کیا شوہر کے علاوہ کوئی جج یا بڑے عہدے والا شخص کسی عورت کو طلاق دے سکتا ہے

کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام اس مسئلہ میں کہ کیا شوہر کے علاوہ کوئی جج یا بڑے عہدے والا شخص کسی عورت کو طلاق دے سکتا ہے؟ شریعت اس بارے میں کیا کہتی ہے؟ 

الجواب بعون الملک الوہاب

شریعت میں صرف شوہر ہی اپنی عورت کو طلاق دے سکتا ہے کسی اور کو یہ حق حاصل نہیں کہ وہ کسی عورت کو طلاق دے  اور  قرآن و حدیث میں واضح طور پر بیان ہوا ہے کہ طلاق کا حق صرف شوہر کو ہے۔

اللہ تعالیٰ قرآن پاک میں ارشاد فرماتا ہے”بیدہ عقدۃ النکاح“ ترجمہ:یعنی نکاح کی گرہ صرف خاوند کے ہاتھ میں ہے ۔

                     (پارہ 2،سورۃ البقرۃ ،آیت 237)

اور حدیث پاک میں ہے کہ     حضرت سیدنا عبداﷲ بن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما سے مروی ہے کہ ایک غلام نبی کریم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ میں حاضر ہوکر عرض گزار ہوا” سیدی زوجنی أمتہ وھو یرید أن یفرق بینی وبینھا قال فصعد رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم المنبر فقال یأ یھا الناس ما بال أحدکم یزوج عبدہ أمتہ ثم یرید أن یفرق بینھما إنما الطلاق لمن أخذ بالساق“ترجمہ: میرے آقا نے میرا نکاح اپنی کنیز کے ساتھ کر دیا ہے اور اب وہ چاہتا ہے کہ ہم دونوں میں جدائی ڈال دے۔ ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں: نبی کریم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم منبر پر تشریف فرما ہوئے اور ارشاد فرمایا اے لوگو! تم میں سے اس کو کیا ہو گیا ہے جو پہلے اپنے غلام کا نکاح اپنی کنیز سے کر دیتا ہے پھر جدائی ڈالنا چاہتا ہے حالانکہ طلاق تو وہی دے سکتا ہے جس نے جماع کیا (یعنی جو صحبت اور ہمبستری کا حقدار ہے وہی طلاق کا حق رکھتا ہے)۔

        (سنن ابن ماجہ،کتاب الطلاق ،باب طلاق العبد،جلد1، صفحہ672،دار إحیاء الکتب العربیۃ،الحلبی)

  امام اہلسنت امام احمد رضاخان علیہ الرحمۃ فرماتے ہیں:”لا الہ الا اللہ بے شوہر کے طلاق دئے طلاق تحصیلدار کے دئے نہیں ہو سکتی قال اﷲتعالٰی بیدہ عقدۃ النکاح(ترجمہ:اﷲتعا لیٰ نے فرمایا:نکاح کی گرہ صرف خاوند کے ہاتھ میں ہے۔)دوسری جگہ نکاح کرے گی تو حرام قطعی وزنا ہوگاقال اﷲتعالٰی والمحصنٰت من النساء(ترجمہ:اﷲتعالی فرماتا ہے :اور حرام ہیں شوہر دار عورتیں ۔) ہاں شوہر پر فرض ہے کہ اسے اچھی طرح رکھے اس کے حقوق اداکرے، اگر وُہ اس پر قادر نہیں تو اُس پر فرض ہے کہ اسے طلاق دے دے۔“

              (فتاوی رضویہ، جلد12،صفحہ476،رضا فاؤنڈیشن،لاہور)

کتبہ :محمد لقمان مدنی

نظر ثانی :ابو احمد مفتی محمد انس رضا عطاری قادری عفی عنہ

اپنا تبصرہ بھیجیں