کیا جب تک بیوی نہ سنے تو طلاق نہیں ہوتی، ساٹھ بندوں کو کھانا کھلا دو تو طلاق کا کفارہ ہوجاتا ہے

سوال: کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیانِ شرعِ متین مسئلہ ذیل میں آج کل جو کہا جاتا ہے کہ جب تک بیوی نہ سنے تو طلاق نہیں ہوتی، ساٹھ بندوں کو کھانا کھلا دو تو طلاق کا کفارہ ہوجاتا ہے، اسی طرح کی اور باتیں لوگوں میں مشہور ہیں شرعا کیا یہ باتیں درست ہیں؟ بینوا توجروا۔

 الجواب بعون الملک الوھاب اللھم ھدایۃ الحق والصواب۔

عموماً آج کل طلاق دینے کے بعد لوگ اس طرح حیلے بہانے کرتے ہیں، یا پھر گھر کے بڑے یا گاؤں کے بڑے اس طرح کہتے ہیں کہ جب تک بیوی نہ سنے تو طلاق نہیں ہوتی یا پھر ساٹھ بندوں کو کھانا کھلا دو تو طلاق کا کفارہ ادا ہو جاتا ہے وغیرہ وغیرہ۔ یہ سب باتیں بے اصل ہیں ان کی کوئی حقیقت نہیں، شرعاً ان کی کوئی اہمیت نہیں ہے۔ جب ایک مرتبہ طلاق دے دی تو وہ واقع ہو جاتی ہے خواہ بیوی سنے یا نہ سنے، مذاق میں کہی ہو یا پھر غصے میں۔  اب اگر ایک یا دو طلاقیں دی ہیں تو عدت کے اندر رجوع کر سکتا ہے، اس کے لئے ساٹھ بندوں کو کھانا کھلانا ضروری نہیں۔

اللہ پاک قرآنِ پاک میں ارشاد فرماتا ہے:

” اَلطَّلَاقُ مَرَّتٰنِ۪ فَاِمْسَاكٌۢ بِمَعْرُوْفٍ اَوْ تَسْرِیْحٌۢ بِاِحْسَانٍؕ”

ترجمہ کنزالایمان: یہ طلاق دو بار تک ہے پھر بھلائی کے ساتھ روک لینا ہے یا نکوئی (یعنی بھلائی) کے ساتھ چھوڑ دینا ہے۔(پ 02، البقرہ، 229)

اور اگر تین طلاقیں دے دیں ہیں تو پھر وہ عورت اپنے شوہر حرام ہو گئی سوائے حلالہ کے کوئی صورت رجوع کی نہیں ہے۔ ساٹھ تو کیا ہزار مساکین کو بھی کھانا کھلا دے، تب بھی عورت حرام رہے گی۔

اللہ تبارک و تعالیٰ نے قرآن پاک میں ارشاد فرمایا:

” فَاِنْ طَلَّقَهَا فَلَا تَحِلُّ لَهٗ مِنْۢ بَعْدُ حَتّٰى تَنْكِحَ زَوْجًا غَیْرَهٗؕ “.

ترجمہ کنزالایمان: پھر اگر تیسری طلاق اسے دی تو اب وہ عورت اسے حلال نہ ہوگی جب تک دوسرے خاوند کے پاس نہ رہے۔

اس آیت کے تحت تفسیرِ صراط الجنان میں ہے:

تین طلاقوں کے بعد عورت شوہر پر حرمتِ غلیظہ کے ساتھ حرام ہو جاتی ہے، اب نہ اس سے رجوع ہوسکتا ہے اور نہ دوبارہ نکاح جب تک یہ نہ ہو کہ عورت عدت گزار کر کسی دوسرے مرد سے نکاح کرے اور وہ دوسرا شوہر صحبت کے بعد طلاق دے یا وہ فوت ہوجائے اور عورت پھر اس دوسرے شوہر کی عدت گزارے۔ (پ 02، البقرہ، تحت الآیۃ 230)

عَنْ عَامِرٍ الشَّعْبِيِّ، قَالَ: قُلْتُ لِفَاطِمَةَ بِنْتِ قَيْسٍ: حَدِّثِينِي عَنْ طَلَاقِكِ، قَالَتْ: «طَلَّقَنِي زَوْجِي ثَلَاثًا، وَهُوَ خَارِجٌ إِلَى الْيَمَنِ، فَأَجَازَ ذَلِكَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ»۔

ترجمہ: حضرت عمر شعبی سے روایت ہے کہتے ہیں کہ میں نے فاطمہ بنت قیس سے عرض کی مجھے اپنی طلاق کے بارے میں بتائیے تو انہوں نے فرمایا ” مجھے میرے شوہر نے تین طلاقیں دے دیں اس حال میں کہ وہ یمن سے باہر تھے تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کو جائز قرار دیا۔

(سنن ابن ماجه، جلد 01، صفحه 652، مطبوعه دار احياء الكتب العربية )

قَالَ اللَّيْثُ: حَدَّثَنِي نَافِعٌ، قَالَ: كَانَ ابْنُ عُمَرَ، إِذَا سُئِلَ عَمَّنْ طَلَّقَ ثَلَاثًا، قَالَ: «لَوْ طَلَّقْتَ مَرَّةً أَوْ مَرَّتَيْنِ، فَإِنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَمَرَنِي بِهَذَا، فَإِنْ طَلَّقْتَهَا ثَلَاثًا حَرُمَتْ حَتَّى تَنْكِحَ زَوْجًا غَيْرَكَ»

ترجمہ: امام لیث کہتے ہیں مجھے حضرت نافع علیہ الرحمہ نے حدیث بیان کرتے ہوئے کہا ” جب ابن عمر رضی ﷲ عنھما سے اس شخص کے بارے میں پوچھا گیا جس نے اپنی بیوی کو تین طلاقیں دی تھیں تو آپ رضی ﷲ عنہ نے فرمایا اگر تو نے ایک یا دو طلاقیں دی ہوتی تو رجوع ہو سکتا تھا کیونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے اسی کا حکم فرمایا تھا اور جبکہ تو نے تین طلاقیں دے دی ہیں تو تیری بیوی حرام ہو گئی جب تک کہ وہ تیرے علاوہ کسی سے نکاح نہ کرے ۔

(صحیح البخاری، جلد 07، صفحہ 43، مطبوعہ دار طوق النجاۃ)

” ہدایہ و مختصر القدوری ” میں ہے

” الطلاق على ثلاثة أوجه حسن وأحسن وبدعي فالأحسن أن يطلق الرجل امرأته تطليقة واحدة في طهر لم يجامعها فيه ويتركها حتى تنقضي عدتها “

” والحسن هو طلاق السنة وهو أن يطلق المدخول بها ثلاثا في ثلاثة أطهار “

” وطلاق البدعة أن يطلقها ثلاثا بكلمة واحدة أو ثلاثا في طهر واحد فإذا فعل ذلك وقع الطلاق وكان عاصيا “

ترجمہ: طلاق کی تین قسمیں ہیں. (01) حسن (02) احسن (03) بدعی

احسن یہ ہے کہ مرد اپنی بیوی کو ایک طلاق دے ایسے طھر میں جس میں وطی نہ کی ہو اور پھر عورت کو چھوڑ دے یہاں تک کہ عدت گزر جائے۔

حسن یہ طلاقِ سنت ہے اور وہ یہ ہے کہ مدخول بھا عورت (یعنی وہ عورت نکاح کے بعد جس سے خلوت و صحبت ہوئی ہو) کو تین طھروں میں تین تین طلاقیں دے اور طلاقِ بدعت یہ ہے کہ مرد عورت کو ایک کلمے کے ساتھ تین طلاقیں دیں یا پھر ایک طھر میں تین طلاقیں دے، اگر کوئی ایسا کرے گا تو طلاق واقع ہو جائے گی مگر گنہگار ہو گا۔

( الھدایۃ في شرح البداية، جلد 01، صفحه 221، مطبوعه دار احياء التراث العربي -بیروت- لبنان اختصاراً )

میرے آقا امام اہل سنت اعلی حضرت الشاہ امام احمد رضا خان علیہ رحمۃ اللہ الحنان فرماتے ہیں: ” غصّہ مانعِ وقوعِ طلاق نہیں، بلکہ اکثر وہی طلاق پر حامل ہوتا ہے، تو اسے مانع قرار دینا گویا حکمِ طلاق کا راساً ابطال ہے۔

(فتاوی رضویہ،جلد12،صفحہ383،رضافاؤنڈٰیشن،لاھور)

ایک اور مقام پر ارشاد فرماتے ہیں: ” طلاق کے لیے زوجہ خواہ کسی دوسرے کا سننا ضرور نہیں، جبکہ شوہر نے اپنی زبان سے الفاظِ طلاق ایسی آواز سے کہے ، جو اس کے کان تک پہنچنے کے قابل تھے (اگر چہ کسی غل شور یا ثقل سماعت کے سبب نہ پہنچے ) عنداللہ طلاق ہو گئی ۔عورت کوخبر ہو ، تو وہ بھی اپنے آپ کو مطلّقہ جانے ۔“

(فتاوی رضویہ، جلد 12، صفحہ 362، مطبوعہ  رضا فاؤنڈیشن لاھور)

طلاق ثلاثہ کا تحقیقی جائزہ میں ہے:” بعض لوگ حیلے بہانے بنانے کی کوشش کرتے ہیں ،نفس کہے گا شریعت میں اتنی سختی نہیں ، لہٰذا غلطی سے یا پتہ نہ ہو ، تو طلاق نہیں ہوتی ،بعض رشتہ دار دوست احباب اسے کہتے ہیں : ” ساٹھ مساکین کو کھانا کھلا دو رجوع ہو جائے گا“،

بعض کہتے ہیں : ’’ غصے اورحمل کی حالت میں طلاق نہیں ہوتی ، جب تک بیوی نہ سنے یا طلاق نامہ وصول نہ کرے ، طلاق ہوتی ہی نہیں “حالانکہ یہ سب غلط ہے ۔“(طلاق ثلاثہ کا تحقیقی جائزہ،صفحہ12، مکتبہ اشاعۃ الاسلام،لاهور)

واللہ اعلم عزوجل و رسولہ الکریم اعلم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم

                 کتبہ

سگِ عطار محمد رئیس عطاری بن فلک شیر غفرلہ

اپنا تبصرہ بھیجیں