اپنی بیوی کو اشٹام کے ذریعے طلاق اول دی

سوال:کیا فرماتے ہیں علماء دین و مفتیان شرع متین اس بارے میں کہ ایک شخص نے اپنی بیوی کو اشٹام کے ذریعے طلاق اول دی اور ابتدائی تمہید کے بعد یہ الفاظ تحریر کیے:”میں زید مسماۃ ہندہ بی بی کو طلاق اول دے کر اپنی زوجیت سے علیحدہ کرتا ہوں۔“اس جملے سے ایک طلاق ہوئی یا ایک سے زائد طلاقیں ہوئیں۔ عموما اشٹام فروش اسی طرح کی تحریر بناتے ہیں اور کہتے یہی ہیں کہ اس سے ایک طلاق ہوگی اور شوہر اس کو پڑھ کر بغیر سوچے سمجھے ایک ہی کی نیت سے دستخط کردیتا ہے۔

─── ◈☆◈ ───
الجواب بعون الملک الوھاب اللھم ھدایۃ الحق والصواب

بیان کی گئی صورت میں دو طلاقیں بائن واقع ہو چکی ہیں پہلےجملے ” طلاق دے کر “سے ایک طلاق رجعی جبکہ دوسرے جملے ” زوجیت سے علیحدہ کرتا ہوں” سے طلاق بائن اور اصول ہے کہ بائن رجعی کو لاحق ہوتی ہے لہذا رجعی بھی بائن ہو گئی اب اگر خاوند رجوع کرنا چاہتاہے تو اس سے پہلے اگر کوئی طلاق نہیں دی تو نئے مہر کے ساتھ نکاح جدید کرتےہوئےرجوع کر سکتا ہے اور آئندہ صرف ایک طلاق کا حق باقی ہے اگر طلاق دے گا تو ہمیشہ کے لئے حرام ہو جائے گی۔
وقار الفتاوی میں اسی طرح کے ایک سوال کے جواب میں مفتی وقار الدین علیہ الرحمہ فرماتے ہیں ” صورت مسؤلہ میں شحص مذکور کی بیوی پر دو طلاق بائن واقع ہو گئیں پہلی طلاق طلاق دیتا ہوں سے ہوئی اس کے بعد اس نے لکھا اپنی زوجیت سے علیحدہ کرتا ہوں اس سے طلاق بائن ہوئی اس لئے پہلی طلاق بھی بائن ہو گئی ” (وقار الفتاوی ، جلد3 ،ص 160، بزم وقار الدین ،)
تنویر الابصار میں ہے:
“الصریح یلحق الصریح ویلحق البائن بشرط العدۃ ”
ترجمہ: عدت کے اندر دی گئی صریح طلاق ،صریح طلاق کو لاحق ہوجاتی ہے اور طلاق صریح، بائن کو بھی لاحق ہو جاتی ہے.
(تنویر الابصار والدر المختار،کتاب الطلاق،باب الکنایات، جلد 4 ،ص 528 مکتبہ رشیدیہ کوئٹہ)
اس کے تحت علامہ شامی علیہ الرحمہ لکھتے ہیں
“واذا لحق الصریح البائن کان بائنا لأن البینونۃ السابقۃ علیہ تمنع الرجعۃ کما فی الخلاصہ ”
ترجمہ: جب طلاق صریح، طلاق بائن کو لاحق ہو تو وہ بھی طلاق بائن ہو جاتی ہے، کیونکہ پہلی بائنہ کے بعد رجوع ممنوع ہو جاتا ہے، جیسا کہ خلاصۃ الفتاوی میں ہے۔(رد المحتار،کتاب الطلاق،باب الکنایات، جلد4، ص 528، مکتبہ رشیدیہ کوئیٹہ )
امام اہلسنت علیہ الرحمہ نے اسی طرح کے ایک استفتاء کے جواب میں ارشاد فرمایا” اگر یہ بیان واقعی ہے تو دو طلاقیں بائن ہو گئیں عورت نکاح سے خارج ہوگی اگر پہلے کبھی اسے کوئی طلاق نہ دی تھی تو عورت کی مرضی سےاس سےدوبارہ جدید مہر کے ساتھ نکاح کر سکتا ہے اور پھر کبھی ایک طلاق دے گا تو تین ہو جائیں گی،اور بے حلالہ نکاح نہ کر سکے گا۔(فتاوی رضویہ، ج12،ص571 ،رضا فاؤنڈیشن لاہور)
اشٹام پیپر لکھنے والوں کو چاہیے کہ وہ ثواب آخرت کی امید رکھتے ہوئے اصلاح بین الزوجین کی کوشش کریں تاکہ اللہ تبارک وتعالیٰ زوجین کے مابین اتفاق پیدا فرما دے اگر طلاق دینا ضروری ہی ہو تو شرعی اصولوں کو مدنظر رکھتے ہوئے طلاق دی جائے نہ کہ شریعت کے ساتھ مقابلہ بازی کی جائے۔ ایک مسلمان شخص کو ہمیشہ یاد رکھنا چاہیے کہ طلاق کا مسئلہ شرعی پہلے ہے اور قانونی بعد۔ طلاق دینے سے پہلے کسی عالم دین سے رابطہ کرے،اشٹا م فروشوں کی باتوں میں نہ آئے یہ تین اکٹھی طلاقیں لکھ کر بھی اپنی جہالت میں کہہ رہے ہوتے ہیں ایک ہی ہوگی ۔
اشٹام فروشی کا کاروبار ہو یا کوئی بھی اس سے پہلے اس سے متعلقہ دین کے ضروری مسائل سیکھنا بہت ضروری ہے،چناچہ حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ تعالی عنہ فرمایا کرتے تھے،
قال عمر بن الخطاب لا یبیع في سوقنا إلا من قد تفقه في الدين
ترجمہ: ہمارے بازار میں صرف وہی خریدوفروخت کرے جو دین کی سمجھ بوجھ رکھتا ہے۔(سنن الترمزی جلد 2 ص 357)
واللہ تعالیٰ ورسولہ اعلم عزوجل وصلی الله تعالیٰ علیہ وسلم
ابوبکر نیلمی

اپنا تبصرہ بھیجیں