اپنی بیوی کو جھگڑے کے دوران کہا تو مجھ پر حرام ہے،تو مجھ پر حرام ہے،تو مجھ پر حرام ہے

سوال: کیا فرماتے ہیں علماء دین و مفتیان شرع متین اس بارے میں کہ ایک شخص نے اپنی بیوی کو جھگڑے کے دوران کہا تو مجھ پر حرام ہے،تو مجھ پر حرام ہے،تو مجھ پر حرام ہے۔ قرآن وحدیث کی روشنی میں ارشاد فرمائیں اس طرح کہنے سے ایک طلاق ہوئی یا تینوں ہوگئیں؟

جواب: بسم اللہ الرحمٰن الرحیم

الجواب بعون الملک الوھاب اللھم ھدایۃ الحق والصواب

جب کسی نے اپنی بیوی کو پہلی بار یہ کہا کہ تو مجھ پر حرام ہے تو اسکی دو صورتیں ہیں؛

1) اگر تو یہ مذاکرہ طلاق تھا تو تمام فقھا کے نزدیک بغیر نیت ہی طلاق بائنہ ہو جائے گی کہ یہ لفظ اپنی اصل کے اعتبار سے کنایات میں سے ہے اور ڈانٹ کا احتمال رکھتاہے لہذا مذاکرہ طلاق میں بغیر نیت طلاق ہوجاتی ہے۔

2) اگر مذاکرہ طلاق نہ تھا تو اصح قول کے مطابق عرف میں اسکے طلاق کے لئے صریح ہونے کیوجہ سے بغیر نیت ہی طلاق واقع ہو گی۔

پہلے جملے سے ایک طلاق کی نیت کی تھی تو ایک ،تین طلاقوں کی نیت کی تھی تو تین طلاقیں واقع ہوگئیں اور وہ عورت اس کے نکاح سے نکل گئی ۔ اس کے بعد دودفعہ مزید کہنا شمار نہ ہوگاکہ بائن کے بعد بائن نہیں ہوتی۔اب اگرپہلی بار کہنے سے تین طلاقوں کی نیت نہ تھی اور پہلے کبھی دوطلاقیں نہ دے چکا ہو تو عدت کے اندر اور بعد عورت کی مرضی سے اس سے نیا نکاح کرسکتا ہے لیکن پھر بقیہ طلاقوں کا اختیار ہو گا۔اور اگر پہلی بار میں ہی تین کی نیت کی تھی تو گناہگار بھی ہوا اور تینوں ہوں گئیں،یا پہلے کبھی دو دے چکا تھا اور اب ایک دی تو اسے تین طلاقیں پڑگئی بغیر حلالے کے یہ عورت اس کے لئے حلال نہیں۔

جوھرہ نیرہ میں ہے: أما إذا كانا في مذاكرة الطلاق فإنه يقع بكل لفظة تدل على الفرقة كقوله أنت حرام ۔۔۔ لأن هذه الألفاظ لما خرجت جوابا لسؤالها الطلاق كان ذلك طلاقا في الظاهرترجمہ:اگر یہ لوگ طلاق کی بات چیت کررہے تھے تو ہر ا س لفظ سے طلاق پڑجائے گی جو فرقت پر دلالت کرے جیسے وہ تومجھ پر حرام ہے۔وجہ یہ ہے کہ جب یہ اس کے سوال کا جواب ہے توطلاق کے لئے ہی ظاہر ہیں۔ (جوھرہ،کتاب الطلاق،الطلاق علی ضربین،2/35،مکتبہ خیریہ)

ھدایہ میں ہے: (وبقية الكنايات إذا نوى بها الطلاق كانت واحدة بائنة، وإن نوى ثلاثا كانت ثلاثا، وإن نوى ثنتين كانت واحدة وهذا مثل قوله: أنت ۔۔۔حرام ۔۔۔) لأنها تحتمل الطلاق وغيره فلا بد من النية. قال (إلا أن يكون في حال مذاكرة الطلاق) فيقع بها الطلاق في القضاءترجمہ:باقی کنایا ت میں اگر ایک یا دو کی نیت کی تو ایک ،تین کی کی تو تین طلاقیں واقع ہوں گی اور مذاکرہ طلاق کے علاؤہ نیت درکار ہو گی۔ (فتح،کتاب الطلاق، ،4/64،دارالفکر)

درمختار مع تنویر الابصار میں ہے: (ونحو ۔۔۔ حرام۔۔۔ يصلح سبا)۔۔۔ (وفي مذاكرة الطلاق) يتوقف (الأول فقط) ويقع بالأخيرين وإن لم ينو لأن مع الدلالة لا يصدق قضاء في نفي النية ۔

ترجمہ:(توحرام ہے )یہ ڈانٹ کا احتمال رکھتا ہے اورمذاکراہ طلاق میں صرف رد والی صورت میں نیت کی ضرورت ہوگی،ڈانٹ اور جو ڈانٹ و رد کا احتمال نہ رکھتا ہو ان میں نیت بے شک نہ ہو طلاق پڑ جائے گی کہ نیت کے انکار میں اس کی تصدیق نہیں کی جائے گی جب مذاکرہ طلاق کی دلیل موجودہے۔

(فتاوی شامی،کتاب الطلاق،باب الکنایات،3/302،دارالفکر بیروت)

اسکے تحت شامی میں ہے: لأن حالة المذاكرة تصلح للرد والتبعيد كما تصلح للطلاق دون الشتم وألفاظ الأول كذلك، فإذا نوى بها الرد لا الطلاق فقد نوى محتمل كلامه بلا مخالفة للظاهر فتوقف الوقوع على النية، بخلاف ألفاظ الأخيرين فإنها وإن احتملت الطلاق لكنها لا تحتمل ما تحتمله المذاكرة من الرد والتبعيد، فترجح جانب الطلاق ظاهرا فلا يصدق في الصرف عنه فلذا وقع بها قضاء بلا نية.

ترجمہ:مذاکرہ طلاق ر د اور دور کرنے کا احتمال رکھتاہے جیسے طلاق کا بھی،ہاں ڈانٹ کا احتمال نہیں رکھتا۔تو جو الفاظ ردکا احتمال رکھتے ہوں ان میں طلاق کے لئے نیت کی ضرورت ہے جبکہ جو الفاظ ڈانٹ کا احتمال رکھیں یا ڈانٹ اور رد کسی کا احتمال نہ رکھیں تو ان میں اگرچہ طلاق کا احتمال تھا لیکن جب مذاکرہ کی وجہ سے رد اور دور کرنے کا احتمال ہی نہیں تھا تو جانبِ طلاق کی ترجیح ہی ظاہر ہے،توبغیر نیت ہی طلاق پڑ جائے گی اورانکار میں اسکی تصدیق نہیں ہوگی۔

(فتاوی شامی،کتاب الطلاق،باب الکنایات،3/301،دارالفکر بیروت)

بحر الرائق میں ہے: (قوله: حرام)۔۔۔ وسيأتي في آخر باب الإيلاء عن الفتاوى أنه لو قال لها أنت علي حرام، والحرام عنده طلاق وقع، وإن لم ينو، وذكر الإمام ظهير الدين لا نقول لا تشترط النية ولكن نجعله ناويا عرفا۔۔۔ فإن قلت إذا وقع الطلاق بلا نية ينبغي أن يكون كالصريح فيكون الواقع رجعيا قلت المتعارف به إيقاع البائن لا الرجعي، وإن قال لم أنو لم يصدق في موضع صار متعارفا كذا في البزازية ۔ترجمہ:لفظِ حرام کے بارے میں کتاب الایلا میں ہے کہ اگر کسی نے اپنی بیوی کو کہا کہ تو مجھ پر حرام ہے اور یہ اس کے عرف میں طلاق کے لئے ہو تو بغیر نیت ہی طلاق ہوجائےگی۔ امام ظہیر الدین نے فرمایا ہم نہیں کہتے کہ نیت شرط نہیں بلکہ عرفی طور پر نیت موجود ہوتی ہے۔تو اگر کوئی کہے کہ بغیر نیت کے طلاق ہوتی ہے تو پھر یہ صریح طلاق ہو گی تو رجعی ہو تو میں کہوں گا کہ اس سے بائنہ ہی ہو گی رجعی نہیں ہوگی۔اور اگر کہے میں نے تو نیت ہی نہیں کی تھی پھر بھی طلا ق ہونا ہی متعارف ہے جیسا کہ بزاریہ میں ہے۔ (بحر،کتاب الطلاق،3/324،دارالکتاب الاسلامی)

درمختار مع تنویر الابصار میں ہے: ومن الألفاظ المستعملة:۔۔۔ علي الحرام فيقع بلا نية للعرف۔

ترجمہ:وہ الفاظ جو طلاق کے لئے مستعمل ہیں ان میں یہ بھی ہے کہ تو مجھ پر حرام ہےتو بغیر نیت ہی عرف کی وجہ سے طلاق ہوجائے گی۔

(فتاوی شامی،کتاب الطلاق،3/252،دارالفکر بیروت)

اسکے تحت شامی میں ہے: فيكون صريحا لا كناية، بدليل عدم اشتراط النية وإن كان الواقع في لفظ الحرام البائن.۔۔ وإنما كان ما ذكره صريحا لأنه صار فاشيا في العرف في استعماله في الطلاق

ترجمہ:تو یہ لفظ طلاق میں صریح ہے کنایہ نہیں ہے کیونکہ بغیر نیت طلاق ہی ہوجائے گی یہ الگ بات ہے کہ پڑے گی اس سے طلاق بائنہ۔اور اس کو صریح میں اس لئے کہا کہ یہ عرف میں طلا ق کے لئے ہی مستعمل ہے۔ (فتاوی شامی،کتاب الطلاق،3/252،دارالفکر بیروت)

ایک اور مقام پر ہے: فحيث كان الوقوع بهذين اللفظين للعرف ينبغي أن يقع بهما المتعارف بلا فرق بينهما، وإن كان الحرام في الأصل كناية يقع بها البائن لأنه لما غلب استعماله في الطلاق لم يبق كناية، ولذا لم يتوقف على النية أو دلالة الحال، ولا شيء من الكناية يقع به الطلاق بلا نية أو دلالة الحال كما صرح به في البدائع، ويدل على ذلك ما ذكره البزازي عقب قوله في الجواب المار إن المتعارف به إيقاع البائن لا الرجعي

ترجمہ:تو مجھ پر حرام یا مجھ پر طلاق جیسے الفاظ سے عرف کیوجہ سے بغیر کسی فرق کے طلاق پڑ جائےگی اگرچہ لفظ حرام اصل میں کنایہ ہے اس سے بائن ہونی چاہئے لیکن جب اس کا استعمال غالب طور پر طلاق میں ہے تو کنایہ نہ رہا۔یہی وجہ ہے کہ نیت اور دلالت حال کی ضرورت بھی نہ رہی۔اورکنایہ کے ایسے الفاظ کوئی بھی نہیں جن سے بغیر نیت اور دلالت حال کے طلاق ہو جیسے بدائع میں ہے۔اور اس پر امام بزاری کا قول بھی دلالت کرتا ہے کہ اس سے طلاق بائنہ پڑے گی رجعی نہیں۔

(فتاوی شامی،کتاب الطلاق،کنایات،3/299،دارالفکر بیروت)

اعلیحضرت علیہ الرحمہ فرماتے ہیں: بخلاف حرام فکان صریحا مفیدا مجرد الطلاق فاعقب الرجعۃ.

ترجمہ:لفظِ حرام تو صریح ہے صرف طلاق ہی کا افادہ کرتا ہے تو اسکے بعد طلاق رجعی ممکن ہے۔ (جد الممتار،کتاب الطلاق،باب الکنایات،5/82،مکتبۃ المدینہ)

فتاوی امجدیہ میں ہے:الفاظ ِ کنایہ ۔۔۔چونکہ بائن کے بعد ہے لہذا اس سے جدید طلاق واقع نہ ہو گی۔ (فتاوی امجدیہ،طلاق کنایہ کابیان،2/234،کراچی)

فتاوی رضویہ میں ہے: عورت پر ایک طلاق ِبائن واقع ہوئی یعنی عورت نکاح سے نکل گئی۔۔۔حلالے کی اصلا حاجت نہیں جب کہ اس بار سے پہلے کبھی دو طلاقیں نہ دے چکا ہو،زن ومرد اگر راضی ہوں تو شوہر عدت میں اور بعد عدت اس سے نکاح جدید کرسکتا ہے۔ (فتاوی رضویہ،طلاق کنایہ کابیان،12/587،رضا فاونڈیشن لاہور)

قدوری میں ہے: (وطلاق البدعة أن يطلقها ثلاثا بكلمة واحدة أو ثلاثا في طهر واحد فإذا فعل ذلك وقع الطلاق وبانت منه وكان عاصيا)۔

ترجمہ:طلاق بدعت یہ ہے کہ ایک طہر میں ایک کلمے سے یاتین کلموں سے تین طلاقیں دے دینا،اگر وہ ایسا کردے توعورت نکاح سے نکل گئی اور یہ گناہگار ہوا۔

(جوہرہ،کتاب الطلاق،2/31،مکتبہ خیریہ)

قران پاک میں ہے: فَاِنْ طَلَّقَهَا فَلَا تَحِلُّ لَهٗ مِنْۢ بَعْدُ حَتّٰى تَنْكِحَ زَوْجًا غَیْرَهٗؕ

ترجمہ:جب مرد تیسری طلاق دے دے تو عورت بغیر حلالہ شرعیہ پہلے شوہر کے لئے حلال نہیں۔ (القران،2/230)

روح البیان میں ہے: لكنها مقيدة بالسنة فالاجماع على اشتراط الاصابة لما روى ان امرأة رفاعة جاءت النبي عليه الصلاة والسلام فقالت ان رفاعة طلقنى فبت طلاقى اى قطعه حيث طلقنى ثلاثا وان عبد الرحمن بن الزبير تزوجنى وان ما معه اى ذكره ليس باغنى عنى من هذه اى الهدبة وأخذت من جلبابها فتبسم رسول الله صلى الله تعالى عليه وسلم وقال (أتريدين ان ترجعى الى رفاعة) قالت نعم فقال (لا حتى تذوقى عسيلته ويذوق عسيلتك) والمراد بالعسيلة الجماع شبه لذة الجماع بالعسل ۔۔۔ثم ان الحكمة في اشتراط إصابة الزوج الثاني في التحليل وعدم كفاية مجرد العقد فيه الردع عن المسارعة الى الطلاق فان الغالب ان يستنكر الزوج ان يستفرش زوجته رجل آخر وهذا الردع انما يحصل بتوقف الحل على الدخول واما مجرد العقد فليس منه زيادة نفرة وتهييج غيرة فلا يصلح توقف الحل عليه رادعا وزاجرا عن التسرع الى الطلاق۔

ترجمہ:تین طلاقوں کے بعد دوسرے شوہردے نکاح کے بعد دخول کا ضروری ہونابھی سنت سے ثابت ہے اور اس پر اجماع ہے،وہ یہ کہ ایک عورت حضور ﷺ کے پاس حاضر ہوئیں ،عرض کی:رفاعہ نے مجھے تین طلاقیں دے دیں، عبد الرحمن بن زبیر نے مجھ سے شادی کی لیکن حقوق زوجیت ادا نہیں کئے تو رسول اللہﷺ مسکرائے اور استفسار فرمایا:تم رفاعہ کے پاس واپس جانا چاہتی ہو؟عرض کی :جی،تو فرمایا:(جب تک عبد الرحمن حق زوجیت ادا نہ کرلیں ممکن نہیں) یعنی جب تک دخول نہ ہوجائے۔۔۔اور حلالے میں شوہر ثانی کےدخول کرنےکی شرط میں اور صرف نکاح کے کافی نہ ہونے میں حکمت یہ ہے کہ بندہ طلاق میں جلدی نہ کرے کہ عموما بندہ اس چیز کو ناپسند کرتا ہے کہ کوئی اور اس کی بیوی سے ازدواجی تعلقات کرے۔اور یہ روک جبھی ہو سکے گی جب دخول ضروری ہو،صرف نکاح زیادتی نفرت اور غیرت کو برانگیختہ کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتا۔لہذا شوہر کو طلاق میں جلدی کرنے سے روکنے اور سزادینے کے لئے صرف عقد نکاح کافی نہیں۔ (روح البیان،سورہ بقرہ،اٰیت230،1/359،دارالفکر بیروت)

واللہ اعلم بالصواب کتبہ تیمور احمد صدیقی عطاری

18.11.22

22ربیع الثانی1444

اپنا تبصرہ بھیجیں