کیا تین طلاقوں کے بعد رجوع کی کوئی صورت ہے؟

کیافرماتے ہیں علمائے دین اس مسئل کے بارے میں کہ بعض لوگوں میں طلاق کےحوالے سے یہ جو مشہور ہے کہ ساٹھ بندوں کو کھانا کھلادیں اس کی کیا اصل ہے ،کیا تین طلاقوں کے بعد رجوع کی کوئی صورت ہے؟

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

مرد کے لئے رجوع کا حق دو طلاق تک ہے تین طلاقوں کے بعد عورت شوہر پر حرمت ِ غلیظہ کے ساتھ حرام ہوجاتی ہے، اب نہ اس سے رجوع ہوسکتا ہے اورنہ دوبارہ نکاح.

جب تک یہ نہ ہو کہ عورت عدت گزار کر کسی دوسرے مرد سے نکاح کرے اور وہ دوسرا شوہر صحبت کے بعد طلاق دے یا وہ فوت ہوجائے اورعورت پھر اس دوسرے شوہر کی عدت گزارے۔

 لہذا ساٹھ بندوں کو کھانا کھلانے کا مسئلہ لوگوں نے خود سے نکال لیا ہے شرعا اس کی کوئی حیثیت نہیں۔ یہ سراسر قرآن و حدیث کے خلاف ہے.

اللہ پاک قرآن پاک میں ارشاد ہوتا ہے:

اَلطَّلَاقُ مَرَّتٰنِ۪-فَاِمْسَاكٌۢ بِمَعْرُوْفٍ اَوْ تَسْرِیْحٌۢ بِاِحْسَانٍؕ

طلاق دو بار تک ہے پھر بھلائی کے ساتھ روک لینا ہے یااچھے طریقے سے چھوڑ دینا ہے

(پ 2 سورۃ بقرہ آیت 292 )

اس سے اگلی آیت میں اللہ پاک قرآن پاک میں ارشاد فرماتا ہے :

فَاِنْ طَلَّقَهَا فَلَا تَحِلُّ لَهٗ مِنْۢ بَعْدُ حَتّٰى تَنْكِحَ زَوْجًا غَیْرَهٗؕ-

پھر اگر شوہر بیوی کو (تیسری) طلاق دیدے تو اب وہ عورت اس کیلئے حلال نہ ہوگی جب تک دوسرے خاوند سے نکاح نہ کرے،

(پ 2 سورۃ بقرہ آیت 230)

امام بغوی نے تفسیر معالم التنزیل میں فرمایا کہﷲ تعالٰی کا ارشاد” اَلطَّلٰقُ مَرَّتَانِ۪ الخ”الآیۃ کا شانِ نزول یہ ہے جس کو حضرت عروہ بن زبیر رضی تعالٰی عنہ نے بیان فرمایا کہ لوگ ابتداء میں بے شمار اور لاتعداد طلاقیں دیتے تھے،اور کوئی بھی شخص بیوی کو طلاق دے کر عدت ختم ہونے کے قریب رجوع کرلیتا اور پھرطلاق دے دیتا اور یوں بار بار کرتا رہتا جس کا مقصد بیوی کو تنگ کرنا تھاتو یہ آیہ کریمہ نازل ہوئی،یعنی وہ طلاق جس کے بعد خاوند رجوع کرسکتا ہے وہ دوبارہے،اور جب تین طلاقیں پوری کردے تو اس کےلئے بیوی حلال نہ ہوگی مگر بیوی دوسرے شخص سے نکاح کرے تو اس کے بعد حلال ہوسکے گی۔

( معالم التنزیل علٰی حاشیۃ تفسیر الخازن تفسیر آیۃ الطلاق مرتٰن الخ ج 1ص227 مطبوعہ مصطفی البابی مصر)

امام رازی علیہ الرحمۃ نے تفسیر کبیر میں اسی آیت کے تحت فرمایا:

مسئلہ اولٰی،یہ کہ جاہلیت میں مرد بیوی کو طلاق دے کر پھرعدت کے خاتمہ کے قریب رجوع کرلیتا اور اس طرح ہزار طلاق بھی ہوتی تب بھی خاوند کو رجوع کا اختیار رہتا،تو ایك عورت حضرت عائشہ رضیﷲ تعالٰی عنہا کی خدمت میں آئی اور اس نے اپنے خاوند کی شکایت کی کہ وہ طلاق دے کر عدت ختم ہونے سے قبل رجوع کرلیتا ہے اور تنگ کررہا ہے تو حضرت عائشہ رضیﷲ تعالٰی عنہا نے یہ واقعہ رسولﷲ صلیﷲ تعالٰی علیہ وسلم کو بیان کیا تو اس پر یہ آیہ کریمہ نازل ہوئی الطلاق مرتان،الآیۃ۔

(تفسیر کبیر زیر آیۃ الطلاق مرتان الخ ج6 ص102 المطبعۃ البہیۃ المصریۃ بمصر )

احادیث میں بھی اس کا بیان موجود ہے

جامع ترمذی میں امام ترمذی نے حضرت ام المومنین عائشہ رضیﷲ تعالٰی عنہا سے روایت کیا،انہوں نے فرمایا کہ لوگ اپنی بیوی کو جتنی چاہتے طلاقیں دیتے اس کے باوجود وہ بیوی رہتی جبکہ وہ عدت کے دوران رجوع لیتا،اگرچہ سومرتبہ یا اس سے بھی زائد طلاقیں دے چکا ہوتا حتی کہ ایک شخص نے اپنی بیوی کو کہا کہ خدا کی قسم میں تجھے طلاق نہ دوں کہ تو جدا ہوجائے اور نہ ہی تجھے پاس رکھوں تو ہمیشہ ایسے ہی رہے گی،بیوی نے پوچھا وہ کیسے؟ تو اس نے کہا میں تجھے طلاق دے کر عدت ختم ہونے سے قبل جب عدت ختم ہونیوالی ہوگی تو رجوع کرلوں گا،تواس عورت نے جاکر حضرت عائشہ رضیﷲ تعالٰی عنہا سے یہ شکایت کی،یہ سن کر حضرت عائشہ رضیﷲ تعالٰی عنہا خاموش ہوگئیں حتی کہ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام تشریف لائے تو انہوں نے حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کو اس بات پر مطلع کیا جس پر آپ نے سکوت فرمایا حتی کہ یہ آیہ کریمہ نازل ہوئی الطلاق مرتٰن الخ،

(جامع الترمذی ابواب الطلاق الثلاث ج1 ص143 امین کمپنی کتب خانہ رشیدیہ دہلی)

 امام بیہقی نے حضرت ام المومنین رضیﷲتعالٰی عنہا سے روایت کی،آپ نے بیان کیا کہ بیوی کو طلاق دینے اور پھر رجوع کرنے کا کوئی ضابطہ نہ تھا،کوئی بھی بیوی کو طلاق دے کر عدت ختم ہونے سے قبل رجوع کرلیتا اور خاوند بیوی میں کوئی خانگی جھگڑا جیسا کہ عام طور پر ہوتا ہے ہوتا تو خاوند کہتا خداکی قسم میں تجھے نہ خاوند والی اور نہ غیرخاوند والی بنادوں گا،اس کےلئے وہ بیوی کو طلاق دے کر عدت ختم ہونے سے پہلے رجوع کرلیتا اور بار بار ایسے کرتا، اس پرﷲ تعالٰی نے یہ آیہ کریمہ نازل فرمائی

اَلطَّلٰقُ مَرَّتَانِ۪الآیۃ،جس میں تین طلاقیں مقررکردی گئی ہیں،جس میں سے ایك اور دو کے بعد رجوع کا حق دیا گیا ہے اور تیسری کے بعد رجوع نہیں ہوگا تا وقتیکہ بیوی کسی دوسرے شخص سے نکاح نہ کرلے۔

(السنن الکبرٰی للبیہقی باب ماجاء فی امضاء الطلاق ج7 ص333 دارصادر بیروت)

اعلیحضرت الشاہ امام احمد رضاخان علیہ الرحمۃ والرضوان “فتاوی رضویہ” میں اسی طرح کے ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے ارشاد فرماتے ہیں:

ﷲ تعالٰی نے فرمایادو طلاقیں ہوں تو پھر خوبصورتی سے رجوع کرکے روک لو یا نیکی کے طور پر آزاد کردو۔اور اس کے بعد ﷲ تعالٰی کے قول”فَاِنْ طَلَّقَهَا فَلَا تَحِلُّ لَهٗ مِنْۢ بَعْدُ حَتّٰى تَنْكِحَ زَوْجًا غَیْرَهٗؕ-(پس اگر تیسری طلاق دے دی ہو تو بیوی اس کے لئے حلال نہیں تاوقتیکہ بیوی کسی دوسرے شخص سے نکاح نہ کرلے”۔یعنی جس طلاق کے بعد رجوع ہوسکتا ہے وہ دوبار طلاق ہے کہ جس میں خاوند کو اختیار ہے کہ بیوی کو روک رکھے یا نیکی کے ساتھ آزاد کرتے ہوئے طلاق دے دے،اس کے بعد اگر طلاق دے گا تو بیوی اس کے لئے حلال نہ ہوگی تا وقتیکہ وہ بیوی کسی دوسرے شخص سے نکاح نہ کرلے۔

(فتاوی رضویہ ج13 ص ,186 185 مطبوعہ رضافاؤنڈیشن لاہور)

فتاویہ نوریہ میں اسی طرح کے جواب میں ارشاد فرمایا:بلا شک و شبہہ وریب صورت مذکورہ بالا میں طلاق مکمل واقع ہوچکی ہے اور طلاق بھی مغلظہ٬ کہ بدون تحلیل شرعی شوہر( یعنی بغیر حلالہ شرعی کے)طلاق دینے والے پر ہرگز ہرگز حلال نہیں ہوسکتی. قرآن کریم کا فتوی ہےفَاِنْ طَلَّقَهَا فَلَا تَحِلُّ لَهٗ مِنْۢ بَعْدُ حَتّٰى تَنْكِحَ زَوْجًا غَیْرَهٗؕ-یعنی اگر تیسری طلاق اسے دے تو اب وہ عورت اسے حلال نہ ہوگی جب تک دوسرے خاوند کے پاس نہ رہے.

مزید کچھ دلائل ذکر کرنے کے بعد فرماتے ہیں:

اس طرح کا فتوی فتوی نہیں بلکہ فتنہ ہے اور دل سے شرع مطہر پر افتراء و اجتراء ہے اگر سچا ہے تو جیسے ہم نے ثبوت دیا ویسے وہ بھی دے کہ کس آیت و کس حدیث اور کس کتاب فقہ میں یہ مذکور ہوا کہ یوں طلاق دینے والا ساٹھ روزے رکھے یا ساٹھ فقیروں کو چاول کھلائے.

(فتاوی نوریہ باب الحلالہ ج3 ص267٬ ٬268 269 مطبوعہ شعبہ تصنیف وتالیف دارالعلوم حنیفیہ فریدیہ بصیر پور ضلع اوکاڑہ )

واللہ اعلم ورسولہ اعلم عزوجل و صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ واصحابہ وسلم

مجیب:عبدہ المذنب ابو معاویہ زاہد بشیر مدنی

اپنا تبصرہ بھیجیں