دو بیویوں کا نفقہ اور ان کے درمیان انصاف

دو بیویوں کا نفقہ اور ان کے درمیان انصاف

کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ:

(1) جس شخص کی دوبیویاں ہوں توہرایک کاکتنااورکس قسم کانفقہ اس پرلازم ہوگا؟

(2)اگرشوہرایک بیوی کوبلاوجہ شرعی اپنے گھرسے باہرنکال دے اوراسے نفقہ وغیرہ نہ دے تو اس کے متعلق شرعی حکم کیاہے؟

بسم اللہ الرحمن الرحیم

الجواب بعون الملک الوھاب اللھم ھدایۃ الحق وا لصواب

صورت مستفسرہ کے مطابق نفقے سے مراد وہ خرچ ہے جو انسان اپنے اوپر اور اپنے اہل و عیال پر کرے۔ نفقہ دو قسم کا ہوتا ہے ایک اصل نفقہ جو کہ واجب ہے اور دوسرا زائد ۔پہلی قسم کانفقہ دوبیویوں میں برابررکھنااس وقت لازم ہے کہ جبکہ دونوں بیویاں مال اورفقروغنا کی حالت کے اعتبارسے برابر ہوں ۔اوراگراس معاملے میں دونوں کی حالت ایک جیسی نہیں ہے جیسے ایک فقیرہ اوردوسری غنیہ ہے توشوہراوربیوی دونوں کے حال کے مطابق نفقہ لازم ہوگا۔مثلاشوہراوربیوی دونوں امیرکبیرہیں توامیروں والااوردونوں غریب ہیں توغریبوں والااوراگرایک امیراورایک غریب ہے تومتوسط یعنی درمیانے قسم کا،لیکن اس آخری صورت میں اگرشوہرامیرہے تواسے چاہیے کہ جیساخودکھاتاہے ،ویسابیوی کوبھی کھلائے اگرچہ واجب اس پرصرف متوسط ہے ۔برابری اور کمی وبیشی نان ونفقہ و کسوہ و سکنی کے حوالے سے ہے اور جو زائد ہے اس سے مراد یہ ہے کہ میوے مٹھائی زائد کپڑے تحائف وغیرہ سب میں برابری کرے اور اگر اس میں ایک کو دیا اور دوسری کو نہ دیا یا ایک کو کم اور دوسری کو زیادہ دیا تب بھی وہ گناہ گار ہوگا ۔

سوال کے دوسرے حصے کا جواب یہ ہے کہ شوہر ایک بیوی کو گھر سے نکال دینے اور نفقہ نہ دینے کے سبب شدید گناہ گار ہے اور اس پر دونوں میں عدل کرنا واجب ہے اور اس طرح بیوی کے حقوق ادا نہ کرکے اور ایسے معلق رکھ کر وہ ظالم اور گناہگار ہے اور اس ظلم کی وجہ سے بیوی اس سے علیحدگی کا بھی مطالبہ کرسکتی ہے۔

لسان العرب میں ہے

”ما أنفقت، واستنفقت علی العیال وعلٰی نفسک“

نفقہ سے مراد وہ خرچ ہے جو انسان اپنے اوپر اور اپنے اہل و عیال پر کرے۔( لسان العرب، جلد 10 صفحہ: 358

مطبوعہ مکتبہ الرشید الریاض)

فتویٰ شامی میں ہے

” (نصف ما للحرة) أي من البيتوتة والسكنى معها،أما النفقة فبحالهما وفي الرد: (قوله: أما النفقة) هي الأكل والشرب واللبس والمسكن (قوله: فبحالهما) أي إن كان كل من الزوج والزوجة غنيين فالواجب نفقة الأغنياء أو فقيرين فنفقة الفقراء أو مختلفين فالوسط، وهذا هو المفتى به “

ترجمہ (آزاد کے لیے) یعنی گھر اور سکنی ان دونوں کے حال کے مطابق ہو۔رد میں ہے (اس قول پر کہ اس کا نفقہ) یعنی اس کا کھانا پینا اور مکان اورمسکن (اور قول یعنی ان دونوں کے حال کے مطابق) یعنی اگر دونوں زوجین مالدار ہو تو پس واجب ہوگا اغنیاء کا نفقہ اور اگر زوجین فقیر ہو تو نفقہ فقراء جیسا ہوگا اور اگر دونوں کی حالت مختلف ہو تو اس کا نفقہ متوسط ہوگا اور اسی پر فتویٰ ہے ۔( فتاویٰ شامی جلد3، صفحہ:206، مطبوعہ دار الاشاعت )

فتاوی ہندیہ میں ہے

” تجب على الرجل نفقة إمرأته المسلمة و الذمية و الفقيرة و الغنية دخل بها أو لم يدخل … الخ “

ترجمہ :مرد پر عورت کا نفقہ واجب ہے چاہے وہ مسلمان ہو یا ذمی ہو یا فقیرہ ہو یا غنی ہو مدخولہ ہو یا غیر مدخولہ ۔( فتاویٰ ھندیہ کتاب الطلاق باب النفقات جلد 1 صفحہ 544 مطبوعہ دار الفکر بیروت)

تبیین الحقائق میں ہے

”تجب النفقۃ للزوجۃ علی زوجہا، والکسوۃ بقدر حالہما“

ترجمہ:اور زوجہ کا نفقہ زوج پر واجب ہے اور کپڑے ان دونوں کے (مالی)حال کے مطابق۔ (تبیین الحقائق باب النفقۃ جلد 3 صفحہ 300 مطبوعہ دار الفکر بیروت)

فتاوی رضویہ میں ہے:

” اعلی حضرت رحمۃ اللہ تعالی علیہ فرماتے ہیں :” کھانا دو قسم ہے ایک اصل نفقہ جوزوجہ کے لئے زوج پر واجب ہے، دُوسرا اس سے زائد مثل فواکہ وپان والائچی وعطایا وہدایا، قسم اوّل میں برابری صرف اُس صورت میں واجب ہے جب دونوں عورتیں مال وحالت فقروغنا میں یکساں ہوں ورنہ لحاظ حال زوج کے ساتھ غنیہ کے لئے اس کے لائق واجب ہوگا اور فقیرہ کے لئے اس کے لائق مثلاً زوج اور ایک زوجہ دونوں امیر کبیر ہیں کہ اپنے اپنے یہاں اُن کی خوراک باقرخانی ومُرغ پلاؤ ہے، اور دوسری زوجہ فقیرہ ہے کہ جوار باجرے کی روٹی کھاتی ہے اور آپ پیستی پکاتی ہے، ان دونوں کے نفقہ میں مساوات واجب نہیں ہوسکتی۔ پہلی کے لئے وہی بریانی اور مزعفرلازم ہے اور دوسری کے لئے گیہوں کی روٹی اور بکری کا گوشت، پہلی کے لئے خادم بھی ضرور ہوگا دوسری آپ خدمت کرلے گی، پہلی کریب اور زربفت پہنے گی دوسری کوتنزیب اور ساٹھن بہت ہے، پہلی کے لئے مکان بھی عالی شان درکار ہوگا دوسری کے لئے متوسط۔

اور قسم دوم میں مطلقاً برابری چاہئے، جو چیز جتنی اور جیسی ایک کو دے اُتنی ہی اورویسی ہی دوسری کو بھی دے۔ دُودھ، چائے، میوے، پان، چھالیا، الائچی، برف کی قلفیاں، سُرمہ، مہندی وغیرہ وغیرہ تمام زوائد میں مساوات رکھے کہ وہاں فرق اصل وجوب میں تھا یہ اشیاء واجب نہیں ان میں ایک کو مرجح رکھنا اس کی طرف میل کرنا ہوگا اور میل ممنوع ہے ۔‘‘ (فتاوی رضویہ ، جلد 12،صفحہ276،277 مطبوعہ رضا فاؤنڈیشن لاہور)

بہار شریعت میں ہے:

”اگر مرد و عورت دونوں مالدار ہوں تو نفقہ مالداروں کاسا ہوگا اور دونوں محتاج ہوں تو محتاجوں کا سا اورایک مالدار ہے، دوسرا محتاج تو متوسط درجہ کا یعنی محتاج جیسا کھاتے ہوں اُس سے عمدہ اور اغنیا جیسا کھاتے ہوں اُس سے کم اور شوہر مالدار ہواور عورت محتاج تو بہتر یہ ہے کہ جیسا آپ کھاتا ہو عورت کو بھی کھلائے، مگر یہ واجب نہیں واجب متوسط ہے ۔۔۔

نفقہ کا تعین روپوں سے نہیں کیا جاسکتا کہ ہمیشہ اُتنے ہی روپے ديے جائیں اس ليے کہ نرخ بدلتا رہتا ہے ارزانی و گرانی دونوں کے مصارف یکساں نہیں ہوسکتے بلکہ گرانی میں اُس کے لحاظ سے تعداد بڑھائی جائے گی اور ارزانی میں کم کی جائے گی۔

جاڑوں میں جاڑے کے مناسب اور گرمیوں میں گرمی کے مناسب کپڑے دے مگر بہر حال اس کا لحاظ ضرور ی ہے کہ اگر دونوں مالدار ہوں تو مالداروں کے سے کپڑے ہوں اور محتاج ہوں تو غریبوں کے سے اور ایک مالدار ہو اور ایک محتاج تو متوسط جیسے کھانے میں تینوں باتوں کا لحاظ ہے۔ اور لباس میں اُس شہر کے رواج کااعتبار ہے جاڑے گرمی میں جیسے کپڑوں کا وہاں چلن ہے وہ دے چمڑے کے موزے عورت کے ليے شوہر پر واجب نہیں مگر عورت کی باندی کے موزے شوہر پر واجب ہیں۔ اور سوتی، اونی موزے جو جاڑوں میں سردی کی وجہ سے پہنے جاتے ہیں یہ دینے ہونگے۔” (بہار شریعت ،جلد 2،حصہ 8،صفحہ 265،267، مطبوعہ مکتبۃ المدینہ،کراچی)

ارشاد باری تعالیٰ ہے

”وَ لَنْ تَسْتَطِیْعُوْۤا اَنْ تَعْدِلُوْا بَیْنَ النِّسَآءِ وَ لَوْ حَرَصْتُمْ فَلَا تَمِیْلُوْا كُلَّ الْمَیْلِ فَتَذَرُوْهَا كَالْمُعَلَّقَةِؕ وَ اِنْ تُصْلِحُوْا وَ تَتَّقُوْا فَاِنَّ اللّٰهَ كَانَ غَفُوْرًا رَّحِیْمًا“

ترجمۂ کنز العرفان:اور تم سے ہرگز نہ ہوسکے گا کہ عورتوں کو برابر رکھو اگرچہ تم کتنی ہی (اس کی) حرص کرو تو یہ نہ کروکہ (ایک ہی بیوی کی طرف) پورے پورے جھک جاؤ اور دوسری لٹکتی ہوئی چھوڑ دو اور اگر تم نیکی اور پرہیزگاری اختیارکرو تو بیشک اللہ بخشنے والا مہربان ہے۔(سورۃ النساء آیت 129 پارہ 4)

تفسیر صراط الجنان میں ہے

{وَ لَنْ تَسْتَطِیْعُوْۤا اَنْ تَعْدِلُوْا بَیْنَ النِّسَآءِ:اور تم سے ہرگز نہ ہوسکے گا کہ عورتوں کو برابر رکھو۔} یعنی اگر تمہاری ایک سے زیادہ بیویاں ہوں تویہ تمہاری قدرت میں نہیں کہ ہر چیز میں تم انہیں برابر رکھو اور کسی چیز میں ایک کو دوسری پر ترجیح نہ ہونے دو، نہ میلان و محبت میں اور نہ خواہش ور غبت میں اور نہ نظر وتوجہ میں ، تم کوشش کرکے یہ تو کر نہیں سکتے لیکن اگر اتنا تمہاری قدرت میں نہیں ہے اور اس وجہ سے ان تمام پابندیوں کا بوجھ تمہارے اوپر نہیں رکھا گیا اور قلبی محبت اور طبعی مَیلان جو تمہارے اختیار میں نہیں ہے اس میں برابری کرنے کا تمہیں حکم نہیں دیا گیا تو یہ تو نہ کرو کہ ایک ہی بیوی کی طرف پورے پورے جھک جاؤ اور دوسری بیوی کے لازمی حقوق بھی ادا نہ کرو بلکہ تم پر لازم ہے کہ جہاں تک تمہیں قدرت و اختیار ہے وہاں تک یکساں برتاؤ کرو، محبت اختیار ی شے نہیں تو بات چیت، حسنِ اخلاق، کھانے، پہننے، پاس رکھنے اور ایسے امور جن میں برابری کرنا اختیار میں ہے ان امور میں دونوں کے ساتھ ضرور یکسا ں سلوک کرو۔(تفسیر صراط الجنان جلد 2 سورۃ النساء آیت 129 مطبوعہ مکتبہ المدینہ کراچی)

ارشاد باری تعالیٰ ہے

”عَاشِرُوْهُنَّ بِالْمَعْرُوْفِ“

ترجمہ کنزالایمان :اور ان کے ساتھ اچھے طریقے سے گزر بسر کرو۔(سورۃ النساء آیت 19 پارہ 4)

تفسیر صراط الجنان میں ہے :

”بیویوں پر ظلم وستم کرنے والے غور کریں :

یہاں جو حالات زمانہ ِجاہلیت کے بیان کئے جارہے ہیں ان پر غور کریں کہ کیا انہی حالات پر اِس وقت ہمارا معاشرہ نہیں چل رہا۔ بیویوں کو تنگ کرنا، جبری طور پر مہر معاف کروانا، ان کے حقوق ادا نہ کرنا، ذہنی اَذیتیں دینا، کبھی عورت کو اس کے ماں باپ کے گھر بٹھا دینا اور کبھی اپنے گھر میں رکھ کر بات چیت بند کردینا، دوسروں کے سامنے ڈانٹ ڈپٹ کرنا، لتاڑنا، جھاڑنا وغیرہ۔ عورت بیچاری شوہر کے پیچھے پیچھے پھر رہی ہوتی ہے اور شوہر صاحب فرعون بنے آگے آگے جارہے ہوتے ہیں ، عورت کے گھر والوں سے صراحتاً یا بیوی کے ذریعے نت نئے مطالبے کئے جاتے ہیں ، کبھی کچھ دلانے اور کبھی کچھ دلانے کا۔ الغرض ظلم و سِتم کی وہ کون سی صورت ہے جو ہمارے گھروں میں نہیں پائی جارہی۔“(تفسیر صراط الجنان جلد 2 سورۃ النساء آیت 19 پارہ 4 مطبوعہ مکتبہ المدینہ کراچی)

اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے:

﴿وَ عَلَى الْمَوْلُوْدِ لَهٗ رِزْقُهُنَّ وَ كِسْوَتُهُنَّ بِالْمَعْرُوْفِ ﴾

ترجمہ کنزالایمان:اور جس کا بچہ ہے،اُس پر عورتوں کا کھانا اور پہننا (لباس)ہے حسبِ دستور۔(سورۃ البقرۃ،پارہ2،آیت233)

مشکوٰۃ المصابیح میں ہے

”عن أبي هريرة عن النبي صلي الله عليه وسلم قال: إذا كانت عند رجل إمرأتان فلم يعدل بينهما جاء يوم القيامة و شقه ساقط”. رواه الترمذي و أبو داؤد و النسائي و ابن ماجه و الدارمي“

ترجمہ: حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان نقل کرتے ہیں: جس شخص کے نکاح میں (ایک سے زائد مثلاً) دو بیویاں ہوں اور وہ ان دونوں کے درمیان عدل و برابری نہ کرے تو قیامت کے دن (میدانِ محشر میں) اس طرح سے آئے گا کہ اس کا آدھادھڑ ساقط ہوگا۔(مشكوہ المصابیح باب القسم: جلد 2 صفحہ 270 مطبوعہ قدیمی کتب خانہ)

ابو داؤد میں ہے :

”من كان له امرأتان يميل لإحداهما على الأخرى جاء يوم القيامة احد شقيه مائل“

ترجمہ :جس شخص کی دو بیویاں ہوں وہ ان میں سے ایک کی طرف مائل ہو وہ قیامت کے دن اس حال میں آئے گا کہ اس کی ایک جانب مفلوج ہو گی۔(ابو داؤد جلد 2 صفحہ 233 مطبوعہ قدیمی کتب خانہ)

امام اہلسنت الشاہ امام احمد رضا خان علیہ الرحمۃ شوہر پر بیوی کے حقوق بیان کرتے ہوئے ارشاد فرماتے ہیں:

’’مرد پر عورت کا حق نان ونفقہ دینا،رہنے کو مکان دینا،مہر وقت پر ادا کرنا،اُس کے ساتھ بھلائی کا برتاؤ رکھنا،اُسے خلافِ شرع باتوں سے بچانا۔‘‘(فتاوی رضویہ،ج24،صفحہ 379 ، 380 مطبوعہ،رضا فاؤنڈیشن،لاھور)

مزیدامام اہلسنت امام احمد رضا خاں علیہ الرحمہ فرماتے ہیں:

’’جب نکاح باقی ہے،تو اس صورت میں زید پرفرض ہے کہ یا تو اسے طلاق دے دے یا اس کے نان نفقہ کی خبر گیری کرے، ورنہ یو ں معلق رکھنےمیں زید بے شک گنہگار ہےاور صریح حکمِ قرآن کاخلاف کر نے والا۔قرآن پاک میں ہے﴿فَلاَ تَمِیْلُوْا کُلَّ الْمَیْلِ فَتَذَرُوْہَا کَالْمُعَلَّقَۃِ﴾ترجمہ کنز الایمان:’’ تو یہ تو نہ ہو کہ ایک طرف پورا جھک جاؤکہ دوسری کو اَدھرمیں لٹکتی چھوڑ دو۔“ (فتاوی رضویہ ،جلد13،صفحہ435، مطبوعہ رضا فاؤنڈیشن، لاھور)

واللہ اعلم عزوجل ورسولہ اعلم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم

کتبـــــــــــــــــــــــــــہ

ممبر فقہ کورس

08صفر المظفر 1445ھ26اگست 2023ء

اپنا تبصرہ بھیجیں