طلاق کے مسائل میں درج ذیل الفاظ :صریح،رجعی ،کنایہ کی وضاحت

کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ طلاق کے مسائل میں درج ذیل الفاظ :صریح،رجعی ،کنایہ، پڑھنے میں آتے ہیں ان کی وضاحت فرمادیں؟

بسم اللہ الرحمن الرحیم

الجواب بعون الملک الوھاب اللھم ھدایۃ الحق وا لصواب

صریح الفاظ سے مراد وہ الفاظ جنھیں طلاق ہی کے لئے وضع کیا گیا ہے ان میں طلاق کے لئے نیت کی ضرورت نہیں ہوتی جیسے کوئی اپنی بیوی کو کہے تجھے طلاق۔ رجعی :تین سے کم طلاق دینے کی صورت میں شوہر کو یہ حق حاصل ہو کہ کسی قول یا فعل کے ذریعے عورت سے عدت کے اندرنکاح کو بحال کرلے۔کنایہ سے مراد وہ الفاظ جو طلاق اور اسکے غیر کا بھی احتمال رکھتے ہوں۔ کنایہ کے الفاظ سے نکاح ٹوٹ جاتا ہے اور دو سے کم طلاقوں کی صورت میں عدت کے اندر یا بعد دوبارہ نکاح کیا جا سکتا ہے۔

قران پاک میں ہے: اَلطَّلَاقُ مَرَّتٰنِ۪-فَاِمْسَاكٌۢ بِمَعْرُوْفٍ اَوْ تَسْرِیْحٌۢ بِاِحْسَانٍؕ۔۔۔ فَاِنْ طَلَّقَهَا فَلَا تَحِلُّ لَهٗ مِنْۢ بَعْدُ حَتّٰى تَنْكِحَ زَوْجًا غَیْرَهٗؕ ترجمہ:طلاق دو بار تک ہے پھر بھلائی کے ساتھ روک لینا ہے یااچھے طریقے سے چھوڑ دینا ہے۔۔۔ پھر اگر شوہر بیوی کو (تیسری) طلاق دیدے تو اب وہ عورت اس کیلئے حلال نہ ہوگی جب تک دوسرے خاوند سے نکاح نہ کرے۔ (القران،2/229)

قران پاک میں ہے: ٗؕ فأمسكوهن بمعروف ترجمہ:تم انکو روک لو۔ (القران،2/231)

در مختار میں ہے: وألفاظه: صريح، وملحق به وكناية “ ترجمہ:طلاق کے الفاظ 1)صریح ہوسکتے ہیں یا جو اسی سے لاحق ہوںاور2)کنایہ ہوسکتے ہوں۔

(الدر المختار وردالمحتار،کتا ب الطلاق،3/230،دارالفکر بیروت)

بحر الرائق میں ہے:( الصريح كأنت طالق ومطلقة وطلقتك) بتشديد اللام من مطلقة ۔۔۔ وإنما كانت هذه الثلاثة صرائح لأنها استعملت فيه دون غيره فإن الصريح في أصول الفقه ما غلب استعماله في معنى بحيث يتبادر حقيقة أو مجازا فإن لم يستعمل في غيره فأولى بالصراحة ۔۔۔ وفي الفقه هنا ما استعمل في الطلاق دون غيره كما في الوقاية. “ترجمہ:صریح جیسےتجھے طلاق،تو طلاق والی،میں نے تجھے طلاق دی۔یہ تینوں جملے صریح ہیں کہ طلاق کے لئے ہی استعمال ہوتے ہیں۔صریح اصول فقہ میں وہ ہے کہ جس کا استعمال کسی حقیقی یا مجازی معنی میں ایسے غلبہ پاجائے کہ ذہن اسی کی طرف منتقل ہو۔ (بحر الرائق،کتاب الطلاق،3/270،دارالکتاب الاسلامی)

شامی میں ہے: (قوله صريح) هو ما لا يستعمل إلا في حل عقدة النكاح سواء كان الواقع به رجعيا أو بائنا۔۔۔(قوله وملحق به) أي من حيث عدم احتياجه إلى النية كلفظ التحريم أو من حيث وقوع الرجعي به وإن احتاج إلى نية: كاعتدي واستبرئي رحمك وأنت واحدة۔ ترجمہ:صریح :وہ الفاظ جو نکاح کی گرہ کو کھولنے کے لئے ہی استعمال ہوتے ہوں چاہے ان سے طلاق ِ رجعی واقع ہو یا بائنہ۔صریح سے ملحق بہ:یعنی وہ الفاظ جو نیت کے محتاج نہیں ہوتے جیسے حرام کرنا یا اس طور پر کہ ان سے طلاق ِ رجعی ہی واقع ہو اگرچہ نیت کی ضرورت ہو:جیسے عدت گزار،اپنا رحم صاف کر،تواکیلی ہے۔ (الدر المختار وردالمحتار،کتا ب الطلاق،3/230،دارالفکر بیروت)

ھدایہ میں ہے: (وإذا طلق الرجل امرأته تطليقة رجعية أو تطليقتين فله أن يراجعها في عدتها رضيت بذلك أو لم ترض) لقوله تعالى {فأمسكوهن بمعروف} [البقرة: 231] من غير فصل “ترجمہ:اگر کسی شخص نے اپنی بیوی کو ایک یا دو طلاق رجعی دیں تو اس کے لئے عدت کے اندر اس سے رجوع کرنے کاحق ہے چاہے عورت راضی نہ ہو کہ اللہ تعالی نے بغیرتفصیل کے فرمایا تم انکو روک لو ۔ (فتح شرح ھدایہ،کتاب الطلاق،4/158،دارالفکر بیروت)

فتح میں ہے: ألفاظ الرجعة صريح وكناية، فالصريح راجعتك في حال خطابها وراجعت امرأتي في حال غيبتها وحضورها أيضا۔۔۔والكنايات أنت عندي كما كنت وأنت امرأتي فلا يصير مراجعا إلا بالنية “ترجمہ:رجعت صریح الفاظ سے بھی ہوسکتی ہے اور کنایہ سے بھی صریح جیسے عورت سے کہے میں تجھ سے رجوع کیا یا عورت کے سامنے یا عدم موجودگی میں کہے اپنی بیوی سے رجوع کیا۔اور کنایہ جیسے تو پہلے کی طرح میرے پاس ہی ہے،تو میری بیوی ہے تو اس میں نیت ضروری ہے۔ (فتح شرح ھدایہ،کتاب الطلاق،4/159،دارالفکر بیروت)

بحر الرائق میں ہے: (قوله وتصح في العدة إن لم يطلق ثلاثا، ولو لم ترض۔۔۔ وبما يوجب حرمة المصاهرة)ترجمہ:اگر تین سے کم طلاقیں دیں ہوں تو رجعت عورت کی رضا کے بغیر بھی اس فعل سے بھی درست ہے جو حرمتِ مصاہر ت کو واجب کرے ۔

(بحر الرائق،کتاب الطلاق،4/55،دارالکتاب الاسلامی)

در مع تنویر میں ہے: (كنايته) عند الفقهاء (ما لم يوضع له) أي الطلاق (واحتمله) وغيره (ف) الكنايات (لا تطلق بها) قضاء (إلا بنية أو دلالة الحال) وهي حالة مذاكرة الطلاق أو الغضب فالحالات ثلاث: رضا وغضب ومذاكرة والكنايات ثلاث ما يحتمل الرد أو ما يصلح للسب، أو لا ولا (فنحو اخرجي ۔۔۔) ۔۔۔ (يحتمل ردا، ونحو ۔۔۔حرام بائن)۔۔۔ (يصلح سبا، ونحو اعتدي ۔۔۔لا يحتمل السب والرد، ففي حالة الرضا) أي غير الغضب والمذاكرة (تتوقف الأقسام) الثلاثة تأثيرا (على نية) للاحتمال والقول له بيمينه في عدم النية ويكفي تحليفها له في منزله، فإن أبى رفعته للحاكم فإن نكل فرق بينهما مجتبى. (وفي الغضب) توقف (الأولان) إن نوى وقع وإلا لا (وفي مذاكرة الطلاق) يتوقف (الأول فقط) ويقع بالأخيرين وإن لم ينو ترجمہ: کنایہ فقھائے عظام کے نزدیک جسے طلاق کے لئے وضع نہ کیا گیا ہو غیر کا بھی احتمال رکھتا ہو۔تو احکام دنیا میں اسے سے طلاق نیت یا حال کی دلالت سے پڑے گی۔حال سے مراد:طلاق کا ماحول یا غصہ۔حالات تین طرح کے ہوتے ہیں۔رضا،غصہ،طلاق کی بات چیت۔کنایات بھی تین ہیں:جو رد کے محتمل ہوں،گالی کی صلاحیت رکھیں،نہ یہ نہ وہ۔تو کوئی کہے تو نکل یہ رد کا احتمال رکھتا ہے۔تو حرام ہے جدا ہے یہ گالی کا احتما ل رکھتا ہے،تو عدت گزار یہ یہ دونوں کا احتمال رکھتا ہے،تو رضا کی حالت میں تینوں صورتوں میں نیت درکار ہے۔اور نیت نہ ہونے میں اسکی قسم کافی ہے چاہے گھر میں۔نہ اٹھائے تو حاکم کے پاس لے جائیں ،انکار کرے تو وہ تفریق کردے۔حالت غضب میں پہلی دو صورتوں (رد،گالی)میں نیت کی صورت میں پڑے گی،اور مذاکرہ طلاق میں صرف رد والی میں نیت کی ضرورت ہو گی باقیوں میں بغیر نیت پڑجائے گی (الدر المختار وردالمحتار،کتا ب الطلاق، 3/302،بیروت)

فتاوی رضویہ میں ہے:یہ لفظ بھی کنایاتِ طلاق سے ہےکہ بشرطِ نیت اس سے طلاق بائن ہوتی ہے۔۔۔پس اگرجملہ یا بعض الفاظِ مذکورہ بہ نیت طلاق کے کہے طلاق بائن واقع ہوئی،بے تجدید نکاح کے مباشرت عورت سے حرام ہے۔ (فتاوی رضویہ ،12/597،رضا فاؤنڈیشن لاہور)

بہار شریعت میں ہے:جس عورت کو تین سے کم طلاق بائن دی ہے اُس سے عدت میں بھی نکاح کر سکتاہے اور بعد عدت بھی۔ (بہار شریعت ، 2/179, مکتبہ المدینہ کراچی)

تیمور احمد صدیقی

10.11.22

اپنا تبصرہ بھیجیں