طلاق میں بیوی کا سامنے ہونا یا اس تک طلاق کے پیپر پہنچنا

طلاق میں بیوی کا سامنے ہونا یا اس تک طلاق کے پیپر پہنچنا

کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ ایک عورت شوہر سے ناراض ہوکر اپنے گھر چلی گئی شوہر نے طلاق کے پیپرز پر سائن کر کے یونین کونسل میں بھیج دیئے،عورت کو علم ہوگیا کہ شوہر نے سائن کیے ہیں،لیکن عورت کو سامنے نہیں کہا کہ تجھے طلاق ہے اور نہ ہی پیپرز عورت تک پہنچے ۔تو کیا طلاق ہوگئی ؟اور اب شوہر اُسکو واپس لانا چاہتا ہے کیا حُکم ہوگا ؟

بسم اللہ الرحمن الرحیم

الجواب بعون الملک الوھاب اللھم ھدایۃ الحق وا لصواب

اگر یہ پیپرز تین طلاقوں کے تھے تو مذکورہ صورت میں تینوں طلاقیں ہوگئیں۔ طلاق میں عورت کاسامنے ہونا یا اس تک پیپر پہنچنا ضروری نہیں ۔شوہر نے جیسے ہی طلاق کے پیپر بنوائے اسی وقت طلاق ہوجاتی ہے۔ہاں اگر تحریر میں یہ شرط موجود کہ یہ طلاق تب نافذ ہوگی جب عورت تک یہ پیپر پہنچیں تو اس صورت میں طلاق پہنچنے سے قبل نہیں ہوگی۔

یوں اکٹھی تین طلاقیں دینا شرعا جائز نہیں گناہ ہے،شوہر پر توبہ لازم ہے۔ اب جب تین طلاقیں ہوچکیں تو اب دوبارہ عورت کو اپنے نکاح میں لانے کی صورت یہ ہوگی کہ عورت اپنی عدت گزار کر اپنی مرضی سے کسی اور جگہ نکاح کرے وہ دوسرا شوہر صحبت کے بعد اپنی خوشی سے طلاق دے یا مرجائے تو اس کی عدت کے بعد پہلے شوہر سے نکاح ہوسکتا ہے،اس کے علاوہ اور کوئی صورت نہیں۔

الاشباہ و النظائر میں ہے:

”لو کتب علی شیء یستبین علیہ امراتہ او عبدہ کذا ان نوی صح و الا فلا، و لو کتب علی الھواء او الماء ؛لم یقع شی ء و ان نوی،و ان کتب (( امراتہ طالق ؛فھی طالق ،بعث الیھا او لا “

یعنی اگر کسی نے ایسی چیز پر لکھا جس پروہ اس کی عورت یا غلام کو واضح ہو تو اگر طلاق کی نیت کی تو طلاق درست ورنہ نہیں ۔اور اگر ہوا یا پانی پر لکھا تو کچھ بھی واقع نہیں ہوگا اگرچہ وہ نیت کرے اور اگر اس نے لکھا کہ اس کی عورت طلاق والی ہے تو طلاق والی ہوجائے گی ،وہ اس طرف بھیجا یا نہیں ۔( الاشباہ والنظائر،صفحہ377،مکتبہ رحمانیہ،لاہور)

الدرالمختار میں ہے :

”کتب الطلاق ، ان مستبینا علی نحو لوح وقع ان نوی ،و قیل مطلقا،و لو علی نحو الماء فلا مطلقا۔و لو کتب علی وجہ الرسالۃ و الخطاب ؛کان یکتب : یا فلانۃ،اذا اتاک کتابی ھذا فانت طالق،طلقت بوصول الکتاب “

یعنی اس نے طلاق کو لکھا ،اگر تختی کی مثل پر واضح انداز سے لکھا تو طلاق واقع ہوگی اگر اس نے طلاق کی نیت کی۔اگر پانی کی مثل کسی چیز پر لکھا تو طلاق واقع نہیں ہوگی مطلقا۔اور اگر اس نے پیغام اور خطاب کے طور پر لکھا اور وہ لکھتا ہے کہ اے فلانہ! جب تیرے پاس میرا خط آئے تو طلاق والی ہے تو خط کے پہنچتے ہی طلاق واقع ہوجائے گی۔(الدرالمختار،جلد4،صفحہ 442،مکتبہ رحمانیہ ،لاہور)

اما م احمد رضاخان علیہ رحمۃ الرحمن اسی قسم کے ایک مسئلہ کے جواب میں فرماتے ہیں:

’’طلاق کے لئے عورت کا وہاں حاضر ہونا کچھ شرط نہیں’’فان ازالۃ لا عقد کمالایخفیٰ‘‘(کیونکہ یہ ازالہ نکاح ہے نکاح نہیں ہے ،تاکہ حاضری ضروری ہوتی جیسا کہ مخفی نہیں ہے۔‘‘) (فتاوٰی رضویہ،جلد12،صفحہ362،رضافائونڈیشن،لاہور)

بہار شریعت میں ہے:

”زبا ن سے الفاظ طلاق نہ کہے مگر کسی ایسی چیز پر لکھے کہ حروف ممتاز نہ ہوتے ہوں مثلا پانی یا ہوا پر تو طلاق نہ ہوگی اور اگر ایسی چیز پر لکھے کہ حروف ممتاز ہوتے ہوں مثلا کاغذ یا تختہ وغیرہ پر اور طلاق کی نیت سے لکھے تو ہوجائے گی اور اگر لکھ کر بھیجا یعنی اس طرح لکھا جس طرح خطوط لکھے جاتے ہیں کہ معمولی القاب و آداب کے بعد اپنا مطلب لکھتے ہیں جب بھی ہوگئی بلکہ اگر نہ بھی بھیجے جب بھی اس صورت میں ہوجائے گی ۔اور یہ طلاق لکھتے وقت پڑے گی اور اسی وقت سے عدت شمار ہوگی ۔اگر یوں لکھا کہ میرا خط جب تجھے پہنچے تجھے طلاق ہے تو عورت کو جب تحریر پہنچے گی اس وقت طلاق طلاق ہوگی عورت چاہے پڑھے نہ پڑھے ۔“(بہار شریعت،جلد2،ص114،مکتبۃ المدینہ کراچی)

حضرت عمران بن حصین رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے پوچھا گیا

’’حَدَّثَنَا أَبُو بَکْرٍ قَالَ:نا سَہْلُ بْنُ یُوسُفَ، عَنْ حُمَیْدٍ، عَنْ وَاقِعِ بْنِ سَحْبَانَ، قَالَ:سُئِلَ عِمْرَانُ بْنُ حُصَیْنٍ، عَنْ رَجُلٍ طَلَّقَ امْرَأَتَہُ ثَلَاثًا فِی مَجْلِسٍ، قَالَ:أَثِمَ بِرَبِّہِ، وَحُرِّمَتْ عَلَیْہِ امْرَأَتُہُ‘‘

ترجمہ: آدمی نے اپنی بیوی کو ایک مجلس میں اکٹھی تین طلاقیں دیں (تو کیا حکم ہے)؟فرمایا اپنے رب کا نافرمان ہوا اور اس کی بیوی اس پر حرام ہوگئی۔(مصنف ابن ابی شیبہ،کتاب الطلاق،من کرہ ان یطلق الرجل امرأتہ ثلاثا ۔۔۔، جلد4،صفحہ60،مکتبۃ الرشد،الریاض)

اللہ پاک فرماتا ہے:

”فَاِنْ طَلَّقَهَا فَلَا تَحِلُّ لَهٗ مِن بَعْدُ حَتّٰى تَنْكِحَ زَوْجًا غَیْرَهٗ فَاِنْ طَلَّقَهَا فَلَا جُنَاحَ عَلَیْهِمَاۤ اَنْ یَّتَرَاجَعَاۤ اِنْ ظَنَّاۤ اَنْ یُّقِیْمَا حُدُوْدَ اللّٰهِ وَ تِلْكَ حُدُوْدُ اللّٰهِ یُبَیِّنُهَا لِقَوْمٍ یَّعْلَمُوْنَ“

ترجمہ کنز العرفان:

پھر اگر شوہر بیوی کو (تیسری) طلاق دیدے تو اب وہ عورت اس کیلئے حلال نہ ہوگی جب تک دوسرے خاوند سے نکاح نہ کرے، پھر وہ دوسرا شوہراگر اسے طلاق دیدے تو ان دونوں پر ایک دوسرے کی طرف لوٹ آنے میں کچھ گناہ نہیں اگر وہ یہ سمجھیں کہ (اب) اللہ کی حدوں کو قائم رکھ لیں گے اور یہ اللہ کی حدیں ہیں جنہیں وہ دانش مندوں کے لئے بیان کرتا ہے۔( سورۃ البقرۃ، آیۃ:230)

اس کے تحت تفسیر صراط الجنان میں ہے:

”تین طلاقوں کے بعد عورت شوہر پر حرمت ِ غلیظہ کے ساتھ حرام ہوجاتی ہے، اب نہ اس سے رجوع ہوسکتا ہے اورنہ دوبارہ نکاح جب تک یہ نہ ہو کہ عورت عدت گزار کر کسی دوسرے مرد سے نکاح کرے اور وہ دوسرا شوہر صحبت کے بعد طلاق دے یا وہ فوت ہوجائے اورعورت پھر اس دوسرے شوہر کی عدت گزارے۔“

واللہ اعلم

کتبہ: فیصل بن منظور

25 اکتوبر 2023ء

10ربیع الآخر 1444ء

اپنا تبصرہ بھیجیں