انجینئر مرزا کا بیان کہ جس نکاح میں گانا نہ ہو وہ زنا ہے

انجینئر مرزا کا بیان کہ جس نکاح میں گانا نہ ہو وہ زنا ہے

کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس بارے میں فرقہ ”کتابیہ “کا بانی انجینئر محمد علی مرزا جہلمی نےاپنے دو انٹرویوز میں یہ بیانیہ دیا ہے کہ جس نکاح میں گانا نہ ہو وہ زنا ہے، اور حوالے میں حدیث پاک کو پیش کرتا ہےکہ حلال و حرام نکاح میں فرق گانا ہے۔ کیا مرزا کتابی کا یہ بیان درست ہے؟

بسم اللہ الرحمن الرحیم

الجواب بعون الملک الوھاب اللھم ھدایۃ الحق والصواب

مرزا جہلمی نے چونکہ دینی تعلیم باقاعدہ طور پر حاصل نہیں کی اور نہ وہ علماء کرام کی شروحات و کتب کو پڑھتا سمجھتا ہے بلکہ اپنی جہالت اور کم عقلی کے ساتھ دین کو سمجھنے کی کوشش کرتا ہے، جس کی وجہ سے اتنی بڑی غلطیاں کرتا ہے اور اپنی اٹکل سے ایسے فتوے دیتا ہے جس کی زد میں کثیر امت مسلمہ بلکہ صحابہ کرام علیھم الرضوان بھی آتے ہیں، اسی طرح کی غلطیوں میں سے ایک یہ بات بھی ہے جو سوال میں پوچھی گئی ہے۔

ایک حدیث کی شرح ایسی نہیں کی جاسکتی جو دیگر احادیث کے خلاف ہو۔ کثیر احادیث میں گانے باجے کی سخت مذمت بیان کی گئی ہے بلکہ حضور علیہ السلام نے اپنی بعثت کا ایک مقصد گانے باجے کے آلات توڑنا فرمایا ہے۔پھر خوشی کے موقع پر گانے باجے پر خاص ممانعت کی حدیث پاک موجود ہے۔ حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما سے دف بجانا بھی حرام ہونا ثابت ہے۔اب ایک دوسری حدیث کو بغیر سمجھے اس سے گانے باجے حلال قرار دینا تو جائز نہیں ۔

نیز مرزے نے جو حدیث پیش کی ہے اس میں گانے کا تو لفظ ہی نہیں بلکہ ”دف اور آواز“ کا ذکر ہے۔ شرع مطہر نے شادی میں بغرض اعلان نکاح صرف دف کی اجازت دی ہے جبکہ مقصود شرع سے تجاوز کرکے لہو مکروہ وتحصیل لذت شیطانی کی حد تک نہ پہنچے، ولہذا علماء شرط لگاتے ہیں کہ قواعد موسیقی پر نہ بجایا جائے، تال سم کی رعایت نہ ہو نہ اس میں جھانج ہوں ۔ پھر اس کا بجانا بھی مردوں کو ہر طرح مکروہ ہے۔ نہ شرف والی بیبیوں کے مناسب بلکہ نابالغہ چھوٹی چھوٹی بچیاں یا لونڈیاں باندیاں بجائیں، اور اگر اس کے ساتھ کچھ سیدھے سادے اشعار یا سہرے سہاگ ہوں جن میں اصلا نہ فحش ہو نہ کسی بے حیائی کا ذکر، نہ فسق وفجور کی باتیں، نہ مجمع زنان یافاسقان میں عشقیات کے چرچے نہ نامحرم مردوں کو نغمہ عورات کی آواز پہنچے، غرض ہر طرح منکرات شرعیہ ومظان فتنہ سے پاک ہوں، تو اس میں مضائقہ نہیں۔ جیسے انصار کرام کی شادیوں میں سمدھیانے جاکر یہ شعر پڑھاجاتاتھا

”اتینا کم اتیناکم فحیانا وحیاکم“

یعنی ہم تمھارے پاس آئے ہم تمھارے پاس آئے، اللہ ہمیں زندہ رکھے تمھیں بھی جلائے یعنی زندہ رکھے۔

( سنن ابن ماجہ، ابواب النکاح ،با ب فی الغناء والدف ،صفحہ138، ایچ ایم سعید کمپنی ،کراچی)

مرزا جہلمی کا یہ کہنا کہ بغیر گانے کے نکاح ہی زنا ہے یہ بھی غلط اور حدیث پاک کے منافی ہے۔ حدیث میں فقط دف کی اجازت دی ہے نہ یہ کہ اسے لازم قرار دیا ہے اور اس کے بغیر نکاح کو زنا قرار دے دیا ہے۔ حدیث کا مقصد یہ ہے کہ نکاح خفیہ نہ کیا جائے بلکہ اعلانیہ ہو۔ نکاح کے موقع پر بارات کا آنا‘ نکاح کا اجتماع میں ہونا اور نکاح کے گواہوں کا موجود ہونا بھی نکاح کو اعلانیہ بنا دیتا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ نکاح خوشی کا موقع بھی ہے اور خوشی کے وقت بچے اس موقع کی مناسبت سے دف سے خصوصی شغف رکھتے ہیں، لہٰذا بچیوں کو ایسے موقع پر اس کی اجازت دی گئی تاکہ نکاح کا اچھی طرح چرچا ہوجائے۔ کثیر نکاح حضور علیہ السلام کے دور مبارک میں ایسے بھی ہوئے ہیں کہ جو بغیر دف کے تھے بلکہ حضور علیہ السلام کے اپنے نکاح بھی بغیر دف کے ثابت ہیں ۔ لہذا مرزا کا ایک حدیث کو لے کر گانے باجے حلال کرنا اوراس کے بغیر نکاح زنا قرار دینا ، نہ صرف ناجائز و جہالت ہے بلکہ حضور علیہ السلام کی وہ پیشین گوئی کی تصدیق ہے کہ لوگ میوزک کو حلال سمجھ لیں گے۔

المعجم الکبیر للطبرانی کی حدیث پاک ہے

’’إن اللہ عز وجل بعثنی رحمۃ للعالمین، وہدی للعالمین، وأمرنی ربی بمحق المعازف، والمزامیر، والأوثان، والصلب، وأمر الجاہلیۃ ‘‘

ترجمہ : اللہ تعالی نے مجھے سب جہانوں کے لئے رحمت اور ہدایت بنا کر بھیجا ہے اور میرے رب نے مجھے گانے باجے کے آلات ، مزامیر ،بت،صلیب اور امور جاہلیت کو مٹانے کا حکم دیا ہے۔

(المعجم الکبیر،باب الصاد،فرج بن فضالۃ۔۔،جلد8،صفحہ196 ،حدیث7803،مکتبۃ ابن تیمیۃ،القاہرۃ)

مصنف ابن ابی شیبہ میں ہے

’’قال رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم انما نھیت عن نوح صوتین احمقین فاجرین صوت عند نغمۃ لھو ولعب ومزامیر شیطان‘‘

ترجمہ:رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا مجھے دو احمق اور فسق و فجور والی آوزیں سننے سے منع کیا گیا ۔ایک آواز لہو و لعب گانے کی اور (دوسری) شیطان کے مزامیر (میوزک)سے۔ (مصنف ابن ابی شیبہ ،جلد 3،صفحہ66 ،دارالکتب العلمیہ، بیروت)

مسند البزار میں ہے

”أنس بن مالك يقول: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: صوتان ملعونان في الدنيا والآخرة: مزمار عند نعمة ورنة عند مصيبة“

ترجمہ:حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:دوآوازوں پردنیاوآخرت میں لعنت ہے، نعمت کے وقت باجا اور مصیبت کے وقت چلانا۔ (مسندبزار،جلد14،صفحہ62، مكتبة العلوم والحكم، المدينة المنورة)

السنن الکبریٰ للبیہقی میں ہے

” عن ابن عباس , قال: ” الدف حرام , والمعازف حرام , والكوبة حرام , والمزمار حرام “

ترجمہ: اور عبد اللہ بن عباس رضى اللہ تعالى عنہما بيان كرتے ہيں دف حرام ہے، اور گانے بجانے والے آلات حرام ہيں، اور طبل يعنى ڈھول حرام ہے، اور بانسرى حرام ہے۔(السنن الكبرى، باب: ما جاء في ذم الملاهي من المعازف والمزامير ونحوها ،جلد10،صفحہ376،دار الكتب العلمية، بيروت)

علامہ برہان الدین مرغینانی فرماتے ہیں

’’الملاہی کلہاحرام حتی التغنی لضرب القضیب‘‘

ترجمہ: سب لہو و لعب حرام ہیں یہاں تک کہ کسی چیزپر نرکل کی ضرب لگاکرگانا بھی۔ (الہدایۃ فی شرح بدایۃ المبتدی،جلد4،صفحہ365،دار احیاء التراث العربی،بیروت)

اعلی حضرت امام احمد رضا خان علیہ رحمۃ الرحمن فرماتے ہیں:

’’مزامیر کی حرمت میں احادیث کثیرہ بالغ بحد تواتر وارد ہیں۔‘‘(فتاوی رضویہ شریف،جلد24،صفحہ115،رضا فائونڈیشن،مرکزالاولیاء،لاہور)

ترمذی، نسائی، ابن ماجہ اور مسند احمد میں ہے (واللفظ للترمذی)

”عن محمد بن حاطب الجمحي ، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم : “فصل ما بين الحرام والحلال الدف، والصوت“

ترجمہ: روایت ہے حضرت محمد ابن حاطب جمحی سے وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے راوی، فرمایا: حلال و حرام کے درمیان فرق نکاح میں آواز اور دف ہے۔(سنن ترمذی، ابواب النکاح عن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم، باب ما جاء فی اعلان نکاح، حدیث 1088، صفحہ262، ریاض)

مرقاۃ المفاتیح میں اسی حدیث پاک کی شرح میں علامہ علی قاری رحمۃ اللّٰه علیہ فرماتے ہیں:

”(الصوت) اي: الذكر والتشهير بين الناس (والدف) اي: ضربه (في النكاح) فانه يتم به الاعلان، قال ابن الملك: ” ليس المراد ان لا فرق بين الحلال والحرام في النكاح الا هذا الامر فان الفرق يحصل بحضور الشهود عند الضد بل المراد الترغيب الي اعلان امر النكاح بحيث لا يخفي علي الاباعد، فالسنه اعلان النكاح بضرب الدف واصوات الحاضرين بالتهنيه او النغمه في انشاد الشعر المباح، وفي شرح السنه: معناه اعلان النكاح واضطراب الصوت به والذكر في الناس كما يقال فلان قد ذهب صوته في الناس وبعض الناس يذهب به الي السماع وهذا خطا يعني السماع المتعارف بين الناس الان“

ترجمہ: آواز سے مراد گفتگو اور لوگوں میں تشہیر کرنا ہے اور دف کا مطلب دف بجانا ہے نکاح میں، کہ اس سے اعلان کامل طور پر ہوتا ہے۔ ابن الملک فرماتے ہیں: یہ مراد نہیں ہے کہ اس کے بغیر نکاح میں حلال و حرام کے درمیان فرق نہیں رہے گا فرق تو نکاح کے وقت گواہوں کی موجودگی سے ہی ہو گیا، بلکہ یہاں نکاح کے اعلان کی ترغیب دلانا مراد ہے کہ دور والوں پر بھی یہ بات پوشیدہ نہ رہے۔ تو سنت نکاح کا اعلان کرنا ہے خواہ دف بجا کر ہو یا حاضرین کی مبارکباد کی آوازوں کے ساتھ ہو یا مباح اشعار کو نغمے کی صورت میں پڑھنے کے ساتھ ہو۔ اور شرح السنہ میں ہے: اس کا معنی یہ ہے کہ نکاح کا اعلان کیا جائے اور اس کی اواز لوگوں تک پہنچائی جائے اور لوگوں میں اس کا تذکرہ کیا جائے جیسا کہ کہا جاتا ہے فلاں کی آواز لوگوں میں پہنچ چکی، اور بعض لوگ اس سے یہ سمجھے ہیں کہ یہاں گانا گانا مراد ہے حالانکہ یہ غلطی ہے یعنی کہ آج کل لوگوں میں متعارف گانے اس سے مراد نہیں ہیں۔(مرقاۃ المفاتیح شرح مشکوٰۃ المصابیح جلد ، صفحہ ، دار الفکر بیروت)

المفاتیح فی شرح المصابیح میں علامہ مظہر الدین زیدانی(المتوفی 727ھ) لکھتے ہیں

” ليس المراد منه: أنه ليس فرق بين الحلال والحرام في النكاح إلا الصوت والضرب، فإن الفرق يحصل بحضور الشهود عقد النكاح؛ ولكن مراده: أن الغالب أن يخفى على الجيران والأباعد جريان النكاح في خلوة وإن كان هناك شهود “

ترجمہ: اس سے مراد یہ نہیں ہے کہ حلال اور حرام میں فقط آواز اور دف کا فرق ہے ، کیونکہ فرق عقد نکاح میں گواہوں کی موجودگی سے حاصل ہورہا ہے ۔بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ عام طور پر پڑوسی اور دور دراز کے لوگ نکاح سے انجان ہوتے ہیں اگرچہ نکاح میں گواہ ہوں (تودف بجانے کا فرمایا گیا تاکہ لوگ نکاح سے باخبر ہوجائیں۔)

(المفاتيح في شرح المصابيح،جلد4،صفحہ41،دار النوادر،وزارة الأوقاف الكويتية)

یونہی شرح مصابيح السنة للإمام البغوی میں محمد بن عز الدین الحنفی (المتوفى: 854 ھ)لکھتے ہیں

” ليس المراد منه: أنه لا فرق بينهما في النكاح سوى هذا الأمر، فإن الفرق يحصل بحضور الشهود عند عقد النكاح، بل المراد: الترغيب إلى إعلان أمر النكاح بحيث لا يخفى على الأباعد “

(شرح مصابيح السنة للإمام البغوي،جلد3،صحہ566،إدارة الثقافة الإسلامية)

حاشیۃ السندی علی سنن النسائی میں ہے

”والمراد اعلان النكاح بالدف ۔۔۔قال البيهقي في سننه ذهب بعض الناس إلى أن المراد السماع وهو خطأ وإنما معناه عندنا اعلان النكاح واضطراب الصوت به والذكر في الناس“

ترجمہ:مراد یہ ہے کہ نکاح کا اعلان دف سے ہو ۔ امام بیہقی نے اپنی سنن میں کہا ہے: بعض لوگوں کا خیال ہے کہ اس سے مراد سننا (گاناباجا )ہے، جو غلط ہے۔ ہمارے نزدیک اس کے معنی نکاح کا اعلان اور اس کے ساتھ آواز اور لوگوں میں نکاح کا تذکرہ کرنے کے ہیں۔

(حاشية السندي على سنن النسائي،جلد6،صفحہ127،مكتب المطبوعات الإسلامية،حلب)

مراۃ المناجیح میں اس حدیثِ پاک کی شرح میں ہے:

” آواز سے مراد اعلانچی یا گولے وغیرہ کی آواز ہے، دف میں تاشہ بھی داخل ہے، اس کا مطلب یہ نہیں کہ بغیر دف تاشہ، یا اعلان کے نکاح ہوتا ہی نہیں بلکہ اعلان نکاح کی ترغیب مقصود ہے۔ مطلب یہ ہے کہ حلال نکاح اعلانیہ ہوتے ہیں مشکوک و حرام چھپ کرکئے جاتے ہیں کہ نہ کسی کو خبر ہو نہ کوئی اعتراض کرے، جیسے نکاح پر نکاح یا عدت میں نکاح وغیرہ۔“( مرآۃ المناجیح شرح مشکوٰۃ المصابیح جلد:5، حدیث نمبر:3153)

بغیر دف کے حضور علیہ السلام کا نکاح حضرت زینب رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے ہونے کے متعلق مسلم شریف میں ہے

”عن أنس، قال: لما انقضت عدة زينب، قال رسول الله صلى الله عليه وسلم لزيد: “فاذكرها علي” قال : فانطلق زيد حتى أتاها، وهي تخمر عجينها، قال : فلما رأيتها؛ عظمت في صدري حتى ما أستطيع أن أنظر إليها أن رسول الله صلى الله عليه وسلم ذكرها، فوليتها ظهري، ونكصت على عقبي، فقلت : يا زينب أرسل رسول الله صلى الله عليه وسلم يذكرك، قالت: ما أنا بصانعة شيئا حتى أوامر ربي، فقامت إلى مسجدها، ونزل القرآن، وجاء رسول الله صلى الله عليه وسلم، فدخل عليها بغير إذن، قال : فقال : ولقد رأيتنا أن رسول الله صلى الله عليه وسلم أطعمنا الخبز واللحم حين امتد النهار، فخرج الناس، وبقي رجال يتحدثون في البيت بعد الطعام، فخرج رسول الله صلى الله عليه وسلم، واتبعته، فجعل يتتبع حجر نسائه، يسلم عليهن، ويقلن : يا رسول الله، كيف وجدت أهلك ؟ قال : فما أدري أنا أخبرته أن القوم قد خرجوا، أو أخبرني ؟ قال : فانطلق حتى دخل البيت، فذهبت أدخل معه، فألقى الستر بيني وبينه، ونزل الحجاب، قال : ووعظ القوم بما وعظوا به“

ترجمہ: حضرت انس رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ جب حضرت زینب رضی اللہ تعالی عنہا کی عدت مکمل ہو چکی تو رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ والہ وسلم نے حضرت زید رضی اللہ تعالی عنہ سے فرمایا کہ اپ ان کو میرا نکاح کا پیغام پہنچائیں تو حضرت زید رضی اللہ تعالی عنہ ان کے پاس گئے تو وہ آٹے میں خمیر ڈال رہی تھی فرماتے ہیں جب میں نے انہیں دیکھا تو میرے دل میں ان کی عظمت یہاں تک بڑھ گئی کہ میں ان کو دیکھ نہیں سکتا تھا کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے انہیں نکاح کا پیغام بھیجا ہے تو میں نے اپنی پیٹھ پھیر لی اور وہ میری پیٹھ کے پیچھے آ کر کھڑی ہوئیں میں نے عرض کی اے زینب رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے آپ کی طرف نکاح کا پیغام بھیجا ہے فرماتی ہیں میں اس وقت تک کچھ نہیں کروں گی جب تک اپنے رب سے مشورہ نہ کر لوں تو آپ کھڑی ہوئیں اور مسجد میں آئیں اور قران پاک نازل ہوا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم ان کے پاس بغیر پوچھے داخل ہوئے فرماتے ہیں میں نے دیکھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں روٹی اور گوشت کھلایا جب آدھا دن گزر چکا تو لوگ چلے گئے اور کچھ لوگ باقی رہ گئے جو گھر میں کھانے کے بعد گفتگو کر رہے تھے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم باہر تشریف لائے اور میں ان کے پیچھے پیچھے ہو لیا تو اپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم اپنی ازواج کے حجروں کو دیکھتے جاتے اور انہیں سلام کرتے جاتے وہ عرض کرتی یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم آپ نے اپنے گھر والوں کو کیسا پایا؟ فرماتے ہیں میں نہیں جانتا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کو خبر دی کہ لوگ جا چکے ہیں یا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے خبر دی فرماتے ہیں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم آئے اور اپنے گھر میں داخل ہو گئے تو میں بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ گھر میں داخل ہوا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے میرے اور اپنے درمیان پردہ ڈالا اور حجاب کی ایت نازل ہوئی فرماتے ہیں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں کو نصیحت فرمائی اس چیز کی جس کی انہیں نصیحت کرنی تھی۔(صحیح مسلم کتاب النکاح باب زواج زینب بنت جحش و نزول الحجاب و اثبات ولیمۃ العرس حدیث 1428 صفحہ 602، ریاض)

صحیح بخاری میں نبی کریم رسول امین صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کا فرمان عالیشان ہے

”لیکونن من امتی اقوام یستحلون الحر والحریر والخمروالمعازف“

ترجمہ:ضرور میری امت میں وہ لوگ ہونے والے ہیں جو حلال ٹھہرائیں گے عورتوں کی شرمگاہ یعنی زنا ،ریشمی کپڑوں ، شراب اور باجوں کو۔ (صحیح بخاری،جلد2،صفحہ837،قدیمی کتب خانہ،کراچی)

واللہ تعالیٰ اعلم و رسولہ اعلم عزوجل و صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم

کتبہ

ابو ساجد محمد عابد عطاری مدنی

21 ربیع الثانی 1445ھ

7 اکتوبر 2023ء

نظرثانی و ترمیم:

مفتی محمد انس رضا قادری

اپنا تبصرہ بھیجیں