گیارہویں شریف کی حقیقت و مقصد

گیارہویں شریف کی حقیقت و مقصد

سوال: گیارہویں شریف کی حقیقت و مقصد کیا ہے؟

بسم اللہ الرحمن الرحیم

الجواب بعون الملک الوھاب اللھم ھدایۃ الحق والصواب

گیارہویں شریف حضور غوث اعظم شیخ عبد القادر جیلانی رحمۃ اللہ علیہ کے ایصال ثواب کے لیے منعقد کی جانے والی تقریب کو کہا جاتا ہے۔ کیونکہ آپ رحمۃ اللہ علیہ کا یومِ وصال11ربیع الثانی کو ہے، تو اسی مناسبت سے آپ کے ایصال ثواب کے لیے گیارہویں شریف کے نام سے اجتماعات و محافل کا انعقاد کیا جاتا ہے اور ان محافل میں قرآن خوانی، نعت خوانی و بیانات، ذکر و اذکار کا سلسلہ کرنے کے ساتھ ساتھ ضمناً فاتحہ و نیاز وغیرہ امور خیر کا اہتمام کیا جاتا ہے اور ایصال ِثواب کی صورت میں حضور غوث پاک علیہ الرحمہ کی بارگاہ میں نذرانہ پیش کیا جاتا ہے۔ کیونکہ ایصال ثواب کرنا قرآن پاک، احادیث طیبہ اور اقوال فقہاء و افعال سلف صالحین سے ثابت ہے۔ اور گیارہویں شریف عملِ مستحب و باعثِ برکت و فراوانی رزق ہے۔

ارشاد باری تعالیٰ ہے:

﴿وَ الَّذِیْنَ جَآءُوْ مِنْۢ بَعْدِهِمْ یَقُوْلُوْنَ رَبَّنَا اغْفِرْ لَنَا وَ لِاِخْوَانِنَا الَّذِیْنَ سَبَقُوْنَا بِالْاِیْمَانِ وَ لَا تَجْعَلْ فِیْ قُلُوْبِنَا غِلًّا لِّلَّذِیْنَ اٰمَنُوْا رَبَّنَاۤ اِنَّكَ رَءُوْفٌ رَّحِیْمٌ﴾

ترجمہ کنزالایمان:اور وہ جو اُن کے بعد آئے عرض کرتے ہیں اے ہمارے رب !ہمیں بخش دے اور ہمارے بھائیوں کو جو ہم سے پہلے ایمان لائے اور ہمارے دل میں ایمان والوں کی طرف سے کینہ نہ رکھ ۔اے رب ہمارے، بے شک تو ہی نہایت مہربان رحم والا ہے۔ (القرآن، پارہ28،سورۃ الحشر،آیت10)

مذکورہ آیت کے متعلق تفسیر مظہری میں ہے :

”قال السيوطی وقد نقل غير واحد الاجماع على ان الدعاء ينفع الميت ودليله من القرآن قوله تعالى﴿وَ الَّذِیْنَ جَآءُوْ مِنْۢ بَعْدِهِمْ یَقُوْلُوْنَ رَبَّنَا اغْفِرْ لَنَا وَ لِاِخْوَانِنَا الَّذِیْنَ سَبَقُوْنَا بِالْاِیْمَانِ﴾“

ترجمہ: امام سیوطی رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں: کئی علماء نے اس بات پر اجماع نقل کیا ہے کہ دعا میت کو فائدہ دیتی ہے اور اس کی دلیل قرآن پاک سے اللہ تعالی کا یہ فرمان ہے﴿وَ الَّذِیْنَ جَآءُوْ مِنْۢ بَعْدِهِمْ یَقُوْلُوْنَ رَبَّنَا اغْفِرْ لَنَا وَ لِاِخْوَانِنَا الَّذِیْنَ سَبَقُوْنَا بِالْاِیْمَانِ﴾ ہے۔(التفسير المظهری، ج 09، ص 127، مطبوعہ کوئٹہ)

اور اسی آیت کے تحت مفتی احمد یار خان نعیمی علیہ رحمۃ اللہ القوی فرماتے ہیں:

”اس سے دو مسئلے معلوم ہوئے ایک یہ کہ صرف اپنے لیے دعا نہ کرے، سلف کے لیے بھی کرے، دوسرے یہ کہ بزرگان دین خصوصاً صحابہ کرام و اہل بیت کے عرس، ختم، نیاز، فاتحہ اعلی چیزیں ہیں کہ ان میں ان بزرگوں کے لیے دعا ہے۔“ (تفسیر نور العرفان)

بخاری شریف میں ہے:

”ان رجلا قال للنبی صلی اللہ علیہ وسلم ان أمی افتلتت نفسھا و أظنھا لو تکلمت تصدقت فھل لھا أجر ان تصدقت عنھا قال نعم“

ترجمہ: ایک شخص نے نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کی کہ میری ماں اچانک فوت ہو گئی ہیں اور میرا گمان ہے کہ اگر وہ کچھ بات کر سکتیں ، تو صدقہ کرتیں۔ اگر میں ان کی طرف سے کچھ صدقہ کروں، تو کیا انہیں اجر ملے گا؟ توآپ نے فرمایا ہاں ملے گا۔(صحیح بخاری ، جلد1 ، صفحہ 186 مطبوعہ کراچی)

سنن ابو داؤد میں ہے:

”عن سعد بن عبادة انه قال يا رسول الله ان ام سعد ماتت فای الصدقة افضل؟ قال الماء قال: فحفر بئرا وقال هذه لام سعد“ ترجمہ:حضرت سعد بن عبادہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ انہوں نے عرض کی : یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم! امِّ سعد (میری ماں) انتقال کر گئی ہیں ،تو کون سا صدقہ (ان کے لیے) بہتر ہے؟ فرمایا ”پانی“ تو انہوں نے کنواں کھدوایا اور کہا کہ یہ کنواں سعد کی ماں کے لئے ہے۔(سنن ابو داؤد، ج2، ص130، مطبوعہ مکتبۃ العصریۃ، بیروت)

ردالمحتار میں ہے :

”صرح علماء نا فی باب الحج عن الغیر بأن للانسان أن یجعل ثواب عملہ لغیرہ صلاۃ أوصوما أو صدقۃ أو غیرھا کذا فی الھدایۃ“ یعنی ہمارے علماء نے باب الحج عن الغیر میں صراحت فرمائی ہے کہ انسان اپنے عمل کا ثواب دوسرے کے لیے کر سکتا ہے ۔ نماز ہو ،روزہ ہو ، صدقہ ہو یا کچھ اور ۔ ایسا ہی ہدایہ میں ہے۔ (ردالمحتار علی الدرالمختار ، جلد 3 ، صفحہ 180 ، مطبوعہ پشاور )

فتاویٰ رضویہ میں امام اہلسنت علیہ الرحمہ فرماتے ہیں:

”گیارہویں شریف اپنے مرتبہ فردیت میں مستحب ہے اور مرتبہ اطلاق میں کہ ایصال ثواب ہے ، سنت ہے اورسنت سے مراد سنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور یہ سنت قولیہ مستحبہ ہے ، سنیوں میں کوئی اسے خاص گیارہویں تاریخ ہونا شرعا واجب نہیں جانتا اور جو جانے محض غلطی پر ہے ۔ ایصال ثواب ہر دن ممکن ہے اور کسی خصوصیت کے سبب ایک تاریخ کا التزام ، جبکہ اسے شرعاً واجب نہ جانے ، مضائقہ نہیں ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہر پیر کو نفلی روزہ رکھتے ، کیا اتوار یا منگل کو رکھتے تو نہ ہوتا؟ یا اس سے یہ سمجھا گیا کہ معاذاللہ ! حضور نے پیر کا روزہ واجب سمجھا ؟یہی حکم تیجے اور چہلم کا ہے۔“ (فتاوی رضویہ ، جلد9 ، صفحہ 605 ، رضا فاؤنڈیشن ، لاھور)

اسلامی زندگی میں مفتی احمد یار خان نعیمی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں

“اس مہینہ (ربیع الآخر) میں ہر مسلمان اپنے گھر میں حضور غوث پاک سر کار بغداد رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی فاتحہ کرے ، سال بھر تک بہت برکت رہے گی۔ اگر ہر چاند کی گیارہویں شب کو یعنی دسویں اور گیارہویں تاریخ کی درمیانی رات کو مقرر پیسوں کی شیرینی (مٹھائی) مسلمان کی دکان سے خرید کر پابندی سے گیارہویں کی فاتحہ دیا کرے ، تو رزق میں بہت ہی برکت ہو گی اور ان شاء اللہ تعالی کبھی پریشان حال نہ ہو گا، مگر شرط یہ ہے کہ کوئی تاریخ ناغہ نہ کرے اور جتنے پیسے مقرر کر دے، اس میں کمی نہ ہو ۔ اتنے ہی پیسے مقرر کرے، جتنے کی پابندی کر سکے ۔ خود میں اس کا سختی سے پابند ہوں اور بفضلہ تعالی اس کی خوبیاں بے شمار پاتا ہوں۔ وَالْحَمْدُ اللہ علی ذلک۔“ (اسلامی زندگی، ص132، مطبوعہ مکتبه المدينه،)

واللہ و رسولہ اعلم عزوجل و صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم

کتبہ

بابر عطاری مدنی اسلام آباد

7ربیع الثانی1445/ 23اکتوبر2023

اپنا تبصرہ بھیجیں