جب طلاق میں صریح اور کنایہ الفاظ ہوں

جب طلاق میں صریح اور کنایہ الفاظ ہوں

کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیانِ شرعِ متین اس بارے میں کہ کلب علی بن خالد حسین اور اریج ریاست بنت ریاست علی کی شادی مؤرخہ 26 نومبر 2021 کو ہوئی، ابھی تک سب ٹھیک چل رہا تھا۔ ستمبر 2023 کی 9 تاریخ کو کلب علی کام وغیرہ سے پریشان غصہ میں گھر آیا، آپس میں کچھ چپکلش ہوئی کہ اریج ریاست نے اپنے مائیکے جانے کی اجازت مانگی تھی لیکن کلب علی نے نہیں دی تھی۔ رات میں کلب علی نے جھگڑنے کے دوران دو تین مرتبہ (وقفہ وقفہ سے) اس طرح کے الفاظ بھی پنجابی میں بول دیئے کہ تم میری طرف سے فارغ ہو،آزاد ہو، جدھر دل ہے جاؤ، وغیرہ ۔ اریج ریاست نے چپ کروایا کہ ایسے جملے نہیں کہتے۔ اگلے دن کلب علی نے غصہ میں اپنی بیوی کو مائیکے جانے کا کہہ دیا کہ اپنا سامان اٹھاؤ اور مائیکے چلی جاؤ۔ پھر اس دن کال پر جھگڑا ہوا اس میں پھر اسی طرح کے جملے بولے اور کہا اگر تم امی کے گھر چلی بھی جاؤ تو مجھے قسم ہے میں لینے نہیں آؤں گا۔ جب اریج ریاست مائیکے چلی گئی تو کال پر کہا اپنا سارا سامان کیوں نہیں لے کر گئی؟ پھر ساس سے بات کی اور ان سے کہا کہ اب اسے اپنے پاس رکھو، دو تین مہینے جب دل بھر جائے گا تب بھیج دینا۔ ساس نے سمجھایا ایسے نہیں کرتے وغیرہ۔ رات میں کلب علی نے اپنی بیوی کو میسجز کیے کہ ”فون چُک میں تینوں طلاق دینی اے“ اس طرح کے جملے تین مرتبہ بولے۔ اریج ریاست نے فون نہیں اٹھایا۔ اگلے دن کلب علی نے دوبارہ کال کی اور کہا آج آ جاؤ گھر، اس پر جواباً اریج ریاست نے کہا: اب آپ امی ہی سے بات کرو، وغیرہ۔ پھر اسی دن کلب علی نے اریج ریاست کو کال کر کے پنجابی میں دو مرتبہ کہا: ”میں تینوں طلاق دینا واں“ اس کے بعد کچھ وقفہ دے کر تیسری مرتبہ یوں کہا”میں تینوں طلاق دے دیاں گا۔“ یہ جملے اسی تفصیل کے ساتھ اریج کی والدہ اور بہن نے بھی سنے ہیں۔براہ کرم! رہنمائی فرما دیں کہ کیا کلب علی اور اریج ریاست میں طلاق واقع ہوگئی یا ابھی بھی یہ دونوں رشتہ ازدواج ہی میں ہیں؟ شریعت مطہرہ ان کے بارے میں کیا حکم ارشاد فرماتی ہے؟سائل: ساجد علی (بارسلونا)

نوٹ: یہ دونوں اپنی شادی کو برقرار رکھنا چاہتے ہیں، کوئی بھی فریق علیحدگی نہیں چاہتا۔ نیز کلب علی نے اپنے بیان میں وضاحت کی ہے کہ ” تم میری طرف سے فارغ ہو، جدھر چاہو جاؤ“ وغیرہ کے الفاظ سے اس کی نیت ہرگز طلاق کی نہیں تھی بلکہ بقول کلب علی کے اس نے یہ الفاظ اس لیے بولے تھے کہ یہ سن کر اریج ریاست اپنا مائیکے جانے کا ارادہ ترک کر دے اور اس کے ساتھ ہی رہے، اس بات پر کلب علی نے قسم بھی اٹھائی ہے۔ کلب علی اس سب پر شرمندہ بھی ہے کہ اس سے یہ سب کچھ کام کی فرسٹریشن کی وجہ سے ہوا، اس کا ایسا کوئی ارادہ نہیں تھا۔مزید دونوں فریقین کے بیانات ساتھ منسلک ہیں۔

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم

الجواب بعون الملک الوھاب اللھم ھدایۃ الحق وا لصواب

صورتِ مستفسرہ میں بشرط صدق فریقین، کلب علی اور اریج ریاست کے مابین دو رجعی طلاقیں واقع ہو چکی ہیں اور اس وقت اریج ریاست شرعا کلب علی کی مطلّقہ اور اس کی عدت میں ہے۔ چونکہ ابھی دو رجعی طلاقیں ہوئی ہیں اس لیے کلب علی کو رجوع کا حق حاصل ہے، لہذا اگر عدت ہی میں وہ رجوع کر لیتا ہے تو اریج ریاست بدستور اس کی زوجیت میں باقی رہے گی اور آئندہ کلب علی کے پاس ایک طلاق کا حق حاصل رہے گا، اگر زندگی میں ایک بار بھی اب کلب علی نے طلاق دی تو اریج ریاست اس پر حرام ہو جائے گی اور بغیر حلالۂ شرعیہ کے اس سے واپس نکاح نہیں کر سکتا۔

تفصیل اس مسئلے کی کچھ یوں ہے:

طلاق کے الفاظ دو طرح کے ہوتے ہیں:

(1) صریح (2) کنایہ۔ صریح: وہ الفاظ جن کا استعمال بمعنائے طلاق عرف و رواج میں اس قدر ہو کہ جب بولے جائیں تو طلاق ہی سمجھی جائے اور طلاق کے سوا کسی اور معنی میں استعمال نہ ہوں، جیسے: میں نے تمہیں طلاق دی۔ کنایہ: وہ الفاظ جو عرف و رواج میں طلاق کے ساتھ خاص نہ ہوں بلکہ طلاق کے علاوہ کسی اور معنی میں بھی استعمال ہوتے ہوں نیز اس سے طلاق مراد ہونا ظاہر نہ ہو، جیسے: تو مجھ سے جدا ہے۔عموما صریح الفاظ کے ساتھ ایک طلاق دینے پر ایک طلاقِ رجعی واقع ہوتی ہے اگرچہ بغیر کسی نیت کے دے مگر یہ کہ طلاقِ بائن پر کوئی قرینہ موجود ہو، یوں ہی دوسری اور تیسری طلاق صریح الفاظ کے ساتھ دینے پر بالترتیب دوسری اور تیسری طلاق رجعی واقع ہو جاتی ہے، اگرچہ کوئی نیت نہ ہو۔ البتہ کنایہ الفاظ سے طلاق واقع ہونے میں یہ شرط ہے کہ وہ الفاظ طلاق کی نیت سے بولے ہوں یا حالت بتاتی ہو کہ ان الفاظ سے طلاق ہی مراد ہے، جیسے پیچھے طلاق کا ذکر چل رہا تھا تو یہ الفاظ بولے یا غصہ میں تھا تو یہ الفاظ بولے۔

پس ہفتہ کی رات کو جھگڑے کے دوران کہے جانے والے یہ جملے ”تم میری طرف سے فارغ ہو، وغیرہ“ بلاشبہ الفاظِ کنایہ ہیں لیکن چونکہ اس میں نیت طلاق دینے کی نہیں تھی جس پر قائل نے قسم بھی اٹھائی ہے اس لیے ان الفاظ سے طلاق واقع نہیں ہوئی۔ لیکن ایک دن بعد فون پر طلاق کے صریح الفاظ ”میں تینوں طلاق دینا واں “ دو مرتبہ کہنے کی وجہ سے دو رجعی طلاقیں واقع ہو گئیں۔ البتہ تیسرا جملہ ”میں تینوں طلاق دے دیاں گا “چونکہ مستقبل کا تھا اس لیے اس جملے سے طلاق واقع نہ ہوئی۔ رجعی طلاق والی عورت پر طلاق کی عدت گزارنا لازم ہوتی ہے اور مرد چاہے تو عدت میں رجوع کا کر سکتا ہے۔ رجوع کا بہتر طریقہ یہ ہے کہ دو گواہوں کے سامنے یوں کہے کہ میں اپنی طلاق واپس لیتا ہوں اور فلاں عورت کو اپنی زوجیت میں باقی رکھتا ہوں۔

نوٹ: کلب علی نے چونکہ بیوی کو مائیکے سے واپس نہ لانے کی قسم کھائی ہے اس لیے یہ امر ملحوظ خاطر رہے کہ اگر کلب علی خود اریج ریاست کو مائیکے سے واپس لینے جاتا ہے تو قسم ٹوٹ جائے گی، نیز قسم توڑنے کی صورت میں اس کا کفارہ بھی ادا کرنا لازم ہوگا۔ قسم توڑنے کا کفارہ کی تفصیل یہ ہے کہ قسم توڑنے والا کفارہ ادا کرنے کی نیت سے غلام آزاد کرے یا دس مسکینوں کو کھانا کھلائے یا اُن کو کپڑے پہنائے یعنی یہ اختیار ہے کہ ان تین باتوں میں سے جو چاہے کرے۔فی زمانہ آسان حل یہ ہے کہ دس شرعی فقیروں کو دس صدقہ فطر دے یعنی ہر ایک فقیر کو ایک ایک صدقہ فطر دے۔ اگر غلام آزاد کرنے یا دس مسکین کو کھانا یا کپڑے دینے پر قادِر نہ ہو کہ اتنا مال نہیں تو لگا تار تین روزے رکھے۔

ملک العلماء علامہ ابو بكر بن مسعود كاسانی حنفی ﷫(المتوفى: 587ھ/1191ء) لکھتے ہیں:

”فالألفاظ التي يقع بها الطلاق في الشرع نوعان: ‌صريح وكناية“

ترجمہ: وہ الفاظ جن سے شرعاً طلاق واقع ہو جاتی ہے، ان کی دو قسمیں ہیں: صریح اور کنایہ۔(البدائع الصنائع، کتاب الطلاق، جلد نمبر 3، صفحه نمبر 101، مطبوعه: دار الكتب العلمية، بیروت)

علامہ بدرالدین ابو محمد محمود بن احمد عینی ﷫ (المتوفى: 855ھ/1451ء) لکھتے ہیں:

” ‌صريح وهو ما ظهر المراد به ظهورًا بينًا، بحيث يسبق إلى فهم السامع مراده، ‌كناية وهي ما لا يظهر المراد منه إلا بنية“

ترجمہ: صریح وہ ہے جس کی مراد بالکل واضح ظاہر ہوتی ہے بایں طور کہ طلاق ہی مراد ہونا سننے والے کے ذہن کی طرف سبقت کرتا ہے، اور کنایہ وہ ہے جس کی مراد بغیر نیت کے ظاہر نہ ہو۔(البنایة شرح الهدایة، کتاب الطلاق، جلد نمبر 5، صفحه نمبر 306، مطبوعه: المطبعة الخيرية)

فقیہ عصر مفتی ابو الخیر محمد نور اللہ نعیمی بصیر پوری ﷫ (المتوفی: 1403ھ/1983ء) لکھتے ہیں:

”صریح طلاق کا لفظ شرعا وہ لفظ ہے جس کا استعمال بمعنائے طلاق عرف و رواج میں اس قدر زیادہ ہو کہ جب بولا جائے طلاق سمجھی جائے اور طلاق کے سوا کسی اور معنی میں مستعمل نہ ہو۔…اس بیان سے روز روشن کی طرح واضح ہوا کہ ایسا لفظ جو طلاق کے ساتھ خاص نہیں بلکہ طلاق کے علاوہ کسی اور معنی میں بھی مستعمل ہو تو صریح نہیں بلکہ کنایہ طلاق ہے کہ بلا نیتِ طلاق یا قرینۂ طلاق، طلاق نہیں بنتا۔“ (فتاوی نوریه، کتاب الطلاق، جلد نمبر 3، صفحه نمبر 223-233، مطبوعه: دار العلوم حنفیه فریديه)

علامہ مدقق علاؤ الدین محمد بن علی الحصکفی ﷫ (المتوفی: 1088ھ/1677ء) لکھتے ہیں:

” (ويقع بها) أي بهذه الألفاظ وما بمعناها من الصريح…(واحدة رجعية،وإن نوى خلافها) من البائن أو أكثر خلافا للشافعي (أو لم ينو شيئا)… الكنايات (لا تطلق بها) قضاء (إلا بنية أو دلالة الحال) وهي حالة مذاكرة الطلاق أو الغضب“

ترجمہ: ان الفاظ کے ساتھ اور اس معنی کے ان تمام صریح الفاظ کے ساتھ (ایک طلاق دینے سے) ایک رجعی طلاق واقع ہو جاتی ہے اگرچہ اس کے خلاف نیت کرے یعنی طلاق بائن یا ایک طلاق سے زائد کی امام شافعی ﷫ کے برخلاف، یا اگرچہ کوئی نیت نہ کرے۔ (البتہ) کنایہ الفاظ سے قضاءً طلاق نہیں ہوتی بغیر نیت یا دلالتِ حال کے، اور دلالتِ حال سے مراد مذاکرۂ طلاق کی حالت یا غصہ میں ہونا ہے۔(الدر المختار شرح تنویر الابصار، کتاب الطلاق، جلد نمبر 1، صفحه نمبر 214 ملطقطا، مطبوعه: دار الکتب العلمیة، بیروت)

خاتم المحققین علامہ ابن عابدين سید محمد امين بن عمر شامی حنفی ﷫ (المتوفى: 1252ھ/1836ء) مذکورہ بالا جزئیہ کے تحت لکھتے ہیں:

”(قوله رجعية) أي عند عدم ما يجعل بائنا… (قوله أو لم ينو شيئا) لما مر أن الصريح لا يحتاج إلى النية… (قوله قضاء) قيد به لأنه لا يقع ديانة بدون النية، ولو وجدت دلالة الحال فوقوعه بواحد من النية أو دلالة الحال إنما هو في القضاء فقط“

ترجمہ: (مصنف کا قول: ایک رجعی طلاق) یعنی اس چیز کے نہ پائے جانے کے وقت جو کہ اس کو طلاقِ بائن بنا دے۔ (مصنف کا قول: یا اگرچہ کوئی نیت نہ کرے) جو بات بیان کی جا چکی ہے اس کی وجہ سے کہ صریح الفاظ میں نیت کی حاجت نہیں ہوتی۔ (شارح کا قول: قضاءً) اس قید کے ساتھ اس وجہ سے مقید کیا کیونکہ دیانۃً بغیر نیت کے طلاق واقع نہیں ہوتی اگرچہ دلالتِ حال پائی جائے، پس نیت سے یا دلالتِ حال سے ایک طلاق کا وقع ہونا محض قضا کے حوالے سے ہے۔(رد المحتار علی الدر المختار، کتاب الطلاق، جلد نمبر 3، صفحه نمبر 248-297 ملتقطا، مطبوعه: دار الفکر، بیروت)

مفتی اعظم پاکستان مفتی منیب الرحمٰن صاحب ﷾لکھتے ہیں:

””میری طرف سے فارغ ہے” یہ طلاق صریح کا کلمہ نہیں ہے بلکہ کنایات میں سے ہے ۔“(تفہیم المسائل، کتاب الطلاق، جلد نمبر 3، صفحه نمبر 298، مطبوعه: دار العلوم حنفیه فریديه)

فقیہِ ملت علامہ مفتی جلال الدین احمد امجدی ﷫ (المتوفی: 1423ھ/2001ء) ایک مقام پر ارشاد فرماتے ہیں:

”طلاق کے مطالبہ پر شوہر جو یہ کہتا ہے کہ “جائے اس کا جہاں جی چاہے” تو اس سے اگر وہ طلاق کی نیت کرتا ہے تو طلاق بائن ہوگئی ورنہ نہیں، لہذا اس کی نیت دریافت کی جائے۔“(فتاوی فیض الرسول، جلد نمبر 2، صفحه نمبر 227، مطبوعه: اکبر بک سیلرز لاہور)

فقیہ عصر مفتی ابو الخیر محمد نور اللہ نعیمی بصیر پوری ﷫ (المتوفی: 1403ھ/1983ء) لکھتے ہیں:

”زوج کا اپنی بیوی کو “چلی جا” کہنا طلاقِ صریح نہیں البتہ نیتِ طلاق سے طلاقِ بائن بن سکتا ہے اور بلا نیتِ طلاق کسی حال میں طلاق نہیں بن سکتا۔“ (فتاوی نوریه، کتاب الطلاق، جلد نمبر 3، صفحه نمبر 194، مطبوعه: دار العلوم حنفیه فریديه)

شیخ الإسلام والمسلمین امام اہل سنت اعلی حضرت امام احمد رضا خان﷫ (المتوفی: 1340ھ/1921ء) لکھتے ہیں:

”ہم تجھ کو نہ رکھیں گے متمحض للاستقبال و ابعاد ہے اور ایسا لفظ اگرچہ صریح بھی ہو اصلاً مؤثر نہیں، مثلا ہزار بار کہے: “میں تجھے طلاق دے دوں گا” طلاق نہ ہوگی۔“(فتاوی رضویة، کتاب الطلاق، جلد نمبر 12، صفحه نمبر 588، مطبوعه: رضا فاؤندیشن لاهور)

مفتی ابو الخیر محمد نور اللہ نعیمی بصیر پوری ﷫ (المتوفی: 1403ھ/1983ء) لکھتے ہیں:

”یہ لفظ صراحۃً استقبال (مستقبل) کے ہیں حالانکہ استقبالی الفاظ طلاق نہیں بن سکتے، لأنه وعد لا تنجيز۔“ (فتاوی نوریه، کتاب الطلاق، جلد نمبر 3، صفحه نمبر 223، مطبوعه: دار العلوم حنفیه فریديه)

عمدۃ المتأخرین علامہ علاؤ الدین محمد بن علی الحصکفی ﷫ (المتوفی: 1088ھ/1677ء) شوہر سے قسم لینے کے متعلق ارشاد فرماتے ہیں:

”والقول لہ بیمینہ فی عدم النیۃ ویکفی تحلیفھا فی منزلہ فان ابی رفعتہ للحاکم فان نکل فرق بینھما مجتبی“

رجمہ: نیت نہ ہونے سے متعلق خاوند کی بات قسم کے ساتھ معتبر ہوگی اور گھر میں ہی اس سے قسم لینا کافی ہے، اگر وہ قسم سے انکار کرے تو بیوی کو قاضی کے ہاں پیش کرنے کا حق ہوگا، اگر وہ قاضی کے ہاں بھی حلف سے انکار کر دے تو قاضی دونوں میں تفریق کردے گا۔(الدر المختار شرح تنویر الابصار، کتاب الطلاق، جلد نمبر 1، صفحه نمبر 214 ، مطبوعه: دار الکتب العلمیة، بیروت)

امام اہل سنت اعلی حضرت امام احمد رضا خان﷫ (المتوفی: 1340ھ/1921ء) لکھتے ہیں:

”خیر بہرحال مدار کار نیت پر ہے ،اگر زید نے ان تینوں لفظوں میں کل یا بعض کسی سے طلاق دینے کا قصد کیا تھا تو ایک طلاق بائن واقع ہوئی …اور اگر ان تین میں کسی لفظ سے طلاق دینے کی نیت نہ کی …تو اصلاً طلاق نہ ہوئی، وہ بدستور اس کی زوجہ ہے اور نیتِ طلاق نہ ہونے میں شوہر کا قول قسم کے ساتھ معتبر ہے اگر وہ بقسم کہہ دے کہ میں نے ان تینوں لفظوں میں کسی سے نیتِ انشائے طلاق نہ کی تھی قطعاً مان لیں گے اور انہیں زوج وزوجہ جانیں گے ،اگر وہ اس قسم میں جھوٹا ہے تو وبال اس پر ہے ،عورت پر الزام نہیں۔“(فتاوی رضویہ،جلد نمبر12،صفحہ نمبر578 ملتقطا، مطبوعه: رضا فاؤنڈیشن،لاہور)

آپ ﷫ ایک مقام پر فرماتے ہیں:

” اگر (طلاق رجعی کے بعد) رجعت نہ کی اور عدّت گزرگئی تو عورت نکاح سے نکل گئی، اور عدّت کے اندر رجعت کرلی تھی تو عورت بدستور اس کی زوجہ مانی جائے گی۔“(فتاوی رضویہ،جلد نمبر12،صفحہ نمبر373 ، مطبوعه: رضا فاؤنڈیشن،لاہور)

صدر الشریعہ مفتی امجد علی اعظمی ﷫ (المتوفی: 1367ھ/1948ء) لکھتے ہیں:

”رجعت کے یہ معنیٰ ہیں کہ جس عورت کو رجعی طلاق دی ہو، عدّت کے اندر اُسے اُسی پہلے نکاح پر باقی رکھنا۔ … رجعت کا مسنون طریقہ یہ ہے کہ کسی لفظ سے رجعت کرے اور رجعت پر دو عادل شخصوں کو گواہ کرے اور عورت کو بھی اس کی خبر کردے کہ عدّت کے بعد کسی اور سے نکاح نہ کرلے … اور اگر قول سے رجعت کی مگر گواہ نہ کيے یا گواہ بھی کيے مگر عورت کو خبر نہ کی تو مکروہ خلافِ سنت ہے مگر رجعت ہو جائے گی۔ اور اگر فعل سے رجعت کی، مثلاً اُس سے وطی کی یا شہوت کے ساتھ بوسہ لیا یا اُس کی شرمگاہ کی طرف نظر کی تو رجعت ہو گئی مگر مکروہ ہے۔ اُسے چاہيے کہ پھر گواہوں کے سامنے رجعت کے الفاظ کہے۔“(بہار شریعت، جلد نمبر 2، حصہ نمبر 8،صفحه نمبر 170-171، مطبوعه: مکتبة المدینہ، کراچی)

قسم کے کفارے کے متعلق علامہ علاؤ الدین محمد بن علی الحصکفی ﷫ (المتوفی: 1088ھ/1677ء) درمختار میں فرماتے ہیں:

”و کفارتہ تحریر رقبۃاو اطعام عشرۃ مساکین کما فی الظھار او کسو تھم بما یصلح للا و سط و ینفع بہ فوق ثلثۃ اشھرو یستر عا مۃ البدن فان عجز عنھا کلھا وقت الاداء صام ثلثۃ ایام “

ترجمہ: اس کا کفارہ یہ ہے کہ گردن(غلام) آزاد کرے ،یا دس مسکینوں کو کھانا دے جیسا کہ ظہار میں ہوتا ہے، یا دس مسکینوں کو درمیانہ لباس دے جو بدن کو ڈھانپ لے اور کم از کم تین ماہ تک وہ لباس کام دے اور اگر ان امور کی ادائیگی سے عاجز ہو تو مسلسل تین دن روزے رکھے ۔(الدر المختار شرح تنویر الابصار، کتاب الایمان، جلد نمبر 1، صفحه نمبر 282-283 ملتقطا، مطبوعه: دار الکتب العلمیة، بیروت)

فقیہِ ملت علامہ مفتی جلال الدین احمد امجدی ﷫ (المتوفی: 1423ھ/2001ء) لکھتے ہیں:

”قسم کا کفارہ یہ ہے کہ دس مسکینوں کو دو نوں وقت بھر پیٹ کھانا کھلائے یا دس مسکینوں کو کپڑا پہنائے اور اگر ان میں سے کسی ایک کی (بھی) استطاعت نہ ہو تو بحالتِ مجبوری پے در پے تین روزے رکھے۔“(فتاوی فیض الرسول، جلد نمبر 2، صفحه نمبر 111، مطبوعه: اکبر بک سیلرز لاہور)

و اللہ اعلم عزوجل ورسولہ اعلم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم

کتبــــــــــــــــــــــــــــہ

مولانا احمد رضا عطاری حنفی

6 ربیع الاول 1445ھ / 22 ستمبر 2023ء

اپنا تبصرہ بھیجیں