عدت میں داماد سے پردہ

عدت میں داماد سے پردہ

سوال: کیا فرماتے ہیں علمائے کرام ومفتیانِ شرع متین اس مسئلہ کے بارے میں کہ عورت دورانِ عدت اپنے داماد سے فون پر بات کرسکتی ہے؟

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم

الجواب: بعون الملک الوھاب اللھم ھدایۃ الحق والصواب

سوالِ مذکور کا جواب یہ ہے کہ داماد ساس کے لیے محرم ہے، ساس کا اپنے داماد سے پردہ نہیں ہے، لہذا دورانِ عدت عورت اپنے داماد سے فون پر بات کرسکتی ہے اور داماد مل بھی سکتا ہے، البتہ فقہائے کرام کی تصریحات کے مطابق ساس اگر جوان ہو تو کچھ چیزوں میں احتیاط کی حاجت ہوگی مثلا سفر کرنا، خلوت اختیار کرنا وغیرہ

(بعض لوگ جہالت کی بنا پر یہ سمجھتے ہیں کہ عدت میں پردہ کے کوئی خاص احکام ہوتے ہیں ، وہ غلطی پر ہیں۔ کیونکہ در اصل شریعت میں عورت کے لئے جن مَردوں سے پردہ کرنے کاحکم ہے ان سے ہرحال میں پردہ کرنا ہے۔ چاہے عورت عدت میں ہویا نہ ہو اور جن مَردوں سے پردہ کاحکم نہیں ہے ان سےعدت میں بھی پردہ نہیں۔ مطلب یہ کہ عدت سے پردے کے سابقہ احکامات بدلتے نہیں بلکہ وہی احکام رہتے ہیں۔

ارشادِ باری تعالیٰ ہے:

”اُمَّهٰتُ نِسَآىٕكُمْ“

ترجمہ کنزالایمان:(حرام ہوئیں تم پر ) عورتوں کی مائیں۔(پارہ4، سورۃ النساء،آیت23)

فتاوٰی ہندیہ میں ہے:

”(القسم الثاني المحرمات بالصهرية)۔ وهي أربع فرق: (الأولى) أمهات الزوجات وجداتهن من قبل الأب والأم وإن علون“ یعنی محرمات کی دوسری قسم سسرالی رشتے سے حرام عورتیں ہیں اور یہ چار گروہ ہیں۔ ان میں سے پہلے گروہ میں بیویوں کی مائیں اور دادیاں نانیاں اوپر تک داخل ہیں۔ (فتاوٰی عالمگیری، کتاب النکاح، ج01، ص274، دار الفکر، بیروت)

فتاوٰی رضویہ میں ہے:

”ساس پر داماد مطلقا حرام ہے اگرچہ اس کی بیٹی کی رخصت نہ ہوئی ہو اور قبل رخصت مرگئی ہو، قال اللہ تعالٰی: وامھات نسائکم (اور تمھاری بیویوں کی مائیں تم پر حرام ہیں)۔“

(فتاوٰی رضویہ، ج11، ص439، رضا فاؤنڈیشن، لاہور)

فتاویٰ رضویہ میں امام اہلسنت علیہ الرحمہ فرماتے ہے:

”ضابطہ کلیہ ہے کہ نامحرموں سے پردہ مطلقا واجب؛ اور محارم نسبی سے پردہ نہ کرنا واجب، اگر کرے گی گنہگار ہوگی؛ اور محارم غیر نسبی مثل علاقہ مصاہرت ورضاعت ان سے پردہ کرنا اورنہ کرنا دونوں جائز۔ مصلحت وحالت پرلحاظ ہوگا۔اسی واسطے علماء نے لکھا ہے کہ جوان ساس کو داماد سے پردہ مناسب ہے۔ یہی حکم خسر اور بہو کا“

(فتاوٰی رضویہ، ج22،ص240، رضافاؤنڈیشن، لاہور)

فتاوٰی رضویہ میں ہے:

”علاقہ صہر ہو جیسے خسر، ساس، داماد ، بہو، ان سب سے نہ پردہ واجب نہ نادرست ہے ۔ کرنا نہ کرنا دونوں جائز اور بحالت جوانی یا احتمال فتنہ پردہ کرنا ہی مناسب۔“

(فتاوٰی رضویہ، ج22،ص235، رضا فاؤنڈیشن، لاہور)

مفتی اعظم پاکستان حضرت علامہ مفتی محمد وقارالدین علیہ الرحمہ فرماتے ہیں:

”قبلِ عدت جن سے پردہ فرض تھا،دورانِ عدت بھی ان سے پردہ کرنافرض ہے۔اورجن لوگوں سے عدت سے پہلے پردہ کرنافرض نہیں تھاان سے عدت میں بھی پردہ کرنافرض نہیں۔“

(وقارالفتاوی، ج03،ص212، بزم وقار الدین)

واللہ و رسولہ اعلم عزوجل و صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم

کتبہ

بابر عطاری مدنی اسلام آباد

2ربیع الثانی1445/ 18اکتوبر2023

اپنا تبصرہ بھیجیں