اپنی بیوی کو اشٹام کے ذریعے طلاق

کیا فرماتے ہیں علماء دین و مفتیان شرع متین اس بارے میں کہ ایک شخص نے اپنی بیوی کو اشٹام کے ذریعے طلاق اول دی اور ابتدائی تمہید کے بعد یہ الفاظ تحریر کیے:”میں زید مسماۃ ہندہ بی بی کو طلاق اول دے کر اپنی زوجیت سے علیحدہ کرتا ہوں۔“اس جملے سے ایک طلاق ہوئی یا ایک سے زائد طلاقیں ہوئیں۔ عموما اشٹام فروش اسی طرح کی تحریر بناتے ہیں اور کہتے یہی ہیں کہ اس سے ایک طلاق ہوگی اور شوہر اس کو پڑھ کر بغیر سوچے سمجھے ایک ہی کی نیت سے دستخط کردیتا ہے۔

بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب بعون الملک الوھاب اللھم ھدایۃ الحق وا لصواب

صورت مسئولہ میں دو طلاق بائنہ واقع ہو گئیں ایک طلاق رجعی طلاق اول دے کر والے الفاظ سے واقع ہوئی اسکے بعد اپنی زوجیت سے علیحدہ کرتا ہوں سے دوسری طلاق بائنہ واقع ہو گئی اور اور عدت کے اندر رجعی طلاق کے بعد بائنہ واقع ہو تو رجعی بھی بائنہ ہو جاتی ہے کیونکہ فقہ کا قاعدہ ہے صریح بائنہ کو لاحق ہوتی ہے جبکہ بائن طلاق عدت میں واقع ہو ۔
اگر یہ رجوع کرنا چاہیں تو اگر اس سے پہلے کوئی طلاق نہیں دی تھی تو عدت کے اندر یا بعد عدت بیوی کی رضا مندی سے شوہر نئے مہر کیساتھ اس سے نکاح کر سکتا ہے۔
اور اسٹام فروشوں کا کہنا کوئی معنی نہیں رکھتا کیونکہ دلیل قرآن و سنت ہے نا کہ ان کا قول وعمل لہذہ ان کی باتوں پر کان دھرنے کے بجائے علماء کی طرف رجوع کرنا چاہیے اور اسٹام فروشوں کو بھی نکاح و طلاق کے مسائل سیکھنے چاہییں تاکہ وہ لوگوں کی غلط رہنمائی نا کریں۔

مفتی اعظم پاکستان مفتی وقار الدین رحمہ اللہ انہی الفاظ سے طلاق کے متعلق سوال کا جواب دیتے ہوے ارشاد فرماتے ہیں :

صورت مسئولہ میں شخص مذکور کی بیوی پر دو طلاق بائن واقع ہوگئیں پہلی طلاق طلاق دیتا ہوں سے ہوئی۔ اس کے بعد اس نے لکھا کہ اپنی زوجیت سے علیحدہ کرتا ہوں اس سے طلاق بائن ہوئی اس لیے پہلی طلاق بھی بائن ہو گئی۔

((وقار الفتاوی ،طلاق بائن کا بیان ،جلد 3 صفحہ 160))

الدرالمختار شرح تنویر الابصار میں ہے:

(الصريح يلحق الصريح و) يلحق (البائن) بشرط العدة
ترجمہ:
صریح صریح کو لاحق ہوتا ہے اور صریح بائن جو لاحق ہوتا ہے عدت کی شرط کیساتھ

((,الدر المختار شرح تنوير الأبصار وجامع البحار ،باب الکنایات،صفحہ 215))

امام اہلسنت اسی طرح کے سوال کا جواب دیتے ہوے ارشاد فرماتے ہیں:

دوطلاقیں بائن ہوگئیں، عورت نکاح سے نکل گئی، عدت کے بعد دوسرے سے نکاح کرسکتی ہے اور اگر رخصت نہ ہوئی تھی تو عدّت کی بھی حاجت نہیں، اور اگر زید ہی سے نکاح چاہے تو اس سے بھی کرسکتی ہے عدّت میں خواہ عدّت کے بعد، جبکہ اس سے پہلے کوئی طلاق اسے نہ دے چکاہو کہ ایسا تھا توتین ہوگئیں بے حلالہ نہیں ہوسکے گا،

وذٰلک لان اللفظ الاول صریح فوقع بہ طلاق وان لم ینو وصار الحال بہ حال المذاکرۃ واللفظ الثانی لایحتمل الرد بل السب فاستغنی عن النیۃ لاجل المذاکرۃ، والواقع بہ بائن لانہ من الکنایات غیر الثلاث المعلومۃ اعتدی واخیہا فلحوقہ جعل الرجعی الاوّل ایضا بائنا لامتناع الرجعۃ بالثانی فبانت بثنتین۔ واﷲتعالٰی اعلم۔

کیونکہ پہلا لفظ صریح ہے اس لئے یہ طلاق ہوئی اگرچہ نیت نہ بھی ہو، اس سے مذاکرہ طلاق کا حال ہوگیا، اور دوسرا لفظ صرف ڈانٹ کا احتمال رکھتا اور جواب نہیں بن سکتا، لہذا یہاں نیت کی ضرورت نہیں کیونکہ مذاکرہ طلا ق ہوچکا ہے، اس سے بائنہ طلاق ہوئی کیونکہ یہ کنایات میں سے ہے لیکن اعتدی اور اس جیسے الفاظ کنایہ تین میں سے نہیں ہے، لہذا اس دوسرے لفظ سے پہلی صریح طلاق بھی بائنہ ہوگئی کیونکہ دوسری بائنہ ہے جس کی وجہ سے پہلی میں رجوع ممکن نہ رہا، لہذا بیوی کو دو۲بائنہ طلاقیں ہوئیں، واﷲ تعالٰی اعلم۔

((فتاویٰ رضویہ، جلد 12 ،صفحہ 628، رضا فاؤنڈیشن لاہور))
امام اہلسنت امام احمد رضا خان بریلوی رحمۃ اللہ علیہ صریح کے بائن سے ملحق ہونے کے متعلق ارشاد فرماتے ہیں:

فان الصریح یلحق البائن والرجعی اذاجامعہ البائن جعلہ بائنا لامتناع الرجعۃ۔

کیونکہ صریح بائن کولاحق ہوتی ہے اور صریح اور بائن جمع ہوجائیں تو بائنہ صریح کو بائنہ بنادیتی ہے کیونکہ رجوع نہیں ہوسکتا۔

((فتاوی رضویہ جلد 12 صفحہ 110 رضا فاؤنڈیشن لاہور))

واللہ ورسولہ اعلم باالصواب
کتبہ
انتظار حسین مدنی

اپنا تبصرہ بھیجیں