رجب کے کونڈے

رجب کے کونڈے

پیشکش: صدائے قلب

رجب کے کونڈوں کے حوالے سے عوام چار طرح کے سوالات پوچھتی ہے:

(1)رجب کے کونڈوں کی شرعی حیثیت کیا ہے؟

(2)کیا مستند علماء کرام سے اس کا جواز ثابت ہے؟

(3)کونڈوں کے حوالے سےبعض لوگ کیا یہ بات ٹھیک کہتے ہیں کہ کونڈوں کی نیاز شیعوں کی ایجاد ہے اور شیعہ لوگ اس نیاز میں حضرت امیر معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے وصال کی خوشی مناتے ہیں؟دلیل یہ ہے کہ رجب کے کونڈے امام جعفر صادق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ایصال ثواب کے لئے کئے جاتے ہیں جبکہ یہ دن امام جعفر صادق کے وصال کا نہیں ہے بلکہ امیر معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے وصال کا دن ہے۔ تاریخ مولد العلماء ووفیاتہم میں ابو سلیمان محمد بن عبد اللہ الربعی (المتوفی379ھ)لکھتے ہیں”مات معاویۃ بن أبی سفیان أبو عبد الرحمن فی یوم الخمیس بثمان بقین من رجب وہو ابن ثمان وسبعین سنۃ“ترجمہ:معاویہ بن ابی سفیان ابو عبد الرحمن کی وفات جمعرات 22 رجب کوہوئی،اس وقت ان کی عمر 78 سال تھی۔

(تاریخ مولد العلماء ووفیاتہم،جلد1،صفحہ167،دار العاصمۃ ،الریاض)

ایک قول کے مطابق حضرت امیر معاویہ کا وصال 15 رجب کو ہوا چنانچہ الاستیعاب فی معرفۃ الأصحاب میں ابو عمر یوسف بن عبد اللہ القرطبی (المتوفی463ھ)لکھتے ہیں”وتوفی فی النصف من رجب سنۃ ستین بدمشق ودفن بہا“’ترجمہ :حضرت امیرمعاویہ رضی اللہ عنہ کاوصال نصف (یعنی 15)رجب کو سن 60 ہجری میں دمشق میں ہوا اوروہیں دفن ہوئے۔

(الاستیعاب فی معرفۃ الأصحاب،جلد3،صفحہ1418،دار الجیل، بیروت)

حضرت جعفر صادق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا وصال پندرہ یا بائیس رجب کونہیں بلکہ ماہ شوال میں ہوا ۔وفیات الأعیان وانباء ابناء الزمان میں ابو العباس شمس الدین احمد بن محمد بن ابراہیم ابن خلکان البرمکی الإربلی (المتوفی681ھ)لکھتے ہیں”جعفر الصادق:أبو عبد اللہ جعفر الصادق بن محمد الباقر بن علی زین العابدین بن الحسین بن علی بن أبی طالب، رضی اللہ عنہم أجمعین۔۔۔توفی فی شوال سنۃ ثمان وأربعین ومائۃ بالمدینۃ، ودفن بالبقیع“ترجمہ:سیدناامام جعفر صادق: ابو عبد اللہ جعفر صادق بن محمدباقر بن علی زین العابدین بن حسین بن علی بن ابی طالب رضی اللہ تعالیٰ عنہم اجمعین کا شوال148ہجری کو مدینہ میں وصال ہوا اور بقیع میں مدفون ہوئے۔

(وفیات الأعیان وأنباء أبناء الزمان،جلد1،صفحہ327،دار صادر،بیروت)

(4) بعض اہل سنت حضرات رجب کے کونڈوں پر اعتراض کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ یہ اہل تشیع حضرت امیر معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے وصال کی خوشی میں مناتے ہیں؟ اگر یہ ایسا ہی ہے تواہل سنت کا یہ عمل کیا تشبہ کی وجہ سے ناجائز نہ ہوجائے گا؟لفظ ”کونڈا“ کا معنی ہوتا ہے کسی کا ستیاناس کرنا جیسے کہا جاتا ہے فلاں کا کونڈا ہوگیا ۔ا س لفظ سے بھی یہ ثابت ہوتا ہے کہ یہ کونڈے حضرت امیر معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے وصال کی خوشی میں کئے جاتے ہیں۔

الجواب بعون الوہاب اللہم ہدایۃالحق والصواب

ان تینوں سوالات کا بالترتیب تفصیلی جواب دیا جاتا ہے:

(1)رجب کے کونڈوں کی نسبت حضرت سیدنا امام جعفر صادق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی طرف ہے ۔مسلمان حسبِ توفیق ان کے ایصالِ ثواب کے لئے اس کا اہتمام کرتے ہیں جو کہ شرعا جائز و مستحب عمل ہے۔احادیث میں ایصالِ ثواب کرنے کی ترغیب دی گئی ہے۔ رسول اﷲصلی اﷲتعالیٰ علیہ وسلم فرماتے ہیں”من استطاع منکم ان ینفع اخاہ فلینفعہ“ترجمہ: جو اپنے بھائی کو نفع پہنچاسکے تو چاہیے کہ اسے نفع پہنچائے۔

(صحیح مسلم،کتاب الآداب،باب استحباب الرقیۃ من العین الخ،جلد4،صفحہ1726،دار إحیاء التراث العربی،بیروت)

اولیائے کرام کی بارگاہ میں ثواب کے نذرانے پیش کرنے کی ترغیب علمائے کرام نے بکثرت دی ہے چنانچہ شاہ ولی اللہ رحمۃ اللہ علیہ”الانتباہ فی سلاسل الاولیاء“میں فرماتے ہیں”برقدرے شیرینی فاتحہ بنام خواجگان چشت عموماً بخوانند وحاجت از خدائے تعالیٰ سوال نمایند ۔ ہمیں طور ہر روز مے خواندہ باشند لفظ شیرینی و فاتحہ ہر روزازیاد مرد“ترجمہ:تھوڑی شیرینی پرعموما خواجگان چشت کے نام فاتحہ پڑھیں او رخدائے تعالیٰ سے حاجت طلب کریں ، اسی طرح روز پڑھتے رہیں ۔ شیرینی اور فاتحہ اور ہر روز کے الفاظ ذہن سے نہ نکلیں۔

( الانتباہ فی سلاسل الاولیاء،ذکر طریقہ ختم خواجگانِ چشت ،صفحہ100،برقی پریس ،دہلی )

شاہ عبدالعزیز صاحب دہلوی رحمۃ اللہ علیہ تحفہ اثناء عشریہ میں فرماتے ہیں”حضرت امیر وذریہ طاہرہ اوراتمام امت برمثال پیراں ومرشداں می پیرستند وامور تکوینیہ رابایشاں وابستہ م ی وانند وفاتحہ ودرود وصدقات ونذر بنام ایشاں رائج ومعمول گردیدہ چنانچہ باجمیع اولیاء ہمیں معاملہ است“ترجمہ:جناب امیر(حضرت علی المرتضیٰ رضی اللہ تعالیٰ عنہ) اور ان کی پاکیزہ اولاد کو تمام امت کے لوگ عقیدت ومحبت کی نگاہ سے دیکھتے ہیں اورتکوینی معاملات کو ان سے وابستہ خیال کرتے ہیں اسی لئے فاتحہ درود وصدقات خیرات اور نذر ونیاز کی کارگزاریاں لوگوں میں ان کے نام کے ساتھ رائج اور معمول بن گئی ہیں جیسا کہ دیگراولیاء کرام کے معاملے میں یہی صورت حال ہے۔

(تحفہ اثناء عشریہ، باب ہفتم درامامۃ تمہید کلام وتقریر مرام،صفحہ214،سہیل اکیڈمی، لاہور)

وہابیوں کابڑا پیشوا اسماعیل دہلوی بھی ایصال ثواب کو مانتاتھاچنانچہ قل خوانی،کھانا کھلانے کو بدعت حسنہ کہتے ہوئے یوں کہا”ہمہ اوضاع از قرآن خوانی فاتحہ خوانی وخورانیدن طعام سوائے کندن چاہ وامثال دعاواستغفار واُضحیہ بدعت ست بدعت حسنہ بالخصوص است مثل معانقہ روز عید ومصافحہ بعد نماز صبح یا عصر“ترجمہ:کُنواں کھود نے اور اسی طرح حدیث میں سے ثابت دوسری چیزوں اور دعا ء استغفار، قربانی کے سوا تمام طریقے، قرآن خوانی ، فاتحہ خوانی، کھانا کھلاناسب بدعت ہیں ۔ مگر خاص بدعت حسنہ ہیں، جیسے عید کے دن معانقہ اور نماز فجر یا عصر کے بعد مصافحہ کرنا ۔

(مجموعہ زبدۃ النصائح،ماخوذ ازفتاوٰی رضویہ،جلد8،صفحہ614،رضافاؤنڈیشن،لاہور)

(2)یوں تو پاک و ہند کے کثیر جید علمائے کرام نے کونڈے کی نیاز کو جائزومستحب کہتے ہیں یہاں صرف چند حوالے پیش کئے جاتے ہیں:

خلیفہ اعلیٰ حضرت،صدرالشریعہ،بدرالطریقہ حضرت علامہ مولانا مفتی محمد امجد علی اعظمی علیہ رحمۃ اللہ القوی اپنی بے مثال کتاب”بہارِ شریعت“میں تحریر فرماتے ہیں:”ماہِ رَجَب میں بعض جگہ حضرتِ سیدنا امام جعفر صادق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو ایصالِ ثواب کیلئے پوریوں کے کونڈے بھرے جاتے ہیںیہ بھی جائزمگراِس میں بھی اِسی جگہ کھانے کی بعضوں نے پابندی کر رکھی ہے یہ بے جا پابندی ہے اِس کونڈے کے متعلق ایک کتاب بھی ہے جس کا نام داستانِ عجیب ہے، اِس موقع پر بعض لوگ اس کو پڑھواتے ہیںاِس میں جو کچھ لکھا ہے اس کا کوئی ثبوت نہیںوہ نہ پڑھی جائے فاتحہ دلاکر ایصالِ ثواب کریں،ہاں ایک بات مذموم ہے وہ یہ کہ جہاں کونڈے بھرے جاتے ہیںوہیں کھلاتے ہیں وہاں سے ہٹنے نہیں دیتے،یہ ایک لغو حرکت ہے مگر یہ جاہلوں کا طریق عمل ہے،پڑھے لکھے لوگوں میں یہ پابندی نہیں۔“

(بہارِ شریعت، جلد3،حصّہ16،صفحہ643،مکتبۃ المدینہ،کراچی)

مُفَسِّرِشَہیر،حکیم الامّت حضرتِ علامہ مولانامفتی احمد یار خان نعیمی علیہ رحمۃ اللہ القوی اپنی مایہ ناز تصنیف”اسلامی زندگی“میں تحریر فرماتے ہیں:”رجب شریف کی ٢٢تاریخ کوپاک وہند میں کونڈے ہوتے ہیں یعنی نئے کونڈے منگائے جاتے ہیں اور سواپاؤ میدہ،سواپاؤ شکر،سواپاؤ گھی کی پوریاں بنا کرحضرت امام جعفر صادق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی فاتحہ کرتے ہیں،اِس رسم میں صرف دو خرابیاں پیدا کر دی گئی ہیں ایک تو یہ کہ فاتحہ دلانے والوں کا عقیدہ یہ ہو گیا ہے اگر فاتحہ کے اَوَّل لکڑہارے کا قِصَّہ نہ پڑھا جائے توفاتحہ نہ ہو گی اور پوریاں گھرسے باہر نہیں جا سکتیں اور بغیر نئے کونڈے کے یہ فاتحہ نہیں ہو سکتی یہ سارے خیال غَلَط ہیں،فاتحہ ہر کونڈے پر اور ہر برتن میں ہو جائے گی۔اگر صرف زیادہ صفائی کیلئے نئے کونڈے منگالیں تو کوئی حرج نہیں دوسری فاتحہ کے کھانوں کی طرح اِس کو بھی باہر بھیجا جاسکتاہے۔“

قبلہ مفتی صاحب رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ اِسی کتاب میں ایک اور جگہ تحریر فرماتے ہیں:”رجب کے مہینے میں ٢٢تاریخ کو کونڈوں کی رسم بہت اچھی اور بَرَکت والی ہے۔مگراِس تاریخ میں سے یہ قید نکال دوکہ فاتحہ کی چیز باہر نہ جائے اور لکڑی والے کا قِصّہ ضرور پڑھا جائے۔“

(اسلامی زندگی،صفحہ 76اور80،مکتبۃ المدینہ،کراچی)

مفتی اعظم پاکستان حضرت علامہ مولانا مفتی محمد وقارُالدّین قادِری رَضَوی علیہ رحمۃ اللہ القوی فرماتے ہیں:”اَہلسُنَّت کے نزدیک جیسے ہر فاتحہ جائز ہے اِسی طرح کونڈوں کی فاتحہ بھی جائز ہے۔لکڑہارے کی کہانی من گھڑت ہے،کھانے کی ہر چیز کے متعلق ادب سکھایا گیا ہے۔حدیث میں فرمایا ہے:”دستر خوان پر جو گر جائے اُسے اُٹھا کر کھا لو”فاتحہ کے کھانے پر قرآن پڑھا جاتا ہے اِس لئے مسلمان اِس کا زیادہ ادب کرتے ہیںاِسی وجہ سے لوگوں نے(کونڈے کی نیاز میں)یہ شرط لگا لی کہ وہیں بیٹھ کر کھا لیں،باہر نہ لے جائیںاِس شرط کا شریعت سے کوئی تعلق نہیں۔وہاں بھی کھا سکتے ہیں اورباہر بھی لے جا سکتے ہیں۔“

(وقارُالفتاوٰی، جلد1، صفحہ 202،ناشر بزمِ وقارُالدّین، کراچی)

شیخ الحدیث مفتی محمد عبدالمجید سعیدی رضوی صاحب نے” کونڈوں کی شرعی حیثیت“کے نام سے پورا ایک رسالہ تحریرفرمایاہے اِس رسالے کے صفحہ نمبر26پرآپ تحریر فرماتے ہیں:”راقم الحروف1986؁ء والے ماہِ رجب میں اپنے مرشِدِکریم،امامِ اہلسنّت،غزالی زَماں ،رازی دوراںحضرت علامہ مولانا سید احمد سعید شاہ صاحب کاظمی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کی خدمتِ بابرکت میں آپ کے دولت کدہ پرملتان شریف حاضر تھابائیسویں رجب کو طلوعِ آفتاب کے بعدآپ کے گھر کونڈوں کا ختم دلایا گیا۔آپ نے کونڈوں کا طعام خود بھی تناول فرمایااور ہمیں بھی کھلایا۔دریں اثناء وہاں پر موجود ہمارے ایک پیر بھائی نے حضرت سے کونڈوں کے بارے میں لوگوں کی مقرر کردہ تخصیصات کے حوالہ سے سُوالات کر کے اُن کی شرعی حیثیت دریافت کی تو آپ نے فرمایاکہ ہمارے نزدیک کونڈے ایصالِ ثواب ہونے کی وجہ سے جائز ہیںباقی یہ تخصیصات شَرْعاً کچھ ضروری نہیںاور نہ ہی ہم ان کے پابند ہیں۔

اور بندے کی معلومات کے مطابق اب بھی حضرت کے گھرہر سال ٢٢رجب کوکونڈے کئے جاتے ہیں۔

(کونڈوں کی شرعی حیثیت ،صفحہ 26، اُویس رَضا لائبریری ،حیدرآبادسندھ)

امیردعوتِ اسلامی عاشقِ اعلیٰ حضرت،عکسِ اعلیٰ حضرت ،امامِ مسلکِ اعلیٰ حضرت،شیخِ طریقت ،امیر اہل سنت حضرتِ علامہ مولانا ابو بلال محمد الیاس عطار قادری رضوی دامت برکاتہم العالیہ اپنے رسالے ”کفن کی واپسی”میں تحریر فرماتے ہیں:”رَجَبُ الْمُرَجَّب کی 22تاریخ کو مسلمان حضرتِ سیدنا امام جعفر صادق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ایصالِ ثواب کیلئے کھیر پوریاں پکاتے ہیں جنہیں ”کونڈے شریف“کہا جاتا ہے۔اِس کے ناجائز یا گناہ ہونے کی کوئی وجہ نہیں،ہاں بعض عورتیں کونڈوں کی نیاز کے موقع پر”دس بیبیوں کی کہانی“،”لکڑہارے کی کہانی“وغیرہ پڑھتی ہیں یہ جائز نہیں،کیونکہ یہ دونوں اور جنابِ سَیِّدہ کی کہانی سب من گھڑت کہانیاں ہیںاِن کو نہ پڑھا کریں،اِس کے بجائے سورئہ یاسین شریف پڑھ لیا کریںکہ دس قُرْاٰن خَتْم کرنے کا ثواب ملے گا۔یہ بھی یاد رہے کہ کونڈے ہی میں کھیر کھانا ،کھلاناضروری نہیں دوسرے برتن میں بھی کھا اور کھلا سکتے ہیں اور اِس کو گھر سے باہر بھی لے جا سکتے ہیں۔بے شک نیازوفاتحہ کی اَصل(یعنی بنیاد)ایصالِ ثواب ہے اور”رجب کے کونڈے“بھی ایصالِ ثواب ہی کی ایک قِسم ہے اور ایصالِ ثواب (یعنی ثواب پہنچانا)قُرْاٰنِ کریم واحادیثِ مُبارکہ سے ثابت ہے۔ایصالِ ثواب دُعا کے ذریعے بھی کیا جا سکتا ہے اور کھانا وغیرہ پکا کراُس پر فاتحہ دِلا کربھی ہو سکتا ہے۔حضرتِ سیدنا امام جعفر صادق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی تاریخِ وفات میں اختلاف ہی سہی اور22رجب المرجب آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کے وِصال کا دن نہ بھی ہوتب بھی مسلمانوں میں اِس دن آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کے ایصالِ ثواب کیلئے کونڈے شریف رائج ہیں اور ایصالِ ثواب سال میں جب بھی کریں جائز ہے۔کونڈے کو ناجائز کہنا شریعت پر اِفْتِرا(یعنی تہمت باندھنا )ہے۔

(رسالہ کفن کی واپسی ،صفحہ15تا19،نمازکے اَحکام(حَنَفی)،صفحہ 483،مَدَنی پنج سُورہ، صفحہ 404مکتبۃ المدینہ، کراچی­)

مزید سُنّی عُلَمَاء کی کُتُب ورسائل سے کونڈے کی نیاز کا ثُبُوت

1۔)فرید بک سٹال اردو بازار لاہور سے شائع ہونے والی کتاب ـ”سُنّی بہشتی زیور”حِصّہ سِوُم صفحہ318پراورضیاء القرآن پبلی کیشنز داتا دربار لاہور سے شائع ہونے والی کتاب ”فتاوٰی خلیلیہ”جلد اَوَّل بابُ العقائدصفحہ194تا196پر خلیلِ ملّت قبلہ حضرتِ علامہ مولانا مفتی محمد خلیل خاں قادِری برکاتی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے کونڈے کی نیاز کو جائز لکھا ہے۔

2۔دعوتِ اسلامی کے اشاعتی ادارے مکتبۃ المدینہ سے شائع ہونے والی کتاب”جنّتی زیور”(تخریج شدہ)صفحہ474پرشیخ الحدیث حضرت علامہ مولانا عبدالمصطفےٰ اعظمی علیہ رحمۃ اللہ القوی نے کونڈے کی نیاز کو جائز لکھا ہے۔

3۔مکتبہ رُشدالایمان سمُندری سردارآباد(فیصل آباد)سے شائع ہونے والی کتاب”رُشدُالایمان” (تخریج شدہ) صفحہ233اور234پر نائبِ محدثِ اعظم،شیخُ الحدیث حضرت علامہ مولاناابو محمدمحمد عبدالرشید قادِری رضوی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے بدمذہبوں کو منہ توڑ جواب دیتے ہوئے کونڈے کی نیاز کو جائز قرار دیا ہے۔

4۔ضیاء القرآن پبلی کیشنز داتا دربار لاہورسے شائع ہونے والا رسالہ”ثوابُ العبادات”صفحہ نمبر 27 پرمحسنِ دعوتِ اسلامی، خطیبِ پاکستان حضرت علامہ مولاناالحاج الحافظ محمد شفیع اوکاڑوی علیہ رحمۃاللہ القوی نے کونڈے کی نیاز کو جائز لکھا ہے۔

5۔مُصنِّفِ کُتُبِ کثیرہ،شیخ الحدیث والتفسیرقبلہ حضرت مولانامفتی فیض احمد اویسی صاحب رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے کونڈے کی نیاز سے متعلق پوراایک رسالہ تحریر فرمایا ہے جس کا نام ہے” کونڈے جائز ہیں”یہ رسالہ برکاتی پبلشرز کراچی سے شائع ہواہے۔

6۔ضیاء القرآن پبلی کیشنز داتا دربار لاہور سے شائع ہونے والی کتاب ”تفہیم المسائل ”جلد دُوُم صفحہ 390پر چیئرمین مرکزی رویت ہلال کمیٹی پاکستان،مہتمم دارالعلوم نعیمیہ کراچی پروفیسر مفتی منیب الرَّحمٰن صاحب مدظلہ العالی نے کونڈے کی نیاز کو جائز لکھا ہے۔

7۔ شبیر برادرز اردو بازار لاہور سے شائع ہونے والی کتاب ”فتاوٰی فقیہ مِلَّت” جو کہ دو جلدوں پر مشتمل ہے اسکی جلد نمبر2صفحہ نمبر 265پر کونڈے کی نیاز کو جائز لکھا ہے۔

8۔شبیر برادرز اردو بازار لاہورسے شائع ہونے والے” فتاوٰی بحرالعلوم”جلد دُوُم کتابُ الجنائزصفحہ 95پربَقِیَّۃُ السَّلف، حُجَّۃُالْخَلف،بَحْرُالْعُلُوم حضرتِ علامہ مولانا مُفتی عبدالمنّان اعظمی دامت برکاتہم القدسیہ نے کونڈے کی نیاز کو جائز لکھا ہے۔

9۔ ١٤٣٢سنِ ہجری کے رجب المرجب میںگوجرانوالہ سے جو” ماہنامہ رِضائے مُصطفٰے” شائع ہوا تھا اُس کے صفحہ 28اور29پر مجاہداہلسُنّت مولانا محمد حسن علی رضوی بریلوی میلسی صاحب مدظلہ العالی نے عوامِ اہلسنت کو بدمذہبوں کے مکروفریب اور ان کے کرتوتوں سے آگاہ کرتے ہوئے مجاہدِ اہلسُنّت،پاسبانِ مسلکِ اعلیٰ حضرت قبلہ حضرت مولانا ابوداؤد محمدصادق قادری رضوی صاحب رحمۃ اللہ علیہ اوردیگر سُنّی علماء کے حوالے سے کونڈے کی نیاز کو جائزوباعث برکت ثابت کیا ہے ۔

10۔ضیاء القرآن پبلی کیشنز داتا دربار لاہور سے شائع ہونے والا رسالہ”صراط الابرار” حِصّہ سِوُم صفحہ 12تا15پر حضرت مولانا محمد شہزاد قادِری ترابی صاحب مدظلہ العالی نے بدمذہبوں کی طرف سے کئے جانے والے اعتراضات کے جوابات دیتے ہوئے٢٢رجب کو حضرت سیدناامام جعفر صادق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ایصالِ ثواب کے لئے کونڈے کی نیاز کرناجائزلکھاہے۔نیزآپ نے ایک اعتراض کے جواب میں یہ بھی تحریر فرمایاکہ ہم سُنّیوںکا کونڈے کی نیاز کرنا کسی بے ادب گستاخ فرقے کی نقل نہیںبلکہ ہمارا یہ فعل خود ہمارے بزرگوںاور اَسلاف کا طریقہ ہے۔

(2)سوال نمبر دو کا جواب:کسی بھی بزرگ کو ایصال ثواب کرنے کے لیے ضروری نہیں اس کی تاریخ پیدائش یا تاریخ وفات کے دن ہی اسے ایصال ثواب کیا جائے ہاں اس لیے کوئی دن مقرر کرنا کہ یاد رہے اور کثرت سے مسلمان اس میں شریک ہو سکیں جائز ہے جبکہ اسے لازم نہ سمجھا جائے بلکہ یہ سمجھنا کہ ان تاریخوں کے علاوہ ایصال کریں گے تو نہیں ہوگایہ جاہلانہ خیال ہے، اسی طرح یہ خیال بھی غلط ہے کہ ایک خاص مقام پر رکھ کر فاتحہ دی جائے گی تب ہی ہو گی یا اسے باہر نہیں نکالناچاہیے ورنہ ثواب ختم ہو جائے گا۔ سید ی اعلی حضرت رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:”اموات مسلمین کو ایصال ثواب بے قید تاریخ خواہ بحفظ تاریخ معین مثلا روز وفات جبکہ اس کا التزام بنظر تذکیر و غیرہ مقاصد صحیحہ ہو ،نہ اس خیال جاہلانہ سے کہ تعیین شرعا ضروریا وصول ثواب اسی میں محصور ۔۔۔۔۔۔یہ سب امور شرعا جائز و روا و مباح ہیں جن کے منع پر شر ع مطہر سے اصلا دلیل نہیں ۔“

(فتاوٰی رضویہ ،جلد9،صفحہ421، رضا فاؤنڈیشن ،لاہور)

امام جعفر صادق رضی اللہ عنہ کی تاریخ وفات اگرچہ ٢٢رجب المرجب نہیں،لیکن اس دن یا اس کے علاوہ کسی بھی دن ان کے ایصال ثواب کرنے میں کوئی ممانعت بھی نہیں، جو منع کرے اس پر دلیل لانالازم ہے ۔او ربلادلیل کسی چیز سے منع کر نا شریعت مطہرہ پر افتراء ہے ۔ان مسائل کی اگر تفصیل دیکھنی ہو تو سیدی اعلی حضرت رحمۃ اللہ علیہ کے رسالہ البارقۃ الشارقۃ علی مارقۃ المشارقۃ کا مطالعہ فرمائیں ۔

(3)سوال نمبر 3کا جواب : کونڈوں کے نیاز کب سے ہے؟ اور کہاں سے نکلی ہے؟ اس کے متعلق کوئی مستند حوالہ نہیں ہے ،قیاس آرائیاں ہیں ،جو کونڈوں کی نیاز کے مخالف ہیں وہ کہتے ہیں کہ اہل تشیع کی ایجاد ہے اور اہل تشیع حضرت امیر معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے وصال کی خوشی میں یہ کرتے ہیں۔جبکہ یہ دونوں باتیں خود ساختہ اور بے دلیل ہیں ۔اہل سنت کئی سالوں سے یہ نیاز دیتے آئے ہیں اور اہل سنت کے جید علماء نے اس کی اجازت دی ہے۔ جہاں تک شیعوں سے مشابہت کا تعلق ہے تو اہل تشیع بھی رجب کے کونڈے حضرت امام جعفر صادق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ایصال ثواب کے لئے کرتے ہیں اور اس کی وجہ یہ ہے کہ امام جعفر صادق رضی اللہ تعالیٰ عنہ اچھا جانتے تھے اور ترغیب دیتے تھے کہ لوگوں کو اچھا کھانا کھلایا جائے چنانچہ شیعوں کے ذاکرباقر مجلسی کی کتاب حلیتہ المتقین جس کا اردو ترجمہ مقبول احمد نے کیا اس میں باقر مجلسی امام جعفرصادق رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے نقل کرتاہے:”حضرت امام جعفر الصادق علیہ السلام اکثر عمدہ روٹیوں ، نفیس فرینی اور لذیذ حلوہ لوگوں کو کھلایا کرتے تھے اور یہ فرماتے تھے جب خدا ہمارے لئے فراخی کرتا ہے تو ہم بھی فراخ دلی سے لوگوں کو کھلاتے ہیں اور جس وقت کم میسر آتا ہے اس وقت ہم بھی کفایت برتتے ہیں ۔

مولا امام جعفر الصادق علیہ السلام کا ہی فرمان موجود ہے عمدہ کھانا پکاؤ ، اپنے یاروں دوستوں کو بلاؤ اور ان کے ساتھ کھاؤ اور کھلاؤ۔“

(حلیتہ المتقین (مترجم)،صفحہ61،افتخار بک ڈپو)

کونڈوں کے جواز پر کلام کرتے ہوئے شیعوں کا ذاکر آغا محمد مدثر لکھتا ہے:”شیعہ مولا امام جعفر الصادق علیہ السلام کے فرمان کے مطابق عمل ام داود ١٣ ، ١٤ اور ١٥ کو بجا لاتے ہیں ، ان ایام کو ایام بیض کہتے ہیں جس کے مخصوص اعمال کا ذکر مفاتیح الجنان اردو الصفحہ ٢٨٩-٢٨٨ پر تحریر ہیں ، اسی طرح علامہ السابقی نے رسوم الشیعہ الصفحہ ٢٧٧ پر مزید ١٥ رجب مورخین کے حوالے سے عقد جناب سیدہ سلام اللہ علیھا ، تحویل کعبہ اور مولا امام سجاد علیہ السلام کی آمد کا بھی ذکر کیا ۔۔۔۔ہماری تحقیق یہ ہے کہ یہ نیاز آئمہ اطہار علیہ السلام ہی کے زمانے سے جاری ہے لیکن علما کی تحقیقات کی وجہ اس کی تاریخوں میں رد و بدل ہوتا رہا۔۔۔پھر ایک اور بات کہ ایک انکشاف ہوا کہ ١٥ رجب بی بی ام المصائب زینب سلام اللہ علیھا کا یوم وفات بھی ہے جیسا کہ علامہ نقدی نے زینب الکبریٰ الصفحہ ١٢٢ پے درج کیا ۔“

(http://articles.kullayiman.com/archives/1072)

البتہ شیعوں کا ایک ذاکر شیخ مفید متوفی ٤١٣ھ نے اپنی کتاب” مسار الشیعہ” مطلب شیعہ کی خوشیاں کے صفحہ ٣٤ پربارہ رجب کو حضرت امیر معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے وصال پر خوشی منانے کا کہا ہے لیکن یہ نہیں کہا کہ رجب کے کونڈے اسی خوشی میں کیے جائیں چنانچہ لکھتا ہے”کان ہلاک معاویۃ بن ابی سفیان لعنہ اللہ وہو یوم مسرۃ لاہل الایمان وحزن لاہل الکفر والطغیان وفی یوم النصف سنہ “(اس عبارت کا ترجمہ ایک شیعہ نے یوں کیا) ١٢ رجب خوشی کا دن ہے کیوں کہ اس تاریخ کو امیر المومنین علی علیہ السلام کا دشمن معاویہ ابن ابی سفیان کی ہلاکت ہوئی یہ دن اہل ایمان کے لئے خوشی اور اہل کفر و سر کشی کے لئے غم کا دن ہے۔

(مسار الشیعہ،صفحہ34)

شیعوں کا رجب کے کونڈے حضرت امیر معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے وصال کی خوشی میں نہ ہونے کی ایک بڑی دلیل یہ ہے کہ شیعوں کا ایک ذاکر ڈھکو ہے جو ان کا مناظر بھی ہے اس نے رجب کے کونڈوں کی رسم کو غلط کہا ہے چنانچہ کہتا ہے:”من جملہ ان غلط رسوم کے ایک ٢٢ رجب کے کونڈے بھی ہیں یہ رسم پہلے ہندوستان سے نکلی اور رفتہ رفتہ مختلف ممالک میں پھیل گے ۔“

(اصلاح الرسوم ،صفحہ283)

حالانکہ اسی ذاکر کا یہ کہنا ہے:”اگر کسی دشمن خدا و مصطفیٰ و آل عبا کی ہلاکت پر خوشی کا مظاہرہ کرتے ہوے یا کسی امام عالی مقام کی بارگاہ میں ہدیہ ثواب پیش کرتے ہوے کچھ حلوہ پوری پکا لیا جائے یا اہل ایمان کو کھلا دیا جائے تو اس میں کوئی قباحت نہیں ہے بلکہ کئی اعتبار سے بجا آوری اچھا کام ہے۔“

(اصلاح الرسوم ،صفحہ283)

اگر کونڈے کی نیاز شیعوں میں حضرت امیر معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے اپنا بغض نکالنے کے لیے ہوتی تو کبھی بھی یہ ڈھکو ذاکر اسے ناجائز نہ کہتا بلکہ اسے ثواب عظیم سمجھتا۔لہٰذا ثابت ہوا کہ شیعہ لو گ یہ نیاز حضرت امام جعفر صادق رحمۃ اللہ علیہ کے ایصا ل ثواب کے لیے کرتے ہیں۔

بالفرض اگر اہل تشیع حضرت امیر معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے وصال کی خوشی میں کونڈوں کی نیاز دلاتے ہیں تو یہ ان کا فعل ہے اہل سنت تو ایسا نہیں کرتے،پھر تشبہ کس بات کی؟بلکہ اس صورت میں تو امام جعفر صادق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ساتھ حضرت امیر معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کوا یصال ثواب کریں تویہ اہل تشیع کی مخالفت ہوگی۔

(4)سوال نمبر 4 کا جواب:ارد و لغت کے اعتبار سے کونڈے کا مطلب نذرو نیاز کی شیرینی ہے جیسا کہ فیروز اللغات میں لکھا ہے:آٹاگوندھنے کا مٹی کا ظرف، پرات،نذرنیاز کی شیرینی۔کونڈا بھرنا: محاورہ نذر پوری ہونے پر امام جعفر کی نیاز دلوانا۔

(فیروز اللغات،صفحہ1046،فیروز سنز، لاہور)

اگر کونڈے کا مطلب ستیاناس ہی ہو تو پھر دیگر کئی اولیائے کرام کے نام نذرونیاز میں یہ لفظ استعمال نہیں ہونا چاہئے تھا جبکہ ہم دیکھتے ہیں دیگر اولیائے کرام کے لئے دی جانے والی نیاز میں بھی لفظ کونڈے استعمال ہوتا ہے چنانچہ سَیِّدی اعلیٰ حضرت،امامِ اَہلسُنّت،شیخُ الاسلام والمسلمین ،امام اَحمدرَضا خان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے یہاں بھی کونڈے کی نیاز ہو اکرتی تھی جیسا کہ خلیفہ اعلیٰ حضرت ملک العلماء حضرت علامہ مولانامحمد ظفرالدین بہاری رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کونڈے کی فاتحہ اور عورتوں کی جہالت سے متعلق ”حیاتِ اعلیٰ حضرت”میں تحریر فرماتے ہیں:”حضرت جلال بخاری رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کی کونڈوں کی نیاز میںایک کونڈے کی شیرینی پرکپڑا ڈھک دیا جاتا ہے کہ اِس پر حضرت بی بی یعنی حضرت سیدۃالنساء بتول زہرارضی اللہ تعالیٰ عنہاکی فاتحہ عام طور سے دلاتے ہیں۔اِس کونڈے سے مرد کو شیرینی کھانے نہیں دیتے۔مگر حضور اعلیٰ حضرت رضی اللہ تعالیٰ عنہ اپنے یہاں فاتحہ دینے کے بعدقصدًا بطورِ تَبَرُّک اُس میں سے تناول فرما لیا کرتے تھے اور (اپنے مخصوص و دلنشین انداز میں دل پرچوٹ کرتے ہوئے )ارشاد فرماتے کہ اگر مَردوں کو بی بی صاحبہ کی تبرک سے نہیں دیا جاتا،تو پھرعورتوں کو حضورِ اَقدس صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہٖ وسلّم کی نیاز کا تبرک نہ کھانا چاہئے۔نہ میلاد شریف کی تبرک میں عورتوں کا حصّہ ہونا چاہئے۔“

(حیاتِ اعلیٰ حضرت، جلد3،صفحہ 93،مکتبۃُ المدینہ ،کراچی)

المختصر یہ کہ رجب کے کونڈے شرعاجائز ہیں اور اس کے جائز ومستحب ہونے پرعلمائے اہل سنت کے صریح ارشادات موجود ہیں۔اس پر بلاوجہ طعن کرنا اور اسے زبردستی اہل تشیع سے مشابہت قرار دینا درست نہیں ہے بلکہ بدمذہبوں کا وتیرہ ہے جو بات بات پر ایصالِ ثواب کی محافل اور طریقوں کو ناجائز و بدعت کہتے ہیں ۔شہزادہ اعلیٰ حضرت مفتی اعظم ہند مصطفی رضا خان علیہ رحمۃ الرحمن نے فتاوٰی مصطفویہ میں صفحہ481 پر کونڈوں کی نیاز کو حرام کہنے والوں بدمذہبوں کی مذمت فرمائی ہے۔ واللہ اعلم ورسولہ عزوجل و صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ واصحابہ وبارک وسلم

اپنا تبصرہ بھیجیں