کیا بغیر زبان سے بولے فقط لکھ کر طلاق دینے سے طلاق ہوجاتی ہے؟

کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام اس مسئلے کے بارے میں کہ بغیر زبان سے بولے فقط لکھ کر طلاق دینے سے طلاق ہوجاتی ہے جیسے زید یوں کہے کہ میں زید بن بکر اپنی زوجہ ہندہ کو طلاق دیتا ہوں؟

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

طلاق جس طرح سے زبانی و کلامی  واقع ہوتی ہے اسی طرح تحریری طور پر بھی واقع ہو جاتی ہے، تحریری طور پر طلاق کا واقعہ ہونا حدیث و کتب فقہ دونوں سے ثابت ہے، تحریری طلاق بھیجی تو جتنی اس میں لکھی ہیں اتنی طلاقیں واقع ہوجائیں گی،اگر طلاق کو تحریر ملنے پر معلق نہیں کیا تھا تو وقت تحریر سے عدت شروع ہوجائے، اور اگر تحریر ملنے پر طلاق کو معلق کیا تھا تو، ملتے وقت سے عدت شمار ہوگی۔ تحریر سے طلاق اسی صورت میں ہوگی جبکہ بلا جبر و اکراہ ہو اور زبان سے طلاق کا تلفظ بھی نہ کیا گیا ہو،

تحریر سے طلاق کا ثبوت دو باتوں پر موقوف ہے، یا تو شوہر اقرار کرے کہ واقعی میں نے یہ تحریر لکھی ہے یا دو مرد یا پھر ایک مرد اور دو عورتیں گواہی دیں کہ شوہر نے ہمارے سامنے طلاق کی یہ تحریر لکھی ہے۔

چنانچہ بخاری شریف میں ہے:

  عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: «إِنَّ اللَّهَ تَجَاوَزَ عَنْ أُمَّتِي مَا حَدَّثَتْ بِهِ أَنْفُسَهَا، مَا لَمْ تَعْمَلْ أَوْ تَتَكَلَّمْ .

(صحیح البخاری باب الطلاق فی الاغلاق والکرہ الخ ج2 ص 793،794)

’’ترجمہ: حضرت ابو ہریرہ  بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ نے میری امت کے دلوں کےخیالات سے درگزر فر مارکھا ہےجب تک وہ اپنے خیالات کو عملی جامہ پہنائے یا زبان سےبول کر بیان نہ کرے ۔،،

شیخ الاسلام حافظ ابن حجر اس حدیث کی شرح میں ارقام فرماتے ہیں :واستدل به علی  أن من کتب الطلاق طلقت إمراته لأنه عزم بقلبه وعمل بکتابته وھو قول الجمہور وشرط مالک فیه الأشهاد علی ذٰلک۔

اس حدیث کے جملہ (مالم تعمل ) سے استدالال کیا گیا ہے کہ جو شخص اپنی بیوی کو تحریری طلاق دے ڈالے تو اس کی بیوی پر طلاق پڑ جائے گی ،کیونکہ اس نے دل سے طلاق دینے کا رادہ کیااور اس کے ایقاع کے لئے لکھنے کاعمل کیا ۔ جمہور علمائے امت کا یہی قول ہے کہ تحریری طلاق واقع ہو جاتی ہے ۔

(فتح الباری شرح صحیح البخاری ج 9 ص 345)

بدائع الصنائع میں ہے:

ما ذکرنا أن کتابۃ قولہ : ’’ أنت طالق ‘‘ علیٰ طریق المخاطبۃ بمنزلۃ التلفظ بہا ۔ 

ترجمہ: تحریر میں بیوی کو مخاطب کرتے ہوۓ  یہ لکھنا کہ”تجھے طلاق” تو یہ تلفظ یعنی زبان سے بولنے کے قائم مقام ہے۔

( بدائع الصنائع ۴ ؍ ۲۴۰ )

ردالمحتار میں ہے:ولو قال للکاتب أکتب طلاق امرأتي کان إقرارًا بالطلاق وإن لم یکتب ۔

 ( شامي ۴ ؍ ۴۵۶ زکریا ، ۳ ؍ ۲۳۶)

ترجمہ: اگر کاتب سے کہا کہ میری بیوی کے نام طلاق نامہ لکھ دے تو اس کی طرف سے طلاق کا اقرار ہوگا اگرچہ کاتب نہ لکھے۔

فتاویٰ رضویہ شریف میں ہے:

واقع میں اگر یہ تحریر شوہر بندہ نے برضائے خود لکھی دیانۃً ضرور طلاق واقع ہوگئی الخ۔

(فتاوٰی رضویہ،ج12،ص443۔446ملتقطا)

فتاوٰی  قاضی خاں وعالمگیری میں ہے :

ان ارسل الطلاق فکما کتب یقع وتلزمھا العدۃ من وقت الکتابۃ وان علق بمجیئ الکتاب فمالم یجیئ الیھا لا

ترجمہ: اگر تحریری طلاق بھیجی ہوتو جو کچھ اس میں لکھا ہے اتنی طلاقیں واقع ہوجائیں گی، اور تحریر کے وقت سے عدّت شمار ہوجائے گی اور اگر طلاق کو خط ملنے پر معلّق کیا ہوتو آنے سے پہلے طلاق نہ ہوگی اھ ملخصاً۔(ت)

 (۲؎ فتاوٰی ہندیہ     الفصل السادس فی الطلاق بالکتابۃ     نورانی کتب خانہ پشاور         ۱ /۳۷۸)

(فتاوٰی  قاضی خاں  فصل فی الطلاق بالکتابۃ   نولکشور لکھنؤ، ۲ /۲۱۸)

درمختار مع ردالمحتار میں ہے :ویقع طلاق کل زوج بالغ عاقل ولومکرھا اومخطئا،

وفی ردالمحتار: عن البحران المراد الاکراہ علی تلفظ بالطلاق فلواکرہ علی ان کتب طلاق امرأتہ فتکتب لاتطلق لان الکتابہ اقیمت مقام العبارۃ باعتبارالحاجۃ ولاحاجۃھنا۔

ترجمہ: ہر عاقل بالغ خاوند کی طلاق نافذ ہوجائیگی اگر چہ مجبور کیا گیا یا خطاء سے طلاق کا کہہ دیا ہو، اور ردالمحتار میں بحر سے منقول ہے کہ جبر سے مراد لفظ طلاق کہنے پر جبر کیا گیا ہو، اور اگر اس کو اپنی بیوی کو طلاق لکھنے پر مجبور کیا گیا تو اس نے مجبور ہوکر لکھ دی تو طلاق نہ ہوگی، کیونکہ کتابت کو تلفّظ کے قائم مقام محض حاجت کی بناء پر کیا گیا ہے اور یہاں خاوند کو حاجت نہیں ہے۔(ت)

(در مختار مع ردالمحتار   کتاب الطلاق     داراحیاء التراث العربی بیروت،۲ /۴۲۱)

فتاویٰ رضویہ شریف میں ہے:طلاق بخوشی دی  جائے خواہ بجبر  واقع ہوجائے گی۔۔۔۔۔۔ مگر یہ زبان سے الفاظِ طلاق کہنے میں ہے،اگر کسی کے جبر واکراہ سے عورت کو خطرہ میں طلاق لکھی یا طلاق نامہ لکھ دیا اور زبان سے الفاظِ طلاق نہ کہے تو طلاق نہ پڑے گی۔

مگر یہ سب اس صورت میں جبکہ اکراہ شرعی ہوکہ اُس سے ضرر رسانی کااندیشہ ہوا اور وُہ ایذاء پر قادر ہو صرف اس قدر کہ اُس نے اپنے سخت اصرارسے مجبور کردیا اور اس کے لحاظ پاس سے اسے لکھتے بنی، اکراہ کے لئے کافی نہیں یُوں لکھے گا تو طلاق ہوجائے گی کمالایخفی(جیساکہ پوشیدہ نہیں۔ت) واﷲتعالٰی اعلم۔

(فتاوی رضویہ،ج12،ص385۔390۔ملتقطا)

ردالمحتار میں ہے :ان کتب علی وجہ الرسالۃ مصدرا معنوناوثبت ذٰلک باقرارہ او بالبینۃ فکالخطاب۔

ترجمہ: اگر طلاق نامہ تحریر کیا ہوتو باقاعدہ سرنامہ کے ساتھ بھیجنے کے انداز میں لکھا گیا ہواور لکھنے والے کے اقرار سے یا گواہوں سے اس کا ثبوت ہوتو وُہ زبانی طلاق کی طرح نافذ العمل ہوگا۔(ت)

 ( ردالمحتار، باب کتاب القاضی الی القاضی، داراحیاء التراث العر بی بیروت     ۴ /۳۵۳)

فتاوی رضویہ شریف میں ہے:خطوط سے ثبوت طلاق دوامر پر موقوف یا تو شوہر اقرار کرے واقعی میں نے یہ خط لکھا تھا یا دو۲ مرد خواہ ایک مرد دو۲ثقہ شرعیہ دیں کہ ہمارے سامنے شوہر نے خط مذکور لکھا۔

(فتاوی رضویہ،ج12،ص423۔427ملتقطا)

والله تعالی اعلم بالصواب

کتبه: ندیم عطاری مدنی حنفی

نظر ثانی: ابو احمد مفتی انس رضا قادری۔

مورخہ 29 ذوالقعدۃ الحرام 1442ھ بمطابق 09 اگست 2021ء بروز پیر

اپنا تبصرہ بھیجیں