے اور ہالینڈکا سیاسی لیڈر گیئرٹ ولڈرز ہے ،اس کی سیاسی پارٹی کا نام پارٹی آف فریڈم ہے۔ اس نے اپنے خیال کے مطابق نیدرلینڈز کی اسلام کاری کے خلاف مہم چلائی۔ وائلڈرز کی پارٹی دن بدن ترقی کررہاہے اور ہوسکتا ہے اسی اسلامی دشمنی کے سبب وہ ایک وقت میں برسراقتدار آکر اسلام کو نقصان پہنچائے۔اس شخص نے قرآن کا موازنہ مائن کیمف سے کیا اور نیدر لینڈز میں قرآن کی پابندی کی مہم بھی چھیڑ دی۔ یہ مسلم ممالک سے مہاجرین کی آمد پر پابندی کی وکالت کرتا ہے اور مساجد کی تعمیر کو ممنوع قرار دینے کی حمایت بھی کرتا ہے۔ وہ 2008ء میں اسرائیل میں منعقدہ فیسنگ جہاد کانفرنس میں ایک مقرر کی حیثیت سے شریک تھا۔ اس کانفرنس میں جہاد کے خطرات پر بحث ہوئی۔ اس کے خیالات پر مبنی 2008ء کی فلم” فتنہ“ کا دنیا بھر میں چرچا ہوا اور خاصی شدید تنقید سے دوچار ہوئی۔

اخبارات اور سماء ٹی وی کے مطابق گیرٹ ولڈرزنے ایک نیا فتنہ یہ چھوڑا ہے کہ ہالینڈ کی پارلیمنٹ میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے گستاخانہ خاکوں کا مقابلہ منعقد کروانے کا اعلان کردیا ہے۔برطانوی جریدے ”دی ویک“کے مطابق ڈچ حکومت نے اعلان کیا کہ گستاخانہ خاکوں کے اس مقابلے میں بذریعہ ای میل بھیجے جانے والے خاکے بھی شامل کہے جائیں گے اور یہ مقابلہ سوشل میڈیا پر براہ راست دکھایا جائے گا۔چند برس پہلے اسی طرز کے فعلِ قبیح کے بعد ڈنمارک کے جریدے جیلانڈ پوسٹن کے ایڈیٹر نے اپنے مضمون ”میں نے محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے خاکے کیوں شائع کیے “ میں لکھا :” میں چاہتا ہوں کہ مسلمانوں کو آزادی اظہار کے تمام حقوق حاصل ہوں ۔ مسلمانوں کو میرا مشکور ہونا چاہیے کہ میں ان سے کچھ لینا نہیں بلکہ انہیں کچھ دینا چاہتا ہوں جو لوگ سمجھتے ہیں کہ محمد کے خاکے بنانا آزادی اظہارنہیں، توہین مذہب ہے وہ اپنے تقدس کو دوسروں پہ تھوپ رہے ہیں کیونکہ حقیقی جمہوریت وہی ہے جہاں کچھ بھی مقدس نہ ہو، اور تمام موضوعات اور سربراہان پر لکھا اور بات کی جائے۔‘‘

افسوس اس بات کا ہے کہ ان خیالات کا تعلق مسلمانوں کے جذبات مجروح کرنے کے لیے صرف کائنات کی مقدس ترین ہستی تک رہا یعنی آزادی اظہار کیا صرف محبوبِ خدا کی شان میں گستاخی کرنے کا نام ہے؟؟ اگر نہیں تو کیا کبھی اسرائیلی وزیراعظم کا فلسطینی بچوں کو مارنے کے مناظر کا کارٹون بنایا؟؟شامی مسلمانوں پر ڈھائے مظالم کی ترجمانی کی؟؟برما میں زندہ جلائے اور ذبح کیے جانے والے مسلمانوں کیلئے آواز اٹھائی ؟؟کشمیر میں حاملہ خواتین کو سڑکوں پر گھسیٹنے پر بھارتی حکومت کیلئے مذمتی الفاظ لکھے گئے ؟؟نہیں، ایسا نہیں ہوا کیونکہ بقول انکے یہ سب نسل پرستی کو ہوا دینے کے مترادف ہےاور پھر یہ پہلا واقعہ نہیں پہلے بھی کئی بار یہی حرکات کی گئیں ۔

(سماء ٹی وی،7جولائی2018)

اب ایک طرف تو یہ متشدد اسلام دشمن لیڈر مدنظر رکھیں اور دوسری طرف ہمارے مسلمان لیڈروں کا جائز ہ لیں جو بجائے کفار کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر اسلام کا دفاع کرنے کے الٹا انہی کے نظریات کو اپنے ملک میں عام کررہے ہیں اور خود کو سیکولر ظاہر کرنے کی کوشش میں ہیں ۔یہی وجہ ہے کہ برما،فلسطین،شام اور افغانستان میں لاکھوں مسلمان شہید ہوں تو وہ اس خوف سے ان شہدا کے حق میں نہیں بولتے کہ کہیں انگریز ان کو مسلمانوں کاخیرخواہ سمجھ کر چھوڑ نہ دیں ۔یہ افغانستان میں سوشہید حفاظ پر نہیں بولیں گے ،البتہ کوئی گستاخ رسول یا ملالہ جیسی لڑکی پر آنچ آئے تو یہ لوگ اس پر خوب تنقید کرتے ہیں۔ان لیڈروں کی کفاردوستی کی سب سے بڑی نشانی یہ ہے کہ ہمارے کئی مسلم سیاستدانوں کی بیویاں غیر مسلم ہیں۔

مسلمان سیاستدان اسلام کا دفاع کیا کریں ان کے تو خود اپنے اعمال اسلام کے خلاف ہے ۔وسطی ایشیا کے مسلمان ملک تاجکستان کی حکومت نے جہادیوں کے خوف سے ہزاروں مردوں کی زبردستی داڑھیاں مونڈھ دی ہیں۔ تاجک پولیس کی کارروائی میں سینکڑوں خواتین کو حجاب نہ اوڑھنے کی کڑی وارننگ دی گئی ہے۔ غیر ملکی خبر رساں ادارے کی رپورٹ کے مطابق تاجک پولیس کی تازہ کارروائی میں 13 ہزار کے لگ بھگ مسلمان مردوں کی زبردستی شیو کر دی گئی ۔ تاجکستان کی حکومت نے داڑھی رکھنے، حج کرنے اور خواتین کے حجاب پہننے پر پابندی عائد کر رکھی ہے۔ حکومت کی طرف سے بچوں کے عربی نام رکھنے پر بھی پابندی ہے جبکہ تاجک حکومت کی طرف سے داڑھی رکھنے والے نوجوانوں کو اس جرم کی پاداش میں اذیتیں دے کر قتل کیا گیا ہے۔

(ہم سب21جنوری2016)

پاکستان کے صوبہ پنجاب میں پنجاب حکومت نےپہلے مساجد سے لاؤڈ اسپیکر اتروائے ،بعد میں مجبورااجازت دی لیکن اذان سے قبل اور بعد میں درود شریف پڑھنے کی اجازت نہیں دی گئی۔

(روزنامہ خبریں21مارچ2018)

کراچی سندھ اسمبلی میں اقلیتوں کے تحفظ سے متعلق بل متفقہ طور پر منظور کرلیا گیا جس کے تحت زبردستی مذہب تبدیل کروانے پر 5 سال قید کی سزا ہوگی۔ یہ بل ایک سال قبل مسلم لیگ فنکشنل سے تعلق رکھنے والے رکن اسمبلی نند کمار گولکانی نے پیش کیا تھا جسے آج منظور کرلیا گیا۔بل کے مطابق بالغ شخص کو مذہب تبدیل کرنے پر غور کے لیے 21 دن کا وقت دیا جائے گا جبکہ 18سال سے کم عمری پر مذہب کی تبدیلی جرم تصور کیا جائے گا۔ بل میں اس شخص کے لیے بھی 5 سال قید کی سزا رکھی گئی ہے جو مذہب کی جبری تبدیلی میں سہولت کاری کا کردار ادا کرے گا۔

بل میں واضح کیا گیا ہے کہ مذہبی آزادی، پسند کی شادی کی آزادی، اور شادی کے لیے کسی بھی شخص کے انتخاب کی آزادی کا انتخاب ہر شخص کو حاصل ہوگا۔ بل میں زبردستی شادی کروانے والے افراد کے لیے بھی 3 سال کی سزا بشمول جرمانہ رکھی گئی ہے۔واضح رہے کہ سندھ وہ پہلا صوبہ بن گیا ہے جہاں مذہب کی جبری تبدیلی کے حوالے سے قانون پاس کیا گیا ہے۔

(ARY NEWS9دسمبر2016)

پاکستان کے مشہور چینل ”جیو“اسلام اور پاکستان کے خلاف ویڈیوز اور مختلف پروگرام اور خبریں دے رہا ہے جس کی کوئی روک تھام نہیں۔آج دیگر کفار ممالک سمیت پاکستان میں بھی سوشل میڈیا کے ذریعے اسلام پر اعتراضات اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شان میں گستاخیاں کی جارہی ہیں لیکن حکومتی عہدداران اور اداروں کی اس پر کوئی توجہ نہیں۔اگرچہ پاکستان میں سائبر کرام بل پاس ہوا۔ جس سے عام لوگوں کو یہی تاثر ملاکہ یہ پاکستان میں مقدس شخصیات اورمقدس شعائر کی توہین وتنقیص میں کارآمد ہوگا۔ مگر شاید یہ ایک خواب ہی ہے۔ یہ بل سوشل میڈیا پر ملحدین اور الیکٹرانک وپرنٹ میڈیا پر سیکولردانشوروں کو لگام دینے میں بھی پاور فل نہیں۔ ورنہ الحاد کے نام پر سوشل میڈیا پر فتنہ پردازوں کو کب کا گرفتارکرلیاجاتا۔

سیاسی لیڈروں اور اعلیٰ عہدداران کے بعد اگر مسلم عوام کے افعال کی طرف نظر کریں تو ہمارے نوجوانوں کو دین سے دور کرکے بے حیائی و فضول کاموں میں لگادیا گیا،میڈیا نے نوجوانوں کو آزادی کے نام پر بے حیائی کرنے اور اپنی زندگی جیسے چاہے گزارنے کا ذہن دے دیا ہے۔ہمارا پڑھا لکھا نوجوان طبقہ بھی حق و باطل کی تمیز کرنے سے عاجز ہے ۔ہماری عورتیں دن رات فلمیں ،ڈراموں اور آپس میں ایک دوسرے کے متعلق باتیں کرنے میں مصروف ہے۔ان کا میڈیا نے یہ کہہ کر دماغ خراب کردیا ہے کہ ہم کیوں پردہ کریں مرد اپنی نگاہیں جھکائیں،پردہ کونسا ضروری ہے،اصل پردہ دل کا ہوتا ہے وغیرہ۔ان عورتوں کو اسلام نے گھر کی عزت بنایا اور مردوں پر لازم کیا کہ وہ ان کی ضروریات پوری کریں لیکن یہ عورتیں میڈیا اور آزادی خیالی کے نام پر گھروں سے باہر نکل کر مشقتیں برداشت کرکے پیسے کمانے کی خواہاں ہیں۔

خلاصہ یہ ہے کہ کفار اسلام کے متعلق کیا کیا فتنے بھرپا کررہے ہیں اور ہم مسلمان کس طرح اسلام تعلیمات سے نہ صرف دور ہیں بلکہ دانستہ اور نادانستہ طور پر اسلام ہی کو نقصان پہنچا رہے ہیں۔آج ضرورت اس بات کو سمجھنے کی ہے کہ آزادی رائے کے نام پر مسلمانوں کو شرعی احکام سے خود کو آزاد سمجھنے کا ذہن دیا جارہا ہے لیکن مسلمانوں کو دین پر چلنے کی آزادی سلب کی جارہی ہے اور اپنے باطل نظریات مسلط کرنے کی کوشش کی جارہی ہے جو کہ بدمعاشی ہے۔ مسلمانوں کا ایک طبقہ اس آزادی کے نام پر بے دین ہورہا ہے اور اسلامی احکام اور علمائے اسلام پر تنقید کرکے اپنا ایمان خراب کررہا ہے۔

یاد رہے کہ عقائد میں چوائس نہیں کہ ایک مسلمان آزادی کے نام پر جیسے چاہے عقائد اپنا لے۔آ ج ہر مسلمان کو چاہیے اپنی عقل کو دین کے دائرے میں رکھے اور اور ایسے لوگوں کو ووٹ دے کر کامیاب کیاجائے جو برسراقتدار آکر اسلام کا دفاع کریں اور ملک پاکستان میں نظام مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو رائج کریں۔ایسے لوگوں کو ووٹ دینا شرعا درست نہیں جو سیکولر ازم اور بے حیائی کو فروغ دینے والے ہوں۔

اپنا تبصرہ بھیجیں