روزے کی حالت میں صحبت کرنے پر کفارہ

کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین اس مسئلہ کے بارے میں کہ ایک شخص جس کا ایک لڑکی سےصرف نکاح ہوا تھا رخصتی نہیں ہوئی تھی ماہ رمضان میں ایک ساتھ کہیں آؤٹنگ پرگئےاور وہاں انہوں نے حالت روزہ میں آپس میں جماع کرلیا تواس صورت میں ان دونوں کاروزے کے کفارے کا کیا حکم ہے کیا ؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

    بیان کردہ صورت میں دونوں سخت گناہ گار ہوئے اور ان دونوں پر روزے کی قضا اورکفارہ لازم ہیں اور توبہ بھی کریں۔کفارہ میں ساٹھ لگاتار روزے رکھنا ہوں گے اوربطور قضا ایک روزہ  یعنی ہر ایک نے کل اکسٹھ روزے رکھنا ہیں۔      روزہ توڑنےکاکفارہ وہی ہے، جوظہار کاکفارہ ہےیعنی لگاتار ساٹھ روزےرکھےاور اگراس پرقادرنہ ہو ، توساٹھ مسکینوں کودو وقت کاکھانا (یااس کی رقم)دے۔ جو ساٹھ لگاتار روزے رکھ سکتا ہو وہ فقیروں کو کھانا نہیں کھلاسکتا بلکہ روزے ہی رکھنا لازم ہیں ۔

      اللہ تعالی ارشادفرماتاہے:

﴿فَمَنۡ لَّمْ یَجِدْ فَصِیَامُ شَہۡرَیۡنِ مُتَتَابِعَیۡنِ مِنۡ قَبْلِ اَنۡ یَّتَمَآسَّا فَمَنۡ لَّمْ یَسْتَطِعْ فَاِطْعَامُ سِتِّیۡنَ مِسْکِیۡنًا﴾

 ترجمہ:پھرجسےبردہ نہ ملےتولگاتاردومہینےکےروزے،قبل اس کےکہ ایک دوسرے کوہاتھ لگائیں پھرجس سےروزےبھی نہ ہوسکیں توساٹھ مسکینوں کاپیٹ بھرنا۔(القرآن،سورۃ المجادلہ،پارہ28،آیت4)

      حدیث پاک میں ہے :

 ”عن ابی هريرة ان النبی صلى الله عليه وسلم امرالذی افطر يومامن رمضان بكفارةالظهار“

ترجمہ:حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سےروایت ہےکہ ایک شخص نےرمضان کاروزہ توڑاتونبی صلی اللہ علیہ وسلم نےاسےظہارکاکفارہ اداکرنےکاحکم دیا۔(سنن دارقطنی،کتاب الصیام،باب القبلۃ للصائم،جلد3،صفحہ167،بیروت)

      بخاری شریف میں ہے

”أَنَّ أَبَا هرَیْرَة قَالَ بَیْنَمَا نَحْنُ جُلُوسٌ عِنْدَ النَّبِيِّ إِذْ جَائَه رَجُلٌ فَقَالَ یَا رَسُولَ اﷲِ هلَکْتُ قَالَ مَا لَکَ قَالَ وَقَعْتُ عَلَی امْرَأَتِي وَأَنَا صَائِمٌ فَقَالَ رَسُولُ اﷲِ هلْ تَجِدُ رَقَبَة تُعْتِقُها؟ قَالَ لَا. قَالَ فَهلْ تَسْتَطِیعُ أَنْ تَصُومَ شَهرَیْنِ مُتَتَابِعَیْنِ؟ قَالَ لَا. فَقَالَ فَهلْ تَجِدُ إِطْعَامَ سِتِّینَ مِسْکِینًا؟ قَالَ لَا. قَالَ فَمَکَثَ النَّبِيُّ فَبَیْنَا نَحْنُ عَلَی ذَلِکَ أُتِيَ النَّبِيُّ بِعَرَقٍ فِیه تَمْرٌ وَالْعَرَقُ الْمِکْتَلُ قَالَ أَیْنَ السَّائِلُ؟ فَقَالَ أَنَا. قَالَ خُذُ هذَا فَتَصَدَّقْ بِه فَقَالَ الرَّجُلُ أَعَلَی أَفْقَرَ مِنِّي یَا رَسُولَ اﷲِ فَوَاﷲِ مَا بَیْنَ لَابَتَیْها یُرِیدُ الْحَرَّتَیْنِ أَهلُ بَیْتٍ أَفْقَرُ مِنْ أَهلِ بَیْتِي. فَضَحِکَ النَّبِيُّ حَتَّی بَدَتْ أَنْیَابُه ثُمَّ قَالَ أَطْعِمْه أَهلَکَ“

ترجمہ:  حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ روایت کرتے ہیں کہ ہم حضور اکرم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ و سلم کی بارگاہِ اقدس میں حاضر تھے کہ ایک شخص مجلس میں آیا اور عرض کرنے لگا: یا رسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ و سلم! میں ہلاک ہو گیا۔ آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ و سلم نے پوچھا: تیرے ساتھ کیا واقعہ پیش آیا؟ اس نے عرض کیا کہ میں رمضان المبارک میں بحالت روزہ اپنی بیوی سے جماع کر بیٹھا ہوں۔ آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ و سلم نے فرمایا: کیا تیرا کوئی غلام ہے جسے تو (اس کے کفارے میں) آزاد کردے؟ وہ عرض کرنے لگا: نہیں یارسول اﷲ۔ آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ و سلم نے پوچھا: کیا تو مسلسل دو مہینے کے روزے رکھ سکتا ہے؟ اس نے عرض کی: نہیں۔ آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ و سلم نے پوچھا: ساٹھ مسکینوں کو کھانا کھلا سکتا ہے؟ اس نے عرض کیا: نہیں۔ پھر وہ بیٹھا رہا یہاں تک کہ آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ و سلم کے پاس ایک ٹوکرا کھجور کا آیا۔ آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ و سلم نے پوچھا: سائل کہاں گیا؟ وہ کہنے لگا: حاضر ہوں۔ آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ و سلم نے فرمایا: یہ تھیلا لے جا اور خیرات کر دے۔ وہ کہنے لگا خیرات تو اس پر کروں جو مجھ سے زیادہ محتاج ہو۔ خدا کی قسم مدینے کی اس پوری بستی میں مجھ سے بڑھ کر کوئی محتاج نہیں۔ اس پر آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ و سلم مسکرائے یہاں تک کہ دندان مبارک اندر تک نظر آنے لگے، پھر آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ و سلم نے فرمایا: اسے لے جا اور اپنے گھر والوں کو کھلا (تیرا کفارہ ادا ہو جائے گا)۔(صحیح البخاری، کتاب الصوم ، باب سزا جامع فی رمضان ولم یکن لہ شئ فتصدق علیہ فلیکفر جلد2،صفحہ684،مطبوعہ کراچی)

        خلاصۃالفتاوی میں ہے :

 ”كفارة الفطر وكفارة الظهار واحدة ، وهی عتق رقبة مؤمنة او كافرة فان لم يقدرعلى العتق فعليه صيام شهرين متتابعين،وان لم يستطع فعليه اطعام ستين مسكينا “

 ترجمہ:روزہ توڑنےاور ظہارکاکفارہ ایک ہی ہےکہ مسلمان یاکافرگردن آزادکرے،اگراس پرقدرت نہ ہوتودوماہ کےلگاتارروزےرکھے اوراگراس پربھی قدرت نہ ہوتو ساٹھ مسکینوں کوکھانادے۔(خلاصۃالفتاوی،کتاب الصوم،الفصل الثالث،ج1،ص261،مطبوعہ کوئٹہ)

روزےکےکفارےکی شرائط کےمتعلق مفتی امجدعلی اعظمی علیہ رحمۃاللہ القوی ارشادفرماتےہیں:

”رمضان میں روزہ دار مکلف مقیم نے کہ ادائے روزہ رمضان کی نیت سے روزہ رکھا اور کسی آدمی کے ساتھ جو قابل شہوت ہے اس کے آگے یا پیچھے کے مقام میں جماع کیا۔۔یا کوئی غذا یا دوا کھائی یا پانی پیایاکوئی چیز لذت کے لئے کھائی تو ان سب صورتوں میں روزہ کی قضااور کفارہ دونوں لازم ہیں ۔۔جس جگہ روزہ توڑنےسےکفارہ لازم آتاہےاس میں شرط یہ ہے کہ رات ہی سےروزہ رمضان کی نیت کی ہو، اگردن میں نیت کی اورتوڑدیاتوکفارہ لازم نہیں۔۔کفارہ لازم ہونےکےلیے یہ بھی ضرورہےکہ روزہ توڑنےکےبعدکوئی ایساامرواقع نہ ہواہو،جوروزہ کےمنافی ہویابغیراختیارایساامرنہ پایاگیاہو،جس کی وجہ سےروزہ افطار کرنےکی رخصت ہوتی، مثلاعورت کواسی دن میں حیض یانفاس آگیایاروزہ توڑنےکےبعداسی دن میں ایسابیمارہوگیاجس میں روزہ نہ رکھنےکی اجازت ہےتوکفارہ ساقط ہے۔“ (بہارشریعت،جلد1،صفحہ991،مکتبۃالمدینہ،کراچی)

وَاللہُ اَعْلَمُ  عَزَّوَجَلَّ  وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم

کتبہ

 محمد افضل عطاری مدنی

22۔ رمضان المبارک 1444ھ

13۔ اپریل 2023ء

اپنا تبصرہ بھیجیں