پیر نصیر صاحب کی قبر تبدیل کرنے کی شرعی حیثیت

پیر نصیر صاحب کی قبر تبدیل کرنے کی شرعی حیثیت

کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس بارے میں کہ پچھلے دنوں پیر نصیر الدین صاحب کی قبر تبدیل کی گئی اور اس تبدیلی کے وقت ایک مولوی صاحب وہاں تقریرکررہے تھے کہ پیر صاحب کی وصیت تھی کہ مجھے میرے والد صاحب کے پاس دفن کیا جائے لیکن اُس وقت ایسا نہ ہوسکا اس لیے اب ایسا کیا جارہا ہے ۔پھر اس مولوی صاحب نے قبر کی منتقلی کو شرعا درست ثابت کرتے ہوئے ایک واقعہ بھی سنایا کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے کئی سالوں کے بعد حضرت یوسف علیہ السلام کی قبر مبارک ان کی وصیت پر عمل کرتے ہوئے تبدیل کی تھی۔ قرآن و حدیث کی روشی میں ارشاد فرمائیں کہ یہ عمل شرعا کیسا تھا؟

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم

الجواب بعوان الملک الوھاب اللھم ھدایہ الحق والصواب

بیان کی گئی صورت شرعا جائز نہیں تھی،جنہوں نے ایسا کیا ان پر توبہ لازم ہے۔شرعی طورپر دفن کی وصیت کی کوئی شرعی حیثیت نہیں یعنی اگر مرنے والے نے وصیت کی ہو کہ مجھے فلاں جگہ دفن کرنا تو اس کے مرنے کے بعد اسے اسی جگہ دفن کرنا شرعا لازم نہیں،ہاں جس جگہ اس نے وصیت کی ہو اور وہاں دفن کرنے میں کوئی شرعی مسئلہ نہ ہو توپہلی مرتبہ تدفین کرنے میں حرج نہیں لیکن پہلے کسی اور جگہ دفن کرنے کے بعد اب وصیت پر عمل کرنا کسی صورت جائز نہیں۔ اس پر یہ دلیل باطل ہے کہ حضرت یوسف علیہ السلام کے جسم اقدس کو منتقل کیا گیا تھا۔ علمائے کرام نے اس بارے صراحت کی ہے کہ یہ ان کی شریعت میں جائز تھا شریعت محمدیہ میں احادیث سے اس کی ممانعت موجود ہے ،نیز حضرت یوسف علیہ السلام سمیت دیگر شخصیات کی قبر کی منتقلی کسی عذرکے سبب تھی۔

الجوہرہ میں ہے

’’وإن أوصی بأن یحمل بعد موتہ إلی موضع کذا فہو باطل‘‘

یعنی اگر وصیت کی کہ اس کی موت کے بعد اسے فلاں مقام پر دفن کرے تو یہ وصیت باطل ہے۔(الجوہرۃ النیرۃ،کتاب الوصایا،قبول الوصیۃ بعد الموت،جلد2،صفحہ296، المطبعۃ الخیریۃ)

حدیث پاک میں ہےام المؤمنین سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا بیان كرتی ہیں :

”أَنَّ رَسُول اللهِ ﷺ ‌لَعَنَ الْمُخْتَفِيَ وَالْمُخْتَفِيَةَ“

ترجمہ: رسول اللہ ﷺ ‌نے قبروں کواکھاڑنے والے مردوں اور عورتوں پر لعنت بھیجی ہے۔

(السنن الكبرى للبیہقی،جلد8،صفحہ469،حدیث17245،دار الكتب العلمية،بيروت)

درالمختار میں ہے

” (ولا يخرج منه) بعد إهالة التراب (إلا) لحق آدمي ك (أن تكون الأرض مغصوبة أو أخذت بشفعة“

ترجمہ: مٹی ڈالنے کے بعد قبر سے میت کو نکالا نہیں جائے گا مگر آدمی کے حق کے لیے نکالا جائے گا جیسے مغصوبہ زمین ہو یا اسے شفعہ کے ساتھ حاصل کیا جائے ۔(ردالمختار، جلد 2 ،صفحہ 238 ، دار الفکر ،بیروت)

فتویٰ رضویہ میں امام احمد رضاخان علیہ رحمۃ الرحمن سے سوال ہوا:

”اگر ایک پیر نے مرض الموت میں اپنے وطن سے دور ایک مرید کے شہر میں دفن ہونے کی وصیت کی پھر وہی پہنچ گئے اور وہی دفن ہوئے اب چار ماہ بعد ان کا فرزند چاہتا ہے کہ نعش کو اس کے حجرے سے نکال کر دوسری جگہ دفن کرے۔“

جواب میں سیدی اعلی حضرت امام احمد رضا خان بریلوی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:

” صورتِ مذکورہ میں نبش حرام، حرام ، سخت حرام، اور میّت کی اشد توہین وہتک سرّ رب العٰلمین ہے اور جو بیٹا باپ کے ساتھ ایسا چاہے عاق وناخلف ہے۔ اگر چہ وصیت دربارہ دفن واجب العمل نہیں، نہ یہاں دفن بے رضائے مالک کے مسئلہ کو کچھ دخل تھا کہ رضا پر تفریع حکم ہو، بالفرض اگر وقت دفن رضائے مالک نہ ہوتی تو اختیار نبش اُسے ہوتا نہ کہ اجنبی کو جس کا زمین میں کوئی حق نہیں۔ “(فتاویٰ رضویہ جلد 9 صفحہ 406 مطبوعہ رضا فائونڈیشن لاہور)

دوسری جگہ فتویٰ رضویہ میں ہے:

”ایں حرام است بعد از دفن کشودن حلال نیست ونقل بمسافت بعید روا نیست“

ترجمہ:یہ حرام ہے دفن کے بعد کھولنا جائز نہیں اور دور مسافت تک لے جانا بھی روا نہیں۔(فتویٰ رضویہ جلد 9 صفحہ 407 مطبوعہ رضا فائونڈیشن لاہور)

سنن ابو داؤد و ترمذی میں ہے

”‏‏‏‏‏‏عَنْ نُبَيْحٍ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ كُنَّا حَمَلْنَا الْقَتْلَى يَوْمَ أُحُدٍ لِنَدْفِنَهُمْ، ‏‏‏‏‏‏فَجَاءَ مُنَادِي النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ:‏‏‏‏ إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَأْمُرُكُمْ أَنْ تَدْفِنُوا الْقَتْلَى فِي مَضَاجِعِهِمْ، ‏‏‏‏‏‏فَرَدَدْنَاهُمْ “

ترجمہ:حضرت جابر بن عبداللہ بیان کرتے ہیں کہ جنگ احد کے دن میری پھوپھی میرے والد کی لاش لے کر آئیں تاکہ وہ ان کو ہمارے قبرستان میں دفن کردیں تو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ایک منادی نے ندا کی کہ شہدا کو ان کی شہادت گاہوں میں ہی لوٹا دو ۔ (سنن ابو داؤد جلد 1 رقم الحدیث :3165 مطبوعہ کراچی سنن الترمذی جلد 1 رقم الحدیث 1818 مطبوعہ کراچی)

مرقاہ المفاتیح میں ہے

ملا علی بن سلطان محمد القاری لکھتے ہیں :

” والمعنى: لا تنقلوا الشهداء من مقتلهم بل ادفنوهم حيث قتلوا، وكذا من مات في موضع لا ينقل إلى بلد آخر، قاله في بعض علمائنا، وقال في الأزهار: الأمر في قوله صلى الله عليه وسلم: ردوا القتلى للوجوب، وذلك أن نقل الميت من موضع إلى موضع يغلب فيه التغير حرام، وكان ذلك زجرا عن القيام بذلك والإقدام عليه، وهذا أظهر دليل وأقوى حجة في تحريم النقل۔۔والأظهر أن يحمل النهي على نقلهم، بعد دفنهم لغير عذر۔۔۔ عن مالك عن عبد الرحمن بن عبد الله بن صعصعة: أنه بلغه أن عمرو بن الجموح وعبد الله بن عمرو الأنصاريين كانا قد حفر السيل قبرهما، وكان قبرهما مما يلي السيل، وكانا في قبر واحد، وهما ممن استشهد يوم أحد، فحفر عنهما ليغيرا من مكانهما، فوجدا لم يتغيرا، كأنما ماتا بالأمس، وكان أحدهما قد جرح ويده على جرحه فدفن، وهو كذلك، فأميطت يده عن جرحه ثم أرسلت فرجعت كما كانت، وكان بين أحد وبين الحفر عنهما ست وأربعون سنة۔۔ قال ابن الهمام: ولا ينبش بعد إهالة التراب لمدة طويلة ولا قصيرة، إلا لعذر. قال في التجنيس: والعذر أن يظهر أن الأرض مغصوبة، أو يأخذها شفيع، ولذا لم يحول كثير من الصحابة، وقد دفنوا بأرض الحرب، إذ لا عذر، ومن الأعذار أن يسقط في اللحد مال ثوب، أو درهم لأحد، واتفقت كلمة المشايخ في امرأة دفن ابنها وهي غائبة في غير بلدها فلم تصبر فأرادت نقله أنه لا يسعها ذلك لتجويز شواذ بعض المتأخرين لا يلتفت إليه، ولم نعلم خلافا بين المشايخ ۔۔۔۔۔ نقل أن يعقوب صلى الله عليه وسلم مات بمصر، ونقل عنه إلى الشام، وموسى صلى الله عليه وسلم نقل تابوت يوسف صلى الله عليه وسلم بعد ما أتى عليه زمان من مصر إلى الشام ليكون مع آبائه اهـ. ولا يخفى أن هذا شرع من قبلنا، ولم تتوفر في شروط كونه شرعا لنا ۔۔۔۔ ويمكن أن يحمل نقل يعقوب ويوسف عن عذر أيضا “

ترجمہ:اس حدیث کا معنی ہے شہدا کو ان کی شہادت کی جگہ سے منتقل نہ کرو، بلکہ ان کو وہیں دفن کردو جہاں ان کو شہید کیا گیا تھا۔ بعض علماء نے فرمایا جو آدمی کسی جگہ طبعی موت مرجائے اس کو دوسرے شہر نہ منتقل کیا جائے۔الازھار میں مذکور ہے کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا یہ حکم وجوب کے لیے ہے، کیونکہ جب میت کو ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل کیا جائے گا تو غالب یہ ہے کہ اس کا جسم متغیر ہوجائے گا جو حرام ہے۔ اس لیے اسی جگہ جسم کو رکھنے کا حکم ہوا اور یہ زیادہ ظاہر دلیل ہے میت کو منتقل کرنے کی حرمت پر ۔اظہریہ ہے کہ یہ دفن کے بعد بغیر کسی عذر کے میت منتقل کرنے پر محمول کیا جائےگا۔امام مالک روایت کرتے ہیں : حضرت عمرو بن الجموح انصاری اور حضرت عبداللہ بن عمرو انصاری کی قبروں کو سیلاب نے اکھاڑ دیا تھا، ان کی قبریں سیلاب کے قریب تھیں، یہ دونوں ایک قبر میں مدفون تھے، یہ دونوں جنگ احد میں شہید ہوئے تھے، ان کی قبر کھودی گئی تاکہ ان کی قبر کی جگہ تبدیل کی جاسکے، جب ان کے جسموں کو قبر سے نکالا گیا تو ان کے جسموں میں کوئی تغیر نہیں ہوا تھا، یوں لگتا تھا جیسے وہ کل فوت ہوئے ہوں، ان میں سے ایک زخی تھا اور اس کا ہاتھ اس کے زخم پر تھا، اس کو اسی طرح دفن کیا گیا تھا، اس کے ہاتھ کو اس کے زخم سے ہٹا کر جب چھوڑا گیا تو وہ پھر اپنے زخم پر آگیا۔ جنگ احد اور قبر کھودنے کے درمیان چالیس سال کا عرصہ تھا۔ امام ابن ہمام نے کہا ہے کہ قبر پر مٹی ڈالنے کے بعد قبر کو کھودا نہ جائے، خواہ مدت کم گزری ہو یا زیادہ، ماسوا عذر کے اور التجنیس میں مرقوم ہے کہ عذر یہ ہے کہ مثلا کسی شخص کو غصب شدہ زمین میں دفن کردیا گیا ہو یا اس زمین پر کسی نے شفعہ کردیا ہو، یہی وجہ ہے کہ بکثرت صحابہ کو حرب (دشمن اسلام کی زمین) میں دفن کردیا گیا پھر ان کو ان کے وطنوں میں نہیں لوٹایا گیا، اسی طرح اگر کسی شخص کا قیمتی کپڑا، اس کی رقم اور کوئی قیمتی چیز قبر میں گرگئی تو اس کو نکالنے کے لیے قبر کو کھودنا جائز ہے، اور تمام مشائخ اس پر متفق ہیں کہ کسی عورت کا بیٹا اس کی غیر موجودگی میں کسی اور شہر میں دفن کردیا گیا اور وہ اس کے فراق پر صبر نہیں کرسکتی تب بھی اسکو یہ اجازت نہیں دی جائے گی کہ وہ اس کو اپنے شہر میں منتقل کر کے دفن کردے ۔ حضرت یعقوب مصر میں فوت ہوئے تھے اور ان کی میت شام منتقل کی گئی اور حضرت موسیٰ نے حضرت یوسف کا تابوت بہت عرصہ کے بعد مصر سے شام منتقل کیا تاکہ ان کی قبر ان کے آبا کرام کے ساتھ ہو۔یہ بات کسی سے مخفی نہیں ہے کہ یہ ہم سے پہلے کی شریعت ہے اور یہ ہماری شریعت کے موافق نہیں ہے اور یہ بھی ممکن ہے کہ حضرت یعقوب اور حضرت یوسف کو کسی عذر کی وجہ سے منتقل کیا گیا ہو۔(مرقاہ المفاتیح جلد 4 صفحہ 161حدیث 1704 مطبوعہ دار الکتب العلمیہ،بیروت)

مراہ المناجیح میں ہے :

” اس سےمعلوم ہوا کہ میت کو ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل کرنا منع ہے ۔۔خیال رہے کہ حضرت جابر رضی الله تعالیٰ عنہ نے چھ مہینہ کے بعد اپنے والد کی نعش مبارک وہاں سے منتقل کی اور جنت البقیع میں دفن کی یہ کام کسی ضرورت کی وجہ سے ہو اسی لیے حضورصلی الله علیہ وسلم نے اس وقت منع نہ فرمایا۔نقل میت کے متعلق تحقیق یہ ہے کہ بعد دفن قبر کھول کر نعش منتقل کرنا یا اتنی دور میت کو لے جانا کہ جہاں تک پہنچتے ہوئے میت کے بگڑ جانے کا خطرہ ہو ممنوع ہے لیکن اگر یہ وجوہ نہ ہو تو کسی فائدہ صحیحہ کے لیئے میت کو منتقل کرنا جائز ہے۔چنانچہ حضرت سعد ابن وقاص کا جنازہ ان کے محل سے جو مدینہ پاک سے دس میل تھا مدینہ لایا گیا،بعددفن میت کو نکالنا سخت منع ہے اسی لیے بعض صحابہ کرام کفار کی زمین میں دفن ہوئے تو انہیں وہیں رکھا گیا حتی کہ اگر میت بلاغسل و نماز بھی دفن ہوگیا ہو تو اسے نہیں نکال سکتے۔یوسف علیہ السلام و موسیٰ علیہ السلام کے تابوتوں کو جومصر سے شام کی طرف منتقل کیا گیا یہ ان دینوں میں جائز تھا ہمارے ہاں ممنوع لہذا روافض جو امانت کرکے مردے کو دفن کرتے ہیں سخت ناجائز ہے۔“(مرآۃ المناجیح شرح مشکوٰۃ المصابیح جنازں کا بیان جلد:2 حدیث نمبر:1704 مطبوعہ مکتبہ المدینہ کراچی)

واللہ اعلم عزوجل ورسولہ اعلم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم

کتبـــــــــــــــــــــــــــہ

ممبر فقہ کورس

25صفر المظفر 1445ھ12ستمبر 2023ء

اپنا تبصرہ بھیجیں