شوہر کا مختلف اوقات میں تین سے زائد مرتبہ طلاقیں دینا

شوہر کا مختلف اوقات میں تین سے زائد مرتبہ طلاقیں دینا

کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیانِ شرعِ متین اس بارے میں کہ تعظیم اختر کی شادی ضیغم محمود سے مارچ 2022 میں ہوئی، تعظیم اختر کی یہ دوسری شادی تھی اور اس کا ایک بیٹا ہے۔ شادی کے بعد ہی سے ضیغم محمود کی طرف سے پریشرائز کرنا اور طلاق کی دھمکیاں شروع ہو چکی تھیں۔ ضیغم محمود نے ماہ رمضان میں ایک دن تعظیم اختر کو طلاق کے الفاظ بولے، یوں کہ “میرا تمہارے ساتھ گزارا نہیں، میں تمہیں ایک طلاق ابھی دیتا ہوں۔” اس پہلی طلاق کے بعد عدت ہی میں رجوع کر لیا گیا تھا۔ لیکن اس کے بعد بھی طلاق کی دھمکیوں کا سلسلہ جاری رہا۔ جب حالات بہت خراب ہو گئے تو تعظیم اختر جون 2023 میں اپنے مائیکے چلی آئی لیکن ضیغم محمود اسے لینے نہ آیا۔ فون پر رابطے ہوئے تو ضیغم محمود نے واپسی کی کچھ شرطیں رکھیں جن میں والدین سے نہ ملنے کی شرط وغیرہ موجود تھی، گھر بچانے کی خاطر تمام شرطیں بھی مانیں، پھر بھی وہ لینے نہ آیا بلکہ فون ہی پر چھوٹی چھوٹی بات سے جھگڑا کرتا۔ بات صرف جھگڑو ں تک محدود نہیں رہی بلکہ اس دوران فون ہی پر اس نے کئی مرتبہ طلاق کے صریح الفاظ بولے، یوں کہ ایک دن جھگڑے کے بعد کال بند کی اور میسج کیا کہ “میں اپنےپورے ہوش و حواس میں تمہیں پہلی طلاق دیتا ہوں” آدھے گھنٹے بعد پھر میسج کیا کہ” میں اپنے پورے ہوش و حواس میں تمہیں دوسری طلاق دیتا ہوں۔ ” یوں ہی اگست میں بھی ایک روز کال پر وہ جھگڑا کر رہا تھا، اسی دوران اس نے بولا “اب لائن پر آئی ہو نا، پھر میں تمہیں طلاق دیتا ہوں “ہر دفعہ ضیغم محمود یہ کہہ کر بات آئی گئی کر دیتا کہ یہ الفاظ غصے میں بول دئیے تھے، جب میاں بیوی آپس میں راضی ہو جائیں تو پچھلی طلاقیں نہیں ہوتیں وہ ایسے ہی ہوتی ہیں جیسے کہ ہوئی ہی نہ تھیں، وغیرہ وغیرہ۔ پھر ابھی 11 اور 12 ربیع الاول کو ضیغم محمود نے دو، دو مرتبہ طلاق کے الفاظ بولے۔ 11 ربیع الاول کو میسج میں لکھ کر دو طلاقیں دیں اور پھر 12 ربیع الاول کو فون کال پر ان الفاظ سے دوبارہ دو طلاقیں دے دیں کہ”میں اپنے پورے ہوش و حواس میں تمہیں پہلی طلاق دیتا ہوں، (یوں)ایک طلاق ہو گئی، اب میں تمہیں دوسری طلاق بھی اپنے ہوش و حواس میں دیتا ہوں۔” اس دن کے بعد سے باہم کوئی رابطہ نہیں۔ براہِ کرم! رہنمائی فرما دیں کہ آیا یہ رشتہ ختم ہو چکا ہے یا نہیں؟ تعظیم اختر کے لیے کیا حکم شرعی ہے؟

سائلہ: تعظیم اختر (بارسلونا)

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم

الجواب بعون الملک الوھاب اللھم ھدایۃ الحق وا لصواب

صورتِ مستفسرہ میں بشرطِ صدقِ سائلہ، تعظیم اختر اور ضیغم محمود کے درمیان تین طلاقیں واقع ہو چکی ہیں، جس کی بنا پر ان کا یہ رشتہ ختم ہو چکا ہے نیز تعظیم اختر ضیغم محمود پر حرمتِ مغلظہ کے ساتھ حرام ہوگئی ہے کہ اب بغیر حلالۂ شرعیہ کے ان دونوں کا آپس میں دوبارہ نکاح نہیں ہو سکتا۔ تعظیم اختر کو یہ حق حاصل ہے کہ عدت گزرجانے کے بعد سے ضیغم محمود کے علاوہ جس سے چاہے نکاح کر سکتی ہے۔

یاد رہے! ایک مجلس میں ایک سے زائد طلاقیں دینا ناجائز و گناہ ہے، جبکہ سوال میں واضح بیان ہے کہ متعدد مجالس میں ایک سے زائد طلاقیں دی گئیں، جس وجہ سے ضیغم محمود گناہ گار ہوا، اس پر توبہ لازم ہے۔ پہلی طلاق کے بعد جب دومزید طلاقیں دی گئی تھیں اسی وقت سے تینوں ہوچکی تھیں اور میاں بیوی کا اکٹھے رہنا ناجائز و حرام تھا،میاں بیوی دونوں اس پر توبہ کریں۔

نیز طلاق میں عمومی غصہ کا کوئی اعتبار نہیں اور نہ ہی یہ عذر قابل قبول ہے کہ میں غصہ میں تھا، اگر دیکھا جائے تو طلاق اکثر غصہ ہی کے عالم میں دی جاتی ہے۔ نیز یہ بات بھی محض باطل اور شریعت مطہرہ پر افترا ہے کہ طلاق کے بعد جب میاں بیوی راضی ہو جائیں تو طلاق نہیں ہوتی۔ ایسے تو کوئی سو طلاقیں دینے کے بعد بھی راضی کر کے ساتھ رکھنا شروع کر دے حالانکہ یہ خالص زنا ہوگا۔ قرآن کریم میں تیسری مرتبہ طلاق دینے پر بیوی کے حرمتِ مغلظہ کے ساتھ شوہر پر حرام ہو جانے کا بیان بالکل واضح ہے۔

چنانچہ قرآن پاک میں اللہ ﷯نے ارشاد فرمایا: ﴿ فَاِنْ طَلَّقَهَا فَلَا تَحِلُّ لَهٗ مِنْۢ بَعْدُ حَتّٰى تَنْكِحَ زَوْجًا غَیْرَهٗ ؕ﴾ترجمہ کنز العرفان: پھر اگر شوہر بیوی کو (تیسری مرتبہ) طلاق دے دے تو اب وہ عورت اس کے لیے حلال نہ ہوگی جب تک دوسرے خاوند سے نکاح نہ کرے ۔

(پارہ نمبر 2 ، سورۃالبقرة 2، آیت نمبر 230)

خلیفۂ اعلیٰ حضرت، صدر الافاضل مفتی نعیم الدین مرادآبادی﷫(المتوفی: 1367ھ/1948ء)اس آیت کی تفسیر میں لکھتے ہیں: ”تین طلاقوں کے بعد عورت شوہر پر بحرمتِ مغلظہ حرام ہوجاتی ہے اب نہ اس سے رجوع ہوسکتا ہے نہ دوبارہ نکاح جب تک کہ حلالہ ہو یعنی بعد عدت دوسرے سے نکاح کرے اور وہ بعد صحبت طلاق دے (یا فوت ہو جائے) پھر عدت گزرے۔“

(تفسیر خزائن العرفان، سورۃ البقرۃ، صفحہ نمبر78، مطبوعه: مکتبۃ المدینہ، کراچی)

صحیح بخاری شریف میں ہے: ”كان ابن عمر إذا ‌سئل ‌عمن ‌طلق ثلاثا قال: لو طلقت مرة أو مرتين، فإن النبي صلى الله عليه وسلم أمرني بهذا، فإن طلقتها ثلاثا حرمت حتى تنكح زوجا غيرك“ ترجمہ: حضرت ابن عمر ﷠ سے ایسے شخص کے بارے میں پوچھا گیا جس نے اپنی بیوی کو تین طلاقیں دے دیں تھی، تو آپ ﷠نے فرمایا: اگر تو نے ایک یا دو طلاقیں دی ہوتی تو رجوع ہو سکتا تھا کیونکہ حضور اکرم سرور عالم ﷺ نے مجھے اسی طرح کا حکم فرمایا تھا، اور جبکہ تو نے اپنی بیوی کو تین طلاقیں دے دی ہیں تو تیری بیوی (تجھ پر) حرام ہو چکی ہے جب تک کہ وہ تیرے علاوہ کسی اور سے نکاح نہ کرلے ۔

(صحيح البخاري، كتاب الطلاق، جلد نمبر 5، صفحہ نمبر 2015، مطبوعه: دار ابن كثير، دمشق)

مؤطا امام مالک میں ہے: ”أن رجلا قال لعبد الله بن عباس إني ‌طلقت ‌امرأتي مائة تطليقة فماذا ترى علي؟ فقال له ابن عباس «طلقت منك لثلاث، وسبع وتسعون اتخذت بها آيات الله هزوا“ ترجمہ: ایک شخص نے حضرت عبداﷲ ابن عباس ﷠سے عرض کی کہ میں نے اپنی بیوی کو سو طلاقیں دے دیں، آپ مجھ پر کیا فتویٰ دیتے ہیں؟ تو حضرت ابن عباس ﷠ نے فرمایا: تیری بیوی تین طلاقوں کے ساتھ ہی تجھ سے مطلقہ ہوچکی اور ستانویں طلاقوں کے ذریعے تو نے اﷲ ﷯ کی آیتوں کا مذاق بنایا ۔

(موطا امام مالك، جلد نمبر 2، صفحہ نمبر 550، مطبوعہ: دار احیاء التراث العربی بیروت)

مفسر شہیر حکیم الامت مفتی احمد یار خان نعیمی ﷫ (المتوفی: 1391ھ/1971ء) اس حدیثِ پاک کے تحت مرآۃ المناجیح میں لکھتے ہیں:” اس حدیث سے معلوم ہوا کہ ایک دم تین طلاقیں تین ہی واقع ہوں گی اور اگر کوئی شخص ہزار یا لاکھ طلاقیں دے دے تو تین تو واقع ہو جائیں گی باقی لغو جائیں گی یہ ہی علماء امت کا قول ہے اس پر تمام آئمہ متفق ہیں۔“

(مرآۃ المناجیح، خلع اور طلاق کا بیان، جلد نمبر 5، صفحہ نمبر 133، مطبوعہ: نعیمی کتب خانہ گجرات)

خاتم المحققین علامہ ابن عابدين سید محمد امين بن عمر شامی حنفی ﷫ (المتوفى: 1252ھ/1836ء) لکھتے ہیں :”وذهب جمهور الصحابة والتابعين ومن بعدهم من أئمة المسلمين إلى أنه يقع ثلاث … لو حكم حاكم بأنها واحدة لم ينفذ حكمه لأنه ‌لا ‌يسوغ ‌الاجتهاد فيه فهو خلاف لا اختلاف “ترجمہ:جمہور صحابہ کرام،تابعین اور ان کے بعد کے آئمہ مسلمین اسی طرف گئے ہيں کہ تين اکٹھی طلاقيں نافذ ہو جاتی ہيں۔ … اگر حاکم اکٹھی تين طلاقوں کے ايک ہونے کا حکم دے تو وہ حکم نافذ نہ ہوگا کہ اس ميں اجتہاد کی گنجائش نہیں اور ايسا کرنا محض اختلاف نہیں بلکہ (احاديث و اجماع) کے خلاف ہے۔

(رد المحتار علی الدر المختار، کتاب الطلاق، رکن الطلاق، جلد نمبر 3، صفحه نمبر 233، مطبوعه: دار الفکر، بیروت)

شیخ الإسلام والمسلمین امام اہل سنت اعلی حضرت امام احمد رضا خان﷫ (المتوفی: 1340ھ/1921ء) لکھتے ہیں:”ایک بار تین طلاق دینے سے نہ نزد حنفیہ بلکہ اجماعِ مذاہب اربعہ تین طلاقیں مغلظہ ہوجاتی ہیں،امام شافعی ،امام مالک ،امام احمد رضی اللہ تعالیٰ عنھم آئمہ متبوعین سے کوئی امام اس باب میں اصلاً مخالف نہيں ، … يہاں تک کہ آئمہ دین نے فرمایا کہ اگر قاضی شرع حاکمِ اسلام ایسے مسئلہ میں ایک طلاق پڑنے کا حکم دے تو وُہ حکم باطل ومردود ہے ۔“

(فتاویٰ رضویہ، جلد نمبر 12،صفحہ نمبر410، مطبوعه: رضافاؤنڈیشن، لاہور)

سیدی اعلیٰ حضرت﷫ ہی ایک مقام پر لکھتے ہیں:”شریعت کا حکم یہ ہے کہ جس شخص نے اپنی عورت کو تین طلاقیں دی ہوں ایک دفعہ میں خواہ برسوں میں کہ ایک کبھی دی اوررجعت کرلی پھر دوسری دی اور رجعت کرلی اب تیسری دی دونوں صورتوں میں عورت اس پر بغیرحلالہ حرام ہے ۔“

(فتاوی رضویہ،جلد نمبر12،صفحہ نمبر408، مطبوعه: رضا فاؤنڈیشن،لاہور)

علامہ عبد الرحمن بن محمد شیخی زاده داماد افندی ﷫ (المتوفى: 1078ھ/1667ء) لکھتے ہیں: ”(وبدعيه) أي بدعي الطلاق عددا (تطليقها ثلاثا، أو ثنتين بكلمة واحدة) مثل أن يقول أنت طالق ثلاثا، أو ثنتين وهو حرام حرمة غليظة وكان عاصيا لكن إذا فعل بانت منه“ ترجمہ: اور طلاق میں عدد کے اعتبار سے بدعی یہ ہے کہ ایک ہی کلمے کے ساتھ اپنی بیوی کو (اکٹھی) تین طلاقیں دینا یا (اکٹھی) دو طلاقیں دینا، مثال کے طور پر یہ کہنا کہ تجھے تین طلاقیں ہیں یا دو طلاقیں ہیں، اور یہ (اکٹھی ایک سے زیادہ طلاقیں دینا) سخت حرام ہے اور ایسا کرنے والا گنہگار ہو گا لیکن جب کوئی ایسا کرے تو اس کی عورت اس جدا ہو جائے گی (یعنی یہ طلاقیں واقع ہو جائیں گی)۔

(مجمع الأنهر في شرح ملتقى الأبحر، کتاب الطلاق، جلد نمبر 1، صفحه نمبر 382، مطبوعه: دار إحياء التراث العربي، بیروت)

صدر الشریعہ مفتی امجد علی اعظمی ﷫ (المتوفی: 1367ھ/1948ء) لکھتے ہیں:” اگر غصہ اس حد کا ہو کہ عقل جاتی رہے تو (طلاق) واقع نہ ہوگی۔ آج کل اکثر لوگ طلاق دے بیٹھتے ہیں بعد کو افسوس کرتے اور طرح طرح کے حیلہ سے یہ فتویٰ لیا چاہتے ہیں کہ طلاق واقع نہ ہو۔ ایک عذر اکثر یہ بھی ہوتا ہے کہ غصہ میں طلاق دی تھی۔ مفتی کو چاہیے یہ امر ملحوظ رکھے کہ مطلقاً غصہ کا اعتبار نہیں۔معمولی غصہ میں طلاق ہو جاتی ہے۔ وہ صورت کہ عقل غصہ سے جاتی رہے بہت نادر ہے۔“

(بہار شریعت، جلد نمبر 2، حصہ نمبر 8،صفحه نمبر 115، مطبوعه: مکتبة المدینہ، کراچی)

و اللہ اعلم عزوجل ورسولہ اعلم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم

کتبــــــــــــــــــــــــــــہ

مولانا احمد رضا عطاری حنفی

4 ربیع الآخر 1445ھ / 20 اکتوبر 2023ء

اپنا تبصرہ بھیجیں