سحری ختم ہونے کے بعد اذان کی آواز تک کھانا کیسا ہے؟

سحری ختم ہونے کے بعد اذان کی آواز تک کھانا کیسا ہے؟

الجواب بعون الملک الوھاب اللھم ھدایۃ الحق والصواب۔

بسم اللہ الرحمن الرحیم

سحری کا وقت صبح صادق کے طلوع ہونے تک ہے اگر کوئی سحری کے وقت کے بعد کھاتا پیتا ہے اسکا کوئی روزہ نہیں اگرچہ وہ ایک لقمہ کھانا یا ایک گھونٹ پانی ہی پیے۔

اللہ تبارک و تعالی نے سورت بقرہ کی آیت نمبر 187میں فرمایا :

كُلُوا وَاشْرَبُوا حَتَّى يَتَبَيَّنَ لَكُمُ الْخَيْطُ الْأَبْيَضُ مِنَ الْخَيْطِ الْأَسْوَدِ مِنَ الْفَجْرِ

ترجمہ:’’کھاؤاورپیو یہاں تک کہ صبح کی سفیددھاری سیاہ دھاری سے ممتاز ہوکرتم پر واضح ہوجائے‘‘

اس آیت میں سحری کےختم ہونے کا وقت بتایا گیاہےاوراس کی تفسیر کرتےہوئےمفسرین نے’’الخیط الابیض‘‘ سے مراد صبح کاذب اور ’’الخیط الاسود‘‘ سے مراد صبح صادق بتایاہے،لہذا معلوم ہواکہ اللہ تبارک وتعالی نے اس آیت میں سحری کےختم ہونےکا وقت صبح صادق کاطلوع ہونابتایاہے۔

تفسیربغوی  میں اسی آیت کی تفسیرمیں مزیدواضح کیا کہ فجر کی دو قسمیں ہیں:

واعلم أن الفجر فجران كاذب وصادق، فالكاذب يطلع أولا مستطيلا كذنب السرحان يصعد إلى السماء فبطلوعه لا يخرج الليل ولا يحرم الطعام والشراب على الصائم، ثم يغيب فيطلع بعده الفجر الصادق مستطيرا ينتشر سريعا في الأفق، فبطلوعه يدخل النهار ويحرم الطعام والشراب علىالصائم.

1.فجرِکاذب یا صبح کاذب:وہ روشنی جوآسمانِ افق میں بلندی کی طرف (طولاً)نظرآتی ہےاور اس کے طلوع ہونے سے نہ تو رات ختم ہوتی ہے،نہ نماز فجرجائزہےاور نہ ہی روزہ دار پرکھاناپیناحرام ہوتا ہے۔

2.فجرِصادق یا صبح صادق:وہ روشنی جوآسمانِ افق پر(عرضا)نظرآئے،اور اس کے طلوع ہونے سےرات ختم ہوکر دن شروع ہو جاتا ہے، سحری کا وقت ختم کر روزہ دار پر کھاناپینا حرام ہوجاتا ہےاورنماز فجرکاوقت شروع ہوجاتا ہے

تفسير البغوي بیروت– (1 / 208):

تفاسیر اور احادیث کی کتابوں میں یہ بات تفصیل سےمذکور ہے کہ حضرت محمد مصطفی ﷺ کے دور میں ایک اذان حضرت بلال دیتے تھے جوتہجداورسحری کی اطلاع کیلئے ہوتی تھی،اوردوسری اذان حضرت عبداللہ ابن ام مکتوم دیتے تھےجوفجرِ(صبح)صادق کےطلوع ہونےکے بعد دیتے تھے،

۔ صحيح مسلم میں ہے

لا يغرنكم من سحوركم أذان بلال ولا بياض الأفق المستطيل هكذا حتى يستطير هكذا وحكاه حماد بيديه قال يعني معترضا

حضرت بلال کی ازان تمہیں تمہاری سحری سے دھوکے میں نہ ڈالے اور نہ ہی لمبائی میں نظر آنے والی افق کی روشنی اسی طرح یہانتک کہ وہ پھیل جائے اسطرح امام حماد نے ہاتھوں کو چوڑا کرتے ہوئے بیان کیا

صحيح مسلم – عبد الباقي بیروت– (2 / 770)

مرقاة المفاتيح شرح مشكاة المصابيح میں ہے

(عَنِ ابْنِ عُمَرَ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: (إِنَّ

بِلَالًا يُنَادِي) أَيْ: يَذْكُرُ وَقَالَ ابْنُ الْمَلَكِ: يُؤَذِّنُ (بِلَيْلٍ) أَيْ: فِيهِ يَعْنِي لِلتَّهَجُّدِ أَوْ لِلسُّحُورِ، لِمَا وَرَدَ فِي خَبَرِ: ” إِنَّهُ نُهِيَ عَنِ الْأَذَانِ قَبْلَ الْفَجْرِ ” وَإِنْ قِيلَ بِضَعْفِهِ ” (فَكُلُوا وَاشْرَبُوا حَتَّى يُنَادِيَ ابْنُ أُمِّ مَكْتُومٍ) اسْمُهُ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ قَيْسٍ، وَكَانَ يُنَادِي بَعْدَ طُلُوعِ الْفَجْرِ الصَّادِقِ،

حضرت ابن عمر روایت کرتے ہیں فرماتے ہیں رسول ﷺ  نے فرمایا کہ بلال رات کو ازان دیتا ہےیعنی سحری اور تہجد کے لیے۔اور روایت میں وارد ہوا کہ آپ کی ضعف کی وجہ سے آپ کو ازان سے منع کیا گیا

۔پس کھاو اور پیو یہانتک کہ حضرت ابن ام مکتوم ازان دے دیں

اور حضرت ابن ام مکتوم طلوع فجر صادق کے بعد ازان دیتے تھے

مرقاة المفاتيح شرح مشكاة المصابيح – (2 / 573): 680 –

(5)۔۔۔جہاں تک ابوداؤد میں موجودحدیث(إِذَا سَمِعَ أَحَدُكُمُ النِّدَاءَ وَالإِنَاءُ عَلَى يَدِهِ فَلاَ يَضَعْهُ حَتَّى يَقْضِىَ حَاجَتَهُ مِنْهُ،’’جب تم میں سے کوئی(فجرکی) اذان سنےاور(کھانے یا پینے)کابرتن اس کے ہاتھ میں ہوتواسے نہ رکھے ،بلکہ اس سے اپنی ضرورت پوری کرلے‘‘) کاتعلق ہے تویہ صرف ظاہری طورپرمذکورہ بالا آیت ِقرآنی اور احادیث کے خلاف نظر آتی ہے،لیکن حقیقت میں دونوں میں کوئی تعارض نہیں ہےکیونکہ حدیث کی اہم کتاب’’مشکوۃ‘‘ کی شرح ’’مرعاۃ‘‘ میں اس حدیث کی تشریح میں لکھاہےکہ ’’النداء‘‘سے مراد حضرت بلال کی اذان ہے جوکہ صبح صادق سے پہلےصبح کاذب کے وقت دی جاتی تھی

 مشكاة المصابيح مع شرحه مرعاة المفاتيح – (6 / 931):

المراد بالنداء الأذان الأول أي أذان بلال قبل الفجر لقوله {صلى الله عليه وسلم} إن بلالاً يؤذن بليل فكلوا وأشربوا حتى يؤذن ابن أم مكتوم

النداء‘‘سے مراد حضرت بلال کی اذان ہے جوکہ صبح صادق سے پہلےصبح کاذب کے وقت دی جاتی تھی

پس کھاو اور پیو یہانتک کہ حضرت ابن ام مکتوم ازان دے دیں

اور حضرت ابن ام مکتوم طلوع فجر صادق کے بعد ازان دیتے تھے

مشكاة المصابيح مع شرحه مرعاة المفاتيح – (6 / 931

امیر اہلسنت دامت برکاتہم فیضان رمضان ص٣٩ پر ارشاد فرماتے ہیں

بعض لوگ صبح صادِق کے  بعد فجر کی اذان کے  دوران کھاتے پیتے رہتے ہیں ،  اور بعض کان لگا کر سنتے ہیں کہ ابھی فلاں مسجِد کی اذان ختم نہیں ہوئی یا کہتے ہیں :  وہ سنو! دُور سے اذان کی آواز آرہی ہے! اور یوں کچھ نہ کچھ کھا لیتے ہیں ۔ اگر کھاتے نہیں تو پانی پی کر اپنی اِصطلاح میں   ’’ روزہ بند  ‘‘  کرتے ہیں ۔ آہ ! اِس طرح  ’’ روزہ بند‘ ‘ تو کیاکریں گے روزے کو بالکل ہی  ’’ کھلا ‘‘  چھوڑ دیتے ہیں اور یوں صبح صادق کے  بعد کھایا پی لینے کے  سبب ان کا روزہ ہوتا ہی نہیں ، اور سارادن بھوک پیاس کے  سوا کچھ ان کے  ہاتھ آتا ہی نہیں ۔ ’’  روزہ بند  ‘‘ کرنے کا تعلق اَذانِ فجر سے نہیں صبح صادِق سے پہلے پہلے کھانا پینا بند کرنا ضروری ہے،

واللہ اعلم و رسولہ اعلم عزوجل صلی اللہ علیہ والہ وسلم

مجیب ۔؛ مولانا فرمان رضا مدنی

اپنا تبصرہ بھیجیں