کیا روزے میں مسواک کرسکتے ہیں ؟ 

سوال: کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیانِ شرعِ متین اس مسئلے کے بارے میں کہ کیا روزے میں مسواک کرسکتے ہیں ؟  بینوا توجروا۔

 الجواب بعون الملک الوھاب اللھم ھدایۃ الحق والصواب۔

روزہ کی حالت میں بھی مسواک کرنا عام دنوں ہی کی طرح سنت ہے اس سے روزہ نہیں ٹوٹے گا چاہے زوال سے پہلے کی جائے یا بعد میں خشک ہو یا تر اگرچہ پانی سے تر کی ہوئی ہو البتہ چبانے سے ریشے ٹوٹتے ہوں یا ذائقہ محسوس ہوتا ہو تو چبانے سےبچنا چاہئے۔

درمختار میں ہے:”(و) لا (سواک ولو عشیا) او رطبا بالماء علی المذھب” ترجمہ: روزے میں مسواک کرنا مکروہ نہیں ہے چاہے زوال کے بعد کرے یا مسواک گیلی ہو صحیح مذہب کے مطابق۔

ولا سواک کے تحت رد المحتار میں ہے:”بل یسن للصائم کغیرہ” ترجمہ: بلکہ دوسروں کی طرح روزہ دار کے لئے بھی  مسواک کرنا سنت ہے۔(رد المحتار علی الدر المختار،جلد 3،کتاب الصوم،صفحہ 458،دار المعرفہ بیروت)

فتاوی قاضیخان میں ہے:”ولابأس بالسواک الرطب والیابس فی الغداۃ والعشی عندنا‘‘ ترجمہ:ہمارے نزدیک روزہ میں مسواک کرنے میں کوئی حرج نہیں چاہے مسواک خشک ہو یا تر خواہ صبح کی جائے یا شام میں۔(فتاوی قاضی خان،جلد 1،کتاب الصوم،الفصل الرابع فیما یکرہ للصائم وما لا یکرہ،صفحہ 182،دار الکتب العلمیۃ بیروت)

ھدایۃ میں ہے: “ولابأس بالسواک الرطب بالغداۃ والعشی للصائم لقولہ صلی اللہ علیہ وسلم خیر خلال الصائم السواک من غیر فصل” ترجمہ: روزہ دار کے لئے بھی تر مسواک کرنے میں کوئی حرج نہیں چاہے صبح کرے یا شام آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اس مطلق فرمان کی وجہ سے کہ روزے دار کے لئے بہترین خلال مسواک ہے۔

البنایہ شرح الھدایۃ میں “من غیر فصل” کے تحت ہے: “یعنی الحدیث مطلقا لم یفصل فیہ بین حال و حال” ترجمہ: یعنی حدیث میں کسی وقت یا حال کی قید نہیں ہے (کہ تر ہو یا نہ ہو زوال سے پہلے ہو یا بعد)۔ (البنایۃ شرح الھدایۃ،جلد 4، کتاب الصوم،باب ما یوجب القضاء الکفارہ، صفحہ 75، دار الکتب العلمیہ بیروت)

اعلی حضرت امام اہلسنت امام احمد رضا خان رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: ’’مسواک کرنا سنت ہے ہر وقت کرسکتا ہے اگرچہ تیسرے پہر یا عصر کو،چبانے سے لکڑی کے ریزے چھوٹیں یا مزہ محسوس ہو تو نہ چاہئے۔‘‘(فتاوی رضویہ،جلد 10،صفحہ 511،رضا فاؤنڈیشن لاہور)

واللہ اعلم عزوجل و رسولہ اعلم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم

 کتبہ: فراز عطاری مدنی بن محمد اسماعیل

اپنا تبصرہ بھیجیں