ایلا اور اس سے ہونے والی طلاق کے احکام

ایلا اور اس سے ہونے والی طلاق کے احکام

کیافرماتے ہیں علمائےدین و مفتیان شرع متین اس بارے میں کہ ایک شخص نے اپنی بیوی کو صحبت کے لیے پاس بلایا تو اس نے انکار کردیا اس پر شوہر کو غصہ آیا اور اس نے کہا کہ خدا کی قسم اب میں پورا سال تم سے جماع نہیں کروں گا،اس کے بعد وہ دوسرے شہر چلا گیا اور دو سال بعد واپس آیا۔ اس نے اس دوران اپنی قسم سے رجوع بھی نہیں کیا،اب اس کے لئے کیا حکم ہے؟رجوع کی کیا صورت ہے؟

بسم اللہ الرحمن الرحیم

الجواب بعون الملک الوھاب اللھم ھدایۃ الحق وا لصواب

صورت مسؤلہ میں اس شخص کے یہ الفاظ ” خدا کی قسم اب میں پورا سال تم سے جماع نہیں کروں گا “ایلاکے ہیں اوراس شخص نے اپنی بیوی سے قسم کے بعد 4ماہ کے اندرجماع نہیں کیا لہذا اس کی بیوی کو ایک طلاق بائن ہوگئی ہے ۔

چونکہ ایک سال کی مدت پوری ہوکر ایلا ختم ہوچکا ہے اس لئے اب اس پر قسم کا کفارہ نہیں اور نہ اس کے بعد ہی اس قسم کی وجہ سے کوئی طلاق واقع ہوگی ،اب وہ اس سے نکاح کر کے رجوع کرسکتا ہے اور اس کے بعد اس کے پاس دو طلاقوں کا حق باقی ہے۔

تفصیل اس میں یہ ہے کہ جس شخص نےایک سال کے لئے اپنی بیوی سے جماع نہ کرنے کی قسم کھائی تو یہ ایلامؤقت ہے اور اب اللہ عزوجل کی طرف سے اس کے پاس چار مہینے کی مہلت ہے، اگر چار مہینے کے اندر جماع کرلیتا ہے تو عورت نکاح سے نہ نکلے گی قسم کا کفارہ دیناہوگا، اور اگر پورے چار مہینے بیوی سے جماع نہیں کرتا تو بیوی کوایک طلاق بائن ہوجائے گی،پھر اگرطلاق کے بعددوبارہ نکاح کر لیتا ہے اور دوبارہ 4ماہ بیوی سے جماع نہیں کرتا توپھر دوسری طلاق بائن واقع ہوجائے گی ،اور تیسری بار نکاح کے بعد بھی اگر جماع نہ کیا تو اب جماع نہ کرنے کی صورت میں طلاق واقع نہیں ہوگی کہ اب اس کے پاس کامل چار ماہ گزرنے سے پہلے سال پورا ہوجائے گا۔صورتِ مسؤلہ میں چونکہ شوہر نے پہلی طلاق کے بعد بذریعہ نکاح رجوع نہیں کیا اس لئے دوسری طلاق نہیں ہوئی اور سال پورا ہونے پر ایلا ختم ہو گیا۔ہاں گر ہمیشہ کے لیے کہا ہوتا تو پھر تیسری مرتبہ نکاح کے بعد اگر چار ماہ تک قربت نہیں ہوئی تو اس بار عورت پر تیسری طلاق بھی واقع ہو جاتی۔

ارشاد باری تعالیٰ ہے

”لِلَّذِیْنَ یُؤْلُوْنَ مِنْ نِّسَآىٕهِمْ تَرَبُّصُ اَرْبَعَةِ اَشْهُرٍۚفَاِنْ فَآءُوْ فَاِنَّ اللّٰهَ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ ،اِنْ عَزَمُوا الطَّلَاقَ فَاِنَّ اللّٰهَ سَمِیْعٌ عَلِیْمٌ“

ترجمۂ کنز العرفان:اور وہ جو اپنی بیویوں کے پاس نہ جانے کی قسم کھابیٹھیں ان کیلئے چار مہینے کی مہلت ہے، پس اگر اس مدت میں وہ رجوع کرلیں تو اللہ بخشنے والا مہربان ہے۔اور اگر وہ طلاق کاپختہ ارادہ کرلیں تو اللہ سننے والا، جاننے والا ہے۔(سورۃ بقرہ پارہ 1 آیت 226، 227 )

تفسیر صراط الجنان میں ہے

”لِلَّذِیْنَ یُؤْلُوْنَ مِنْ نِّسَآىٕهِمْ“:اور وہ جو اپنی بیویوں کے پاس نہ جانے کی قسم کھابیٹھیں۔} یہ قسم کھانا کہ میں اپنی بیوی سے چار مہینے تک یا کبھی صحبت نہ کروں گا اسے اِیلاء کہتے ہیں۔ اس کا حکم یہ ہے کہ اگر قسم توڑدے اور چار ماہ کے اندر صحبت کرلے تب تو اس پر قسم کا کفارہ واجب ہے ورنہ چار ماہ کے بعد عورت کو طلاق بائنہ پڑ جائیگی اس آیت میں اسی کا بیان ہے۔۔۔۔۔۔۔

”وَ اِنْ عَزَمُوا الطَّلَاقَ“: اور اگر وہ طلاق کاپختہ ارادہ کرلیں۔} زمانہ جاہلیت میں لوگوں کا یہ معمول تھا کہ اپنی عورتوں سے مال طلب کرتے، اگر وہ دینے سے انکار کرتیں تو ایک سال، دو سال ،تین سال یا اس سے زیادہ عرصہ ان کے پاس نہ جانے اور صحبت ترک کرنے کی قسم کھالیتے اور انہیں پریشانی میں چھوڑ دیتے نہ تووہ بیوہ ہوتیں کہ کہیں اپنا ٹھکانہ کر لیتیں اورنہ شوہر دار کہ شوہر سے کچھ سکون حاصل کرتیں۔اسلام نے اس ظلم کو مٹایا اور ایسی قسم کھانے والوں کے لیے چار مہینے کی مدت معین فرما دی کہ اگر عورت سے چار مہینے یا اس سے زائد عرصہ کے لیے یا غیر معین مدت کے لیے ترکِ صحبت کی قسم کھا لے جس کو ایلا کہتے ہیں تو اس کے لیے چار ماہ انتظار کی مہلت ہے اس عرصہ میں خوب سوچ سمجھ لے کہ عورت کو چھوڑنا اس کے لیے بہتر ہے یا رکھنا، اگر رکھنا بہتر سمجھے اور اس مدت کے اندر رجوع کرے تو نکاح باقی رہے گا اور قسم کا کفارہ لازم ہو گا اور اگر اس مدت میں رجوع نہ کیا اورقسم نہ توڑی تو عورت نکاح سے باہر ہوگئی اور اس پر طلاق بائن واقع ہوگئی۔ یہ حکم بھی عورتوں پر اسلام کے احسانات میں سے ایک احسان اور حقوقِ نسواں کی پاسداری کی علامت ہے۔(تفسیر صراط الجنان جلد 1 سورۃ بقرہ پارہ 1 آیت 226 227 مطبوعہ مکتبہ المدینہ کراچی )

مصنف عبد الرزاق میں ہے

” وعن عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ ولانہ کان طلاقا فی الجاھلیہ فحکم الشرع بتاجیلہ الی انقضاء المدہ“

ترجمہ ایلاء زمانہ جاہلیت میں طلاق شمار ہوتا تھا تو شریعت نے یہ حکم دیا مخصوص مدت تک اس کو موخر کیا جائے۔(مصنف عبد الرزاق جلد 7 صفحہ 371 مطبوعہ دار الکتب الاسلامیہ)

مصنف ابن ابی شیبہ میں ہے

”لقول ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ لاایلاء فیما دون اربعہ اشھر “

ترجمہ:حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا قول ہے کہ چار ماہ سے کم میں ایلاء نہیں ہوتا۔(مصنف ابن ابی شیبہ جلد 4 صفحہ 100 مطبوعہ دار الکتب الاسلامیہ)

بدایہ المجتہد میں ہے

”هو أَن یحلف الرجل أَن لا یطأ زوجته: إما مدة هی أَکثر من أَربعة أَشھر“

ترجمہ:کوئی شخص قسم کھائے کہ چار ماہ یا اس سے زائد مدت تک اپنی زوجہ سے جماع نہ کرے گا۔(بدایۃ المجتہد جلد 2 صفحہ 114 مطبوعہ دار التذکیر)

ھدایہ میں ہے

”واذا قال الرجل لامراتہ واللہ لااقربک او قال واللہ لااقربک اربعہ اشھر فھو مول“

ترجمہ جب خاوند اپنی بیوی سے یہ کہے اللہ کی قسم میں تمھارے قریب نہیں آوں گا یا اللہ کی قسم چار ماہ تک تمھارے قریب نہیں آوں گا تو وہ ایلا کرنے والا شمار ہوگا۔(ھدایہ جلد 4 صفحہ 290 مطبوعہ دار الاشاعت)

بہار شریعت میں ہے :

”ایلا کے معنی یہ ہیں کہ شوہر نے یہ قسم کھائی کہ عورت سے قربت نہ کریگا یا چار مہینے قربت نہ کریگا ۔“(بہار شریعت جلد 2 حصہ 8 صفحہ 184 مطبوعہ مکتبہ المدینہ کراچی)

ردالمحتار میں ہے

”قولہ ولم یطأعطف تفسیر والمراد بالوطی حقیقتہ عند القدرۃ او مایقوم مقامہ کالقول عند العجز فالمراد ولم یفئی ای لم یرجع الی ماحلف علیہ“

ترجمہ: ماتن کا قول”ولم یطأ”(اور وطی نہ کی) عطف تفسیری ہے، اور وطی سے حقیقی جماع مراد ہے اگر قدرت ہو، اگر قدرت نہ ہو تو جماع کے قائم مقام مثلاً یہ کہنا کہ میں نے بیوی سے رجوع کرلیا، کہے، اس سے مراد یہ ہے کہ وہ اپنی قسم پر قائم نہ رہے اور قسم کو پورا نہ کرے تو کفارہ لازم آئے گا۔ (ردالمختار باب الایلاء جلد 1 صفحہ 243 مطبوعہ دار الفکر بیروت)

درمختار میں ہے

”فی الدرحکمہ وقوع طلقۃ بائنۃ ان بر ولم یطأولزم الکفارۃ او الجزاء المعلق ان حنث بالقربان“

ترجمہ:در میں ہے کہ ایلاء کا حکم یہ ہے کہ اگر قسم پر قائم رہا اور وطی نہ کی تو طلاق بائنہ ہوجائے گی اور جماع کرنے پر کفارہ لازم ہوگا یا اگر کسی چیز کو معلق کیا تھا تو جماع کرنے پر وہ جزاء لازم ہوگی۔(درمختارباب الایلاء جلد 1 صفحہ 242 مطبوعہ دار الفکر بیروت)

ھدایہ میں ہے

”وان لم یقربھا حتی مضت اربعہ اشھر بانت منہ بتطلیقہ“

ترجمہ:اور اگر وہ عورت کے قریب نہیں جاتا اور چار ماہ گزر جاتے ہیں تو عورت کو ایک طلاق بائنہ واقع ہو جائے گی۔(ھدایہ جلد 4 صفحہ 290 مطبوعہ دار الاشاعت)

الفتاوي الهندية میں ہے:

”الإيلاء منع النفس عن قربان المنكوحة منعا مؤكدا باليمين بالله أو غيره من طلاق أو عتاق أو صوم أو حج أو نحو ذلك مطلقا أو مؤقتا بأربعة أشهر في الحرائر وشهر في الإماء من غير أن يتخللها وقت يمكنه قربانها فيه من غير حنث كذا في فتاوى قاضي خان فإن قربها في المدة حنث وتجب الكفارة في الحلف بالله سواء كان الحلف بذاته أو بصفة من صفاته يحلف بها عرفا وفي غيره الجزاء ويسقط الإيلاء بعد القربان وإن لم يقربها في المدة بانت بواحدة كذا في البرجندي شرح النقاية.فإن كان حلف على أربعة أشهر فقد سقطت اليمين وإن كان حلف على الأبد بأن قال: والله لا أقربك أبدا أو قال: والله لا أقربك ولم يقل أبدا فاليمين باقية إلا أنه لا يتكرر الطلاق قبل التزوج فإن تزوجها ثانيا عاد الإيلاء فإن وطئها وإلا وقعت بمضي أربعة أشهر طلقة أخرى ويعتبر ابتداء هذا الإيلاء من وقت التزوج فإن تزوجها ثالثا عاد الإيلاء ووقعت بمضي أربعة أشهر طلقة أخرى إن لم يقربها كذا في الكافي فإن تزوجها بعد زوج آخر لم يقع بذلك الإيلاء طلاق واليمين باقية فإن وطئها كفر عن يمينه كذا في الهداية.ولو بانت بالإيلاء مرة أو مرتين وتزوجت بزوج آخر وعادت إلى الأول عادت إليه بثلاث تطليقات وتطلق كلما مضى أربعة أشهر حتى تبين منه بثلاث تطليقات فكذا في الثاني والثالث إلى ما لا يتناهى كذا في التبيين“

ترجمہ: اپنے نفس کو اپنی منکوحہ کی قربت سے روکنا بتاکید قسم اللہ یا طلاق یا عتق وحج وصوم کی مطلقا یا مقید چار ماہ آزاد بیوی اور دو ماہ باندی میں بدون کسی ایسے وقت کے بیچ سے نکلنے کے کہ اس میں بدون حانث ہونے کے قربت ممکن ہوسکے ایلاء کہلاتا ہے۔ قاضی خان میں ہے پس اگر اس مدت میں عورت مذکورہ سے قربت کی تو حانث ہوجائے گا پس اگر اللہ کی ذات یا صفات میں سے کسی صفت کی قسم کھا لی جس صفت سے عرفا قسم کھائی جاتی ہے تو کفارہ واجب ہوگا اور اگر سوائے اس کے دوسری بات کی مثل طلاق وعتق وغیرہ کی قسم کھائی ہے تو جس جزاء کی قسم کھائی ہے وہ جزاء واقع ہوگئی اور پھر بعد وطی ایلاء ساقط ہو جائے گا اور اگر اس مدت میں اس سے وطی نہیں کی تو بیک وقت طلاق بائنہ ہوجائے گی البرجندي شرح النقاية میں ہے۔پس اگر چار مہینے کی ہو تو قسم ساقط ہو جائے گی اور قسم ہمیشہ کی ہو تو بایں طور پر کہ اس نے یوں کہا واللہ میں تجھ سے تاابد قربت نہیں کروں گا یا کہا واللہ میں تجھ سے قربت نہیں کروں گا اور یعنی مطلقاً کہا وقت کی قید کے تو قسم باقی رہے گی لیکن قبل دوبار نکاح کے مکرر طلاق واقع نہ ہوگی اور اگر چار ماہ سے زیادہ گزر گئے اور اگر دوبارہ نکاح کیا تو ایلاء عود کرے گا پھر اگر اس سے وطی کر لے تو خیر ورنہ چار مہینے گزرنے پر دوسری طلاق واقع ہوگی اور اس ایلاء کی ابتداء نکاح سے قرار دی جائے گی پھر اگر تیسری بار اس سے نکاح کیا تو پھر ایلاء عود کرے گا پھر اگر اس سے قربت نہ کی تو چار ماہ بعد تیسری طلاق واقع ہو جائے گی یہ کافی میں ہے ۔( فتاویٰ ھندیہ كتاب الطلاق، الباب الإيلاء، جلد1، صفحہ:476، مطبوعہ دار لفكر)

چند صفحات کے بعد ہے

”رجل قال لامرأته: والله لا أقربك سنة فلما مضى الأربعة الأشهر فبانت ثم تزوجها ثم مضى أربعة أشهر بانت أيضا فإن تزوجها ثالثا لا يقع لأنه بقي من السنة بعد التزوج أقل من أربعة أشهر كذا في غاية البيان“

ترجمہ: ایک شخص نے اپنی عورت کو کہا کہ میں ایک سال تک تجھ سے جماع نہیں کروں گا ، چار ماہ گزرتے ہی عورت بائنہ ہوگئی،پھرشوہر نے اس سے نکاح کیا اور پھر چار ماہ گزرنے کے بعد عورت بائنہ گئی اور اب اگر تیسری بار نکاح کرتا ہے تو عورت بائنہ نہیں ہوگی کیونکہ اب نکاح کے بعد چار ماہ سے کم دن بچے ہیں ،اسی طرح غایۃ البیان میں ہے۔

(فتاوی عالمگیری،کتاب الطلاق ،الباب السابع فی الایلاء،ج1،ص483،دارالفکر،بیروت)

ردالمختار میں ہے

”فی التنویر فی الحلف باﷲ وجبت الکفارۃ وفی غیرہ وجب الجزاء وسقط الایلاء والابانت بواحدۃ وسقط الحلف لو مو قتا لالوکان موبدافلو نکحھا ثانیا وثالثا ومضت المدتان من وقت التزوج فان نکحھا بعد زوج اٰخرلم تطلق وان وطئھا کفر لبقاء الیمین “

ترجمہ:تنویر میں ہے: ایلاء میں، اگر اﷲ کی قسم، کہ تو اس سے رجوع کرنے پر کفارہ لازم ہوگا، اور اگرکوئی شرط رکھی تھی تو وہ جزاء لازم آئے گی، اور ایلاء ساقط ہوجائیگا ورنہ قسم کو پورا کرنے پر بیوی ایک طلاق سے بائنہ ہوجائیگی اور حلف مقررہ وقت کیلئے ہو تو ختم ہوجائے گا اور اگر حلف ابدی ہوتو ختم نہ ہوگا، لہذا دوبارہ اور سہ بارہ نکاح کرنے پر ایلاء کی مدت پورا ہونے اور رجوع نہ کرنے پر دوسری اور تیسری طلاق سے بائنہ ہوتی رہے گی اور قسم کی مدت کا اعتبار نکاح کے وقت ہوگا لہذا اگر بیوی حلالہ کے بعد واپس اس کے نکاح میں آئے تو طلاق نہ ہوگی تاہم وطی کرنے پر کفارہ ضرور لازم ہوگاکیونکہ قسم ابدی ہونے کی وجہ سے باقی ہے۔ (ردالمختار باب الایلاء جلد 1 صفحہ 243مطبوعہ دار الفکر بیروت)

بہار شریعت میں ہے :

” ایلادوقسم ہے، ایک موقت یعنی چار مہینے کا، دوسرا مؤبد یعنی چار مہینے کی قید اُس میں نہ ہو ،بہر حال اگر عورت سے چار ماہ کے اندر جماع کیا تو قسم ٹوٹ گئی اگرچہ مجنون ہواور کفارہ لازم جبکہ اﷲ تعالیٰ یا اُس کے اُن صفات کی قسم کھائی ہو۔ اور جماع سے پہلے کفارہ دے چکا ہے تو اُس کا اعتبار نہیں بلکہ پھر کفارہ دے۔ اور اگر تعلیق تھی تو جس بات پرتھی وہ ہوجائے گی مثلاً یہ کہا کہ اگر اس سے صحبت کروں تو غلام آزاد ہے اور چار مہینے کے اندر جماع کیا تو غلام آزاد ہوگيا اور قربت نہ کی یہاں تک کہ چار مہینے گزر گئے تو طلاق بائن ہوگئی۔ پھر اگر ایلا ئے موقت تھا یعنی چار ماہ کا تو یمین ساقط ہوگئی یعنی اگر اُس عورت سے پھر نکاح کیا تو اُسکا کچھ اثر نہیں۔ اور اگر مؤبد تھا یعنی ہمیشہ کی اُس میں قید تھی مثلاً خدا کی قسم تجھ سے کبھی قربت نہ کرونگایا اس میں کچھ قید نہ تھی مثلاًخدا کی قسم تجھ سے قربت نہ کرونگا تو اِن صورتوں میں ایک بائن طلاق پڑگئی پھر بھی قسم بدستور باقی ہے یعنی اگر اُس عورت سے پھر نکاح کیا تو پھر ایلا بدستور آگیا اگر وقت نکاح سے چارماہ کے اندر جماع کرلیا تو قسم کا کفارہ دے اور تعلیق تھی تو جزا واقع ہو جائیگی۔ اور اگر چار مہینے گزرلیے اور قربت نہ کی تو ایک طلاق بائن واقع ہوگئی مگر یمین بدستور باقی ہے سہ بارہ نکاح کیاتو پھر ایلاآگیا اب بھی جماع نہ کرے تو چار ماہ گزر نے پر تیسری طلاق پڑجائیگی اور اب بے حلالہ نکاح نہیں کر سکتا اگر حلالہ کے بعد پھر نکاح کیا تو اب ایلا نہیں یعنی چار مہینے بغیر قربت گزرنے پر طلاق نہ ہوگی مگر قسم باقی ہے اگر جماع کریگا کفارہ واجب ہوگا۔ ‘‘(بہار شریعت،باب ایلا جلد 2،حصہ 8، صفحہ 183 مطبوعہ مکتبۃ المدینہ کراچی)

واللہ اعلم عزوجل ورسولہ اعلم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم

کتبـــــــــــــــــــــــــــہ

ممبر فقہ کورس

11صفر المظفر 1445ھ29اگست 2023ء

اپنا تبصرہ بھیجیں