اگر کوئی رمضان المبارک میں سفرِ شرعی میں ہو تو اسے روزہ رکھنے کا کیا حکم ہے؟

استفتاء۔؛ کیا فر ما تے ہیں علمائے دین ومفتیانِ شرع متین اس مسئلہ میں کہ اگر کوئی رمضان المبارک میں سفرِ شرعی میں ہو تو اسے روزہ رکھنے کا کیا حکم ہے؟

بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

مسافر کو روزہ رکھنے یا نہ رکھنے کا اختیار ہے جب اس مسافر یا اس کے ساتھ والے کو اس روزہ رکھنے سے ضَرَر (نقصان) نہ ہو تب تو بہتر یہ ہے کہ روزہ رکھ لے اگر روزہ رکھنے سے اس کو یا ساتھ والے کو ضرر پہنچے تو اب نہ رکھنا بہتر ہے۔ لیکن یہ مسئلہ ذہن میں رہے کہ دن میں سفر کرنا ہو اور صبح صادق کے وقت مسافر شرعی نہ ہو تو دن میں سفر کرنے کی وجہ سے اس دن روزہ چھوڑنے کی رخصت نہیں بلکہ اس دن کا روزہ رکھنا ہوگا۔

قران پاک میں ہے۔۔

اَيَّامًا مَّعۡدُوۡدٰتٍؕ فَمَنۡ كَانَ مِنۡكُمۡ مَّرِيۡضًا اَوۡ عَلٰى سَفَرٍ فَعِدَّةٌ مِّنۡ اَيَّامٍ اُخَرَ‌ؕ وَعَلَى الَّذِيۡنَ يُطِيۡقُوۡنَهٗ فِدۡيَةٌ طَعَامُ مِسۡكِيۡنٍؕ فَمَنۡ تَطَوَّعَ خَيۡرًا فَهُوَ خَيۡرٌ لَّهٗ ؕ وَاَنۡ تَصُوۡمُوۡا خَيۡرٌ لَّـکُمۡ اِنۡ كُنۡتُمۡ تَعۡلَمُوۡنَ

معدودے چند دنوں میں ‘ سو جو شخص تم میں سے بیمار ہو یا مسافر (اور وہ روزے نہ رکھے) تو دوسرے دنوں میں عدد (پورا کرنا لازم ہے) اور جن لوگوں پر روزے رکھنا دشوار ہو (ان پر ایک روزہ کا) فدیہ ایک مسکین کا کھانا ہے ‘ پھر جو خوشی سے فدیہ کی مقدار بڑھا کر زیادہ نیکی کرے تو یہ اس کے لیے زیادہ بہتر ہے اور اگر تمہیں علم ہو تو روزہ رکھنا تمہارے لیے زیادہ بہتر ہے

سورة البقرہ آیت نمبر ١٨۴

صحیحین میں  اُم المومنین صدیقہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہا سے مروی ہے۔۔

حدثنا عبد الله بن يوسف،‏‏‏‏ أخبرنا مالك،‏‏‏‏ عن هشام بن عروة،‏‏‏‏ عن أبيه،‏‏‏‏ عن عائشة ـ رضى الله عنها ـ زوج النبي صلى الله عليه وسلم أن حمزة بن عمرو الأسلمي قال للنبي صلى الله عليه وسلم أأصوم في السفر وكان كثير الصيام‏.‏ فقال ‏”‏ إن شئت فصم،‏‏‏‏ وإن شئت فأفطر ‏”‏‏.‏

صحیحین میں  اُم المومنین صدیقہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہا سے مروی،

کہتی ہیں  حمزہ بن عمرو اسلمی بہت روزے رکھا کرتے تھے، انہوں  نے نبی کریم صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم سے دریافت کیا، کہ سفر میں  روزہ رکھوں ؟ ارشاد فرمایا: ’’چاہو رکھو، چاہے نہ رکھو۔

صحیح البخاري‘‘، کتاب الصوم، باب الصوم في السفر والإفطار،

الحدیث: ۱۹۴۳، ج۱، ص۶۴۰۔

اسی طرح بخاری شریف کی ایک اور روایت میں ہے

حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مَسْلَمَةَ ، عَنْ مَالِكٍ ، عَنْ حُمَيْدٍ الطَّوِيلِ ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ ، قَالَ :    كُنَّا نُسَافِرُ مَعَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ

فَلَمْ يَعِبْ الصَّائِمُ عَلَى الْمُفْطِرِ ، وَلَا الْمُفْطِرُ عَلَى الصَّائِمِ

.ہم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ  ( رمضان میں )  سفر کیا کرتے تھے۔  ( سفر میں بہت سے روزے سے ہوتے اور بہت سے بے روزہ ہوتے )  لیکن روزے دار بے روزہ دار پر اور بے روزہ دار روزے دار پر کسی قسم کی عیب جوئی نہیں کیا کرتے تھے۔

بخاری شریف ١٩۴٧

اور شامی میں ہے

(إن لم يضره)

فإن شق عليه أو على رفيقه فالفطر أفضل لموافقته الجماعة”.

اگر خود اُس مسافر کو اور اُس کے  ساتھ والے کو روزہ رکھنے میں  ضرر (یعنی نقصَان) نہ پہنچے توروزہ رکھنا سفر میں  بہتر ہے اور اگر دونوں یا اُن میں  سے کسی ایک کونقصان ہورہا

ہو تو روزہ نہ رکھنا بہتر ہے۔

  ((فتاوی شامی (2/ 423) کتاب الصوم، ط: سعید

أو لم ينو (فأقام ونوى الصوم

قبل الزوال (صح) مطلقاً، (ويجب عليه) الصوم

:  مسافر نے ضحوۂ کبریٰ سے پیشتر اقامت کی اور ابھی کچھ کھایا نہیں  تو روزہ کی نیّت کر لینا واجب ہے

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (2/ 431):

بہار شریعت میں ہے

دِن میں  اگر سفر کیا تواُس دِن کا روزہ چھوڑ دینے کیلئے آج کا سفر عذر نہیں ۔ البتہ اگر دَورانِ سفر توڑ دیں گے توکفارہ لازِم نہ آئے گا مگر گناہ ضرور ہوگا۔ ( عالمگیری ج۱ص۲۰۶)   اور روزہ قضا کرنا فرض رہے گا۔

(بہار شریعت ح ۵ ص 1008.ایپ)

واللہ اعلم و رسولہ اعلم عزوجل صلی اللہ علیہ والہ وسلم

مجیب ۔؛ مولانا فرمان رضا مدنی

اپنا تبصرہ بھیجیں